جب پرندوں کو طیش آیا
چڑیاں اورتتلیاں ظالم و جاہل آدمی کے ہاتھ کو پکڑ نہیں سکتیں کہ ہوا میں زہر مت گھولو اور زمین پر زندگی کو اجیرن مت بناؤ۔
BHUBANESWAR, INDIA:
پرندوں کا قصہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جب میں نے الف لیلہ اور پھر کرشن چندر کی لکھی ہوئی چڑیوں کی الف لیلہ کو پڑھا۔ ایک بغداد کا قصہ تھا۔ قدیم دور کے بادشاہ اور شہزادے تھے۔ ان کی کہانی کچھ یوں شروع ہوتی تھی کہ ''درختوں پر رنگ رنگ کے پرندے چہچہا رہے تھے اور ہر قسم کا سامان آرائش موجود تھا۔ وہاں پر زر و جواہر کی بھی کمی نہ تھی اور کہیں آدم زاد کا پتا نہ تھا۔ بادشاہ حیران پریشان ہر طرف دیکھ رہا تھا۔''
یوں یہ کہانی شروع ہوتی ہے اور چلتی جاتی ہے۔ یہ الف لیلہ کی کہانی ہے اور یوں ہی چڑیوں کی الف لیلہ ہے جس میں ہر طرف چڑیاں چہکتی ہیں۔ یہ نئی الف لیلہ ہمارے ایک بڑے ادیب کرشن چندر نے لکھی تھی۔ یہ نوعمری کے وہ دن تھے جب ہر کہانی دل پر اثر کرتی تھی۔ اس زمانے میں اتنے بڑے بڑے پرندے تھے جو انسانوں کو اپنے پنجوں میں دبا کر اڑ جاتے تھے اور انھیں کوہ قاف کی، دریاؤں اور جنگلوں کی سیر کراتے تھے۔
میں جس دور میں پیدا ہوئی اس میں چڑیوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ صبح دم آنکھ ان کی چہکار سے کھلتی اور شام ڈھلے پلنگ پر لیٹ کر ان کی ڈار کو دیکھتی جو اپنے آشیانوں کو لوٹ رہی ہوتی۔ وہ ایک اداس کرنے والا منظر ہوتا تھا۔ اسی زمانے میں الفرڈ ہچکاک کی فلم ''پرندے'' شہر میں آئی اور اس نے ایک تہلکہ مچا دیا۔ یہ ڈیفنی ڈومارئیر کی کہانی تھی جسے ہچکاک ایسے شہرہ آفاق فلم ساز نے سلو لائیڈ کے فیتے پر اتار تھا۔ یہ چھوٹی چھوٹی چڑیوں کو خریدنے اور انھیں پنجروں میں بند کر کے اپنے دوستوں کو تحفے میں دینے کا قصہ ہے۔ یہیں سے ان پرندوں کو طیش آتا ہے جو آزاد فضا میں اڑنا چاہتے ہیں لیکن انسان انھیں پنجروں میں قید کر کے انھیں تحفے میں دیتے ہیں۔
یہ امریکا کے ایک چھوٹے سے قصبے کی کہانی ہے جس میں پرندے اپنی قید کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ باغی انسانوں کی طرح انسانوں پر حملہ کرتے ہیں۔ وہ گاڑیوں پر ہجوم کرتے ہیں تو ونڈ اسکرین چٹخ جاتے ہیں۔ انسان جو ہنستے مسکراتے ہوئے شست باندھتے ہیں اور اپنی انگلی کی ایک جنبش سے انھیں شکار کر لیتے ہیں، اب ان سے خوف زدہ ہیں۔ گاڑیاں گھروں کے موٹر خانے میں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ کمروں کی کھڑکیاں لکڑیوں کے تختوں سے ٹھونک کر بند کی جا رہی ہیں۔ اس کے باوجود پرندے لوگوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور میخوں کو اپنی جگہ سے ہلائے دے رہے ہیں۔
