ٹونی موریسن ایک عظیم فکشن رائٹر
ٹونی موریسن نے انگریزی فکشن پر گہرے اثرات مرتب کیے
1988ء میں ہم چار صحافی گوادر میں تھے جب سیاہ فام افریقی امریکن ادیبہ ٹونی موریسن کو نوبیل انعام ملا تھا۔ ممتاز بلوچ ادیب اور دانشور منیر احمد بادینی ڈپٹی کمشنر تھے۔
انھوں نے ممتازجرنلسٹ نصرت جاوید سے موریسن کے فکشن اور سیاہ فام اقوام کے لیے لکھی گئی تحریروں پر دلچسپ گفتگو کی۔ ہمارے ساتھ سینئر صحافی علیم الدین پٹھان اور نواز رضا بھی موجود تھے۔ بادینی صاحب نے ٹونی موریسن کے امریکی معاشرے پر ان کے فکشن کے اثرات ، نسلی رجحانات ، تضادات اور ادبی معاملات کے علاوہ سیاہ فاموں کی غلامی سے متعلق خیالات اور فکری جدوجہد کا جائزہ بھی لیا۔ ہم ان دنوں گوادر سمیت تربت ، جیونی، پسنی کے ہوائی اڈوں کی تحقیق کے مشن پر تھے۔
واقعہ یہ تھاکہ نواب اکبر بگٹی نے صحافیوں کے اس گروپ کو اس پیشکش کے ساتھ بلوچستان بھیجا کہ وہ جا کر اس بات کا جائزہ لیں اور قوم کو بتائیں کہاں ہوائی اڈوں کی تعمیر، امریکی جنگی مفادات کے تحت ہوئی ہے، اور آیا ان ہوائی اڈوں پر امریکی فوجی تعینات ہے، خیال کیا جاتا تھا کہ یہ جدید ترین ہوئی اڈے مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور مستقبل کے عسکری اور تزویراتی تناظر میں ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر تھے اور ان پر کوئی امریکی فوجی موجود نہیں، یہ ہوئی اڈے قومی سلامتی کا اثاثہ ہیں۔
ٹونی موریس کے حوالے سے گفتگوگوادر میں دوپہر کے کھانے پر تھی اور رات کو کوسٹ گارڈز کے ریسٹ ہاؤسز میں گفتگو کے وقت نصرت جاوید نے بڑی دلنواز گفتگو کی، ان کا موضوع ٹی وی ڈراموں سے لے کر سیاست اور بلوچستان کے سیاستدانوں کے ادبی ذوق پر محیط تھا۔ نصرت جاوید گفتگو اور تحریر کے صورت گر ہیں، ان کے قریبی ساتھی کہتے ہیں کہ ان کی تحریرکی ڈرامائیت ان کی گفتگو سے بھی زیادہ دل کو لبھاتی ہے۔
لہذا اب گفتگو کا رخ ہم بیسویں صدی کی عظیم سیاہ فام ادیبہ مادام ٹونی موریسن کی طرف موڑتے ہیں جو 5 اگست کو چپکے سے جہاں فانی سے کوچ کر گئیں۔ صدر بارک اوباما نے انھیں ایک قومی اثاثہ قرار دیا، اوباما کا کہنا تھا کہ آنجہانی ٹونی موریسن ایک عظیم داستاںگو story teller تھیں۔ ان کی تحریریں ضمیر اور اخلاقی تصورات کو چیلنج کرتی ہیں، اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجن نے کہا کہ دنیاکو ٹونی موریسن جیسی آوازیں چاہئیں۔
ٹونی موریسن کو نوبیل انعام دیتے ہوئے سویڈش اکیڈمی آف لیٹرز کی طرف سے ان الفاظ میں انھیں خراج تحسین پیش گیاگیا تھا کہ '' ٹونی موریسن اپنی ناولوں میں تخیلاتی قوتوں کو بروئے کار لاتی ہیں، ان کی نثر شاعرانہ ہے، وہ زندگی کے ایک لازمی حصے کے طور پر امریکی بدیہی حقیقت کی نقاب کشائی کرتی ہیں۔ موریسن کے بارے میں کہا گیا کہ اپنے بیانیے کی سچائی کے اظہار میں بے رحم ہیں۔
