سپریم کورٹ نے ارسلان کیس کی تفتیش نیب سے لیکر شعیب سڈل کو دیدی
اختیارات سے تجاوزپراٹارنی جنرل سے وضاحت طلب ،نیب ریکارڈکمیشن کے حوالے کردے،شعیب سڈل کو30روزمیںرپورٹ پیش کرنیکی ہدایت
سپریم کورٹ نے ارسلان افتخارکیس کی انکوائری نیب سے واپس لیکر سابق بیوروکریٹ اور موجودہ ٹیکس محتسب شعیب سڈل پرمشتمل یک رکنی کمیشن کے حوالے کر دی ہے اور انھیںتیس روزکے اندر انکوائری مکمل کرکے رپورٹ دینے کی ہدایت کی ہے ،انکوائری کیلیے شعیب سڈل کو عدالتی اختیار بھی دیا گیا ہے وہ اس ضمن میں دیگر افراداوراداروںکی خدمات حاصل کرنے کے بھی مجاز ہوںگے۔
سپریم کورٹ نے ارسلان افتخاراور ملک ریاض کے درمیان لین دین کی انکوائری کے حوالے سے ارسلان افتخارکی نظرثانی درخواست کا محفوظ کیاگیا فیصلہ سناتے ہوئے نیب کی تحقیقاتی ٹیم کے طرز عمل کو جانبدارانہ اورغیر شفاف قرار دیا ہے اور نیب کو کیس کا تمام ریکارڈ شعیب سڈل کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے ۔عدالت نے اس مقدمے میں اٹارنی جنرل کے طرز عمل کا نوٹس لیتے ہوئے وضاحت طلب کی ہے اور قرار دیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے اس کیس میں عدالتی فیصلے کے مینڈیٹ سے تجاوزکیا اور نیب کو خط لکھ کر انکوائری کے تمام عمل اور نیب کو اپنی نگرانی میںرکھا۔
عدالت نے ارسلان افتخارکی نظرثانی درخواست میں سے چند اعتراضات کو قبول کرتے ہوئے قرار دیا کہ اٹارنی جنرل اور موجودہ تحقیقاتی کمیشن سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی توقع نہیں ،اٹارنی جنرل عرفان قادرلاہور ہائیکورٹ میں دائرہ کردہ رٹ پٹیشن نمبر258/2007 میں ملک ریاض حسین کے وکیل تھے۔پیشہ وارانہ دیانت داری کا تقاضا تھاکہ اٹارنی جنرل اس کے بارے میں آگاہ کرتے تاکہ عدالت تفتیش کی یہ ذمے داری کسی غیر جانبدار شخصیت کو سونپتی۔
مگر اٹارنی جنرل اس پہلو پر خاموش رہے ۔اسی طرح 18جون2012 کو اٹارنی جنرل نے نیب کے چیئرمین ایڈمرل فصیح بخاری کو ایساخط لکھا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اٹارنی جنرل نے اپنے اختیارات سے تجاوزکیا اور نیب کی خود مختاری پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔خط میںاٹارنی جنرل نے نیب کے چیئرمین سے اس توقع کا اظہارکیا کہ ایف آئی اے اور اسلام آباد پولیس کے افسران کو بھی اس تحقیقات میں شامل کیا جائے ۔
قانوناً اٹارنی جنرل ایک خود مختار ادارے سے اس قسم کی توقعات وابستہ کرنے کے مجاز نہیں، اٹارنی جنرل کے خط میں پیش کیے گئے لائحہ عمل کے عین مطابق اسلام آباد پولیس کے ایک ایس پی فیصل بشیر میمن اورایف آئی اے سے وابستہ ایک افسر نصراللہ گوندل کو تحقیقاتی ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ اٹارنی جنرل کو اگر چہ صرف ریاستی مشینری کو حرکت میں لانے کی ہدایت کی گئی تھی مگر خط سے یہ تاثر واضح ہے کہ انھوں نے تو تحقیقات اپنے ہاتھ میں لے لیں۔انھوں نے چیئرمین نیب کو یہ ہدایت بھی کی کہ وہ تحقیقات میں پیشرفت کی رپورٹ ہر دو ہفتے بعد اٹارنی جنرل کو بہم پہنچائیں۔
