تو اور راستہ کیا ہے
مفاہمت کا راستہ اختیار کرکے اپوزیشن کو روکا جا سکتا ہے اور چور ڈاکو ہونے نہ ہونے کا معاملہ عدالتوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔
وفاقی وزیر داخلہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر اعجاز احمد شاہ نے توقع ظاہر کی ہے کہ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کا دھرنا نہیں ہوگا اور اگر مولانا نے گرفتاری والا کام کیا تو انھیں گرفتارکرلیا جائے گا۔ اس سے قبل اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وہ ایسے اقدامات نہ کرے جس سے دھرنے کی نوبت آئے۔
وزیر اعظم نے امریکا جانے سے قبل جو پریس کانفرنس کی اس میں اپنی سیکڑوں بار سنی گئی بات کو دہرایا کہ این آر او کسی صورت نہیں دیا جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کے خیال میں اپوزیشن جو کچھ کر رہی ہے اس کا مطلب ہی این آر او کا حصول ہے جو انھیں کسی صورت نہیں دوں گا۔ وزیر اعظم نے آج تک کبھی واضح نہیں کیا کہ ان سے این آر او کون مانگ رہا ہے۔
وزیر اعظم کی بجائے ان کے حلیف شیخ رشید جو وزیر ریلوے ہوتے ہوئے اپنے محکمے کی بجائے ملکی سیاست اور این آر او پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ پہلے کہتے تھے کہ عمران خان کسی کو این آر او نہیں دے گا اور ان کے دل میں شاید اپنے پرانے ساتھیوں شریفوں کے لیے ہمدردی پیدا ہوگئی ہے، اب وہ چاہتے ہیں کہ شریف فیملی سے جو ملے لے لیا جائے اور نواز شریف کو علاج کے بہانے ہی ملک سے باہر جانے دیا جائے۔ شیخ رشید کے بقول آصف زرداری کنجوس ہے وہ کچھ نہیں دے گا، ہوسکتا ہے شریف دے دیں۔
تحریک انصاف نے اپنی سیاست کا آغاز کرپشن کے خلاف کیا تھا مگر ملک میں کرپشن کے باوجود ان کی سیاست پر توجہ نہ دی گئی۔ یوں تو عمران خان نے 1996ء میں تحریک انصاف قائم کی تھی اور ان کی شہرت بطورکھلاڑی کی تھی۔ 1992ء میں وہ کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے اور ان کی قیادت میں پاکستان نے کرکٹ کا ورلڈ کپ ضرور جیتا تھا مگر بطور کھلاڑی ان کی کارکردگی ایسی نہیں تھی کہ انھیں شہرت ملتی وہ پلے بوائے کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور ان کے متعلق بہت کچھ مشہور تھا اور کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے پر انھیں اندرون ملک بھی شہرت ملی تھی۔
بطور کھلاڑی انھیں مغرور دیکھا گیا جنھوں نے ایک میچ میں اپنے ایک پرستار کو بیٹ بھی مارا تھا۔ کینسر کے باعث اپنی والدہ کے انتقال کے بعد انھوں نے اپنی والدہ کے نام پر لاہور میں ایک کینسر اسپتال بنانے کا آغاز کیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اس سلسلے میں ان کی بہت مدد کی اور اسپتال کے لیے مناسب نرخوں پر زمین بھی دلائی کیونکہ وہ ایک نیک کام کر رہے تھے اور اس وقت دور دور تک ان کے سیاست میں آنے کا امکان تھا اور نہ ہی عمران خان نے مستقبل میں سیاست میں آنے کا کوئی اشارہ کیا تھا۔
عمران خان اپنی والدہ کے نام پر اسپتال بنانے میں مصروف رہے اور اسپتال کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد جب انھوں نے سیاست میں آنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے نام سے جب اپنی پارٹی بنائی اس وقت 1988ء سے 1996ء تک پیپلز پارٹی کی بینظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم بن چکی تھیں اور میاں نواز شریف بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو اگست 1990ء میں صدر غلام اسحق خان نے کرپشن کے الزامات میں بینظیر حکومت برطرف کی تھی تو نواز شریف اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے اس لیے وزیر اعظم بنائے گئے تھے کہ ان کی مسلم لیگ جونیجو جس کے پنجاب میں نواز شریف صدر تھے نے پنجاب میں زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس وقت غلام مصطفیٰ جتوئی نگران وزیر اعظم تھے اور پیپلز پارٹی نے سندھ میں تو نمایاں کامیابی حاصل کی تھی جس کی وجہ سے صدر غلام اسحق خان کو مجبوری میں وزیر اعظم بنانا پڑا تھا۔
