پاکستان فٹبال کب تک ٹھوکریں کھائے گا
محاذ آرائی ختم کرنے کیلئے نارملائزیشن کمیٹی کا کردار اہم
ان دنوں ایک6 سالہ بچے کی فٹبال کے ساتھ کھیلنے کی وڈیو سوشل میڈیا پر خاصی وائرل ہوئی ہے۔
بچہ ننگے پائوں ہے اور گرین شرٹ میں ملبوس ہے، تین منٹ اور 32سکینڈ کی وڈیو میں یہ بچہ اپنے کچے گھر کے کچے صحن میں گیند کو نہ صرف انتہائی مہارت کے ساتھ کنٹرول کرتا ہے بلکہ فٹبال کے ساتھ اٹکھیلیاں کرنے کے دوران اپنی شرٹس اتارتا اور پہنتا بھی ہے،اس وڈیو کو دیکھ کر ہی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں فٹبال کے کھیل میں کتنا ٹیلنٹ موجود ہے، لیاری،شمالی علاقہ جات سمیت ملک بھر میں ایسے علاقوں کی کمی نہیں جہاں نوجوان جنون کی حد تک اس کھیل کو پسند کرتے ہیں لیکن مناسب مواقع نہ مل سکنے کی وجہ سے عالمی سطح پر سبز ہلالی پرچم لہرانے سے قاصر ہیں، لیکن کیا کیا جائے، جناب جس ملک میںاقتدار کی رسہ کشی میں کئی کئی سال فٹبال کی سرگرمیاں معطل رہیں اور سرکاری سرپرستی میں دن دیہاڑے فیفا ہائوس پر قبضہ کر لیا جائے، ایسے میں اس کھیل کی بہتری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
تاریخ شاہد ہے کہ زمانہ قدیم سے اقوام عالم کھیلوں سمیت مختلف ذرائع سے دنیا کی دیگر اقوام میں ایک ممتاز مقام حاصل کرنے کے لئے کاوشیں کرتی رہی ہیں ، وقت گزرنے کے ساتھ کھیل باقاعدہ سرگرمیوں کی شکل اختیار کرتے چلے گئے، کھیلوں کی عالمی تنظیمیں بننے لگیں جنہوں نے رفتہ رفتہ اپنے قواعدو ضوابط ترتیب دینے شروع کئے اور بالاخر موجودہ انتہائی منظم شکل اختیار کر لی اورکھیل رفتہ رفتہ اس قدر اہمیت اختیار کر گئے کہ عالمی سطح پر انہیں اقوام کی عمومی جسمانی صحت اور کارکردگی کا معیار سمجھا جانے لگا ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کھیلوں کے ذریعے اپنی ثقافت کو بھی دنیا بھر کے لوگوں تک مثبت انداز میں پہنچا یا جاتا ہے۔
اس ضمن میں فٹ بال ایک خصوصی حیثیت کا حامل کھیل بن چکا ہے اور دنیا بھر کے مقبول ترین کھیل میں ممتاز مقام رکھنے والی اقوام اپنی نمایاں عالمی رینکنگ کو اپنے نوجوانوں میں صحت مند تحریک کے مثبت جذبات پیدا کرنے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ اس سب کیلئے ان ممالک کی حکومتیں کھیلوں کو چلانے والی قومی ایسوسی ایشنز کو مکمل مدد فراہم کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، افسوس صد افسوس ہم درخت کی جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسے ہی مسلسل کاٹے جا رہے ہیں۔
فٹ بال کی عالمی گورننگ باڈی فیفا سے ملحقہ ممالک کی تعداد 211 ہے۔ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں فٹبال نہیں کھیلا جاتا۔ فیفا کی جانب سے جاری کئے گئے ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں فٹ بال کھیلنے والوں کی تعداد 26 کروڑ 50 لاکھ ہے۔پاکستان میں بھی فٹ بال کھیلنے اور دیکھنے والوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے لیکن ہمارے ہاں اس کھیل کے ساتھ کیا ناانصافیاں ہورہی ہیں شاید یورپ اور لاطینی امریکہ کے ملکوں میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
2006 میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق اْس وقت پاکستان میں 29 لاکھ سے زیادہ لوگ فٹبال کھیلتے تھے، اس بات کو 13سال گزر گئے ہیں، یقینی طور پر اب یہ تعداد دگنی نہیں ہوئی تو اس میں کم از کم اس دس پندرہ لاکھ کا اضافہ تو ضرور ہوا ہوگا۔ یعنی اس وقت پاکستان میں فٹ بال کھیلنے والوں کی تعداد 40 سے لاکھ سے زیادہ ہونی چاہیے۔جہاں فیفا کے اعداد وشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فٹ بال دنیا میں ہر جگہ کھیلا جاتا ہے تو وہیں پاکستان فٹبال فیڈریشن کے اعداد و شماربھی بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک کے ہر کونے میں یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔
اس میں ایک خاص بات تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے جتنے بھی پسماندہ اور غریب علاقے ہیں وہاں فٹبال کھیلنے والوں کی تعداد کرکٹ کھیلنے والوں سے زیادہ ہے، خاص طور پر بلوچستان ، فاٹا، پنجاب ، سندھ اور کے پی کے کے وہ دیہات، جہاں غریب بچے تھوڑے سے پیسوں میں ایک فٹبال خرید کر اس سے اپنا شوق پورا کرلیتے ہیں۔ہمارے ملک میں اس وقت فٹبال کے رجسٹرڈ کلبز کی تعداد 2600 ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ عالمی چیمپئن جرمنی میں بھی فٹبال کے اتنے ہی رجسٹرڈ کلبز ہیں۔
فٹ بال کے ساتھ آخر ہوا کیا؟پاکستان میں رجسٹرڈ کھلاڑیوں کی تعداد لگ بھگ 78 ہزار ہے جو فٹبال میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے والے کئی ملکوں سے زیادہ ہوگی لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہماری ٹیم نے کبھی بھی عالمی سطح پر کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا جس پر فخر کیا جاسکے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں فٹبال کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا ہے، اس کھیل کو کبھی بھی سرکاری سرپرستی حاصل نہیں رہی لیکن اب تو حد ہو چکی ہے،اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ میں ہمارے ملک میں فٹبال قریباً منجمند ہوکر رہ گیا ہے،کبھی ہماری ٹیم عالمی رینکنگ میں آگے بڑھ رہی تھی مگر اب یہ ان ملکوں سے بھی پیچھے رہ گئی ہے جہاں فٹبال کھیلنے والوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہو گی۔
1994 میں پاکستان فیفا رینکنگ میں 95 ویں نمبر پر پہنچ چکا تھا لیکن اب ہم 200 ویں پوزیشن پر چلے گئے ہیں۔فٹ بال اس نہج پر اس لیے پہنچا کہ بعض سیاسی لوگوں کو پاکستان فٹبال فیڈریشن کا کنٹرول چاہیے، کیوں کہ اس تنظیم کے پاس کافی پیسہ ہے جو اسے فیفا اور ایشین فٹبال کنفیڈریشن دیتی ہے۔ اقتدار کے حصول کے لیے دھینگا مشتی میں شریک شاید درجن بھر سیاسی لوگوں کو تو اس پابندی سے کوئی فرق نہ پڑے لیکن بستر مرگ پر پڑے فٹبال کے پسماندگان میں 40 لاکھ کھلاڑیوں کا نام ضرور آ ئے گا۔
اس کھیل کو سیاسی ٹھوکروں سے آزاد کرانے کے لیے ملک بھر میں آئے روز کھلاڑی اور فٹبال سے منسلک دیگر افراد علم احتجاج کرتے آئے ہیں۔ کراچی، حیدر آباد، بدین، لاڑکانہ، میر پور خاص، نواب شاہ، منڈی بہاؤالدین، خانیوال، لاہور زیارت، چاغی ، اسلام آباد، ایبٹ آباد اور ٹانک میں فٹبال کے کھلاڑی، ریفریز و کوچز سڑکوں پر آئے، شاید فٹبالرز کی آواز سنی جا چکی ہے اور ان کی دل کی مراد پوری ہونے والی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق فیفا کی نارملائزیشن کمیٹی فیفا فٹ بال ہاؤس لاہور میں باقاعدہ چارج سنبھال چکی ہے، صدر فیڈریشن سید اشفاق حسین کے مطابق جب ہم نے چارج سنبھالا تو ہمارے پاس سترہ کروڑ ساٹھ لاکھ روپے تھے، ہم نے کمیٹی کو پندرہ کروڑ پچاس لاکھ روپے کی رقم دے دی ہے۔
کمیٹی کے رکن کرنل (ر) مجاہد ترین نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری کا عہدہ سنبھالتے ہی چھ سال سے قومی کوچنگ سرکٹ سے باہر ناصر اسماعیل کو ایشین فٹ بال کنفیڈریشن انڈر 19 فٹ بال چیمپئن شپ کیلئے ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کر دیا ہے، اے ایف سی انڈر19فٹ بال چیمپئن شپ کوالیفائنگ رائونڈ 2 نومبر سے عراق میں شروع ہوگی، نارملائزیشن کمیٹی اب اپنے ہدف کو حاصل کرنے اور فٹبال کی بہتری کے لئے کیا اقدامات کرتی ہے، فٹبال لوورز کو اس کا شدت سے انتظار رہے گا۔