ان کا شمار بے مثل فکشن رائٹرز میں کیا جائے گا، موریسن نے فکشن کی زبان کو نئے طلسم اور سحر انگیزیوں سے آشنا کیا ، انھوں نے زبان کو آزادی کے رمز اور نعمت سے سرشارکیا، کالوں کو مستقبل کی نوید دلائی، اور ان کو یقین دلاتی رہیں کہ
رنگ لائے کا شہیدوں کا لہو
وہ شفق رنگ لہو
وہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی
رائے دینے والوں کا کہنا تھا کہ موریسن کے narrative بیانیے اور مسمرائزڈ انداز تحریر نے بیسویں صدی کی ہماری ثقافت پر دائمی اثرات مرتب کیے، ان کے ناول ہم پر حکمرانی کریں گے ، ہمیںان کی ضرورت پڑے گی۔ اس خاتون نے اپنے لفظوں سے غلامی کی زنجیرکو توڑا ، زبان سے بے پایاں محبت کے استعارے ایجاد کیے۔
موریسن نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی معاصرانہ معاشرے میں نسل پرستی کے حساس موضوع پر دیگر معاملات کا نہایت گہرا ئی سے جائزہ لیا تھا۔ اسی طرح HAY فیسٹیول میں اس نے رضیہ اقبال کو ٹی وی چینل کے لیے انٹریو دیا۔ موریسن کی گفتگو سے لوگ اقوال زریں چن لیتے تھے ، اس سیاہ فام ادیبہ کا دو ٹوک کہنا تھا کہ '' تم اڑ نہیں سکتے۔ اس خیال کو دل سے نکال ہی دو جو تمہیں زمین پر گرا دیتا ہو۔'' ایک بار وہ کہنے لگیں، ہم مر جاتے ہیں، یہی زندگی کی معنویت ہے، لیکن ہماری زبان ہمارا اثاثہ ہے، اسی سے ہم زندگی کے معیارکو ناپتے ہیں۔
نئی نسل کے لاتعداد رائٹرز، کالج اسٹوڈنٹس، نئے ادیبوں کی لکھی تحریروں کی ایڈٹ کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ اگرکوئی ایسی کتاب ہے جسے آپ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ تو ابھی لکھی نہیں گئی پیارو ! تم ہی وہ پہلے آدمی ہو گے جسے یہ کتاب لکھنی ہے۔ اس بات پر دو رائے نہیں تھی کہ موریسن امریکی کلچر پر اتھارٹی تھیں، اس نے بلیک کلچر پر بہت لکھا۔ اس کے لکھے ہوئے فقرے سحر زدہ کر دیتے تھے۔
موریسن کا کہنا تھا کہ اس نے خود کو کبھی سیاہ فام خاتون ادیبہ نہیں سمجھا۔ خود کو ہمیشہ وائٹ امریکن مرد سمجھا۔ پبلشر رابرٹ گوتب نے کہا کہ ٹونی موریسن گریٹ عورت تھیں یا عظیم رائٹر۔ میں مشکل میں ہوں کہ اس کی رحلت سے نقصان کا ذکرکیسے کروں۔ ایک اور پبلشنگ ادارہ کی سربراہ سونی مہتا نے کہا کہ میرے ذہن میں ایسا ادیب نہیں آتا جس نے موریسن سے زیادہ زبان سے محبت کی ہو اور انسانیت کے بارے میں جم کر لکھا ہو۔
موریسن نے فکشن کے انبار لگا دیے۔ اس کے جن ناولوں نے شہرت پائی ان کے نام یہ ہیں۔
The Bluest Eye-Sula-Song of Solomon-Tar-Baby-Beloved-Jazz-Paradise-Love-A Mercy- Home-God Help the Child
