فنڈز کی شدید قلت کلفٹن ایکیوریم 20 سال سے بند
ایکیوریم کی عمارت سمندر کے قریب ہونے کی وجہ سے لائف پوری کر گئی، مختلف مقامات سے منہدم ہونے لگی، 1998میں بند کردی گئی
کلفٹن ایکیوریم شہریوں کیلیے 20 سال سے بند ہے جب کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی فنڈز کی قلت کی وجہ سے ایکیوریم کی تعمیر نو سے قاصر ہے۔
سندھ حکومت کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ خوبصورت عمارت کو دوبارہ سمندری مخلوق سے آباد کرے تاکہ کلفٹن ڈیفنس سے لے کر لیاقت آباد اور قائد آباد کے رہائشی اپنے سمندر بحیرہ عرب میں رہنے والی خوبصورت اور مختلف اقسام کی مچھلیوں اور دیگر آبی مخلوق کا نظارہ کریں اور ریسرچر کو تحقیقاتی کاموں میں مدد مل سکے۔
کلفٹن ایکیوریم ملک بھر کا واحد ایکیوریم تھا جہاں سمندری حیاتیات کو رکھا جاتا تھا، اس کی بندش سے پاکستان جس کے2صوبوں سندھ و بلوچستان کا طویل حصہ بحیرہ عرب سے لگتا ہے سمندری مخلوق کے ایکیوریم سے محروم ہوگیا ہے۔
سابق صدر جنرل ایوب کے دور میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کی زیر نگرانی ایکیوریم کا تعمیراتی کام1962میں شروع ہوا اور1965میں اس کا افتتاح کردیا گیا، کلفٹن ایکیوریم میں 33ایکیوریم سمندری مچھلیوں کے لیے قائم تھے اور 14میٹھے پانی کی مچھلیوں کے لیے قائم کیے گئے تھے۔
ایک بڑا پول سمندری کچھوئوں کے لیے قائم تھا، ایک بریڈنگ سیکشن تھا اور ایک لیبارٹری تھی جس میں پانی کی کوالٹی چیک کی جاتی تھی، ایک ورکشاپ تھی، سمندری اور میٹھے پانی کی مچھلیوں اور کچھوئوں کو دیکھنے کے لیے سالانہ لاکھوں لوگ آتے تھے بالخصوص بچوں کو سمندری مخلوق سے آگاہی اور محظوظ ہونے کے لیے بہترین مقام تھا۔
یہ عمارت نہ صرف بلدیہ عظمی کراچی کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تھی بلکہ ایکیوریم میں تعینات ملازمین کی تنخواہیں بھی اس آمدنی کے ذریعے ادا کی جاتی تھی، ایکیوریم کی عمارت سمندر کے قریب ہونے کی وجہ سے بتدریج اپنی لائف پوری کرگئی اور مختلف مقامات سے منہدم ہونے لگی جس کی وجہ سے 1998میں بند کردی گئی۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ذرائع کے مطابق1998میں ایکیوریم کی عمارت کا ایک حصہ گرگیا اور باقی عمارت مخدوش قرار دیکر بند کردی گئی، سمندری مچھلیوں کو واپس سمندر میں ڈال دیا گیا اور میٹھے پانی کی مچھلیوں کو چڑیا گھر میں قائم ایکیوریم میں منتقل کردیا گیا، ایکیوریم کی عمارت مرمت کے لیے بلدیہ عظمیٰ کے محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے حوالے کردی گئی جنھوں نے10 سال گزرجانے کے باوجود کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا۔
2006 میں سابقہ شہری حکومت کے دور میں محکمہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر کی زیر نگرانی باغ ابن قاسم اور کلفٹن ایکیوریم کی تعمیر نو کا منصوبہ بنایا گیا،2سال میں باغ ابن قاسم کی تعمیر نو کا منصوبہ مکمل کرلیا گیا اور کلفٹن ایکیوریم کا صرف عمارتی اسٹرکچر تعمیر کیا گیا جس میں سول ورکس تقریباً 70فیصد مکمل ہوگیا ہے جبکہ الیکٹریکل اور مکینیکل کا کوئی کام نہیں ہوا، اس وقت صرف عمارت کھڑی ہے۔
عمارت کے اندر مچھلیوں کے لیے بڑے سائز کے ایکیوریم تعمیر کردیے گئے ہیں جن میں کچھ ایکیوریم پر شیشے کے گلاسز لگادیے گئے ہیں جبکہ بیشتر ایکیوریم میں شیشے کے گلاس نہیں لگائے گئے ہیں۔
