کشمیر کا مسئلہ
بھارتی حکومتوں کا سب سے بڑا شکوہ یہ رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ بن گیا ہے
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور نواز شریف کے درمیان اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران ملاقات کی بات ایک عرصے سے چل رہی تھی لیکن مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کی وارداتوں کی وجہ سے، جن میں بھارتی فوج کے جوانوں کا جانی نقصان ہوا تھا یہ ممکنہ ملاقات کھٹائی میں پڑتی رہی، خاص طور پر دہشت گردی کی حالیہ واردات کے بعد جس میں ایک بھارتی پولیس اسٹیشن اور ایک فوجی کیمپ پر حملہ کیا گیا تھا جس میں درجن بھر سے زیادہ پولیس کے سپاہی اور فوجی مارے گئے تھے، دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کے امکانات دھندلا گئے تھے لیکن بھارتی حکومت نے ازراہ کرم منموہن نواز شریف ملاقات رضا مندی ظاہر کی۔ دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات ہوئی لیکن اس حوالے سے یہ ملاقات بے نتیجہ ثابت ہوئی کہ اس میں دونوں ملکوں کے درمیان موجود اہم تنازعات پر بات چیت کے حوالے سے مبہم انکشافات ہوتے رہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سب سے اہم مسئلے کشمیر اور پانی کے مسئلے ہیں۔ بدقسمتی سے بھارت کی روایتی پالیسی کے مطابق ملاقات سے پہلے ہی منموہن نے اپنا پرانا راگ الاپ دیا کہ ''کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ'' ہے۔ سو اس جارحانہ بیان کے بعد اس مسئلے کے حل کی بات ایک بار پھر بھارتی راج نیتی کے اندھیروں میں گم ہو گئی۔ یوں یہ ملاقات کسی بڑی پیش رفت کے بغیر ختم ہو گئی۔
اس بات چیت میں کسی بڑی پیش رفت کے حوالے سے پہلے ہی ناامیدی کا اظہار اس حوالے سے بھی کیا جا رہا تھا کہ بھارت کی موجودہ حکومت کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں اور وہ کوئی بڑے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ نواز شریف کا کہنا بھی یہی ہے کہ 2014ء کے بھارتی انتخابات کے بعد ہی دونوں ملکوں کے درمیان کوئی بامعنی بات چیت ہو سکتی ہے۔
بھارتی حکومتوں کا سب سے بڑا شکوہ یہ رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ بن گیا ہے اور جب تک پاکستانی حکومت دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرتی دونوں ملکوں کے درمیان کوئی بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے مذاکرات سے پہلے اوباما سے ملاقات کے دوران بھی پاکستان کے خلاف الزامات کی بھرمار کی اور پاکستان کو دہشت گردوں کا گڑھ قرار دیتے ہوئے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ منموہن کے یہ الزامات اگرچہ ''خوئے بد را بہانۂ بسیار'' کی تعریف ہی میں آتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے الزامات کا جائزہ بہرحال لیا جائے گا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کا گڑھ بن گیا ہے اور دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار بھی پاکستان ہی بنا ہوا ہے لیکن مختلف حصوں میں آئے دن ہونے والی دہشت گردی نے حکومت پاکستان اور پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کو ایک طرح سے مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
ایک ہفتے کے اندر دہشت گردی کی تین بڑی وارداتوں میں لگ بھگ 150 بے گناہ مرد، عورت اور بچے مارے گئے اور اب تک دہشت گردی کی نذر ہونے والے بے گناہ پاکستانیوں کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اہم فوجی تنصیبات اور فوجی اہلکاروں کا بھاری جانی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان پر دہشت گردی کا گڑھ بن جانے کے الزامات لگانے والے بھارتی حکمران، میڈیا اور دانشوروں نے کبھی سنجیدگی اور دیانتداری سے یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ کیوں بنا؟ اس سوال کا ایماندارانہ جواب یہ ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ بنانے اور ساری دنیا میں دہشت گردی کے پھیلائو کے ذمے دار امریکا اور بھارت ہیں۔ یہ الزام کسی مذہبی جماعت کے رہنما یا کسی مذہبی اسکالر کی طرف سے نہیں لگایا جا رہا ہے بلکہ یہ الزام پوری سنجیدگی سے ایک سیکولر لکھاری کی طرف سے لگایا جا رہا ہے جو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کو جنوبی ایشیا کے عوام کے مفادات کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔
امریکا نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے پاکستان میں دہشت گردی کی جو کاشت کی اور دنیا بھر سے دہشت گردوں کو لا کر پاکستان میں جمع کیا اس کے نتیجے میں پاکستان بتدریج دہشت گردی کے گڑھ میں بدل گیا۔ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر بھی دنیا میں دہشت گردی کے فروغ کا ایک بڑا سبب ہیں۔ 9/11 کے بعد امریکا نے عراق اور افغانستان پر قبضہ کر کے دہشت گردی کو ایک مستقل بیماری کی شکل دی، چونکہ روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے امریکا نے پاکستان کو دہشت گردوں کا گڑھ بنا دیا تھا، بھارتی فوج کے کشمیریوں پر مظالم نے پاکستان میں دہشت گردی کے گڑھ کو اور مضبوط بنا دیا۔ اور المیہ یہ ہے کہ امریکا اور بھارت کی پیدا کردہ اس دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ملک خود پاکستان ہے۔
''بھارتی علماء'' نے ایک ٹاک شو میں پاکستانی دانشوروں سے یہ سوال پوچھا کہ کیا پاکستان کا وزیر اعظم فوج کی مرضی کے بغیر کوئی بڑا فیصلہ کر سکتا ہے؟ بلاشبہ پاکستان میں فوج سیاست دانوں اور حکمرانوں پر حاوی رہی ہے لیکن اس کا ایک سبب کشمیر کے حوالے سے ہندوستان کی غیر اخلاقی، غیر جمہوری اور غیر قانونی پالیسی رہی ہے۔ پاکستان کی فوج سمجھتی ہے کہ کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہر لحاظ سے غیر قانونی، غیر اخلاقی ہے، کشمیری عوام پر بھارتی فوج کے مظالم نے پاکستانی فوج کے ذہن میں یہ بات گہری کر دی کہ بھارت پاکستان سے اصولوں کے بجائے طاقت کی زبان میں بات کرتا ہے۔ پاکستانی فوج کے ذہنوں میں یہ تاثر بھی موجود ہے کہ سیاست دان مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کر سکتے اور کشمیری عوام کو بھارتی تسلط سے آزادی نہیں دلا سکتے۔ یہی وہ محرکات نظر آتے ہیں جو پاکستان میں فوج کی بالادستی میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں لیکن کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ مسئلہ کشمیر کو حل ہونے سے روکنے کا بھارت جس فوج پر الزام لگاتا ہے اسی فوج کے سربراہ نے آگرہ جا کر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کو ایسی پیش کش کی جس کے بارے میں کوئی پاکستانی سول حکمران سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اگر بھارت کا حکمران طبقہ اپنے ملک اور جنوبی ایشیا کے عوام کے ساتھ مخلص ہوتا تو جنرل مشرف کی غیر معمولی پیشکش سے فائدہ اٹھا کر مسئلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ ہو جاتا۔
بھارتی حکمرانوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ پاکستان نے کشمیر میں قبائلی لشکر بھیج کر کشمیر پر بھارتی تسلط کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ بھارت جب کشمیر پر اپنی مسلح فوج کے ذریعے قبضہ کرتا ہے تو اس متنازع علاقے کو ہندوستان سے آزاد کرانے کے لیے پاکستان کا کشمیر میں قبائلیوں کو بھیجنا کس طرح غیر اصولی کہلا سکتا ہے؟ بھارتی حکمرانوں کا موقف یہ ہے کہ ہری سنگھ کی تحریری درخواست پر کشمیر کو بھارت کا ایک حصہ بنا دیا گیا اور اب کشمیر بھارتی آئین کے تحت بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ پہلی بات یہ کہ کشمیر مسلم اکثریت کی ریاست ہے، اگر ہندو اکثریت کی ریاستوں حیدرآباد دکن، جوناگڑھ وغیرہ کے مسلم حکمرانوں کو بھارت یہ حق نہیں دیتا کہ وہ پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کریں تو کس منطق کی رو سے ہری سنگھ کو یہ حق دیا جا سکتا تھا کہ وہ مسلم اکثریتی ریاست کو ایک ہندو ملک میں شامل کر دے؟ بھارتی حکمران اگر عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کو جارحیت سمجھتے ہیں تو کشمیر پر ان کے فوجی قبضے کو جارحیت کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر پاکستان بھارت کے مقابل کا طاقتور ملک ہوتا تو بھارت کے حکمرانوں کو کشمیر پر قبضہ کرنے کی ہرگز جرأت نہ ہوتی۔ کشمیر پر بھارتی قبضہ ایک فوجی جارحیت اور جنگل کے قانون کے علاوہ کچھ نہیں۔