ہانگ کانگ میں احتجاجی تحریک کے پانچ سال
مظاہرین ہانگ کانگ میں وہی آزادیاں دیکھنا چاہتے ہیں جو اس جزیرے کے باشندوں کو چین کے حوالے کرنے سے پہلے حاصل تھیں
ہانگ کانگ کے ہزاروں احتجاجی مظاہرین نے گزشتہ روز جمہوریت کے حق میں 'دی گلوری ٹو ہانگ کانگ'' والا اپنا ترانہ گایا جب کہ اس جزیرے کی آبادی اپنے جمہوریت کے حق میں احتجاج کی پانچویں سالگرہ منا رہی ہے اور جزیرے میں احتجاج اور مظاہرے مسلسل جاری ہیں۔
ہانگ کانگ کے مشہور تامر پارک کے باہر مظاہرین کی فیملیاں جمع ہو گئی تھیں۔ اس پارک کے دوسری طرف سرکاری دفاتر قائم ہیں نیز قانون ساز کونسل کا مرکز بھی یہیں موجود ہے۔ ان دنوں دفاتر پر تین ماہ سے زیادہ عرصے سے احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور مظاہرین نے احتجاج کے دوران سرکاری دفاتر پر حملے بھی کیے ہیں جن کے جواب میں حکومت کو بھی سخت کارروائی کا مظاہرہ کرنا پڑا ہے۔
جس سے جزیرے کے حالات اور زیادہ خراب ہو گئے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مظاہرین کی پولیس کے ساتھ بھی جھڑپیں ہو گئی ہیں۔ مظاہرین نے اعلان کیا کہ یہ دن ہانگ کانگ والوں کے لیے ایک بہت خاص دن ہے جس میں انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تمام تر تشدد کے مقابلے میں بھی باہم اکٹھے رہیں گے اور میدان چھوڑ کر نہیں جائیں گے بلکہ اپنی آزادی کے لیے لڑائی جاری رکھیں گے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہانگ کانگ کے احتجاجی مظاہرے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب چین میں کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر بیجنگ میں اپنی حکومت کی ستر سالہ سالگرہ منا رہی ہے جب کہ ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرین پانچ سال سے اپنی مخالفانہ مہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہانگ کانگ میں چین کی سرکاری کمپنی جو سرمایہ کاری کے لیے بنائی گئی ہے ، اس کمپنی کے باہر احتجاجی مظاہرین نے اس مقام پر اپنا احتجاجی کیمپ نصب کر دیا ہے۔
جس کے باہر ایک بہت بڑا کرمزی رنگ کا بینر لگا دیا گیا ہے جو احتجاجی مظاہرین کی خاص پہچان ہے۔ مظاہروں میں اب پہلے کی نسبت زیادہ شدت پیدا ہو گئی ہے۔ ہانگ کانگ میں پولیس کو اس وقت مجبوراً کارروائی کرنا پڑتی ہے جب مظاہرین کی طرف سے ہوائی فائرنگ شروع کر دی جاتی ہے۔
احتجاج کے دوران پولیس کے ساتھ چھوٹی موٹی جھڑپیں بھی ہوئیں تاہم پولیس نے ان پر قابو پا لیا۔ یہ کشمکش کب تک جاری رہتی ہے اس بارے میں نہ حکومت کی طرف سے اور نہ ہی مظاہرین کی طرف سے کوئی اندازہ لگایا جا سکا ہے۔ بہرحال عوامی جمہوریہ چین کا اس حوالے سے موقف واضح ہے،چین ہانگ کانگ کو اپنا حصہ سمجھتا ہے ۔حالیہ مظاہروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں امریکا اور برطانیہ کی حمایت حاصل ہے۔
دراصل مظاہرین ہانگ کانگ میں وہی آزادیاں دیکھنا چاہتے ہیں جو اس جزیرے کے باشندوں کو چین کے حوالے کرنے سے پہلے حاصل تھیں۔اب ہانگ کانگ میں جو تحریک جاری ہے ، دیکھنا یہ ہے ، یہ کس کروٹ بیٹھتی ہے کیونکہ اس حوالے سے عوامی جمہوریہ چین اور امریکا کے درمیان خاصی ناچاقی بھی ہے۔
ہانگ کانگ کے مشہور تامر پارک کے باہر مظاہرین کی فیملیاں جمع ہو گئی تھیں۔ اس پارک کے دوسری طرف سرکاری دفاتر قائم ہیں نیز قانون ساز کونسل کا مرکز بھی یہیں موجود ہے۔ ان دنوں دفاتر پر تین ماہ سے زیادہ عرصے سے احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور مظاہرین نے احتجاج کے دوران سرکاری دفاتر پر حملے بھی کیے ہیں جن کے جواب میں حکومت کو بھی سخت کارروائی کا مظاہرہ کرنا پڑا ہے۔
جس سے جزیرے کے حالات اور زیادہ خراب ہو گئے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مظاہرین کی پولیس کے ساتھ بھی جھڑپیں ہو گئی ہیں۔ مظاہرین نے اعلان کیا کہ یہ دن ہانگ کانگ والوں کے لیے ایک بہت خاص دن ہے جس میں انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تمام تر تشدد کے مقابلے میں بھی باہم اکٹھے رہیں گے اور میدان چھوڑ کر نہیں جائیں گے بلکہ اپنی آزادی کے لیے لڑائی جاری رکھیں گے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہانگ کانگ کے احتجاجی مظاہرے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب چین میں کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر بیجنگ میں اپنی حکومت کی ستر سالہ سالگرہ منا رہی ہے جب کہ ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرین پانچ سال سے اپنی مخالفانہ مہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہانگ کانگ میں چین کی سرکاری کمپنی جو سرمایہ کاری کے لیے بنائی گئی ہے ، اس کمپنی کے باہر احتجاجی مظاہرین نے اس مقام پر اپنا احتجاجی کیمپ نصب کر دیا ہے۔
جس کے باہر ایک بہت بڑا کرمزی رنگ کا بینر لگا دیا گیا ہے جو احتجاجی مظاہرین کی خاص پہچان ہے۔ مظاہروں میں اب پہلے کی نسبت زیادہ شدت پیدا ہو گئی ہے۔ ہانگ کانگ میں پولیس کو اس وقت مجبوراً کارروائی کرنا پڑتی ہے جب مظاہرین کی طرف سے ہوائی فائرنگ شروع کر دی جاتی ہے۔
احتجاج کے دوران پولیس کے ساتھ چھوٹی موٹی جھڑپیں بھی ہوئیں تاہم پولیس نے ان پر قابو پا لیا۔ یہ کشمکش کب تک جاری رہتی ہے اس بارے میں نہ حکومت کی طرف سے اور نہ ہی مظاہرین کی طرف سے کوئی اندازہ لگایا جا سکا ہے۔ بہرحال عوامی جمہوریہ چین کا اس حوالے سے موقف واضح ہے،چین ہانگ کانگ کو اپنا حصہ سمجھتا ہے ۔حالیہ مظاہروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں امریکا اور برطانیہ کی حمایت حاصل ہے۔
دراصل مظاہرین ہانگ کانگ میں وہی آزادیاں دیکھنا چاہتے ہیں جو اس جزیرے کے باشندوں کو چین کے حوالے کرنے سے پہلے حاصل تھیں۔اب ہانگ کانگ میں جو تحریک جاری ہے ، دیکھنا یہ ہے ، یہ کس کروٹ بیٹھتی ہے کیونکہ اس حوالے سے عوامی جمہوریہ چین اور امریکا کے درمیان خاصی ناچاقی بھی ہے۔