معاشرتی ناہمواریاں اور ہم…
ارسطو نے کہا تھا کہ اگر کسی معاشرے کے مزاج کا اندازہ لگانا ہو تو اس میں موجود افراد کے افعال پر غور کیا جائے۔
موجودہ جدید و ترقی یافتہ دور میں بے شمار اشیا کی فراہمی بے حد آسان ہوگئی، بالخصوص ان اشیا میں فحاشی کے حوالے سے ہر طرح کا مواد بھی ہے۔ قابل اعتراض ڈرامے، ناچ گانوں کے پروگرامز، اشتہارات میں عورت کو ماڈل بناکر پیش کرنا، بازار میں دستیاب فحش سی ڈیز یا پھر انٹرنیٹ پر موجود فحش مواد جس تک رسائی اب بہت آسان ہوگئی ہے اور بعض لوگ بارضا و رغبت اس سے بھرپور استفادہ کررہے ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہونے کے باوجود اس طرح کی معاشرتی ناہمواری کا شکار ہے اور یہاں بسنے والے بعض لوگ بھی ان ناہمواریوں کو پس پشت ڈال کر پیسہ کمانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارا معاشرہ بھی مغربی معاشرے کی طرح صرف اور صرف جسم تک محدود ہوکر رہ گیا ہے اور تمام توانائیاں فقط جسم کو پالنے میں صرف کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ جسموں سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ جس معاشرے میں رہنے والے افراد کا مطمع نظر اور مقصد حیات دو روٹی ہو تو وہاں تنظیم اور تخلیق کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
ارسطو نے کہا تھا کہ اگر کسی معاشرے کے مزاج کا اندازہ لگانا ہو تو اس میں موجود افراد کے افعال پر غور کیا جائے۔ ہمارے معاشرے میں چیزوں کے بارے میں غلط مفروضات قائم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرتی ناہمواریوں کے باعث بعض درندوں کی جانب سے حوا کی بیٹی کی عزت پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں ہم دیہاتی علاقوں میں وڈیروں، چوہدریوں وغیرہ یا ان کی اوباش اولاد کی درندہ صفت حرکتوں سے آشنا تھے لیکن اب صورت حال مختلف دکھائی دیتی ہے اور اس کا رخ ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں کی طرف ہوگیا ہے۔ ہمارے ملک میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں نظام کی خرابی کا رونا رویا جاتا ہے حالانکہ تحفظ نسواں کا مادر پدر آزاد قانون فحاشی اور عریانی پھیلانے کا باعث بن رہا ہے جس کی وجہ سے عورت مکمل طور پر غیر محفوظ ہوچکی ہے۔
مختاراں مائی سے شروع ہونے والا سلسلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور اب درندہ صفت افراد نے معصوم جانوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ لاہور کے علاقے مغل پورہ میں 5 سال کی بچی سنبل بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ سنبل کے والدین کی کیفیت کا اندازہ صرف اولاد والے ہی بہتر لگا سکتے ہیں۔ اس درندگی کے واقعے نے ہر صاحب دل کو تڑپا کر رکھ دیا۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ بچی کی حالت طبی اعتبار سے تو بہتر ہوجائے گی لیکن اس کی نفسیاتی کیفیت بہر حال بہت عرصے تک حل طلب معاملہ بنے رہے گی۔ اس کی ذہنی حالت کافی ناگفتہ بہ ہے۔ وہ کسی طرح سے بیان دینے کے قابل نہیں اور اگر اس سے واقعے کے متعلق سوالات کیے گئے تو ممکن ہے اس کی حالت مزید خراب ہوجائے۔ اطلاعات کے مطابق ڈاکٹرز اس بچی کا نفسیاتی علاج کررہے ہیں۔
