کچرے سے توانائی بنانے کے پلانٹ کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے علی زیدی

جب تک فنانشل مانیٹرنگ پالیسی بنا کر عمل درآمد نہیں ہوتا اسوقت تک کراچی پیکیج کے 162 ارب روپے جاری نہیں ہوں گے

جب تک فنانشل مانیٹرنگ پالیسی بنا کر عمل درآمد نہیں ہوتا اسوقت تک کراچی پیکیج کے 162 ارب روپے جاری نہیں ہوں گے (فوٹو: فائل)

وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے کہا ہے کہ کے پی ٹی سے ملحقہ علاقوں میں کچرے سے توانائی بنانے کے پلانٹ کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، ڈیپ سی فشنگ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا جا رہا ہے جبکہ مزدوروں کے ہاؤسنگ منصوبوں کے لیے کے پی ٹی اور پورٹ قاسم اتھارٹیز سے پالیسی مرتب کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

یہ بات انہوں نے ہفتے کو وفاق ایوان ہائے تجارت و صنعت پاکستان میں بائیو اکانومی کا پاکستان میں مستقبل کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ علی زیدی نے کہا کہ جب تک فنانشل مانیٹرنگ پالیسی بنا کر اس پرعمل درآمد نہیں ہوتا اس وقت تک کراچی کے لیے اعلان کردہ 162 ارب روپے کا فنڈ جاری نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پورٹ اتھارٹیز کے پلاٹوں کو سستے داموں خرید کر مہنگے داموں پر 99 سالہ لیز پر فروخت کی نشاندہی کے بعد دونوں پورٹ اتھارٹیز میں آڈٹ کا عمل مکمل ہونے تک تمام پلاٹس کی منتقلی کو روک دیا گیا ہے، کرپشن پر قابو پانے کے لیے کے پی ٹی اور پورٹ قاسم میں پلاٹ ٹرانسفر اور لیز کی شفاف پالیسی متعارف کرائی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کو اون کرتے ہوئے کچرا اٹھانے کی مہم شروع کی اور کراچی کو اون کرتے ہوئے کابینہ میں کراچی میں کوہاٹ کے مقابلے میں کم قیمت پر پیٹرول کی جنگ لڑ رہا ہوں کیوں کہ کراچی والوں کے لیے پیٹرول پر فریٹ کا خرچ نہیں ہے، وزارت بحری امور کا معیشت کے ہرشعبے سے براہ راست اور بالواسطہ تعلق ہے انرجی فیول امپورٹ کے تمام شعبوں کا تعلق بحری امور سے ہے۔


انہوں نے کہا کہ بندرگاہوں پر کنسائمنٹس پر اسکیننگ کے بغیر 5 ڈالرفی کنٹینر اسکیننگ چارجز کی وصولیاں بند کرادی گئی ہیں، وزارت بحری امور سمیت تمام وفاقی وزارتوں میں ای فائلنگ کا نظام متعارف کرایا جارہا ہے۔

علی زیدی نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کراچی کے مسائل پر توجہ دیئے بغیر بحال نہیں ہوسکتی، کراچی ایک پورٹ سٹی ہے اور پورٹ کو شہر نہیں بلکہ پورٹ شہر کو چلاتا ہے، بندرگاہوں میں آج تک کوئی سی ایس آر پالیسی نہیں بنائی گئی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ اور شہر کے انفرا اسٹرکچر کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے، سندھ حکومت نے کلین کراچی مہم کو ناکام بنانے کے لیے گاربیج ٹرانزٹ اسٹیشن کے غلط اعداد و شمار فراہم کیے، کراچی جنوبی میں کوئی ایک گاربیج ٹرانزٹ اسٹیشن نہیں ہے، صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ بھرپور تعاون کررہے ہیں جولائق تحسین ہے۔

علی زیدی نے کہا کہ تنقید کرنے والوں نے علی زیدی کو کچرا کنگ بنا ڈالا ہے، کراچی میں یومیہ صرف 40 ٹرکس کے ذریعے کچرے کو لینڈفل سائٹ پر اتارا جاسکتا ہے، صوبائی حکومت زیادہ کارکردگی ظاہر کرنے کے لیے کچرے کے ایک ٹرک کا 4 بار وزن کرکے کتاب میں درج کرتی ہے۔
Load Next Story