ملک کے اعلیٰ ترین ادارہ برائے انسداد بد عنوانی پر اس طرح کی براہ راست نگرانی اٹارنی جنرل کے آئینی اختیارات میںشامل نہیں اور نہ ہی اس بات کا اختیار عدالت نے انہیں تفویض کیا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرارکو بھیجے گئے وہ دوخطوط جن میں انھیں اپنی سرکاری حیثیت میں طلب کیا گیا، ان خطوط میں انہیںنیب ہیڈکوارٹرز میں پیش ہونے اور ''تمام اصلی دستاویزی شواہد'' ہمراہ لانے کا حکم دیا گیا مگر خطوط میں اس بات کا ذکر نہیںکہ رجسٹرار سے تفتیش کن معاملات کے بارے میں مطلوب ہے اور وہ کون سی دستاویزات ہیں جن تک رسائی کی نیب خواہاں ہے۔نیب کا یہ طرز تفتیش پاکستان کے مسلمہ قانون کے برعکس ہے۔
فیصلے میں عدالت نے اس بات پر افسوس کا اظہارکیا ہے کہ ایک حساس معاملے میں اٹارنی جنرل کو جو ذمے داری سونپی تھی وہ اس سے عہدہ برآ ہونے سے قاصر رہے اورنیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے بھی اپنی کارروائی ایسے اندازمیںکی جس سے جانبداری کا تاثرملا۔عدالت نے اس معاملے کی تفتیش ڈاکٹرشعیب سڈل،جوموجودہ وفاقی ٹیکس محتسب ہیںکو سونپ دی ہے۔کمیشن کویہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تحقیقات کوایک ماہ کے اندرموثراندازمیں نمٹائے تاکہ ہراس شخص کوکیفرکردار تک پہنچایاجائے جس نے قانون کی خلاف ورزی کی اور پاکستان کے عوام کے مفادعامہ کونقصان پہنچایا۔ کمیشن کویہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ممبران پر اٹھنے والے اعتراضات کا شواہدکی روشنی میں جائزہ لے تاکہ اگر کوئی جانبداری کا مرتکب ثابت ہوتا ہے تو اسے بھی قرار واقعی سزا ملے ۔
سپریم کورٹ نے ارسلان افتخاراور ملک ریاض کے درمیان لین دین کی انکوائری کے حوالے سے ارسلان افتخارکی نظرثانی درخواست کا محفوظ کیاگیا فیصلہ سناتے ہوئے نیب کی تحقیقاتی ٹیم کے طرز عمل کو جانبدارانہ اورغیر شفاف قرار دیا ہے اور نیب کو کیس کا تمام ریکارڈ شعیب سڈل کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے ۔عدالت نے اس مقدمے میں اٹارنی جنرل کے طرز عمل کا نوٹس لیتے ہوئے وضاحت طلب کی ہے اور قرار دیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے اس کیس میں عدالتی فیصلے کے مینڈیٹ سے تجاوزکیا اور نیب کو خط لکھ کر انکوائری کے تمام عمل اور نیب کو اپنی نگرانی میںرکھا۔
عدالت نے ارسلان افتخارکی نظرثانی درخواست میں سے چند اعتراضات کو قبول کرتے ہوئے قرار دیا کہ اٹارنی جنرل اور موجودہ تحقیقاتی کمیشن سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی توقع نہیں ،اٹارنی جنرل عرفان قادرلاہور ہائیکورٹ میں دائرہ کردہ رٹ پٹیشن نمبر258/2007 میں ملک ریاض حسین کے وکیل تھے۔پیشہ وارانہ دیانت داری کا تقاضا تھاکہ اٹارنی جنرل اس کے بارے میں آگاہ کرتے تاکہ عدالت تفتیش کی یہ ذمے داری کسی غیر جانبدار شخصیت کو سونپتی۔