میخیں کمزور پڑتیں تو ان پرندوں کا نیا پرا حملہ آور ہوتا اور لکڑی کے تختوں کو ادھیڑ دیتا ہے۔ کمروں میں گھس آتا ہے، انسانی چہروں پر حملہ آور ہوتا ہے اور وہ آنکھیں جن سے انسان ان کا نشانہ لیتے تھے، ان ہی آنکھوں کو حلقۂ چشم سے نوچ لیا جاتا ہے۔ ایک دہشت ناک منظر جسے دیکھ کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے۔ ایک ایسی صورتحال جس کے بارے میں انسان نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ یہ طاقتور پر کمزور کی فتح کا قصہ تھا۔
اور اب جو خبریں آ رہی ہیں وہ ہچکاک کی فلم سے بالکل مختلف ہیں۔ محکوم اپنے حاکموں سے بے زار ہیں، اتنے بے زار کہ وہ ان کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتے۔ شاید انھیں احساس ہوگیا ہے کہ ان کے حاکموں پر کوئی بڑی آفت آنے والی ہے، جس طرح زلزلہ آنے سے پہلے پرندوں اور جانوروں کو احساس ہونے لگتا ہے کہ بری گھڑی سر پر کھڑی ہے اور وہ اپنے پنجروں میں پھڑپھڑانے لگتے ہیں، چوپائے اپنے باڑوں سے نکل بھاگنے کے لیے بے قرار ہوجاتے ہیں۔
ہمارے یہاں کیا الف لیلہ اور کیا منطق الطیر، برقعے میں پرندے ہیں بہ طور خاص حضرت فرید الدین عطار کی عالمی شہرت یافتہ مثنوی ''منطق الطیر'' میں تو سارا قصہ ہی پرندوں کا ہے لیکن یہ وہ پرندے ہیں جو تلاش کے سفر پر ہیں اور آخر کار اپنی تلاش میں کامیاب ہوتے ہیں۔
لیکن اس وقت زیر بحث وہ اربوں پرندے ہیں جو چند دنوں پہلے اپنے اپنے ٹھکانوں سے اڑے اور جانے کہاں پرواز کرگئے۔ اس بارے میں بی بی سی اور دیگر تمام ادارے بہت پریشان ہیں۔ پرند، چرند، پھول، پودے یہ سب اس حیاتیاتی زنجیر کی کڑی ہیں جن سے انسان بھی جڑا ہوا ہے۔ ان کا یہ سوال ہے کہ اگر یہ پرندے ہم سے ناراض ہوگئے ہیں تو یہ کوئی غیر اہم بات نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود انسانی جان کو اور اس کرہ ارض کو خطرہ ہے۔ ہم نے اپنی حرکتوں سے اس کرہ ارض کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔
یہ کوئی معمولی نہیں خود انسان کی جان کو خطرہ ہے۔ آیندہ کیا ہونے والا ہے، اس بارے میں ہم نہیں جانتے لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد سے ہم نے حشرات الارض کو ہلاک کرنے کے لیے جو زہریلی دوائیں استعمال کیں اور آج بھی استعمال کر رہے ہیں، انھوں نے ایک طرف انسان کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کیا، دوسری طرف پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ہزاروں پرندے اور کیڑے مکوڑے معدوم ہوچکے ہیں۔
ہم جن کیڑوں کو اپنی فصلوں کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے، وہ ختم ہوئے اور ان کے ساتھ ہی نہ جانے کتنے کیڑے مکوڑے ختم ہوئے جو حیاتیاتی توازن قائم رکھتے تھے۔ ہم صرف اپنے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔ اس بارے میں ہم نے غور نہیں کیا کہ جب ہماری جھیلوں سے مرغابیاں، بگلے اور اسی نوعیت کے دوسرے آبی پرندے معدوم ہوجائیں گے تو ہمارا کیا ہوگا۔ اس دنیا کا کیا ہوگا جو ایک سرسبز اور شاداب پناہ گاہ کے طور پر ہمارے سپرد کی گئی تھی۔
