دشمنوں سے ہوشیار

خود سی آئی اے کے کچھ ارکان اسے اسرائیل کی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔


عثمان دموہی September 29, 2019
[email protected]

NUSA DUA: پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی شکست کے بعد انگریزوں نے جزیرہ نما عرب سے سلطنت عثمانیہ کا کنٹرول ختم کرکے اسے کئی چھوٹی بڑی ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔ اس تقسیم سے ہی واضح ہوگیا تھا کہ وہ عربوں کوکمزور کرنے کے لیے یہ سازشی کارروائی کر رہے ہیں اور بعد میں ہوا بھی وہی جس کا خطرہ تھا۔

عربوں کی آپس میں نہ بنی اور وہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہوگئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انھیں سرزمین عرب پر اسرائیل کے ناسورکو ختم کرنے کے لیے اپنی متحدہ توانائیاں صرف کرنا چاہیے تھیں۔ اب اس وقت حال یہ ہے کہ سعودی عرب کی شام یمن اور قطر سے ان بن چل رہی تھی۔ شام پر اسی کی تائید میں مغربی ممالک نے حملہ کر دیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

سعودی عرب کے یمن سے تعلقات اس لیے خراب ہیں کہ وہ وہاں اپنی پسند کے شخص کو مسند صدارت پر بیٹھا دیکھنا چاہتا ہے۔ وہاں کے جنگجو سعودی عرب پر حملے کر رہے ہیں ، جن سے شاہی محلات اور تیل کی تنصیبات بھی محفوظ نہیں ہیں۔ سعودی حکومت نے دو سال قبل قطر سے اچانک ناتا توڑ لیا تھا ۔ قطر سے محاذ آرائی میں متحدہ عرب امارات سعودی عرب کے ساتھ ہے۔ سعودی عرب کے ایران کے ساتھ ویسے تو برسوں سے تلخ تعلقات چل رہے ہیں مگر چند برسوں سے دونوں ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ بیان بازی کر رہے ہیں جس کی اصل وجہ یمن کا مسئلہ ہے۔

اس کے علاوہ دونوں ممالک میں سی آئی اے اور موساد کی جانب سے پیدا کی جانے والی غلط فہمیاں بھی حالات خراب کر رہی ہیں۔ ان دونوں شیطانی خفیہ اداروں کا مقصد عربوں کو باہم لڑانے کے علاوہ سعودی عرب اور ایران میں باقاعدہ جنگ کرانا ہے۔ عربوں کے آپس کے نفاق کی وجہ سے ہی وہ 1967 میں اسرائیل سے شکست کھا گئے تھے۔ اس وقت اسرائیل ایک ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کے زیر سایہ روز بروز ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے۔ عرب ممالک اس سے اس قدر مرعوب ہوچکے ہیں کہ وہ مسئلہ فلسطین کو ہی بھول چکے ہیں اور اب اپنے اس ازلی دشمن سے دوستی کے طلب گار ہیں۔

بعض اطلاعات کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خفیہ طور پر اسرائیل سے تعلقات استوار کرچکے ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہوا ہے کیونکہ امریکا یہی چاہتا ہے اور دونوں ہی ممالک امریکا کو کسی بھی صورت میں ناراض کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ وہ امریکی ایما پر ہی بھارت سے اسٹرٹیجک تعلقات قائم کرچکے ہیں اور وہ بھارت کو خالص مسلم تنظیم او آئی سی میں بھی داخل کرانے کے لیے کوشاں ہیں اور حد تو یہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو مسلم امہ کا مسئلہ ہی تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ مودی جیسے فاشسٹ شخص کو ایوارڈ سے نوازنا مسلم امہ کو شدید صدمے سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نہ جانے کیوں یہ بھول رہے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ اسرائیل کی طرح بھارت بھی مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے۔ بھارت اورکشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم وستم سے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھل رہی ہیں۔ وہ امریکا پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کر رہے ہیں جب کہ امریکا کی پالیسی یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو عربوں پر حاوی کرانا چاہتا ہے اور اب تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل عربوں پرحاوی ہوچکا ہے۔

ایک وقت تھا جب لیبیا ، شام اور عراق اسرائیل کے لیے مسلسل خطرہ بنے ہوئے تھے وہ اتنی طاقت رکھتے تھے کہ اسرائیل کا مقابلہ کرسکتے تھے مگر سی آئی اے اور موساد نے ایسا کھیل کھیلا کہ ان تمام میں بغاوت پھیلا کر انھیں اپنے ہی عوام کے ہاتھوں تباہ و برباد کرا ڈالا۔ شام میں آگ اور خون کا کھیل اب بھی جاری ہے اب اسرائیل کو صرف ایران سے ہی خطرہ لاحق ہے۔ اس وقت صدر ٹرمپ اسرائیل نوازی میں تمام سابقہ امریکی صدور پر بازی لے گئے ہیں وہ متنازعہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔

اب ٹرمپ کا منصوبہ یہ ہے کہ کسی طرح سعودی عرب اور ایران میں جنگ کرا دی جائے تاکہ پورے مشرق وسطیٰ کو جنگ کے شعلوں میں دھکیل دیا جائے۔ اگر سعودی عرب اور ایران کی کبھی جنگ ہوئی تو سعودی عرب اور ایران کے حامی بھی خاموش نہیں رہ سکیں گے اور وہ بھی جنگ کا حصہ ضرور بنیں گے اس طرح ٹرمپ کی یہ شاطرانہ چال کہ عرب ممالک اور ایران خود ہی اپنی جنگ میں تباہ و برباد ہوجائیں کامیاب ہوسکتی ہے مگر اس کا دار و مدار اس پر ہے کہ وہ ٹرمپ کے بھڑکاوے میں نہ آئے۔

چند دن قبل سعودی عرب کے جنوب میں واقع اس کے تیل کے بڑے کنوؤں اور وہاں موجود ایک بڑی ریفائنری پرکئی ڈرونز حملے کیے گئے ہیں جن سے تیل کے کنوؤں کے ساتھ ساتھ ریفائنری میں بھی آگ لگنے سے بہت نقصان ہوا ہے اس سے نہ صرف سعودی عرب کی آمدنی پر اثر پڑا ہے بلکہ تیل کی عالمی سپلائی بھی متاثر ہوئی ہے جس کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔

یہ ایسا وقت ہے جب سعودی عرب کی معیشت خستہ حالی سے گزر رہی ہے کیونکہ اسے اپنے پڑوسیوں سے خطرے کے سبب جدید مہنگا اسلحہ خریدنا پڑ رہا ہے خاص طور پر یمن کا مسئلہ اس کے گلے کا ہار بن گیا ہے۔ حالیہ ڈرونز حملوں کی تباہی نے اسے مزید اسلحہ خریدنے کی جانب مائل کردیا ہے۔ اس وقت روس کی جانب سے اسے دفاعی نظام ایس فور ہنڈریڈ فروخت کرنے کی پیشکش کی گئی ہے اس نظام کی موثر کارکردگی کی وجہ سے ترکی اور بھارت پہلے ہی اسے خریدنے کے لیے روس کو آرڈر دے چکے ہیں۔

امریکی پیٹریاٹ میزائل کی ناکامی کے بعد سعودی حکومت ایس 400 دفاعی نظام کو ہی خریدنا چاہے گی مگر وہ شاید ایسا نہ کرسکے کیونکہ اس سے امریکا ناراض ہوگا اور وہ امریکا کی ناراضگی کا خطرہ کسی صورت مول نہیں لے سکتی۔ گوکہ سعودی حکومت امریکا کو اپنا جگری دوست خیال کرتی ہے مگر ٹرمپ کی عیاری دیکھیے کہ وہ سعودی عرب میں ہونے والے ڈرونز حملوں کو زبردستی ایران کی جانب سے کیے گئے حملے ثابت کرنے پر مصر ہے۔ اس نے اپنے خلائی سیارے کے ذریعے بھیجی گئیں تصاویر سے ڈرونز کے داغے جانے کی جگہ ایران کے جنوبی حصے کو قرار دیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سیٹلائٹ کا یہ خاکہ واضح نہیں ہے خود مغربی ماہرین اسے مشکوک قرار دے رہے ہیں۔ مگر ٹرمپ اور ان کے وزیر خارجہ مسٹر پومپیو اسے ایرانی کارروائی قرار دے کر سعودی عرب کو ایران پر حملہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ ایسے میں یورپ میں متعین ایک سعودی سفیر نے سعودی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہوشیار رہے اور کسی کے کہنے پر محاذ آرائی سے گریز کرے۔ اب تو برطانوی وزیر اعظم مسٹر بورس جانسن بھی ایران کو سعودی عرب پر ڈرون حملوں کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔ لگتا ہے برطانیہ عراق پر جس طرح مہلک ہتھیاروں کے رکھنے کے جھوٹے امریکی دعوے کی تصدیق کرکے عراق کی تباہی کا باعث بنا تھا اسی طرح اب وہ نہ صرف ایران بلکہ سعودی عرب کی بھی تباہی چاہتا ہے۔

ایسے ماحول میں سعودی عرب کو معاملات کا صحیح ادراک کرنا ہوگا اور امریکی ترغیب پر اسے ایران پر حملہ بہت مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ ایران کو بھی اب حوثی قبائل کو سعودی عرب پر حملوں سے باز رکھنا چاہیے۔ اس وقت تازہ خبر یہ ہے کہ حوثیوں نے سعودی عرب پر مزید حملے نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

ادھر ایران نے بھی سعودی حکومت کی جانب سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے سعودی حکومت کو بھی دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ایسا ہی کرنا چاہیے ساتھ ہی اسے اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کہیں ڈرون حملے اسرائیل کا کارنامہ تو نہیں ہیں واضح ہو کہ نائن الیون کے حملوں میں بھی اس کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے تھے مگر سی آئی اے نے جان بوجھ کر انھیں دبا دیا تھا۔ ابھی حال ہی میں وہائٹ ہاؤس کے احاطے میں آواز ریکارڈ کرنے والے خفیہ آلات پکڑے گئے ہیں۔

خود سی آئی اے کے کچھ ارکان اسے اسرائیل کی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں جب کہ دشمن خود آپس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہیں تو سعودی عرب کا ان پر اندھا بھروسہ کرنا خطرناک ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں