بجلی اور پٹرول کی مہنگائی
بجلی 40 فیصد مہنگی ہو گئی، پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 4 روپے کا اضافہ، بھارت میں پٹرول سستا ہو گیا۔
غیاث الدین اب 80 سے زیادہ بہاریں دیکھ چکے ہیں، وہ حیدرآباد دکن میں کمیونسٹ تحریک سے منسلک ہوئے اور پاکستان بننے کے بعد مزدور تحریک کو منظم کرنے کی جدوجہد میں شریک رہے۔ غیاث بابا نے کراچی کے علاوہ ملک کے دوسرے شہروں میں ٹریڈ یونین کو مضبوط کرنے میں زندگی گزار دی، انھوں نے لکھنا پڑھنا تحریک کے دوران سیکھا۔ غیاث بابا نے زندگی کا خاصا حصہ اخبارات اور کتابوں کے مطالعے میں گزارا پھر ان کی تحریریں اخبارات اور رسائل میں شایع ہونے لگیں۔ غیاث بابا نے ہمیشہ پبلک لائبریریوں میں اپنے مطالعہ کا ذوق پورا کیا وہ اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ بہت زیادہ بھاگ دوڑ نہیں کر سکتے مگر وہ اخبارات کے مطالعے کے لیے لانڈھی، کورنگی کی لائبریریوں میں ضرور جاتے ہیں، مگر بلدیہ کراچی کی لائبریریوں میں اب اخبارات نہیں آتے۔ غیاث الدین سخت مشکل میں ہیں وہ اخبارات خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے مگر مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ بلدیہ کراچی کے حالات سے واقف رہنے والے کہتے ہیں کہ ان لائبریریوں کے لیے اخبارات کی خریداری کا فنڈ موجود ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ فنڈ دوسرے معاملات کی نذر ہو جاتا ہے مگر کیا بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر یہ معاملہ حل کر سکتے ہیں۔
بجلی 40 فیصد مہنگی ہو گئی، پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 4 روپے کا اضافہ، بھارت میں پٹرول سستا ہو گیا۔ اب سندھ میں ہفتے میں 3 دن سی این جی کی بندش، عوام کے پاس اندھیرے اور غربت و ذلت کے سمندر میں ڈوبنے کے علاوہ کوئی اور چارا نہیں رہا۔ 11 مئی 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے کامیابی حاصل کی تھی، مسلم لیگ حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی حکومت کا پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مستقبل میں کوئی منی بجٹ پیش نہیں کیا جائے گا مگر بجلی اور گیس کے نرخ میں اضافے سے اسحاق ڈار کا وعدہ جھوٹا ہو گیا۔ ملک گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں سے بجلی کی قلت کا شکار ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعظم شوکت عزیز نے بینکوں کے ذریعے گاڑیوں کی خریداری کے لیے لیز پر قرضے کی اسکیموں کی حوصلہ افزائی شروع کی تھی، ان کے دور میں لاکھوں گاڑیاں لیز پر فروخت کی گئیں، سی این جی کٹ والی گاڑیوں نے اس سستے ایندھن کو استعمال کرنا شروع کیا، ملک بھر میں سی این جی اسٹیشنوں کا جال بچھ گیا۔
اس سستے ایندھن سے سڑکوں پر خوب ریل پیل ہوئی اور توانائی کا قدرتی ذریعہ دھویں میں تبدیل ہونے لگا۔ پرویز مشرف کے آخری دور میں سی این جی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہونا شروع ہوئے اور بجلی کا بحران شدید ہوا ۔2008ء کے انتخابات بجلی کی لوڈشیڈنگ اور سی این جی کی قلت جیسے ماحول میں ہوئے۔ مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت نے پنجاب میں بجلی کی قلت کی ذمے داری پرویز مشرف حکومت پر ڈالی، مسلم لیگ ن پنجاب میں اکثریتی جماعت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی مگر قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی، اس طرح یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور آصف زرداری صدر کے عہدوں پر تعینات ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بجلی کی قلت پر قابو پانے کے چیلنج کو قبول کرنے کا اعلان کیا، سندھ حکومت کی کوششوں سے تھر کول پروجیکٹ پر کام شروع ہوا۔ معروف سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک نے تھر کول پلانٹ کے ایک بلاک میں زمین میں دبے کوئلے کو جلا کر بجلی میں تبدیل کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔
دوسری طرف صدر زرداری نے کرائے کے بجلی گھروں کی تنصیب کا منصوبہ پیش کیا، اس مقصد کے لیے چین، ترکی، برطانیہ سمیت مختلف ممالک کی بجلی کی کمپنیوں سے مشترکہ یادداشت (Mocks) پر دستخط کیے گئے۔ کراچی کے ساحل سے لے کر خیبر پختونخوا تک کرائے کے بجلی گھروں کے قیام کی کوشش کی گئی۔ اس دوران ایک بڑے میڈیا گروپ کے اخبارات میں کرائے کے بجلی گھروں کے لیے کمیشن کے الزامات لگنا شروع ہوئے، پھر مسلم لیگ ن نے ان بجلی گھروں میں شفافیت نہ ہونے کا شور مچانا شروع کر دیا۔ مسلم لیگ ق کے رہنما مخدوم فیصل صالح حیات نے کرائے کے بجلی گھروں میں بدعنوانی کا شور مچایا، مسلم لیگ ن کے رہنما بھی اس شور میں شریک ہو گئے۔
