بلوچستان میں سیاسی مفادات کی جنگ…
بلوچستان کے حالات کی مذہب اور مسلک کے عمومی اختلافات کی روشنی میں شرح نہیں کی جاسکتی
بلوچستان اور بلوچ عوام کے لیے ہر پاکستانی کے دل میں محبت ہے اور اس بات کا احساس بھی کہ یہاں کے لوگوں کے ساتھ کئی سطح پر ظلم ہورہا ہے، ان کا استحصال کیا جا رہا ہے اور ان کا استحصال کرنے والے ایک طرف تو تنخواہ دار سردار ہیں تو دوسری طرف لڑائو اور حکومت کرتے رہو کی حکمت عملی پر چلنے والا وہ بورژوا طبقہ ہے جو سراپا کھوکھلا اورشدید احساس کمتری کا شکار ہو کر احساس برتری کا لبادہ پہنے اپنے ہی ہم وطنوں کی دستوری پر مامور ہے۔ اس طرح سے عالمی استحصالیوں نے پاکستان میں افتراق اور اختلاف پھیلا رکھا ہے اور کہیں نسلی تو کہیں مذہبی امتیازات کے لیے راہیں ہموار کر رہے ہیں، اس طرح سے پاکستان میں مختلف طبقہ و فرقہ بندیوں کو ابھارنے اور شدید کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔
میرا سیاسی شعور اس بات پر مصر ہے کہ یہ سب مابعد جدید تھیوری کے تحت پروان چڑھائی جانے والی مائیکرو پولیٹکس کی پالیسیوں کا عکس ہے۔ بڑی طاقتیں ہمارے اندرونی غداروں سے مل کر ایسے حالات پیدا کر رہی ہیں اور ایسے واقعات کو میڈیا کی مدد سے نمایاں کر رہی ہیں جن کی بنا پر دعویٰ کیا جاسکے کہ بلوچستان میں اپنے ہی پاکستان کے لوگوں کی نسل کشی کی جارہی ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بلوچستان میں لوگ نہیں مر رہے یا وہاں پر انتشار و تضادات موجود نہیں ہیں، مگر ان کی بنیادی وجہ مذہب یا مسلک نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ بلوچستان میں مسلکی فسادات کی وجہ سے لوگوں کو مارا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے بلوچ عوام میں نفرت پھیل رہی ہے، جو درحقیقت عوام سے زیادہ عطیات کے عادی سرداروں کی زر پرستانہ خواہشوں کا شاخسانہ ہے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اصل محرک بلوچستان کے قدرتی وسائل اور گوادر پورٹ ہے۔
بلوچستان کے حالات کی مذہب اور مسلک کے عمومی اختلافات کی روشنی میں شرح نہیں کی جاسکتی، کیونکہ ایسے مسائل ہر صحت مند معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور یہ ایک مثبت تعلق کی نشانی ہیں، اختلافات دو مختلف نظریات و مذہبی افکار کے گروہ کی کسی بھی سطح پر ہونے والے ربط میں موجود ہوتے ہیں جن کی شرح منفی سطح پر کرنا اپنے ہی سماج میں انتشار اور فرقہ واریت کے لیے راہ ہموار کرنے والی بات ہوتی ہے۔ تاریخ کی اہمیت اسی لیے کبھی ختم نہیں ہوگی کہ اس میں ہونے والے واقعات کی روشنی میں ہم کسی موجود لمحے کے مظاہر کے مستقبل کے نتائج یا سماجی حالات کے دھارے کا رخ پہچان سکتے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہمیں قیام پاکستان کی تاریخ کو نہیں بھولنا چاہیے۔ قیام پاکستان کی تحریک، جو درحقیقت انگریزوں سے برصغیر کی مجموعی آزادی کی تحریک تھی اس کو مکار دشمن نے بڑی مہارت سے رنگ و نسل اور مذہب کی جنگ میں تبدیل کر کے برصغیر کے عوام کو ایک دوسرے کا دشمن بنا ڈالا، برصغیر کی آزادی کی تحریک کو اغوا کیا گیا اور اس کو دولخت کرکے ہمارے اندر ہی سے ہمارا مخالف پیدا کیا گیا یعنی ''دوسرا''۔