سنبل کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہے ہی ایسا کہ جیسے کسی نے ہمارے معاشرے کے چہرے پر طمانچہ دے مارا ہو۔ اس واقعے کی مذمت کے لیے الفاظ بھی گویا ناپید ہوگئے ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت سیاسی پارٹیاں معاشرتی ناہمواری پر مظاہرے کررہی ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کو ملزمان کی فوری گرفتاری کی ہدایات دے دی ہیں جب کہ پولیس نے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 10 مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کرلیا لیکن ابھی تک مسئلہ حل نہیں ہوا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان کے سربراہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مغل پورہ واقعے کا از خود نوٹس لے لیا ہے اور تحقیقات کے احکامات بھی جاری کردیے ہیں۔
اگر ہم درندگی اور عصمت دری کے واقعات کا جائزہ لیں تو پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت میں سال 2012 میں جنسی زیادتی کے چھ سو واقعات ہوئے۔ دہلی میں 5 سالہ بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ ہوا تو وہاں کی پارلیمنٹ میں اس پر بحث چھڑ گئی اور مجموعی طور پر اس درندگی پر تشویش کا اظہار کیاگیا۔ ریاست مدھیہ پردیش میں مارچ 2013 میں سوئزر لینڈ سے آئی ہوئی سیاح لڑکی کے ساتھ چھ افراد نے اجتماعی زیادتی کی۔ دسمبر 2012 میں دہلی میں ہی چلتی ہوئی بس میں طالبہ کے ساتھ چھ افراد نے بربریت و درندگی کی عبرت ناک تاریخ رقم کی۔ ملوث افراد گرفتار کرکے جیل بھیج دیے گئے جس میں ایک نے جیل میں خودکشی کرلی جب کہ 4 کو پھانسی اور ایک کو نابالغ قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
پاکستان میں جرائم و زیادتی کے واقعات جس طرح سے عام ہورہے ہیں ان کی بے شمار وجوہات ہیں۔ جرائم میں اضافے کا ایک سبب موجودہ قوانین کا بھرپور طریقے سے اطلاق نہ ہونا بھی ہے۔ سال 2008 سے تا حال کسی مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ عناصر دندناتے پھررہے ہیں اور جرم کرنے والوں کی حوصلہ شکنی نہیں ہورہی۔
سماجی و حیاتی ریسرچ کے مطابق ہمارا معاشرہ نفسیاتی طور پر بیمار ہے۔ جرائم میں اضافے کا عمومی سبب ذہنی پراگندگی ہے۔ نفسیاتی اسباب کی وجہ سے عوام پریشانی کی کیفیت میں رہتے ہیں اور ان کی ذہانت کی سطح بالعموم گررہی ہوتی ہے اور وہ گمراہی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ سوجھ بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے وہ منشیات یا جرائم کا سہارا لیتے ہیں اور آہستہ آہستہ انسانی اقدار سے دور ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرتی ناہمواریاں جنم لیتی ہیں۔
دوسری جانب علمائے دین کا کہنا ہے کہ پاکستان جس کا وجود اسلام سے ممکن ہوا۔ یہاں کے بسنے والے افراد دین اور ایمان سے لاتعلق ہیں اور ان کی نفسیاتی کیفیت کا سب سے بڑا موجب قرآن و حدیث کی تعلیمات سے دوری ہے۔ ان کی عبادات میں اﷲ کی کبریائی کا فقط اعلان ہی باقی رہ گیا ہے۔ درحقیقت وہ اس لافانی تعلیمات اور اس کے فضائل سے نابلد ہیں۔
امر واقعی یہ ہے کہ ہمارے یہاں معاشرے میں پائی جانے والی خرافات پر قابو پایا جائے وگرنہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ ہے کہ مسائل اپنی آب و تاب سے بڑھتے چلے جائیںگے اور عوام تذبذب کا شکار رہیں گے اور اگر ان کو اس کیفیت سے باہر نکالنے کے اقدامات نہ کیے گئے تو قانون کا کردار معدوم ہوجائے گا اور پھر کسی قدر بھی زور لگا لیا جائے کوئی فرد یا ادارہ اپنی اصل کو نہیں پاسکتا۔