سپریم کورٹ نے از خود سماعت کے اختیار کے تحت کرائے کے بجلی گھروں کے معاملات کی تحقیقات شروع کر دی، اور مسلم لیگی رہنمائوں اور ان کے اتحادی صحافیوں کی مہم کے نتیجے میں کچھ سودے منسوخ ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اچھی طرز حکومت پر یقین نہیں رکھتی تھی، اس بناء پر ترکی سے درآمد کیا جانے والا کرائے کا بجلی گھر والا بحری جہاز بجلی پیدا کیے بغیر پورٹ قاسم کے سمندری علاقے میں کھڑا رہا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے اس جہاز بجلی گھر کی منتقلی پر پابندی عائد کر دی۔ غیر فطری فضا کی بنا پر توانائی کے منصوبوں پر عملدرآمد ناکام ہو گیا۔ اس صورتحال میں بجلی کا شارٹ فال بڑھتا چلا گیا پھر سرکلر ڈیٹ بڑھنے سے بجلی گھروں نے مہنگا فرنس آئل خریدنا چھوڑ دیا، اس طرح بجلی کی پیداوار گرمیوں اور سخت سردیوں میں ریکارڈ حد تک گر گئی۔
مسلم لیگی رہنمائوں نے پنجاب میں اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا، لوگوں نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں، واپڈا کے دفاتر کو نذر آتش کر دیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ پر تشدد ہجوموں نے سرکاری دفاتر، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے اراکین اسمبلی کے ڈیروں پر حملے شروع کر دیے۔ پولیس اور دوسری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے تماشائی کا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئیں کہ مسلم لیگ ن کی قوت ہنگامہ کرنے والوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اس دوران قدرتی گیس کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو گئے۔ پورے ملک میں سی این جی اسٹیشنوں پر نئی پابندیاں لگا دی گئیں۔ اگرچہ 12 سے 20 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ اندرون سندھ، بلوچستان اور پختونخوا میں تھی اور ان صوبوں میں گیس اسٹیشنوں کی کئی کئی دن تک معطلی نے حالات کو مزید خراب کر دیا۔ مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں نے صدر زرداری کو بجلی کی کمی کا ذمے دار قرار دینا شروع کر دیا۔ بعض میڈیا ہائوسز کے اخبارات اور ٹی وی چینلز نے بجلی اور گیس کے بحران کے حوالے سے معروضیت کے اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسی خبریں شایع کیں کہ محسوس ہونے لگا پیپلز پارٹی کی حکومت ہی حقیقی طور پر بجلی اور گیس کے بحران کی ذمے دار ہے۔
وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے انتخابی تقاریر میں الزام لگایا کہ کراچی کی سڑکوں پر روشنیاں ہیں اور پنجاب اندھیرے کا شکار ہے۔ انتخابات کے دوران پنجاب اور دوسرے صوبوں میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے پیپلز پارٹی کی مہم کو سبوتاژ کر دیا اور اس کا فائدہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو ہوا۔ مسلم لیگی رہنما اس صورتحال میں یہ دعویٰ کرنے لگے کہ اقتدار میں آنے کے ایک ہفتے میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے۔ جب نواز شریف تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو انھوں نے شہباز شریف کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سالوں میں بھی مسلم لیگ کی حکومت بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کرا سکتی۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ حکومت کا یہ پہلا یوٹرن تھا پھر حکومت نے بجلی گھروں کا سرکلر ڈیٹ ختم کیا اور بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا مگر ماہرین نے کہنا شروع کیا کہ موسم گرما کی شدت سے بجلی کا شارٹ فال بڑھ جائے گا۔ مسلم لیگی حکومت کے 120 دن گزرنے کے باوجود لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوئی نہ گیس کی قلت پر قابو پایا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر سبسڈی ختم کی جا رہی ہے اور بجلی کی نرخ طے کرنے والے خود مختار ادارے نیپرا کو نظرانداز کر کے قوانین کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اس صورتحال کا نوٹس لیا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پٹرول کی قیمت میں اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگی حکومت ماضی کی حکومتوں کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے عوام کو مشکلات کا شکار کر رہی ہے۔ ایک استاد کا کہنا ہے کہ عوام کو امید نہیں کہ مسلم لیگی حکومت بھارت کی طرح عوام کی بہبود کو ترجیح دے گی مگر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اقتصادی پالیسیوں کے اعتبار سے یہ حکومت اور دوسری حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حکومت قومی اداروں کو فروخت کر کے گیس، بجلی اور پٹرول کے نرخ میں اضافہ کر کے بجٹ کے خسارے کو دور کرنا چاہتی ہے۔ اس صورتحال میں متوسط طبقے کی تنزلی کا عمل تیز ہو گا۔ اس صورتحال میں عوام سماجی جمہوریت کے ثمر سے محروم رہیں گے، یوں وہ قوتیں مستحکم ہوں گی جو فوجی حکومتوں کو مسائل کا حل قرار دیتی ہیں۔