ہیگل کے فلسفے کی روشنی میں آج ہم اس وقت کے حالات کا جائزہ لیں تو مکار انگریزوں کی چالیں واضح ہونے لگتی ہیں۔ برصغیر کی تقسیم ہوگئی، اب پاکستان ہمارا وطن ہے، ہماری شناخت ہے، ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہے، اس سے محبت بھی ہے، مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کس طرح سے برصغیر کے خوبصورت کثیر الثقافتی معاشرے کو سامراج نے اپنے مفادات کی خاطر ٹکڑوں میں کچھ اس طور تقسیم کیا کہ اس کا تقسیم در تقسیم کا سلسلہ رکنے میں ہی نہیں آرہا۔ بلوچستان کے حالات کو قیام پاکستان کی تحریک کی روشنی میں زیادہ بہتر سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ قیام پاکستان کی تحریک کے محرکات بھی بظاہر مذہبی تھے مگر درحقیقت سیاسی تھے اور مغرب ہی کے پیدا کردہ تھے۔ اسی طرح بلوچستان کے اندر جو انتشار ہے اس کی وجہ مذہب اور مسلک کے مسائل اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ہیں جتنے بڑے پیمانے پر ان کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بعض مزاحمت کاروں اور چند سرداروں کا علیحدگی کے مطالبے کو ان کی بنیاد سمجھ لیا جائے۔
سب جانتے ہیں کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور گوادر پورٹ جو ایشیا، عرب اور دنیا کی منڈیوں تک رسائی کا اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہے، بلوچستان میں فسادات کی اصل وجوہ ہیں۔ یہاں کے سرداروں کا مطالبہ حکومت پاکستان سے یہی رہا ہے کہ ان وسائل پر بلوچستان کا حق ہے لہٰذا ان کا کنٹرول بھی بلوچوں کے پاس ہونا چاہیے، دوسری طرف بلوچ سرداروں کے آپس میں بھی وسائل کی تقسیم پر اختلافات ہیں جن کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے مظاہرے کرتے ہیں جس کے نتیجے میں غریب عوام کو مارا جا رہا ہے۔ تیسرا مسئلہ بلوچستان میںایک برادری کا بھی ہے جو اپنی جڑیں بلوچستان سے ملحقہ ایرانی سرحدی علاقوں میں مقیم آبادی کے ساتھ سمجھتے ہیں۔ ان اندرونی حالات، اختلافات و انتشار پر عالمی استحصالی قوتوں کی گہری نظر ہے جو خود بھی بلوچستان کے وسائل پر قابض ہونے کے لیے کئی دہائیوں سے مختلف حربے آزما رہے ہیں۔ بلوچستان کے اندرونی سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مقامی سردار اپنے مفادات کی جنگ کو بیرونی قوتوں سے مل کر اندرونی انتشار کے نتیجے میں ہونے والے واقعات کو بلوچوں کی نسل کشی کا نام دیتے ہوئے علیحدگی کا مطالبہ کر رہے ہیں، ایسے میں سامراج مقامی باسیوں کے عمومی مذہبی اختلافات کو مسلکی فسادات کا نام دے کر علیحدگی کی تحریک کو مذہبی بنیادوں پر استحکام بخشنے کی پوری کوشش میں ہے۔
بلوچ عوام اپنے طاقتور سردار آقائوں کے خوف سے زبان نہیں کھولتے مگر ان کے مادی حالات نے ان کے سیاسی شعور کی پرورش کی ہے، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے علیحدگی کے مطالبے کو عام ذہن مذہب کے زیر اثر نہیں سمجھتے بلکہ ہر کوئی اس بات پر متفق نظر آتا ہے کہ بلوچستان کے قدرتی وسائل جو وہاں کے لوگوں کے لیے نعمت ہیں کس طرح سے ان کے لیے زحمت بن چکے ہیں جن کی تقسیم کے مسئلے پر اندرونی مفاد پرست بیرونی مفاد پرستوں سے مل کر پاکستان سے برسرِ پیکار ہیں۔ ان میں سرِفہرست بلوچ قبیلوں کے سردار ہیں ۔ ایسے میں حکومت پاکستان اور سیکیورٹی فورسز ان کو اپنے راہ کی رکاوٹ محسوس ہوتی ہیں جن کو اپنے راہ سے ہٹانے کے لیے ممکن ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کی بھر پور معاونت حاصل کر رہے ہوں۔ جس کے نتیجے میں امریکا کی اسمبلی میں بلوچستان کی علیحدگی کے حوالے سے قرارداد کی منظوری ان سرداروں کی سیاست گری کا کھلا ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی مداخلت کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ۔
استحصالی و استعماری قوتوں کا پہلا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ اس خطے میں ایسے حالات پیدا کردیں کہ جن میں ترقیاتی کام رک جائیں اور جس حد تک ممکن ہو اس خطے کو پس ماندہ رکھا جائے۔ بلوچستان کے یہی حالات ہیں اور ان کی ترقی کی راہ میں پہلی رکاوٹ وہاں کے استحصالی سردار خود رہے ہیں جن کے اکائونٹ رائلٹی سے بھرتے رہے اور انھوں نے اسی لیے اس خطے کی حالت نہیں بدلی کہ یہاں کا عام انسان ان کی بدعنوانیوں کو پہچاننے نہ لگے۔ بلوچستان کی تقسیم ان مسائل کا حل نہیں کیونکہ اس کے بعد خود بلوچ قبائل کی انھی مسائل اور قدرتی وسائل کے حصول کے لیے جنگ جاری رہے گی، تقسیم در تقسیم کا سلسلہ چلتا رہے گا جب تک کہ بدعنوانوں کو بلوچستان کی سماجی و سیاسی زندگی سے نکال باہر نہ کیا جائے۔ اس کا حل بہتر معاشی، تعلیمی و سماجی نظام ہے تقسیم نہیں ہے۔ بلاشبہ مختلف ممالک کی تاریخ بتاتی ہے کہ مذہب کے نام پر ہمیشہ سے مختلف سماج میں مسائل نے جنم لیا ہے مگر بلوچستان میں مذہب کم از کم موجودہ سیاسی منظرنامے میں اس کی علیحدگی کے مطالبے کا بنیادی محرک نہیں، بلکہ اس کی حیثیت ثانوی اور ایک جنگی ہتھیار کی سی ہے۔
میرا سیاسی شعور اس بات پر مصر ہے کہ یہ سب مابعد جدید تھیوری کے تحت پروان چڑھائی جانے والی مائیکرو پولیٹکس کی پالیسیوں کا عکس ہے۔ بڑی طاقتیں ہمارے اندرونی غداروں سے مل کر ایسے حالات پیدا کر رہی ہیں اور ایسے واقعات کو میڈیا کی مدد سے نمایاں کر رہی ہیں جن کی بنا پر دعویٰ کیا جاسکے کہ بلوچستان میں اپنے ہی پاکستان کے لوگوں کی نسل کشی کی جارہی ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بلوچستان میں لوگ نہیں مر رہے یا وہاں پر انتشار و تضادات موجود نہیں ہیں، مگر ان کی بنیادی وجہ مذہب یا مسلک نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ بلوچستان میں مسلکی فسادات کی وجہ سے لوگوں کو مارا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے بلوچ عوام میں نفرت پھیل رہی ہے، جو درحقیقت عوام سے زیادہ عطیات کے عادی سرداروں کی زر پرستانہ خواہشوں کا شاخسانہ ہے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اصل محرک بلوچستان کے قدرتی وسائل اور گوادر پورٹ ہے۔
بلوچستان کے حالات کی مذہب اور مسلک کے عمومی اختلافات کی روشنی میں شرح نہیں کی جاسکتی، کیونکہ ایسے مسائل ہر صحت مند معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور یہ ایک مثبت تعلق کی نشانی ہیں، اختلافات دو مختلف نظریات و مذہبی افکار کے گروہ کی کسی بھی سطح پر ہونے والے ربط میں موجود ہوتے ہیں جن کی شرح منفی سطح پر کرنا اپنے ہی سماج میں انتشار اور فرقہ واریت کے لیے راہ ہموار کرنے والی بات ہوتی ہے۔ تاریخ کی اہمیت اسی لیے کبھی ختم نہیں ہوگی کہ اس میں ہونے والے واقعات کی روشنی میں ہم کسی موجود لمحے کے مظاہر کے مستقبل کے نتائج یا سماجی حالات کے دھارے کا رخ پہچان سکتے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہمیں قیام پاکستان کی تاریخ کو نہیں بھولنا چاہیے۔ قیام پاکستان کی تحریک، جو درحقیقت انگریزوں سے برصغیر کی مجموعی آزادی کی تحریک تھی اس کو مکار دشمن نے بڑی مہارت سے رنگ و نسل اور مذہب کی جنگ میں تبدیل کر کے برصغیر کے عوام کو ایک دوسرے کا دشمن بنا ڈالا، برصغیر کی آزادی کی تحریک کو اغوا کیا گیا اور اس کو دولخت کرکے ہمارے اندر ہی سے ہمارا مخالف پیدا کیا گیا یعنی ''دوسرا''۔
ہیگل کے فلسفے کی روشنی میں آج ہم اس وقت کے حالات کا جائزہ لیں تو مکار انگریزوں کی چالیں واضح ہونے لگتی ہیں۔ برصغیر کی تقسیم ہوگئی، اب پاکستان ہمارا وطن ہے، ہماری شناخت ہے، ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہے، اس سے محبت بھی ہے، مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کس طرح سے برصغیر کے خوبصورت کثیر الثقافتی معاشرے کو سامراج نے اپنے مفادات کی خاطر ٹکڑوں میں کچھ اس طور تقسیم کیا کہ اس کا تقسیم در تقسیم کا سلسلہ رکنے میں ہی نہیں آرہا۔ بلوچستان کے حالات کو قیام پاکستان کی تحریک کی روشنی میں زیادہ بہتر سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ قیام پاکستان کی تحریک کے محرکات بھی بظاہر مذہبی تھے مگر درحقیقت سیاسی تھے اور مغرب ہی کے پیدا کردہ تھے۔ اسی طرح بلوچستان کے اندر جو انتشار ہے اس کی وجہ مذہب اور مسلک کے مسائل اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ہیں جتنے بڑے پیمانے پر ان کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بعض مزاحمت کاروں اور چند سرداروں کا علیحدگی کے مطالبے کو ان کی بنیاد سمجھ لیا جائے۔
سب جانتے ہیں کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور گوادر پورٹ جو ایشیا، عرب اور دنیا کی منڈیوں تک رسائی کا اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہے، بلوچستان میں فسادات کی اصل وجوہ ہیں۔ یہاں کے سرداروں کا مطالبہ حکومت پاکستان سے یہی رہا ہے کہ ان وسائل پر بلوچستان کا حق ہے لہٰذا ان کا کنٹرول بھی بلوچوں کے پاس ہونا چاہیے، دوسری طرف بلوچ سرداروں کے آپس میں بھی وسائل کی تقسیم پر اختلافات ہیں جن کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے مظاہرے کرتے ہیں جس کے نتیجے میں غریب عوام کو مارا جا رہا ہے۔ تیسرا مسئلہ بلوچستان میںایک برادری کا بھی ہے جو اپنی جڑیں بلوچستان سے ملحقہ ایرانی سرحدی علاقوں میں مقیم آبادی کے ساتھ سمجھتے ہیں۔ ان اندرونی حالات، اختلافات و انتشار پر عالمی استحصالی قوتوں کی گہری نظر ہے جو خود بھی بلوچستان کے وسائل پر قابض ہونے کے لیے کئی دہائیوں سے مختلف حربے آزما رہے ہیں۔ بلوچستان کے اندرونی سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مقامی سردار اپنے مفادات کی جنگ کو بیرونی قوتوں سے مل کر اندرونی انتشار کے نتیجے میں ہونے والے واقعات کو بلوچوں کی نسل کشی کا نام دیتے ہوئے علیحدگی کا مطالبہ کر رہے ہیں، ایسے میں سامراج مقامی باسیوں کے عمومی مذہبی اختلافات کو مسلکی فسادات کا نام دے کر علیحدگی کی تحریک کو مذہبی بنیادوں پر استحکام بخشنے کی پوری کوشش میں ہے۔
بلوچ عوام اپنے طاقتور سردار آقائوں کے خوف سے زبان نہیں کھولتے مگر ان کے مادی حالات نے ان کے سیاسی شعور کی پرورش کی ہے، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے علیحدگی کے مطالبے کو عام ذہن مذہب کے زیر اثر نہیں سمجھتے بلکہ ہر کوئی اس بات پر متفق نظر آتا ہے کہ بلوچستان کے قدرتی وسائل جو وہاں کے لوگوں کے لیے نعمت ہیں کس طرح سے ان کے لیے زحمت بن چکے ہیں جن کی تقسیم کے مسئلے پر اندرونی مفاد پرست بیرونی مفاد پرستوں سے مل کر پاکستان سے برسرِ پیکار ہیں۔ ان میں سرِفہرست بلوچ قبیلوں کے سردار ہیں ۔ ایسے میں حکومت پاکستان اور سیکیورٹی فورسز ان کو اپنے راہ کی رکاوٹ محسوس ہوتی ہیں جن کو اپنے راہ سے ہٹانے کے لیے ممکن ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کی بھر پور معاونت حاصل کر رہے ہوں۔ جس کے نتیجے میں امریکا کی اسمبلی میں بلوچستان کی علیحدگی کے حوالے سے قرارداد کی منظوری ان سرداروں کی سیاست گری کا کھلا ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی مداخلت کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ۔
استحصالی و استعماری قوتوں کا پہلا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ اس خطے میں ایسے حالات پیدا کردیں کہ جن میں ترقیاتی کام رک جائیں اور جس حد تک ممکن ہو اس خطے کو پس ماندہ رکھا جائے۔ بلوچستان کے یہی حالات ہیں اور ان کی ترقی کی راہ میں پہلی رکاوٹ وہاں کے استحصالی سردار خود رہے ہیں جن کے اکائونٹ رائلٹی سے بھرتے رہے اور انھوں نے اسی لیے اس خطے کی حالت نہیں بدلی کہ یہاں کا عام انسان ان کی بدعنوانیوں کو پہچاننے نہ لگے۔ بلوچستان کی تقسیم ان مسائل کا حل نہیں کیونکہ اس کے بعد خود بلوچ قبائل کی انھی مسائل اور قدرتی وسائل کے حصول کے لیے جنگ جاری رہے گی، تقسیم در تقسیم کا سلسلہ چلتا رہے گا جب تک کہ بدعنوانوں کو بلوچستان کی سماجی و سیاسی زندگی سے نکال باہر نہ کیا جائے۔ اس کا حل بہتر معاشی، تعلیمی و سماجی نظام ہے تقسیم نہیں ہے۔ بلاشبہ مختلف ممالک کی تاریخ بتاتی ہے کہ مذہب کے نام پر ہمیشہ سے مختلف سماج میں مسائل نے جنم لیا ہے مگر بلوچستان میں مذہب کم از کم موجودہ سیاسی منظرنامے میں اس کی علیحدگی کے مطالبے کا بنیادی محرک نہیں، بلکہ اس کی حیثیت ثانوی اور ایک جنگی ہتھیار کی سی ہے۔