معاشرے کی زبوں حالی آخری حصہ
وقت ایسے ایسے سانحات سے آشنا کر رہا ہے جن کا تصور بھی سوہان روح سے کم نہیں۔
محدود آمدنی بھی انھیں اپنے ارادوں سے باز نہیں رکھتی ہے۔ دولت مند اور ان کی اولادیں دنیا کے تمام عیش و عشرت پر اپنا حق سمجھتی ہیں۔ ضرور سمجھیں لیکن اس قدر نہیں کہ افلاس زدہ لوگوں اور وہ بھی معصوم بچوں پر ظلم کی انتہا کردیں اور انھیں حشرات الارض سے بھی کمتر جان کر پیروں تلے مسل دیا جائے۔
اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنھیں نمبر 2 ذرائع سے دولت حاصل ہوئی ہے اور رزق حرام کھانے والوں کے مزاج میں سختی اور بے رحمی آجاتی ہے۔ اللہ کے ہر حکم میں حکمت پوشیدہ ہے جن کاموں کو منع کیا گیا ہے ان کے کرنے سے بہت سے نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔
آج کا دور افراتفری، خود غرضی اور تعیشات زندگی کے حصول کا دور ہے۔ اسلامی مساوات، پڑوسیوں اور رشتے داروں کے حقوق اور امداد باہمی کے جذبات سرد پڑ گئے ہیں اب اگر شاہراہوں، گلیوں اور محلوں میں ہونے والے ظلم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا ہے 20 سال قید میں رہنے والی لڑکی کی چیخوں اور دردناک آوازوں نے محلے والوں کی دل کی سختی کو نرم نہیں کیا کہ وہ ایک دن تھوڑا سا وقت نکال کر پولیس کو ہی فون کردیں یا کسی فلاحی ادارے کو، یہ پنجاب کا واقعہ ہے جہاں ظالم بھائیوں نے والدین کے انتقال کے بعد اپنی اکلوتی بہن کا خیال رکھنے کی بجائے کسی دوسرے گھر میں قید کردیا۔ ظالم بھائی کھانے کی پوٹلی دور سے پھینک جایا کرتے تھے غالباً کھڑکی سے، دروازہ کھولنے کی بھی زحمت نہیں کی گئی ۔
20-22 سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے اس عرصے میں وہ تڑپی، چیخی چلائی، کوئی مدد کو نہیں پہنچا، جب اپنے ہی سنگ دلی کا مظاہرہ کریں تو غیروں سے امید عبث ہے، اس زندان میں جسے اس کے سگے بھائیوں نے ڈالا تھا، وہاں کا پل پل اذیت ناک اور لہو لہو تھا کھانے پینے کا کسے ہوش، لہٰذا بے شمار کھانے کی تھیلیاں کھل بھی نہ سکیں لیکن جسے اللہ زندگی دے وہ ہر حال میں جینے پر مجبور ہوتا اس مظلوم و بے کس عورت کے جسم میں کیڑے پڑ گئے اور ہاتھ پیروں کے ناخن ایک، ڈیڑھ انچ سے زیادہ بڑھ چکے تھے، کوئی پرسان حال نہ تھا، بھائیوں نے اسے مارنے کی ایسی ترکیب سوچی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ بہرحال کہانی کا انجام مختلف ہوگیا وہ زندہ سلامت رہی اور بھائیوں کا جرم سامنے آگیا۔ انھوں نے محض جائیداد ہتھیانے کے لیے یہ وحشیانہ کھیل کھیلا تھا۔
بیس بائیس سالہ لڑکی چوالیس، پینتالیس کی عمر کو جب پہنچی تب اسے اس عذاب سے نجات مل سکی، عمر کا ایک خوبصورت حصہ زندان کی نذر ہوگیا، گزرے ہوئے ماہ و سال کبھی لوٹ کر نہیں آتے، یقینا اس عورت کو صحت مند زندگی کی طرف لوٹنے میں ایک عرصہ درکار ہوگا۔