ایکیوریم کی بحالی کے کے لیے فلٹر پلانٹس بھی نصب نہیں ہوئے ہیں،واضح رہے کہ جس زمانے میں کلفٹن ایکیوریم کی اپنی پوری آب و تاب سے قائم تھا اس وقت کراچی میں چند ہی تفریحی مقامات تھے جن میں ایکیوریم کو اس لیے حصوصی مقام حاصل تھا کہ پورے ملک میں یہ واحد مچھلی گھر تھا جہاں سمندری مخلوق کا شہریوں کے لیے ڈسپلے کیاجاتا تھا۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ذرائع نے بتایا کہ2005میں سابقہ شہری حکومت کے دور میں محکمہ ورکس اینڈ سروسز نے عمارت کی مرمت کا کچھ کام کیا، بعدازاں ایک بار پھر فنڈز کی کمی کی وجہ سے ترقیاتی کام ٹھپ ہوگیا۔
باغ ابن قاسم کی تعمیر کے موقع پر محکمہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر نے یہ درخواست دی کہ کلفٹن ایکیوریم محکمہ پارکس کو دیدیا جائے تا کہ باغ ابن قاسم کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ ایکیوریم کی عمارت بھی اسی منصوبے میں شامل کردی جائے، محکمہ پارکس کی درخواست پر کلفٹن ایکیوریم کی خستہ حال بلڈنگ ان کے حوالے کردی گئی۔
محکمہ پارکس نے پوری بلڈنگ منہدم کردی اور دوبارہ اس کی تعمیر شروع کی گئی،2008میں باغ ابن قاسم کا ترقیاتی کام مکمل کرکے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اس کا افتتاح کیا، اس موقع پر کلفٹن ایکیوریم کا صرف عمارتی اسٹرکچر تعمیر ہوسکا تھا اور اندورنی کام زیر تعمیر تھے، 2009تک کچھ اندورنی کام ہوا جس میں مچھلیوں کے لیے ایکیوریم اور پانی کے ٹینک تعمیر کیے گئے اس کے بعد اس منصوبہ پر ترقیاتی کام شروع نہیں کیا جاسکا ہے،بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ2013کے نفاذ کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی بیشتر اختیارات اور آمدنی کے ذرائع سے محروم ہوگئی ہے۔
تقریباً تمام ترقیاتی منصوبے سندھ حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے فنڈز کے تحت کرائے جاتے ہیں، کلفٹن ایکیوریم پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کا کنٹرول ہے تاہم فنڈز کی کمی کی وجہ سے اس منصوبہ پر عملدرآمد نہیں ہوپارہا ہے، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میٹرپولیٹین کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمن نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کلفٹن ایکیوریم کی بحالی ایک بڑا منصوبہ ہے جس کے لیے کافی فنڈز درکار ہیں، ابھی یہاں صرف اسٹرکچر کھڑا ہے جبکہ الیکٹریکل مکینیکل ورکس اور فلٹر پلانٹس نصب نہیں ہوئے ہیں ، تعمیراتی منصوبہ کافی عرصے سے بند پڑا ہے ۔
اس لیے اس کی نیا پی سی ون بنانے پڑے گا، کوشش کررہے ہیں کہ اس کا پی سی ون بنا کر حکومت سندھ کو بھجوایا جائے اور ان سے درخواست کی جائے کہ کلفٹن ایکیوریم کی بحالی کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے جائیں۔
ڈاکٹر سیف الرحمان نے کہا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے شہریوں کو انٹرٹینمنٹ پہنچانے کیلیے سنجیدہ ہے اس لیے کراچی زولوجیکل گارڈن میں نیا ایکیوریم تعمیر کیا جارہا ہے جس میں سمندری مچھلیوں کو رکھا جائے گا، انھوں نے کہا کہ یہ منصوبہ ایک سال میں مکمل کرلیا جائے گا۔
کراچی یونیورسٹی کے میرین ریفرنس کلیکشن اینڈ ریسورس سینٹر کے انچارچ اور سینیئر Taxonomist ڈاکٹر عبد قدیر محمد علی کا کہنا ہے کہ ہمارے یہاں سمندر کے قریب رہنے کا صرف یہ فائدہ اٹھایا جارہا ہے کہ وہاں سے مچھلی نکال کر کھائی جارہی ہے،کلفٹن ایکیوریم کی بحالی ہونی چاہیے،ایکیوریم کی بحالی سے طالبعلموں کو بھی مدد ملے گی اور شہریوں کو بھی آگاہی ہو گی۔