بچہ ننگے پائوں ہے اور گرین شرٹ میں ملبوس ہے، تین منٹ اور 32سکینڈ کی وڈیو میں یہ بچہ اپنے کچے گھر کے کچے صحن میں گیند کو نہ صرف انتہائی مہارت کے ساتھ کنٹرول کرتا ہے بلکہ فٹبال کے ساتھ اٹکھیلیاں کرنے کے دوران اپنی شرٹس اتارتا اور پہنتا بھی ہے،اس وڈیو کو دیکھ کر ہی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں فٹبال کے کھیل میں کتنا ٹیلنٹ موجود ہے، لیاری،شمالی علاقہ جات سمیت ملک بھر میں ایسے علاقوں کی کمی نہیں جہاں نوجوان جنون کی حد تک اس کھیل کو پسند کرتے ہیں لیکن مناسب مواقع نہ مل سکنے کی وجہ سے عالمی سطح پر سبز ہلالی پرچم لہرانے سے قاصر ہیں، لیکن کیا کیا جائے، جناب جس ملک میںاقتدار کی رسہ کشی میں کئی کئی سال فٹبال کی سرگرمیاں معطل رہیں اور سرکاری سرپرستی میں دن دیہاڑے فیفا ہائوس پر قبضہ کر لیا جائے، ایسے میں اس کھیل کی بہتری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
تاریخ شاہد ہے کہ زمانہ قدیم سے اقوام عالم کھیلوں سمیت مختلف ذرائع سے دنیا کی دیگر اقوام میں ایک ممتاز مقام حاصل کرنے کے لئے کاوشیں کرتی رہی ہیں ، وقت گزرنے کے ساتھ کھیل باقاعدہ سرگرمیوں کی شکل اختیار کرتے چلے گئے، کھیلوں کی عالمی تنظیمیں بننے لگیں جنہوں نے رفتہ رفتہ اپنے قواعدو ضوابط ترتیب دینے شروع کئے اور بالاخر موجودہ انتہائی منظم شکل اختیار کر لی اورکھیل رفتہ رفتہ اس قدر اہمیت اختیار کر گئے کہ عالمی سطح پر انہیں اقوام کی عمومی جسمانی صحت اور کارکردگی کا معیار سمجھا جانے لگا ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کھیلوں کے ذریعے اپنی ثقافت کو بھی دنیا بھر کے لوگوں تک مثبت انداز میں پہنچا یا جاتا ہے۔
اس ضمن میں فٹ بال ایک خصوصی حیثیت کا حامل کھیل بن چکا ہے اور دنیا بھر کے مقبول ترین کھیل میں ممتاز مقام رکھنے والی اقوام اپنی نمایاں عالمی رینکنگ کو اپنے نوجوانوں میں صحت مند تحریک کے مثبت جذبات پیدا کرنے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ اس سب کیلئے ان ممالک کی حکومتیں کھیلوں کو چلانے والی قومی ایسوسی ایشنز کو مکمل مدد فراہم کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، افسوس صد افسوس ہم درخت کی جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسے ہی مسلسل کاٹے جا رہے ہیں۔
فٹ بال کی عالمی گورننگ باڈی فیفا سے ملحقہ ممالک کی تعداد 211 ہے۔ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں فٹبال نہیں کھیلا جاتا۔ فیفا کی جانب سے جاری کئے گئے ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں فٹ بال کھیلنے والوں کی تعداد 26 کروڑ 50 لاکھ ہے۔پاکستان میں بھی فٹ بال کھیلنے اور دیکھنے والوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے لیکن ہمارے ہاں اس کھیل کے ساتھ کیا ناانصافیاں ہورہی ہیں شاید یورپ اور لاطینی امریکہ کے ملکوں میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
2006 میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق اْس وقت پاکستان میں 29 لاکھ سے زیادہ لوگ فٹبال کھیلتے تھے، اس بات کو 13سال گزر گئے ہیں، یقینی طور پر اب یہ تعداد دگنی نہیں ہوئی تو اس میں کم از کم اس دس پندرہ لاکھ کا اضافہ تو ضرور ہوا ہوگا۔ یعنی اس وقت پاکستان میں فٹ بال کھیلنے والوں کی تعداد 40 سے لاکھ سے زیادہ ہونی چاہیے۔جہاں فیفا کے اعداد وشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فٹ بال دنیا میں ہر جگہ کھیلا جاتا ہے تو وہیں پاکستان فٹبال فیڈریشن کے اعداد و شماربھی بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک کے ہر کونے میں یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔
اس میں ایک خاص بات تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے جتنے بھی پسماندہ اور غریب علاقے ہیں وہاں فٹبال کھیلنے والوں کی تعداد کرکٹ کھیلنے والوں سے زیادہ ہے، خاص طور پر بلوچستان ، فاٹا، پنجاب ، سندھ اور کے پی کے کے وہ دیہات، جہاں غریب بچے تھوڑے سے پیسوں میں ایک فٹبال خرید کر اس سے اپنا شوق پورا کرلیتے ہیں۔ہمارے ملک میں اس وقت فٹبال کے رجسٹرڈ کلبز کی تعداد 2600 ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ عالمی چیمپئن جرمنی میں بھی فٹبال کے اتنے ہی رجسٹرڈ کلبز ہیں۔
فٹ بال کے ساتھ آخر ہوا کیا؟پاکستان میں رجسٹرڈ کھلاڑیوں کی تعداد لگ بھگ 78 ہزار ہے جو فٹبال میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے والے کئی ملکوں سے زیادہ ہوگی لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہماری ٹیم نے کبھی بھی عالمی سطح پر کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا جس پر فخر کیا جاسکے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں فٹبال کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا ہے، اس کھیل کو کبھی بھی سرکاری سرپرستی حاصل نہیں رہی لیکن اب تو حد ہو چکی ہے،اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ میں ہمارے ملک میں فٹبال قریباً منجمند ہوکر رہ گیا ہے،کبھی ہماری ٹیم عالمی رینکنگ میں آگے بڑھ رہی تھی مگر اب یہ ان ملکوں سے بھی پیچھے رہ گئی ہے جہاں فٹبال کھیلنے والوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہو گی۔
1994 میں پاکستان فیفا رینکنگ میں 95 ویں نمبر پر پہنچ چکا تھا لیکن اب ہم 200 ویں پوزیشن پر چلے گئے ہیں۔فٹ بال اس نہج پر اس لیے پہنچا کہ بعض سیاسی لوگوں کو پاکستان فٹبال فیڈریشن کا کنٹرول چاہیے، کیوں کہ اس تنظیم کے پاس کافی پیسہ ہے جو اسے فیفا اور ایشین فٹبال کنفیڈریشن دیتی ہے۔ اقتدار کے حصول کے لیے دھینگا مشتی میں شریک شاید درجن بھر سیاسی لوگوں کو تو اس پابندی سے کوئی فرق نہ پڑے لیکن بستر مرگ پر پڑے فٹبال کے پسماندگان میں 40 لاکھ کھلاڑیوں کا نام ضرور آ ئے گا۔
اس کھیل کو سیاسی ٹھوکروں سے آزاد کرانے کے لیے ملک بھر میں آئے روز کھلاڑی اور فٹبال سے منسلک دیگر افراد علم احتجاج کرتے آئے ہیں۔ کراچی، حیدر آباد، بدین، لاڑکانہ، میر پور خاص، نواب شاہ، منڈی بہاؤالدین، خانیوال، لاہور زیارت، چاغی ، اسلام آباد، ایبٹ آباد اور ٹانک میں فٹبال کے کھلاڑی، ریفریز و کوچز سڑکوں پر آئے، شاید فٹبالرز کی آواز سنی جا چکی ہے اور ان کی دل کی مراد پوری ہونے والی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق فیفا کی نارملائزیشن کمیٹی فیفا فٹ بال ہاؤس لاہور میں باقاعدہ چارج سنبھال چکی ہے، صدر فیڈریشن سید اشفاق حسین کے مطابق جب ہم نے چارج سنبھالا تو ہمارے پاس سترہ کروڑ ساٹھ لاکھ روپے تھے، ہم نے کمیٹی کو پندرہ کروڑ پچاس لاکھ روپے کی رقم دے دی ہے۔
کمیٹی کے رکن کرنل (ر) مجاہد ترین نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری کا عہدہ سنبھالتے ہی چھ سال سے قومی کوچنگ سرکٹ سے باہر ناصر اسماعیل کو ایشین فٹ بال کنفیڈریشن انڈر 19 فٹ بال چیمپئن شپ کیلئے ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کر دیا ہے، اے ایف سی انڈر19فٹ بال چیمپئن شپ کوالیفائنگ رائونڈ 2 نومبر سے عراق میں شروع ہوگی، نارملائزیشن کمیٹی اب اپنے ہدف کو حاصل کرنے اور فٹبال کی بہتری کے لئے کیا اقدامات کرتی ہے، فٹبال لوورز کو اس کا شدت سے انتظار رہے گا۔