وقت ایسے ایسے سانحات سے آشنا کر رہا ہے جن کا تصور بھی سوہان روح سے کم نہیں، حکمرانوں اور اہل اقتدار کی سفاکی اور ظلم پر حیرت ہوتی ہے سندھ کے سرکاری اسپتال کا ایک واقعہ حال ہی میں سامنے آیا ہے یہ لوگ زندگی میں بھی غیر انسانی سلوک کرتے ہیں اور بعدازمرگ بھی انسان کو انسان نہیں بلکہ جانور ہی سمجھتے ہیں ایک لاوارث شخص کو روڈ پر آخری غسل دیا جا رہا ہے، غسل دینے کا طریقہ بھی ملاحظہ فرمائیے، اسٹریچر پر مردہ شخص کو لٹا دیا گیا ہے اور اسپتال کا غالباً ملازم ہی قرآنی آیات کا ورد، جگہ گندی ایک منڈیر ہے جس پو ٹوٹا پھوٹا لوہے کا ایک کھانچا ہے اس پر اس بدنصیب کی لاش ہے پانی کھائی اور بدبودار نشیبی جگہ پر گر رہا ہے نہ صابن، نہ کافور اور عطر وقت رخصت ہی اسے پاکیزہ چیزوں سے نواز دیتے۔
اس طرح تو جنگلی جانور مثلاً ان کتے بلیوں کو نہلایا جاتا ہے جنھیں گلیوں سے پکڑتے ہیں یہ تو انسان تھا جس کی تعظیم اور عزت کا سبق اللہ اور اس کے رسول پاکؐ نے دیا ہے۔ وہ بھوکا، پیاسا افلاس زدہ انسان ہمیشہ کے لیے اپنی آخری منزل کی طرف روانہ ہو رہا ہے اس کے ساتھ یہ سلوک؟ سندھ کے اسپتالوں سے دوائیں غائب، ڈاکٹر غیر حاضر، اسپتال کے عملے کا پتا نہیں، جدید مشینری تو دور کی بات پرانی مشینری بھی اسی طرح غائب جس طرح میٹرو بسوں کی سیٹیں، ہینڈل انجن بلکہ میٹرو اسٹاپ بھی مع سیٹوں کے ساتھ غائب ہوگیا تھا یہی حال سرکاری اسپتالوں کا ہے لیکن ٹی وی چینلز پر آکر اپنے ان کارناموں کا ذکر کیا جاتا ہے جن کا سرے سے نام و نشان نہیں، پورا سندھ جہالت کی تاریکی میں غرق ہے۔ غربا اور مساکین کے لیے زندگی تنگ کردی گئی ہے۔ بجلی، پانی اور گیس جیسی نعمتوں سے گاؤں دیہات کے لوگ محروم تھے ہی اب زندگی کو بچانے کا مسئلہ درپیش ہے۔
حال ہی میں شکارپور کے ایک خاندان کا چراغ اس وقت گل ہوگیا جب ان کے 10 سالہ بچے کو باؤلے کتے نے کاٹ لیا کتے کا زہر اتنی تیزی سے پھیلا کہ زندگی کے لالے پڑ گئے، والدین اپنے بچے کو مختلف اسپتالوں میں لے کر آگئے تاکہ زندگی کا دیا جلتا رہے، جب شفا نصیب نہ ہوئی تب لاڑکانہ کے بے نظیر اسپتال میں پہنچے لیکن افسوس صد افسوس بلکہ قابل شرم یہ حقیقت سامنے آئی کہ دوسرے اسپتالوں کی طرح اس اسپتال میں بھی سرے سے ویکسین نہیں ہے اس طرح ماں باپ کے سامنے بچے نے آخری سانسیں لیں اور اس دھرتی سے رخصت ہوا جہاں خیرات زکوٰۃ کی رقم بھی بینکوں میں جمع ہوجاتی ہے۔
ڈنگی کا مرض نہ کہ سندھ میں بلکہ پنجاب میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے اور مریض بڑھتے جا رہے ہیں، اموات میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی میں تو جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، بدبو، تعفن پھیلا ہوا ہے، پوش علاقوں کو حکمرانوں کی بداعمالیوں نے کچرا کنڈی بنادیا ہے۔ دو چار جگہوں کے علاوہ کراچی غلاظت میں بدل گیا ہے اس طرح مختلف بیماریاں تیزی سے وجود میں آئی ہیں جن میں ڈنگی بخار سبقت لے گیا ہے۔ شہر قائد کو صاف کرنے کے وعدے تو صاحب اقتدار روز ہی کرتے ہیں اور ایک ماہ کی مدت بھی لیتے ہیں لیکن مہینہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