سندھ حکومت کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ خوبصورت عمارت کو دوبارہ سمندری مخلوق سے آباد کرے تاکہ کلفٹن ڈیفنس سے لے کر لیاقت آباد اور قائد آباد کے رہائشی اپنے سمندر بحیرہ عرب میں رہنے والی خوبصورت اور مختلف اقسام کی مچھلیوں اور دیگر آبی مخلوق کا نظارہ کریں اور ریسرچر کو تحقیقاتی کاموں میں مدد مل سکے۔
کلفٹن ایکیوریم ملک بھر کا واحد ایکیوریم تھا جہاں سمندری حیاتیات کو رکھا جاتا تھا، اس کی بندش سے پاکستان جس کے2صوبوں سندھ و بلوچستان کا طویل حصہ بحیرہ عرب سے لگتا ہے سمندری مخلوق کے ایکیوریم سے محروم ہوگیا ہے۔
سابق صدر جنرل ایوب کے دور میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کی زیر نگرانی ایکیوریم کا تعمیراتی کام1962میں شروع ہوا اور1965میں اس کا افتتاح کردیا گیا، کلفٹن ایکیوریم میں 33ایکیوریم سمندری مچھلیوں کے لیے قائم تھے اور 14میٹھے پانی کی مچھلیوں کے لیے قائم کیے گئے تھے۔
ایک بڑا پول سمندری کچھوئوں کے لیے قائم تھا، ایک بریڈنگ سیکشن تھا اور ایک لیبارٹری تھی جس میں پانی کی کوالٹی چیک کی جاتی تھی، ایک ورکشاپ تھی، سمندری اور میٹھے پانی کی مچھلیوں اور کچھوئوں کو دیکھنے کے لیے سالانہ لاکھوں لوگ آتے تھے بالخصوص بچوں کو سمندری مخلوق سے آگاہی اور محظوظ ہونے کے لیے بہترین مقام تھا۔
یہ عمارت نہ صرف بلدیہ عظمی کراچی کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تھی بلکہ ایکیوریم میں تعینات ملازمین کی تنخواہیں بھی اس آمدنی کے ذریعے ادا کی جاتی تھی، ایکیوریم کی عمارت سمندر کے قریب ہونے کی وجہ سے بتدریج اپنی لائف پوری کرگئی اور مختلف مقامات سے منہدم ہونے لگی جس کی وجہ سے 1998میں بند کردی گئی۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ذرائع کے مطابق1998میں ایکیوریم کی عمارت کا ایک حصہ گرگیا اور باقی عمارت مخدوش قرار دیکر بند کردی گئی، سمندری مچھلیوں کو واپس سمندر میں ڈال دیا گیا اور میٹھے پانی کی مچھلیوں کو چڑیا گھر میں قائم ایکیوریم میں منتقل کردیا گیا، ایکیوریم کی عمارت مرمت کے لیے بلدیہ عظمیٰ کے محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے حوالے کردی گئی جنھوں نے10 سال گزرجانے کے باوجود کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا۔
2006 میں سابقہ شہری حکومت کے دور میں محکمہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر کی زیر نگرانی باغ ابن قاسم اور کلفٹن ایکیوریم کی تعمیر نو کا منصوبہ بنایا گیا،2سال میں باغ ابن قاسم کی تعمیر نو کا منصوبہ مکمل کرلیا گیا اور کلفٹن ایکیوریم کا صرف عمارتی اسٹرکچر تعمیر کیا گیا جس میں سول ورکس تقریباً 70فیصد مکمل ہوگیا ہے جبکہ الیکٹریکل اور مکینیکل کا کوئی کام نہیں ہوا، اس وقت صرف عمارت کھڑی ہے۔
عمارت کے اندر مچھلیوں کے لیے بڑے سائز کے ایکیوریم تعمیر کردیے گئے ہیں جن میں کچھ ایکیوریم پر شیشے کے گلاسز لگادیے گئے ہیں جبکہ بیشتر ایکیوریم میں شیشے کے گلاس نہیں لگائے گئے ہیں۔