کارل زیمیئر نے ایک بہت دل زدہ کردینے والی رپورٹ مرتب کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گوریا، فاختہ، کبوتر اور مینائیں جن کے نغموں سے ہماری سماعتیں آسودہ رہتی تھیں، وہ بلبلیں اور حد تو یہ ہے کہ وہ کوے جن کی آواز ہمیں ناگوار گزرتی تھی، وہ بھی کہیں کھو گئے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ ان کی کائیں کائیں اور چیلوں کی کرخت آواز بھی ہمیں سنائی دے، اس لیے کہ یہ سب ہماری فطرت کا حصہ ہیں۔ ان کے بغیر ہر طرف سناٹا ہوگا۔ ہمارے یہاں ترک وطن کرنے پر مجبور ہونے والے انسانوں کی داستانِ غم بیان کی جاتی ہے، کوئی یہ نہیں سوچتا کہ جب ترکِ دنیا کرنے والے ان پرندوں کی رخصت کا ہمیں احساس ہوگا تو اس وقت ہر طرف کیسا سناٹا ہوگا۔
کئی برس پہلے کے ''سویرا'' میں صلاح الدین محمود کا ایک مضمون شایع ہوا تھا جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں چڑیاں، تتلیاں اور مچھلیاں اجتماعی خود کشی کر رہی ہیں۔ ناصر کاظمی نے لکھا تھا:
اڑ گئے یہ شاخ سے کہہ کر طیور
اس گلستان کی ہوا میں زہر ہے
مگر وہ اڑ کر کہاں جائیں۔ آدمی کے ہاتھوں ساری دنیا کی ہوا میں زہر گھل چکا ہے۔ چڑیاں اورتتلیاں ظالم و جاہل آدمی کے ہاتھ کو پکڑ نہیں سکتیں کہ ہوا میں زہر مت گھولو اور زمین پر زندگی کو اجیرن مت بناؤ۔ ان کا مقدور تو اتنا ہی ہے کہ کوئلیں ناخوش ہوکر کوکنا بند کردیں۔ چڑیاں اور تتلیاں اس مسموم فضا سے بے زار ہوکر خودکشی کرلیں۔ ایک حساس تتلی اور چہکتی چڑیا انسان کے ظلم و جہل کا ویسے تو کوئی جواب نہیں دے سکتی۔''
یا پھر ہم الفرڈ ہچکاک کے پرندوں کو آواز دیں کہ وہ آئیں اور ہم انسانوں سے بغاوت کریں۔
پرندوں کا قصہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جب میں نے الف لیلہ اور پھر کرشن چندر کی لکھی ہوئی چڑیوں کی الف لیلہ کو پڑھا۔ ایک بغداد کا قصہ تھا۔ قدیم دور کے بادشاہ اور شہزادے تھے۔ ان کی کہانی کچھ یوں شروع ہوتی تھی کہ ''درختوں پر رنگ رنگ کے پرندے چہچہا رہے تھے اور ہر قسم کا سامان آرائش موجود تھا۔ وہاں پر زر و جواہر کی بھی کمی نہ تھی اور کہیں آدم زاد کا پتا نہ تھا۔ بادشاہ حیران پریشان ہر طرف دیکھ رہا تھا۔''
یوں یہ کہانی شروع ہوتی ہے اور چلتی جاتی ہے۔ یہ الف لیلہ کی کہانی ہے اور یوں ہی چڑیوں کی الف لیلہ ہے جس میں ہر طرف چڑیاں چہکتی ہیں۔ یہ نئی الف لیلہ ہمارے ایک بڑے ادیب کرشن چندر نے لکھی تھی۔ یہ نوعمری کے وہ دن تھے جب ہر کہانی دل پر اثر کرتی تھی۔ اس زمانے میں اتنے بڑے بڑے پرندے تھے جو انسانوں کو اپنے پنجوں میں دبا کر اڑ جاتے تھے اور انھیں کوہ قاف کی، دریاؤں اور جنگلوں کی سیر کراتے تھے۔
میں جس دور میں پیدا ہوئی اس میں چڑیوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ صبح دم آنکھ ان کی چہکار سے کھلتی اور شام ڈھلے پلنگ پر لیٹ کر ان کی ڈار کو دیکھتی جو اپنے آشیانوں کو لوٹ رہی ہوتی۔ وہ ایک اداس کرنے والا منظر ہوتا تھا۔ اسی زمانے میں الفرڈ ہچکاک کی فلم ''پرندے'' شہر میں آئی اور اس نے ایک تہلکہ مچا دیا۔ یہ ڈیفنی ڈومارئیر کی کہانی تھی جسے ہچکاک ایسے شہرہ آفاق فلم ساز نے سلو لائیڈ کے فیتے پر اتار تھا۔ یہ چھوٹی چھوٹی چڑیوں کو خریدنے اور انھیں پنجروں میں بند کر کے اپنے دوستوں کو تحفے میں دینے کا قصہ ہے۔ یہیں سے ان پرندوں کو طیش آتا ہے جو آزاد فضا میں اڑنا چاہتے ہیں لیکن انسان انھیں پنجروں میں قید کر کے انھیں تحفے میں دیتے ہیں۔