نواز شریف جنرل ضیا کے دور میں پہلے پنجاب کے وزیر خزانہ بنائے گئے تھے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات جب جنرل ضیا نے کروائے تھے ان میں پیرپگاڑا کے کہنے پر جنرل ضیا نے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنوایا تھا جن کی شہرت بہت اچھی تھی مگر ان کی جنرل ضیا سے نہ بن سکی تھی۔ جنرل ضیا نے 1985ء کے الیکشن میں نواز شریف کو وزیر اعلیٰ اس لیے بنایا تھا کہ انھیں کہا گیا تھا کہ نواز شریف امیر گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ کرپشن نہیں کریں گے۔
غلام اسحق خان نے پہلی بار اپنی مرضی کے خلاف مجبوری میں نوازشریف کو وزیر اعظم تو بنایا تھا مگر انھیں پنجاب میں نواز شریف حکومت میں ہونے والی کرپشن اور کارکردگی کا پتہ تھا۔ وہ غلام مصطفیٰ جتوئی کو چاہتے ہوئے بھی وزیر اعظم نہیں بنا سکے تھے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی اصول پرست اور ایماندار تھے۔ 1990ء میں نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تیسری بار بنائے گئے تھے وہ جونیجو حکومت کی برطرفی پر نگران وزیر اعلیٰ پنجاب بھی رہے تھے اور نواز شریف نے محمد خان جونیجو کا ساتھ چھوڑ کر 1988ء میں جنرل ضیا کا ساتھ دیا تھا جو ان کی جونیجو سے پہلی سیاسی بے وفائی تھی۔
نواز شریف خود کو بادشاہ سلامت سمجھ کر من مانی کے عادی تھے جس پر کرپشن کے الزامات بھی لگے تو غلام اسحق خان کو بینظیر کے بعد نواز شریف حکومت بھی ختم کرنا پڑی تھی کیونکہ صدر غلام اسحق خود کرپٹ نہیں تھے اس لیے ان سے کرپشن برداشت نہ ہوئی۔
1993ء میں بینظیر پھر اقتدار میں آئیں اور انھوں نے اپنے منہ بولے بھائی فاروق لغاری کو صدر مملکت بنوایا جن کی ایمانداری مشہور تھی۔ بینظیر کی پہلی حکومت میں مبینہ طور پر آصف زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ اور دوسری حکومت میں ہنڈریڈ پرسنٹ کہلائے اورکرپشن پر بھائی نے بہن کی حکومت برطرف کی۔ جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت کی حکومت برطرف کی اور نواز شریف اور آصف زرداری کی کرپشن کی تحقیقات کرائی جو عدالتوں میں ثابت نہ ہو سکی۔ مشرف دور میں پی پی پھر اقتدار میں آئی اورکرپٹ کہلانے والے آصف زرداری ملک کے صدر اور نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
عمران خان نے اپنی سیاست دونوں کو چور ڈاکو قرار دے کر چمکائی اور دونوں پارٹیوں کے لوگ شامل کر کے حکومت میں آئے اور وہ ایک سال سے اب بھی دونوں کو چور ڈاکو قرار دیتے آ رہے ہیں مگر عدالتوں میں ثابت نہیں ہو رہے۔ اپوزیشن کی سب پارٹیاں عمران خان کو کرپٹ نہیں مگر نا اہل وزیر اعظم قرار دیتی آ رہی ہیں جو ان کے سیاسی نہیں حقیقی دشمن نظر آتے ہیں اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف ان کا رویہ سیاسی نہیں ذاتی دشمنی جیسا ہے وہ ان سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے تو اپوزیشن کے پاس ایک سال برداشت کے بعد دھرنے اور آزادی مارچ کے سوا حکومت کو ہٹانے اور نئے الیکشن کے مطالبے کے سوا کچھ نہیں بچا اور یہ حالات خود حکومت نے پیدا کیے ہیں اس لیے اب بھی مفاہمت کا راستہ اختیار کرکے اپوزیشن کو روکا جا سکتا ہے اور چور ڈاکو ہونے نہ ہونے کا معاملہ عدالتوں پر چھوڑ دینا چاہیے یہ اختیار حکومت کا نہیں ہے لہٰذا ایک نان ایشو ہے۔