ایکیوریم کی بحالی کے کے لیے فلٹر پلانٹس بھی نصب نہیں ہوئے ہیں،واضح رہے کہ جس زمانے میں کلفٹن ایکیوریم کی اپنی پوری آب و تاب سے قائم تھا اس وقت کراچی میں چند ہی تفریحی مقامات تھے جن میں ایکیوریم کو اس لیے حصوصی مقام حاصل تھا کہ پورے ملک میں یہ واحد مچھلی گھر تھا جہاں سمندری مخلوق کا شہریوں کے لیے ڈسپلے کیاجاتا تھا۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ذرائع نے بتایا کہ2005میں سابقہ شہری حکومت کے دور میں محکمہ ورکس اینڈ سروسز نے عمارت کی مرمت کا کچھ کام کیا، بعدازاں ایک بار پھر فنڈز کی کمی کی وجہ سے ترقیاتی کام ٹھپ ہوگیا۔
باغ ابن قاسم کی تعمیر کے موقع پر محکمہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر نے یہ درخواست دی کہ کلفٹن ایکیوریم محکمہ پارکس کو دیدیا جائے تا کہ باغ ابن قاسم کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ ایکیوریم کی عمارت بھی اسی منصوبے میں شامل کردی جائے، محکمہ پارکس کی درخواست پر کلفٹن ایکیوریم کی خستہ حال بلڈنگ ان کے حوالے کردی گئی۔
محکمہ پارکس نے پوری بلڈنگ منہدم کردی اور دوبارہ اس کی تعمیر شروع کی گئی،2008میں باغ ابن قاسم کا ترقیاتی کام مکمل کرکے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اس کا افتتاح کیا، اس موقع پر کلفٹن ایکیوریم کا صرف عمارتی اسٹرکچر تعمیر ہوسکا تھا اور اندورنی کام زیر تعمیر تھے، 2009تک کچھ اندورنی کام ہوا جس میں مچھلیوں کے لیے ایکیوریم اور پانی کے ٹینک تعمیر کیے گئے اس کے بعد اس منصوبہ پر ترقیاتی کام شروع نہیں کیا جاسکا ہے،بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ2013کے نفاذ کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی بیشتر اختیارات اور آمدنی کے ذرائع سے محروم ہوگئی ہے۔
تقریباً تمام ترقیاتی منصوبے سندھ حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے فنڈز کے تحت کرائے جاتے ہیں، کلفٹن ایکیوریم پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کا کنٹرول ہے تاہم فنڈز کی کمی کی وجہ سے اس منصوبہ پر عملدرآمد نہیں ہوپارہا ہے، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میٹرپولیٹین کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمن نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کلفٹن ایکیوریم کی بحالی ایک بڑا منصوبہ ہے جس کے لیے کافی فنڈز درکار ہیں، ابھی یہاں صرف اسٹرکچر کھڑا ہے جبکہ الیکٹریکل مکینیکل ورکس اور فلٹر پلانٹس نصب نہیں ہوئے ہیں ، تعمیراتی منصوبہ کافی عرصے سے بند پڑا ہے ۔
اس لیے اس کی نیا پی سی ون بنانے پڑے گا، کوشش کررہے ہیں کہ اس کا پی سی ون بنا کر حکومت سندھ کو بھجوایا جائے اور ان سے درخواست کی جائے کہ کلفٹن ایکیوریم کی بحالی کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے جائیں۔
ڈاکٹر سیف الرحمان نے کہا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے شہریوں کو انٹرٹینمنٹ پہنچانے کیلیے سنجیدہ ہے اس لیے کراچی زولوجیکل گارڈن میں نیا ایکیوریم تعمیر کیا جارہا ہے جس میں سمندری مچھلیوں کو رکھا جائے گا، انھوں نے کہا کہ یہ منصوبہ ایک سال میں مکمل کرلیا جائے گا۔
کراچی یونیورسٹی کے میرین ریفرنس کلیکشن اینڈ ریسورس سینٹر کے انچارچ اور سینیئر Taxonomist ڈاکٹر عبد قدیر محمد علی کا کہنا ہے کہ ہمارے یہاں سمندر کے قریب رہنے کا صرف یہ فائدہ اٹھایا جارہا ہے کہ وہاں سے مچھلی نکال کر کھائی جارہی ہے،کلفٹن ایکیوریم کی بحالی ہونی چاہیے،ایکیوریم کی بحالی سے طالبعلموں کو بھی مدد ملے گی اور شہریوں کو بھی آگاہی ہو گی۔