ٹونی موریسن 1967ء سے1983ء تک افریقی امریکی رائٹر کے طور پر رینڈم ہاؤس کی ایڈیٹر کے عہدہ پر فائز رہیں، پرنسٹن و دیگر مادر علمی میں یونیورسٹی میں پڑھاتی بھی رہیں۔ پروفیسر نولیوے روکس کے مطابق ان کے پہلے ناول ''دی بلیوسٹ آئی'' کی حیثیت سنگ میل ثابت ہوئی، یہ ناول ایک سیاہ فام لڑکی کی زندگی کے گرد گھومتا ہے، اس نے موریسن کی شہرت میں چار چاند لگا دیے۔ موریسن لکھی ہوئی کہانی کو کمال سے آگے بڑھاتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ کار کو شاپنگ کے لیے جاتے ہوئے دکھاتیں تو اس کی بیانیے میں ہومر کی اوڈیسی کی جادوگری جاگ اٹھتی تھی۔
نقادوں کے مطابق ایسے ادیبوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے جن کو راتوں رات شہرت نصیب ہوئی، موریسن کہتی ہیں کہ ان کے ناولوںکو پبلشر چھاپنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوئے، چالیس سال کی عمر میں بلیوسٹ آئی ان کا پہلا ناول تھا، لیکن ساٹھ سال کی ہوئیں تو ان کے مزید ناول مارکیٹ میں آئے، اس کے بعد موریسن کی تحریرکا جادو سر چڑھ کر بولا۔1912 ء میں سابق صدر بارک اوباما نے انھیں تمغہ آزادی سے نوازا۔ اوباما نے لکھاکہ ان کی تحریریں صرف خوبصورت ہی نہیں بامعنی بھی تھیں ۔ وہ بڑی داستان گو تھیں، ان کی کہانیاں قارئین کو تحیر میں ڈال دیتی تھیں جب کہ گفتگو اور تحریر دونوں ہی لاجواب و انمول ۔ صدر بل کلنٹن بھی ان کے پرستاروں میں تھے۔
موریسن آزادی اظہارکی مبلغ اور کثرت پسندی کی نقیب تھیں، عالمی سطح پر کثیر المشرب طرز معاشرت کی وکالت کرتی رہیں۔ وہ اپنے ماضی سے وابستہ بلیک معاشرے کو عریاں کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوئیں، جن انسانوں کو سماجی سطح پر نظروں سے گرا کر اور گمنام بنا کر رکھا گیا تھا ، موریسن کے قلم نے انھیں دنیا کے سامنے پیش کیا ایسے لوگوں کو وہ پوری طاقت سے جمہوری تجربہ کے قلب میں موجود بے آزاد انسان کہتی تھیں۔ اس نے سیاہ فاموں کی تاریخ پر سفاکی سے جو کچھ لکھا وہ پوئٹری، ٹریجیڈی ، محبت ، مہم جوئی اور پرانی شاندار گپ شپ بھی تھی، اس کا ذکر یا جھلک ان کے ناولوں ''سولا'' اور ''جاز'' کے سیاق و سباق میں اوہایو اور ہارلم میں بھی ملتی ہے۔
اس نے ابتدائی ایام امریکا میں اوہایو کے مقام پر غربت میں گزارے۔ بڑی جدوجہد کی۔ وہ ایک مزدور کی بیٹی تھی۔ جب ناول لکھے تو افریقہ ان کی کہانیوں میں امڈ آیا، وہ افریقن لٹریچر سے تخیل کشید کر کے غلاموں کے دکھ بیان کرتیں اور تخلیقی کام میںاس نے غلاموں کی واک داستانوں سے لے کر گبریل گارشیا مارکیز کی تخلیقات کے حسن کو اپنی چمتکاری سے ہم آہنگ کیا۔ اس نے بیانیے کو کبھی محض تفریح کے طور پر نہیں لیا، اپنے ایک لیکچر میں اس نے بتایا کہ بیانیہ میرے نزدیک ایک اصول ہے جس سے ہم علم حاصل کرتے ہیں۔