یہ امریکا کے ایک چھوٹے سے قصبے کی کہانی ہے جس میں پرندے اپنی قید کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ باغی انسانوں کی طرح انسانوں پر حملہ کرتے ہیں۔ وہ گاڑیوں پر ہجوم کرتے ہیں تو ونڈ اسکرین چٹخ جاتے ہیں۔ انسان جو ہنستے مسکراتے ہوئے شست باندھتے ہیں اور اپنی انگلی کی ایک جنبش سے انھیں شکار کر لیتے ہیں، اب ان سے خوف زدہ ہیں۔ گاڑیاں گھروں کے موٹر خانے میں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ کمروں کی کھڑکیاں لکڑیوں کے تختوں سے ٹھونک کر بند کی جا رہی ہیں۔ اس کے باوجود پرندے لوگوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور میخوں کو اپنی جگہ سے ہلائے دے رہے ہیں۔
میخیں کمزور پڑتیں تو ان پرندوں کا نیا پرا حملہ آور ہوتا اور لکڑی کے تختوں کو ادھیڑ دیتا ہے۔ کمروں میں گھس آتا ہے، انسانی چہروں پر حملہ آور ہوتا ہے اور وہ آنکھیں جن سے انسان ان کا نشانہ لیتے تھے، ان ہی آنکھوں کو حلقۂ چشم سے نوچ لیا جاتا ہے۔ ایک دہشت ناک منظر جسے دیکھ کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے۔ ایک ایسی صورتحال جس کے بارے میں انسان نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ یہ طاقتور پر کمزور کی فتح کا قصہ تھا۔
اور اب جو خبریں آ رہی ہیں وہ ہچکاک کی فلم سے بالکل مختلف ہیں۔ محکوم اپنے حاکموں سے بے زار ہیں، اتنے بے زار کہ وہ ان کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتے۔ شاید انھیں احساس ہوگیا ہے کہ ان کے حاکموں پر کوئی بڑی آفت آنے والی ہے، جس طرح زلزلہ آنے سے پہلے پرندوں اور جانوروں کو احساس ہونے لگتا ہے کہ بری گھڑی سر پر کھڑی ہے اور وہ اپنے پنجروں میں پھڑپھڑانے لگتے ہیں، چوپائے اپنے باڑوں سے نکل بھاگنے کے لیے بے قرار ہوجاتے ہیں۔
ہمارے یہاں کیا الف لیلہ اور کیا منطق الطیر، برقعے میں پرندے ہیں بہ طور خاص حضرت فرید الدین عطار کی عالمی شہرت یافتہ مثنوی ''منطق الطیر'' میں تو سارا قصہ ہی پرندوں کا ہے لیکن یہ وہ پرندے ہیں جو تلاش کے سفر پر ہیں اور آخر کار اپنی تلاش میں کامیاب ہوتے ہیں۔
لیکن اس وقت زیر بحث وہ اربوں پرندے ہیں جو چند دنوں پہلے اپنے اپنے ٹھکانوں سے اڑے اور جانے کہاں پرواز کرگئے۔ اس بارے میں بی بی سی اور دیگر تمام ادارے بہت پریشان ہیں۔ پرند، چرند، پھول، پودے یہ سب اس حیاتیاتی زنجیر کی کڑی ہیں جن سے انسان بھی جڑا ہوا ہے۔ ان کا یہ سوال ہے کہ اگر یہ پرندے ہم سے ناراض ہوگئے ہیں تو یہ کوئی غیر اہم بات نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود انسانی جان کو اور اس کرہ ارض کو خطرہ ہے۔ ہم نے اپنی حرکتوں سے اس کرہ ارض کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔
یہ کوئی معمولی نہیں خود انسان کی جان کو خطرہ ہے۔ آیندہ کیا ہونے والا ہے، اس بارے میں ہم نہیں جانتے لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد سے ہم نے حشرات الارض کو ہلاک کرنے کے لیے جو زہریلی دوائیں استعمال کیں اور آج بھی استعمال کر رہے ہیں، انھوں نے ایک طرف انسان کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کیا، دوسری طرف پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ہزاروں پرندے اور کیڑے مکوڑے معدوم ہوچکے ہیں۔
ہم جن کیڑوں کو اپنی فصلوں کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے، وہ ختم ہوئے اور ان کے ساتھ ہی نہ جانے کتنے کیڑے مکوڑے ختم ہوئے جو حیاتیاتی توازن قائم رکھتے تھے۔ ہم صرف اپنے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔ اس بارے میں ہم نے غور نہیں کیا کہ جب ہماری جھیلوں سے مرغابیاں، بگلے اور اسی نوعیت کے دوسرے آبی پرندے معدوم ہوجائیں گے تو ہمارا کیا ہوگا۔ اس دنیا کا کیا ہوگا جو ایک سرسبز اور شاداب پناہ گاہ کے طور پر ہمارے سپرد کی گئی تھی۔
کارل زیمیئر نے ایک بہت دل زدہ کردینے والی رپورٹ مرتب کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گوریا، فاختہ، کبوتر اور مینائیں جن کے نغموں سے ہماری سماعتیں آسودہ رہتی تھیں، وہ بلبلیں اور حد تو یہ ہے کہ وہ کوے جن کی آواز ہمیں ناگوار گزرتی تھی، وہ بھی کہیں کھو گئے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ ان کی کائیں کائیں اور چیلوں کی کرخت آواز بھی ہمیں سنائی دے، اس لیے کہ یہ سب ہماری فطرت کا حصہ ہیں۔ ان کے بغیر ہر طرف سناٹا ہوگا۔ ہمارے یہاں ترک وطن کرنے پر مجبور ہونے والے انسانوں کی داستانِ غم بیان کی جاتی ہے، کوئی یہ نہیں سوچتا کہ جب ترکِ دنیا کرنے والے ان پرندوں کی رخصت کا ہمیں احساس ہوگا تو اس وقت ہر طرف کیسا سناٹا ہوگا۔
کئی برس پہلے کے ''سویرا'' میں صلاح الدین محمود کا ایک مضمون شایع ہوا تھا جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں چڑیاں، تتلیاں اور مچھلیاں اجتماعی خود کشی کر رہی ہیں۔ ناصر کاظمی نے لکھا تھا:
اڑ گئے یہ شاخ سے کہہ کر طیور
اس گلستان کی ہوا میں زہر ہے
مگر وہ اڑ کر کہاں جائیں۔ آدمی کے ہاتھوں ساری دنیا کی ہوا میں زہر گھل چکا ہے۔ چڑیاں اورتتلیاں ظالم و جاہل آدمی کے ہاتھ کو پکڑ نہیں سکتیں کہ ہوا میں زہر مت گھولو اور زمین پر زندگی کو اجیرن مت بناؤ۔ ان کا مقدور تو اتنا ہی ہے کہ کوئلیں ناخوش ہوکر کوکنا بند کردیں۔ چڑیاں اور تتلیاں اس مسموم فضا سے بے زار ہوکر خودکشی کرلیں۔ ایک حساس تتلی اور چہکتی چڑیا انسان کے ظلم و جہل کا ویسے تو کوئی جواب نہیں دے سکتی۔''
یا پھر ہم الفرڈ ہچکاک کے پرندوں کو آواز دیں کہ وہ آئیں اور ہم انسانوں سے بغاوت کریں۔