مگر اٹارنی جنرل اس پہلو پر خاموش رہے ۔اسی طرح 18جون2012 کو اٹارنی جنرل نے نیب کے چیئرمین ایڈمرل فصیح بخاری کو ایساخط لکھا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اٹارنی جنرل نے اپنے اختیارات سے تجاوزکیا اور نیب کی خود مختاری پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔خط میںاٹارنی جنرل نے نیب کے چیئرمین سے اس توقع کا اظہارکیا کہ ایف آئی اے اور اسلام آباد پولیس کے افسران کو بھی اس تحقیقات میں شامل کیا جائے ۔
قانوناً اٹارنی جنرل ایک خود مختار ادارے سے اس قسم کی توقعات وابستہ کرنے کے مجاز نہیں، اٹارنی جنرل کے خط میں پیش کیے گئے لائحہ عمل کے عین مطابق اسلام آباد پولیس کے ایک ایس پی فیصل بشیر میمن اورایف آئی اے سے وابستہ ایک افسر نصراللہ گوندل کو تحقیقاتی ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ اٹارنی جنرل کو اگر چہ صرف ریاستی مشینری کو حرکت میں لانے کی ہدایت کی گئی تھی مگر خط سے یہ تاثر واضح ہے کہ انھوں نے تو تحقیقات اپنے ہاتھ میں لے لیں۔انھوں نے چیئرمین نیب کو یہ ہدایت بھی کی کہ وہ تحقیقات میں پیشرفت کی رپورٹ ہر دو ہفتے بعد اٹارنی جنرل کو بہم پہنچائیں۔
ملک کے اعلیٰ ترین ادارہ برائے انسداد بد عنوانی پر اس طرح کی براہ راست نگرانی اٹارنی جنرل کے آئینی اختیارات میںشامل نہیں اور نہ ہی اس بات کا اختیار عدالت نے انہیں تفویض کیا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرارکو بھیجے گئے وہ دوخطوط جن میں انھیں اپنی سرکاری حیثیت میں طلب کیا گیا، ان خطوط میں انہیںنیب ہیڈکوارٹرز میں پیش ہونے اور ''تمام اصلی دستاویزی شواہد'' ہمراہ لانے کا حکم دیا گیا مگر خطوط میں اس بات کا ذکر نہیںکہ رجسٹرار سے تفتیش کن معاملات کے بارے میں مطلوب ہے اور وہ کون سی دستاویزات ہیں جن تک رسائی کی نیب خواہاں ہے۔نیب کا یہ طرز تفتیش پاکستان کے مسلمہ قانون کے برعکس ہے۔
فیصلے میں عدالت نے اس بات پر افسوس کا اظہارکیا ہے کہ ایک حساس معاملے میں اٹارنی جنرل کو جو ذمے داری سونپی تھی وہ اس سے عہدہ برآ ہونے سے قاصر رہے اورنیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے بھی اپنی کارروائی ایسے اندازمیںکی جس سے جانبداری کا تاثرملا۔عدالت نے اس معاملے کی تفتیش ڈاکٹرشعیب سڈل،جوموجودہ وفاقی ٹیکس محتسب ہیںکو سونپ دی ہے۔کمیشن کویہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تحقیقات کوایک ماہ کے اندرموثراندازمیں نمٹائے تاکہ ہراس شخص کوکیفرکردار تک پہنچایاجائے جس نے قانون کی خلاف ورزی کی اور پاکستان کے عوام کے مفادعامہ کونقصان پہنچایا۔ کمیشن کویہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ممبران پر اٹھنے والے اعتراضات کا شواہدکی روشنی میں جائزہ لے تاکہ اگر کوئی جانبداری کا مرتکب ثابت ہوتا ہے تو اسے بھی قرار واقعی سزا ملے ۔