Beloved موریسن کا وہ معرکہ آرا ناول ہے جسے 1988ء میں پلٹزر پرائز ملا۔ دنیا کی بہترین ادبی کتب میںاس کی موجودگی محسوس کی گئی۔ عالمی شہرت یافتہ اینکر اوپرا ونفری نے اس پر فلم بنائی۔ ونفری موریسن کی عقیدت مند تھیں، اس کے لیے موریسن ایک آئیڈیل تھیں۔
جیمز بالڈ ون نے موریسن کو حسین اور خیال انگیز خاتون قرار دیا۔ موریسن کے ناول ''محبت'' کو بڑی پذیرائی ملی، نقادوں نے موضوع پر اسے مکمل شے کہا مگر موریسن کا کہنا تھا کہ فنکارکے لیے کامیابی اس کی جانب سے قبولیت کی سند نہیں ہوتی، مطلب یہ کہ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں تھیں ۔ موریسن نے اپنے عہد کی محترم اہل قلم خاتون مایا اینجلو کے بارے میں کہا کہ اینجلو کو خبر نہ ہوئی کہ ان سے مجھے کتنی مدد ملی۔ یہ بات انھوں نے 1998ء میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو میں بتائی جب وہ اپنی پہلی کتاب لکھ رہی تھیں، موریسن نے کہا کہ اس وقت مجھے پتہ چلا کی قیدی پرندے کیوں گاتے ہیں، وہ در حقیقت مایا اینجلو کے ناول ''why the caged birds sing'' کا ذکر کر رہی تھیں۔
ٹونی موریسن نے انگریزی فکشن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ احساس تفاخر کے ساتھ کہتی تھیں کہ میں نظر نہ آنیوالی سیاہی سے لکھتی ہوں تاکہ اس کی بازیافت قارئین کریں۔ یہی کام انھوں نے اپنے ناول جنت Paradise میں کیا ، انھوں نے کرداروں کی رنگت کا ذکر تک نہیں کیا۔ کیا دیو قامت ''اماں'' ٹونی موریسن تھیں۔
انھوں نے ممتازجرنلسٹ نصرت جاوید سے موریسن کے فکشن اور سیاہ فام اقوام کے لیے لکھی گئی تحریروں پر دلچسپ گفتگو کی۔ ہمارے ساتھ سینئر صحافی علیم الدین پٹھان اور نواز رضا بھی موجود تھے۔ بادینی صاحب نے ٹونی موریسن کے امریکی معاشرے پر ان کے فکشن کے اثرات ، نسلی رجحانات ، تضادات اور ادبی معاملات کے علاوہ سیاہ فاموں کی غلامی سے متعلق خیالات اور فکری جدوجہد کا جائزہ بھی لیا۔ ہم ان دنوں گوادر سمیت تربت ، جیونی، پسنی کے ہوائی اڈوں کی تحقیق کے مشن پر تھے۔
واقعہ یہ تھاکہ نواب اکبر بگٹی نے صحافیوں کے اس گروپ کو اس پیشکش کے ساتھ بلوچستان بھیجا کہ وہ جا کر اس بات کا جائزہ لیں اور قوم کو بتائیں کہاں ہوائی اڈوں کی تعمیر، امریکی جنگی مفادات کے تحت ہوئی ہے، اور آیا ان ہوائی اڈوں پر امریکی فوجی تعینات ہے، خیال کیا جاتا تھا کہ یہ جدید ترین ہوئی اڈے مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور مستقبل کے عسکری اور تزویراتی تناظر میں ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر تھے اور ان پر کوئی امریکی فوجی موجود نہیں، یہ ہوئی اڈے قومی سلامتی کا اثاثہ ہیں۔
ٹونی موریس کے حوالے سے گفتگوگوادر میں دوپہر کے کھانے پر تھی اور رات کو کوسٹ گارڈز کے ریسٹ ہاؤسز میں گفتگو کے وقت نصرت جاوید نے بڑی دلنواز گفتگو کی، ان کا موضوع ٹی وی ڈراموں سے لے کر سیاست اور بلوچستان کے سیاستدانوں کے ادبی ذوق پر محیط تھا۔ نصرت جاوید گفتگو اور تحریر کے صورت گر ہیں، ان کے قریبی ساتھی کہتے ہیں کہ ان کی تحریرکی ڈرامائیت ان کی گفتگو سے بھی زیادہ دل کو لبھاتی ہے۔
لہذا اب گفتگو کا رخ ہم بیسویں صدی کی عظیم سیاہ فام ادیبہ مادام ٹونی موریسن کی طرف موڑتے ہیں جو 5 اگست کو چپکے سے جہاں فانی سے کوچ کر گئیں۔ صدر بارک اوباما نے انھیں ایک قومی اثاثہ قرار دیا، اوباما کا کہنا تھا کہ آنجہانی ٹونی موریسن ایک عظیم داستاںگو story teller تھیں۔ ان کی تحریریں ضمیر اور اخلاقی تصورات کو چیلنج کرتی ہیں، اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجن نے کہا کہ دنیاکو ٹونی موریسن جیسی آوازیں چاہئیں۔
ٹونی موریسن کو نوبیل انعام دیتے ہوئے سویڈش اکیڈمی آف لیٹرز کی طرف سے ان الفاظ میں انھیں خراج تحسین پیش گیاگیا تھا کہ '' ٹونی موریسن اپنی ناولوں میں تخیلاتی قوتوں کو بروئے کار لاتی ہیں، ان کی نثر شاعرانہ ہے، وہ زندگی کے ایک لازمی حصے کے طور پر امریکی بدیہی حقیقت کی نقاب کشائی کرتی ہیں۔ موریسن کے بارے میں کہا گیا کہ اپنے بیانیے کی سچائی کے اظہار میں بے رحم ہیں۔
ان کا شمار بے مثل فکشن رائٹرز میں کیا جائے گا، موریسن نے فکشن کی زبان کو نئے طلسم اور سحر انگیزیوں سے آشنا کیا ، انھوں نے زبان کو آزادی کے رمز اور نعمت سے سرشارکیا، کالوں کو مستقبل کی نوید دلائی، اور ان کو یقین دلاتی رہیں کہ
رنگ لائے کا شہیدوں کا لہو
وہ شفق رنگ لہو
وہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی
رائے دینے والوں کا کہنا تھا کہ موریسن کے narrative بیانیے اور مسمرائزڈ انداز تحریر نے بیسویں صدی کی ہماری ثقافت پر دائمی اثرات مرتب کیے، ان کے ناول ہم پر حکمرانی کریں گے ، ہمیںان کی ضرورت پڑے گی۔ اس خاتون نے اپنے لفظوں سے غلامی کی زنجیرکو توڑا ، زبان سے بے پایاں محبت کے استعارے ایجاد کیے۔
موریسن نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی معاصرانہ معاشرے میں نسل پرستی کے حساس موضوع پر دیگر معاملات کا نہایت گہرا ئی سے جائزہ لیا تھا۔ اسی طرح HAY فیسٹیول میں اس نے رضیہ اقبال کو ٹی وی چینل کے لیے انٹریو دیا۔ موریسن کی گفتگو سے لوگ اقوال زریں چن لیتے تھے ، اس سیاہ فام ادیبہ کا دو ٹوک کہنا تھا کہ '' تم اڑ نہیں سکتے۔ اس خیال کو دل سے نکال ہی دو جو تمہیں زمین پر گرا دیتا ہو۔'' ایک بار وہ کہنے لگیں، ہم مر جاتے ہیں، یہی زندگی کی معنویت ہے، لیکن ہماری زبان ہمارا اثاثہ ہے، اسی سے ہم زندگی کے معیارکو ناپتے ہیں۔