اگر کراچی کو میئر وسیم اختر سابق میئر مصطفیٰ کمال کو ذمے داری دے کر واپس نہ لیتے تو کراچی صاف ہوچکا ہوتا، لیکن کیا کیا جائے سیاست، مصلحت اور خوف آڑے آگیا، وسوسوں نے فیصلہ بدلنے پر مجبور کردیا اور ادھر سابق میئر مصطفیٰ کمال کے منصوبے بھی خاک میں مل گئے کہ انھیں بھی اپنی کارکردگی دکھانے کا ایک اچھا موقع ملا تھا یہ موقع ہوسکتا ہے انھیں کہاں سے کہاں پہنچا دیتا بہرحال اکھاڑے میں کھیلنے والے پہلوانوں کی طرح سیاست میں بھی داؤ پیچ ہوتے ہیں جب چاہتے ہیں یہ حضرات پینترا بدل لیتے ہیں لیکن آپس کے اختلافات میں شہری پس رہے ہیں اور حکمران ہر حال میں مزے میں ہیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مزے عارضی ہوں اور دوسروں کی طرح انھیں بھی بدمزگی کا شکار ہونا پڑے، ڈنگی مرض نے پنجاب کے مختلف شہروں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے وہاں کچرا نہیں تو برسات کے کھڑے پانی نے ڈنگی کی خوب افزائش کی اور اب یہ فیصل آباد، ملتان اور دوسری جگہوں کے رہائشیوں کو بیماری میں مبتلا کرکے موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔
پنجاب میں پتوکی کے علاقے میں تین بچوں کی ہلاکت نے ہر شخص کو غمزدہ کردیا۔ تین بچوں کی لاشیں جن میں ایک بچے کی لاش سالم اور دوسرے دو بچوں کی باقیات ملیں، کہاں ہیں صوبہ پنجاب کے پولیس اہلکار، گشتی پولیس اور دوسرے ذمے داران جنھوں نے مختلف علاقوں اور شہروں کو لاوارث چھوڑ دیا ہے جنگلی آتے ہیں اور بچے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بے شک سفاکی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے لیے لمحہ فکریہ ہے، جس طرح سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے لیے کڑا وقت ہے، اقتدار میں آتے ہی مقتدر حضرات سب کچھ بھول جاتے ہیں، اللہ کا خوف بھی دل سے جاتا رہتا ہے اور وقتی کامیابی اور خوشی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ لیکن اپنا بویا ہوا کاٹنا ضرور پڑتا ہے یہ قانون قدرت ہے۔
اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنھیں نمبر 2 ذرائع سے دولت حاصل ہوئی ہے اور رزق حرام کھانے والوں کے مزاج میں سختی اور بے رحمی آجاتی ہے۔ اللہ کے ہر حکم میں حکمت پوشیدہ ہے جن کاموں کو منع کیا گیا ہے ان کے کرنے سے بہت سے نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔
آج کا دور افراتفری، خود غرضی اور تعیشات زندگی کے حصول کا دور ہے۔ اسلامی مساوات، پڑوسیوں اور رشتے داروں کے حقوق اور امداد باہمی کے جذبات سرد پڑ گئے ہیں اب اگر شاہراہوں، گلیوں اور محلوں میں ہونے والے ظلم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا ہے 20 سال قید میں رہنے والی لڑکی کی چیخوں اور دردناک آوازوں نے محلے والوں کی دل کی سختی کو نرم نہیں کیا کہ وہ ایک دن تھوڑا سا وقت نکال کر پولیس کو ہی فون کردیں یا کسی فلاحی ادارے کو، یہ پنجاب کا واقعہ ہے جہاں ظالم بھائیوں نے والدین کے انتقال کے بعد اپنی اکلوتی بہن کا خیال رکھنے کی بجائے کسی دوسرے گھر میں قید کردیا۔ ظالم بھائی کھانے کی پوٹلی دور سے پھینک جایا کرتے تھے غالباً کھڑکی سے، دروازہ کھولنے کی بھی زحمت نہیں کی گئی ۔
20-22 سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے اس عرصے میں وہ تڑپی، چیخی چلائی، کوئی مدد کو نہیں پہنچا، جب اپنے ہی سنگ دلی کا مظاہرہ کریں تو غیروں سے امید عبث ہے، اس زندان میں جسے اس کے سگے بھائیوں نے ڈالا تھا، وہاں کا پل پل اذیت ناک اور لہو لہو تھا کھانے پینے کا کسے ہوش، لہٰذا بے شمار کھانے کی تھیلیاں کھل بھی نہ سکیں لیکن جسے اللہ زندگی دے وہ ہر حال میں جینے پر مجبور ہوتا اس مظلوم و بے کس عورت کے جسم میں کیڑے پڑ گئے اور ہاتھ پیروں کے ناخن ایک، ڈیڑھ انچ سے زیادہ بڑھ چکے تھے، کوئی پرسان حال نہ تھا، بھائیوں نے اسے مارنے کی ایسی ترکیب سوچی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ بہرحال کہانی کا انجام مختلف ہوگیا وہ زندہ سلامت رہی اور بھائیوں کا جرم سامنے آگیا۔ انھوں نے محض جائیداد ہتھیانے کے لیے یہ وحشیانہ کھیل کھیلا تھا۔
بیس بائیس سالہ لڑکی چوالیس، پینتالیس کی عمر کو جب پہنچی تب اسے اس عذاب سے نجات مل سکی، عمر کا ایک خوبصورت حصہ زندان کی نذر ہوگیا، گزرے ہوئے ماہ و سال کبھی لوٹ کر نہیں آتے، یقینا اس عورت کو صحت مند زندگی کی طرف لوٹنے میں ایک عرصہ درکار ہوگا۔
وقت ایسے ایسے سانحات سے آشنا کر رہا ہے جن کا تصور بھی سوہان روح سے کم نہیں، حکمرانوں اور اہل اقتدار کی سفاکی اور ظلم پر حیرت ہوتی ہے سندھ کے سرکاری اسپتال کا ایک واقعہ حال ہی میں سامنے آیا ہے یہ لوگ زندگی میں بھی غیر انسانی سلوک کرتے ہیں اور بعدازمرگ بھی انسان کو انسان نہیں بلکہ جانور ہی سمجھتے ہیں ایک لاوارث شخص کو روڈ پر آخری غسل دیا جا رہا ہے، غسل دینے کا طریقہ بھی ملاحظہ فرمائیے، اسٹریچر پر مردہ شخص کو لٹا دیا گیا ہے اور اسپتال کا غالباً ملازم ہی قرآنی آیات کا ورد، جگہ گندی ایک منڈیر ہے جس پو ٹوٹا پھوٹا لوہے کا ایک کھانچا ہے اس پر اس بدنصیب کی لاش ہے پانی کھائی اور بدبودار نشیبی جگہ پر گر رہا ہے نہ صابن، نہ کافور اور عطر وقت رخصت ہی اسے پاکیزہ چیزوں سے نواز دیتے۔
اس طرح تو جنگلی جانور مثلاً ان کتے بلیوں کو نہلایا جاتا ہے جنھیں گلیوں سے پکڑتے ہیں یہ تو انسان تھا جس کی تعظیم اور عزت کا سبق اللہ اور اس کے رسول پاکؐ نے دیا ہے۔ وہ بھوکا، پیاسا افلاس زدہ انسان ہمیشہ کے لیے اپنی آخری منزل کی طرف روانہ ہو رہا ہے اس کے ساتھ یہ سلوک؟ سندھ کے اسپتالوں سے دوائیں غائب، ڈاکٹر غیر حاضر، اسپتال کے عملے کا پتا نہیں، جدید مشینری تو دور کی بات پرانی مشینری بھی اسی طرح غائب جس طرح میٹرو بسوں کی سیٹیں، ہینڈل انجن بلکہ میٹرو اسٹاپ بھی مع سیٹوں کے ساتھ غائب ہوگیا تھا یہی حال سرکاری اسپتالوں کا ہے لیکن ٹی وی چینلز پر آکر اپنے ان کارناموں کا ذکر کیا جاتا ہے جن کا سرے سے نام و نشان نہیں، پورا سندھ جہالت کی تاریکی میں غرق ہے۔ غربا اور مساکین کے لیے زندگی تنگ کردی گئی ہے۔ بجلی، پانی اور گیس جیسی نعمتوں سے گاؤں دیہات کے لوگ محروم تھے ہی اب زندگی کو بچانے کا مسئلہ درپیش ہے۔
