صحت مند سیاسی کلچر کا فروغ

اسی طرح ہم اپنے ملک میں ایک حقیقی جمہوری معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوسکیں گے


Nasir Alauddin Mehmood September 30, 2019

موجودہ حکومت نے الیکشن سے قبل عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں پر اپنے تئیں عمل درآمد کرتے ہوئے کرپشن کو بے نقاب کرنے کے لیے احتساب کے عمل کا آغازکیا ہے تو اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے یک زبان ہو کر اس کے خلاف احتجاج شروع کردیا اور الزام عائدکیا کہ یہ احتساب نہیں،انتقام ہے جو یکطرفہ طور پر صرف اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔

اس کا مقصد احتساب کرنا اورکرپشن کو بے نقاب کرنا نہیں بلکہ درحقیقت یہ اپوزیشن کی آواز دبانے اور انھیں خوفزدہ کرنے کے لیے ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی جب اپوزیشن نے یہ الزام عائدکیا کہ حکومتی جبرکے نتیجے میں ہمارا موقف شایع یا نشر نہیں کیا جارہا تو اسے بھی حکومت کے خلاف پروپیگنڈے سے تعبیرکیا گیا چونکہ ہمارے ملک میں جو سیاسی کلچر رائج ہے۔

اس میں اپوزیشن کا تو کام ہی حکومتی اقدامات پر تنقید تصورکیا جاتا ہے،چاہے حکومت کیسے ہی کام کیوں نہ کر لے اپوزیشن اس کے حق میں کوئی کلمہ خیرکبھی ادا ہی نہیں کرتی۔ ہمارے ہاں یہ سیاسی کلچر اپنی جڑیں اس حد تک مستحکم کرچکا ہے کہ اگر اپوزیشن حکومت کے خلاف نفرت پر مبنی نعرے بازی نہ کرے تو اپوزیشن کے اپوزیشن ہونے پر شک کیا جاتا ہے اور اسے حکومت کے ساتھ مک مکا جیسے طعنے سہنا پڑتے ہیں۔

ہمارے یہاں اس اپوزیشن کو ہی حقیقی اپوزیشن تصورکیا جاتا ہے جو حکومت وقت کے خلاف زہر اگلے لیکن 11ستمبر2019کو نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقعے پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جن چند امورکی جانب نشاندہی فرمائی،اس میں ملک میں جاری احتساب پر سیاسی انجینئرنگ کے تاثر اور میڈیا پرحکومتی قدغن قابل ذکر ہیں۔

چیف جسٹس کے بہت ہی واضح ارشادات سے اپوزیشن کے موقف کو بھرپورتائید حاصل ہوئی،جسے اپوزیشن نے اپنی اخلاقی فتح قرار دیا کیونکہ جوکچھ اپوزیشن ، حکومت کے حوالے سے کہتی رہی اور اسے محض پروپیگنڈہ قرار دیا جاتا رہا اب انھی مسائل کی نشاندہی چیف جسٹس نے فرما دی ہے ۔ اس ضمن میں چیف جسٹس نے مزید فرمایا کہ کسی کی آواز یا رائے کو دبانا معاشرے میں بد اعتمادی کو جنم دیتی ہے جب کہ معاشرتی تناؤ جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔

انھوں نے مزید فرمایا کہ طرز حکمرانی میں سیاسی دائرہ سکڑنا ملک اور جمہوریت کے لیے بہتر نہیں۔ چیف جسٹس کے اس موقع پرکیے گئے خطاب کو محض ایک روایتی خطاب نہیں کہا جاسکتا ، کیونکہ اس موقعے پر انھوں نے معاشرے میں پائے جانے والی بے چینی پر اپنے تحفظات کا اظہارکیا اور میڈیا کوکنٹرو ل کرنے کی غرض سے لگائی گئی حکومتی قدغن پر گہری تشویش ظاہرکی۔

اسے جمہوری نظام کے بنیادی عنصر میں خلل قرار دیا پھر ان کا میڈیا کو معاشرے میں چیک اینڈ بیلنس میں اہم کردار قرار دینا اور حکومت کی جانب سے محدود سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے عمل پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرنا متنوع معاشرے میں سماجی تناؤکو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے دیگرکئی امورکی جانب نشاندہی فرمانا معمول کا خطاب نہیں۔ انھوں نے بجا طور پر اپنے مدبرانہ خطاب میں ہمیں ایک جمہوری معاشرے کی لازمی ضرورتوں سے آگاہ کردیا ہے۔