نئی نسل کے لاتعداد رائٹرز، کالج اسٹوڈنٹس، نئے ادیبوں کی لکھی تحریروں کی ایڈٹ کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ اگرکوئی ایسی کتاب ہے جسے آپ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ تو ابھی لکھی نہیں گئی پیارو ! تم ہی وہ پہلے آدمی ہو گے جسے یہ کتاب لکھنی ہے۔ اس بات پر دو رائے نہیں تھی کہ موریسن امریکی کلچر پر اتھارٹی تھیں، اس نے بلیک کلچر پر بہت لکھا۔ اس کے لکھے ہوئے فقرے سحر زدہ کر دیتے تھے۔
موریسن کا کہنا تھا کہ اس نے خود کو کبھی سیاہ فام خاتون ادیبہ نہیں سمجھا۔ خود کو ہمیشہ وائٹ امریکن مرد سمجھا۔ پبلشر رابرٹ گوتب نے کہا کہ ٹونی موریسن گریٹ عورت تھیں یا عظیم رائٹر۔ میں مشکل میں ہوں کہ اس کی رحلت سے نقصان کا ذکرکیسے کروں۔ ایک اور پبلشنگ ادارہ کی سربراہ سونی مہتا نے کہا کہ میرے ذہن میں ایسا ادیب نہیں آتا جس نے موریسن سے زیادہ زبان سے محبت کی ہو اور انسانیت کے بارے میں جم کر لکھا ہو۔
موریسن نے فکشن کے انبار لگا دیے۔ اس کے جن ناولوں نے شہرت پائی ان کے نام یہ ہیں۔
The Bluest Eye-Sula-Song of Solomon-Tar-Baby-Beloved-Jazz-Paradise-Love-A Mercy- Home-God Help the Child
ٹونی موریسن 1967ء سے1983ء تک افریقی امریکی رائٹر کے طور پر رینڈم ہاؤس کی ایڈیٹر کے عہدہ پر فائز رہیں، پرنسٹن و دیگر مادر علمی میں یونیورسٹی میں پڑھاتی بھی رہیں۔ پروفیسر نولیوے روکس کے مطابق ان کے پہلے ناول ''دی بلیوسٹ آئی'' کی حیثیت سنگ میل ثابت ہوئی، یہ ناول ایک سیاہ فام لڑکی کی زندگی کے گرد گھومتا ہے، اس نے موریسن کی شہرت میں چار چاند لگا دیے۔ موریسن لکھی ہوئی کہانی کو کمال سے آگے بڑھاتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ کار کو شاپنگ کے لیے جاتے ہوئے دکھاتیں تو اس کی بیانیے میں ہومر کی اوڈیسی کی جادوگری جاگ اٹھتی تھی۔
نقادوں کے مطابق ایسے ادیبوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے جن کو راتوں رات شہرت نصیب ہوئی، موریسن کہتی ہیں کہ ان کے ناولوںکو پبلشر چھاپنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوئے، چالیس سال کی عمر میں بلیوسٹ آئی ان کا پہلا ناول تھا، لیکن ساٹھ سال کی ہوئیں تو ان کے مزید ناول مارکیٹ میں آئے، اس کے بعد موریسن کی تحریرکا جادو سر چڑھ کر بولا۔1912 ء میں سابق صدر بارک اوباما نے انھیں تمغہ آزادی سے نوازا۔ اوباما نے لکھاکہ ان کی تحریریں صرف خوبصورت ہی نہیں بامعنی بھی تھیں ۔ وہ بڑی داستان گو تھیں، ان کی کہانیاں قارئین کو تحیر میں ڈال دیتی تھیں جب کہ گفتگو اور تحریر دونوں ہی لاجواب و انمول ۔ صدر بل کلنٹن بھی ان کے پرستاروں میں تھے۔
موریسن آزادی اظہارکی مبلغ اور کثرت پسندی کی نقیب تھیں، عالمی سطح پر کثیر المشرب طرز معاشرت کی وکالت کرتی رہیں۔ وہ اپنے ماضی سے وابستہ بلیک معاشرے کو عریاں کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوئیں، جن انسانوں کو سماجی سطح پر نظروں سے گرا کر اور گمنام بنا کر رکھا گیا تھا ، موریسن کے قلم نے انھیں دنیا کے سامنے پیش کیا ایسے لوگوں کو وہ پوری طاقت سے جمہوری تجربہ کے قلب میں موجود بے آزاد انسان کہتی تھیں۔ اس نے سیاہ فاموں کی تاریخ پر سفاکی سے جو کچھ لکھا وہ پوئٹری، ٹریجیڈی ، محبت ، مہم جوئی اور پرانی شاندار گپ شپ بھی تھی، اس کا ذکر یا جھلک ان کے ناولوں ''سولا'' اور ''جاز'' کے سیاق و سباق میں اوہایو اور ہارلم میں بھی ملتی ہے۔
اس نے ابتدائی ایام امریکا میں اوہایو کے مقام پر غربت میں گزارے۔ بڑی جدوجہد کی۔ وہ ایک مزدور کی بیٹی تھی۔ جب ناول لکھے تو افریقہ ان کی کہانیوں میں امڈ آیا، وہ افریقن لٹریچر سے تخیل کشید کر کے غلاموں کے دکھ بیان کرتیں اور تخلیقی کام میںاس نے غلاموں کی واک داستانوں سے لے کر گبریل گارشیا مارکیز کی تخلیقات کے حسن کو اپنی چمتکاری سے ہم آہنگ کیا۔ اس نے بیانیے کو کبھی محض تفریح کے طور پر نہیں لیا، اپنے ایک لیکچر میں اس نے بتایا کہ بیانیہ میرے نزدیک ایک اصول ہے جس سے ہم علم حاصل کرتے ہیں۔
Beloved موریسن کا وہ معرکہ آرا ناول ہے جسے 1988ء میں پلٹزر پرائز ملا۔ دنیا کی بہترین ادبی کتب میںاس کی موجودگی محسوس کی گئی۔ عالمی شہرت یافتہ اینکر اوپرا ونفری نے اس پر فلم بنائی۔ ونفری موریسن کی عقیدت مند تھیں، اس کے لیے موریسن ایک آئیڈیل تھیں۔
جیمز بالڈ ون نے موریسن کو حسین اور خیال انگیز خاتون قرار دیا۔ موریسن کے ناول ''محبت'' کو بڑی پذیرائی ملی، نقادوں نے موضوع پر اسے مکمل شے کہا مگر موریسن کا کہنا تھا کہ فنکارکے لیے کامیابی اس کی جانب سے قبولیت کی سند نہیں ہوتی، مطلب یہ کہ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں تھیں ۔ موریسن نے اپنے عہد کی محترم اہل قلم خاتون مایا اینجلو کے بارے میں کہا کہ اینجلو کو خبر نہ ہوئی کہ ان سے مجھے کتنی مدد ملی۔ یہ بات انھوں نے 1998ء میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو میں بتائی جب وہ اپنی پہلی کتاب لکھ رہی تھیں، موریسن نے کہا کہ اس وقت مجھے پتہ چلا کی قیدی پرندے کیوں گاتے ہیں، وہ در حقیقت مایا اینجلو کے ناول ''why the caged birds sing'' کا ذکر کر رہی تھیں۔
ٹونی موریسن نے انگریزی فکشن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ احساس تفاخر کے ساتھ کہتی تھیں کہ میں نظر نہ آنیوالی سیاہی سے لکھتی ہوں تاکہ اس کی بازیافت قارئین کریں۔ یہی کام انھوں نے اپنے ناول جنت Paradise میں کیا ، انھوں نے کرداروں کی رنگت کا ذکر تک نہیں کیا۔ کیا دیو قامت ''اماں'' ٹونی موریسن تھیں۔