حال ہی میں شکارپور کے ایک خاندان کا چراغ اس وقت گل ہوگیا جب ان کے 10 سالہ بچے کو باؤلے کتے نے کاٹ لیا کتے کا زہر اتنی تیزی سے پھیلا کہ زندگی کے لالے پڑ گئے، والدین اپنے بچے کو مختلف اسپتالوں میں لے کر آگئے تاکہ زندگی کا دیا جلتا رہے، جب شفا نصیب نہ ہوئی تب لاڑکانہ کے بے نظیر اسپتال میں پہنچے لیکن افسوس صد افسوس بلکہ قابل شرم یہ حقیقت سامنے آئی کہ دوسرے اسپتالوں کی طرح اس اسپتال میں بھی سرے سے ویکسین نہیں ہے اس طرح ماں باپ کے سامنے بچے نے آخری سانسیں لیں اور اس دھرتی سے رخصت ہوا جہاں خیرات زکوٰۃ کی رقم بھی بینکوں میں جمع ہوجاتی ہے۔
ڈنگی کا مرض نہ کہ سندھ میں بلکہ پنجاب میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے اور مریض بڑھتے جا رہے ہیں، اموات میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی میں تو جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، بدبو، تعفن پھیلا ہوا ہے، پوش علاقوں کو حکمرانوں کی بداعمالیوں نے کچرا کنڈی بنادیا ہے۔ دو چار جگہوں کے علاوہ کراچی غلاظت میں بدل گیا ہے اس طرح مختلف بیماریاں تیزی سے وجود میں آئی ہیں جن میں ڈنگی بخار سبقت لے گیا ہے۔ شہر قائد کو صاف کرنے کے وعدے تو صاحب اقتدار روز ہی کرتے ہیں اور ایک ماہ کی مدت بھی لیتے ہیں لیکن مہینہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
اگر کراچی کو میئر وسیم اختر سابق میئر مصطفیٰ کمال کو ذمے داری دے کر واپس نہ لیتے تو کراچی صاف ہوچکا ہوتا، لیکن کیا کیا جائے سیاست، مصلحت اور خوف آڑے آگیا، وسوسوں نے فیصلہ بدلنے پر مجبور کردیا اور ادھر سابق میئر مصطفیٰ کمال کے منصوبے بھی خاک میں مل گئے کہ انھیں بھی اپنی کارکردگی دکھانے کا ایک اچھا موقع ملا تھا یہ موقع ہوسکتا ہے انھیں کہاں سے کہاں پہنچا دیتا بہرحال اکھاڑے میں کھیلنے والے پہلوانوں کی طرح سیاست میں بھی داؤ پیچ ہوتے ہیں جب چاہتے ہیں یہ حضرات پینترا بدل لیتے ہیں لیکن آپس کے اختلافات میں شہری پس رہے ہیں اور حکمران ہر حال میں مزے میں ہیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مزے عارضی ہوں اور دوسروں کی طرح انھیں بھی بدمزگی کا شکار ہونا پڑے، ڈنگی مرض نے پنجاب کے مختلف شہروں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے وہاں کچرا نہیں تو برسات کے کھڑے پانی نے ڈنگی کی خوب افزائش کی اور اب یہ فیصل آباد، ملتان اور دوسری جگہوں کے رہائشیوں کو بیماری میں مبتلا کرکے موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔
پنجاب میں پتوکی کے علاقے میں تین بچوں کی ہلاکت نے ہر شخص کو غمزدہ کردیا۔ تین بچوں کی لاشیں جن میں ایک بچے کی لاش سالم اور دوسرے دو بچوں کی باقیات ملیں، کہاں ہیں صوبہ پنجاب کے پولیس اہلکار، گشتی پولیس اور دوسرے ذمے داران جنھوں نے مختلف علاقوں اور شہروں کو لاوارث چھوڑ دیا ہے جنگلی آتے ہیں اور بچے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بے شک سفاکی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے لیے لمحہ فکریہ ہے، جس طرح سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے لیے کڑا وقت ہے، اقتدار میں آتے ہی مقتدر حضرات سب کچھ بھول جاتے ہیں، اللہ کا خوف بھی دل سے جاتا رہتا ہے اور وقتی کامیابی اور خوشی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ لیکن اپنا بویا ہوا کاٹنا ضرور پڑتا ہے یہ قانون قدرت ہے۔