اب یہ حکومت اوراپوزیشن سمیت معاشرے کے دیگر تمام طبقات کی ذمے داری ہے کہ وہ ان وضع کردہ اصولوں پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری ریاست بنائیں۔

چیف جسٹس کے خطاب پر ملک کی سیاسی جماعتوں اور اہل علم ودانش کے مابین ملک گیر سطح پر مکالمہ جاری ہی تھا اور انھوں نے جن امورکی جانب نشاندہی فرمائی تھی ابھی اس کا جائزہ ہی لیا جا رہا تھا کہ اچانک وفاقی حکومت نے کابینہ کی منظوری سے میڈیا ٹریبونلزکے قیام کا اعلان کر دیا۔ اس خبرکو حکومت کی جانب سے چیف جسٹس کے خطاب پر حکومتی رد عمل تصورکیا گیا اور حکومت کو ہدف تنقید بنایا کہ ملک میں آزاد میڈیا کو جمہوری معاشرے کے قیام میں بنیادی عنصر تصورکرتے ہوئے اس کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے لیکن حکومت اپنی غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے ادارے کو ریاستی جبرکا نشانہ بنا کر اس کی آواز کو دبا دینا چاہتی ہے۔

حکومت کی جانب سے میڈیا ٹریبونلز کے قیام کے اعلان کو اپوزیشن سمیت سول سوسائٹی ، انسانی حقوق اور میڈیا کی تنظیموں نے مستردکرتے ہوئے اسے خلاف آئین اور آمرانہ فکرکی عکاس قرار دیا ہے۔

اس طرح حکومت جو پہلے ہی کئی حوالوں سے مسائل میں گھری ہوئی ہے جن میں خصوصا مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط کے حوالے سے خارجی محاذ پر بے پناہ مصروف ہے تو وہیں اس نے ملک کے اندر بھی کئی محاذ کھول رکھے ہیں جن میں اپوزیشن کے خلاف بقول اپوزیشن انتقامی کارروائیاں، شدید دباؤ اور روز بروزگرفتاریوں کی صورت میں اس میں اضافہ ، چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس قائم کرنے کا عندیہ دینا کہ جنھوں نے آئین کی منشاء کے برخلاف الیکشن کمیشن کے تقررکیے گئے، دو ارکان سے حلف لینے سے انکارکیا اور اب آخر میں میڈیا ٹریبیونلز کے قیام سے صحافی برادری کے خلاف محاذ آرائی۔

اس صورتحال میں ملک میں موجود جمہوریت پسند طبقہ فکر مند ہے کہ موجودہ حکومت آخر کیونکر جمہوری ریاست کے دیگر ستونوں اور آئینی اداروں سے پنجہ آزمائی میں مصروف ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں خواہ کسی بھی فریق کو کامیابی نصیب ہو جمہوریت پسند اسے اپنی ناکامی ہی سمجھتے ہیں یعنی جمہوری حکومت کو دھچکا پہنچے یا کسی دوسرے آئینی ادارے کو نقصان پہنچے، ہر دو صورتوں میں جمہوریت پسندوں کو خوشی ہرگز نہیں ہوگی، لہذا حکومت کو اس مرحلے پر دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپوزیشن سمیت دیگر تمام آئینی اور ریاستی اداروں کے استحقاق کا احترام کرنا چاہیے۔

حکومت اپنی تمام تر توجہ ملک کے استحکام اور قوم کی خوشحالی پر مرکوز رکھے کیونکہ یہی اس کی بنیادی ذمے داری ہے ۔حکومت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ معاشرے کے آزادی اظہار اور اختلاف رائے کے حق کا احترام کیے بغیر ہم مثبت روایات پر مبنی صحت مند اور متنوع معاشرے کا قیام نہیں کرسکیں گے۔ اس کے لیے ہمیں حقیقی جمہوری روایات کو فروغ دینا ہوگا جہاں مخالف نقطہ نظرکو تحمل ، برداشت اور رواداری کے ساتھ نہ صرف سننا ہو گا بلکہ مثبت تنقید سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی غلط پالیسیوں کی اصلاح بھی کرنا ہوگی۔

اسی طرح ہم اپنے ملک میں ایک حقیقی جمہوری معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوسکیں گے جو اپنے وسیع تر معنی میں عوام کی رائے پر عمل کرتے ہوئے اُن کی خدمت کا جدید ترین نظام حکومت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں