صرف بلڈ باتھ نہیں برہان وانی کا تذکرہ بھی کیجئے
ہمیں بھارت کو باور کرانا ہے کہ ہم اسے کس کھائی میں گرا سکتے ہیں۔ بلڈ باتھ کے بجائے برہان وانی کا تذکرہ تازہ رکھنا ہے
تشخیص درست ہوگئی، اب کڑوی گولی دینے سے جھجک ختم کرنا ہوگی۔ بالکل اسی طرح جیسے اقوام عالم کے پنڈال میں کھڑے ہوکر تشخیص کے عمل میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی گئی اور خون کی ندیاں، نسلی تعصب، ہتھیار اٹھانے اور آخر تک لڑنے کے الفاظ استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھا گیا۔ اس لیے کہ وقت کا تقاضا تھا۔ جب وقت کا تقاضا پورا کردیا جائے تو پھر آپ پر تنقید کرنے والا خود اپنا مذاق اڑاتا ہے۔
بھارت کو دیکھ لیجیے، مسلمانوں کے پھپھولوں پر مرہم رکھنے والی عمران خان کی یادگار تقریر کا سرکاری جواب کیا دیا۔ نورالہدیٰ شاہ کا تحریر کردہ پی ٹی وی کا یادگار ڈرامہ 'جنگل' یاد آگیا۔ اس ڈرامہ کی وجہ شہرت ایک ملاکھڑا بھی تھا، جو گاؤں کے دو کرداروں کے بیچ انگریزی دانی کے مقابلے پر مبنی تھا۔ مقابلے کا ایک کردار ولایت پلٹ ہے اور انگریزی کی معمولی شدبد رکھتا ہے، جبکہ دوسرے کو سوائے انگریزی میں بیس تک گنتی کے اور کچھ نہیں آتا، جج گاؤں کا سیانا بزرگ ہے، جسے کچھ بھی نہیں آتا اور یہی انگریزی دانی کا معیار بھی ہے کہ ایسی زبان جس کی ہم سادوں کو سمجھ نہ آئے۔ ولایتی کردار انگریزی میں مقابل کا نام پوچھتا ہے وہ جواب میں پانچ تک گنتی سنادیتا ہے۔ ولایتی سٹپٹا جاتا ہے اور اس کی آسانی کےلیے سامنے میز پر رکھے گلاس کی طرف اشارہ کرکے پوچھتا ہے، واٹ از دِس؟ وہ جواب میں دس تک گنتی والا رٹا سنا دیتا ہے۔ ولایتی سمجھ جاتا ہے کہ مقابل کو سوائے انگریزی گنتی کے اور کچھ نہیں آتا۔ وہ اپنی تسلی کےلیے گلاس کے ساتھ رکھے جگ کی طرف اشارہ کرکے پھر وہی سوال دہراتا ہے۔ جواب میں گنتی مکمل کردی جاتی ہے۔ اب ولایتی سینہ چوڑا کرکے اسے بتاتا ہے اوئے احمق دس از گلاس اینڈ دس از جگ۔ یہاں جج صاحب للکارا مارتے ہیں کہ بس ہوگیا فیصلہ۔ ولایتی بھائی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر مجمع کو تفاخرانہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ جج اپنا فیصلہ سناتا ہے کہ گاؤں کا مقامی کردار مقابلہ جیت گیا، جس نے ایک اکھر (لفظ) بھی ہماری زبان کا نہیں بولا، جبکہ ولایتی نے دو الفاظ گلاس اور جگ بولے جو ہم بھی بولتے ہیں۔
بھارت بیس تک گنتی یاد کرکے خود کو عالمی پنڈتوں میں شمار کرنے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اقوام متحدہ میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا جواب اپنی ایک جونیئر افسر سے دلوایا۔ بھارتی فرسٹ سیکریٹری ودیشا میترا نے بھی وہ اکھر گنوائے جو عالمی پنڈت نہیں بولتے۔ اعتراض ہوا کہ ایک عالمی رہنما کو خون کی ندیاں، نسلی تعصب، ہتھیار اٹھانے اور آخر تک لڑنے کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں (بلکہ بیس تک گنتی دہرانے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے)۔ سفارتی لبادہ بھی سپرمین کے طلسماتی پہناوے سے کسی طور کم نہیں۔ یہ آپ کو ڈھٹائی کی اوج ثریا تک پہنچا دیتا ہے۔ ہمارے خان صاحب نے جو مذکورہ الفاظ بولے وہ بھارت کو یہ باور کرانے کےلیے تھے کہ اگر تم بدستور اپنی اوقات سے باہر ہوتے رہے تو ردعمل سنبھال نہ سکو گے۔
جب آپ کسی کو ڈرا رہے ہوں اور وہ بجائے ڈرنے کے آپ سے غیر متعلق باتیں کرے تو یہ دو باتوں کی چغلی کھاتا ہے۔ آپ کا مخاطب ڈر سے آزاد ہوگیا ہے، اب اس کےلیے جینا مرنا بے معنی ہوچکا ہے یا وہ چالاکی میں آپ سے کوسوں آگے ہے۔ بھارت کے معاملے میں پہلی بات تو سوچنا بھی محال ہے اور دوسری بات میں شک کرنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ کیوں کہ بزدل کا سب سے بڑا ہتھیار چالاکی ہوتا ہے۔ یہ ہتھیار ہمارے پاس نہیں، اس لیے بھارت مطمئن ہے۔ وہ جج کی نفسیات ہم سے بہتر سمجھتا ہے۔ جس کے نمائندہ میڈیا نے بھی عمران خان کے خطاب کے ایک اکھر ہی کو اپنی شہ سرخیوں کی زینت بنایا، وہ بھی دائیں بائیں کوما ڈال کر، تاکہ پڑھنے والے کا ذہن اس دوسرے مطلب کی طرف ہی جائے جسے بوجہ بیان نہیں کیا گیا۔
بی بی سی اردو کے علاوہ عالمی میڈیائی اداروں نے 49 منٹ کی تقریر سے جو لفظ اچکا، وہ تھا ''بلڈ باتھ یعنی قتل عام''۔ بھارت نے اسی تسلسل میں چند مزید اکھروں کی نشاندہی کردی تاکہ جج کو فیصلہ کرنے میں دقت نہ ہو۔
بھارت آخری اور فیصلہ کن لڑائی تک چالاکی کے میدان میں ہمیں مات دیتا رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں اس آخری معرکے کا انتظار کرنا ہے یا تھوڑی سی چالاکی بھی سیکھنی ہے۔ زندگی کے بہائو میں پائوں جمانے کےلیے تھوڑی سی بے وفائی اور تھوری سی خودغرضی کی طرح تھوڑی سی چالاکی بھی ازحد ضروری ہے۔ مخاطب کو اپنا پس منظر بتانا بے کار ہے، جو سامنے والے کو بخوبی نظر آرہا ہوتا ہے۔ اسے تو یہ بتانا اس کے پاؤں اکھیڑ دے گا کہ اس کے عقب میں کھائی ہے، ذرا محتاط رہے۔ آپ اسے کھائی میں گرا سکتے ہیں۔ جوہری طاقت ہمارا پس منظر ہے جو ساری دنیا کو دکھائی دے رہا ہے۔ اس کا خود تذکرہ کرنا ہمارے بجائے مخالفین کو فائدہ دے گا۔
ہمیں بھارت کو یہ باور کرانا ہے کہ ہم اسے کس کھائی میں گرا سکتے ہیں۔ بلڈ باتھ کے بجائے ہمیں برہان وانی کا تذکرہ تازہ رکھنا ہے۔ بھارتی اقدامات کے نتیجے میں بلڈ باتھ نہیں برہان وانی پیدا ہوں گے، جن کی ہم مدد کریں گے۔ تشخیص کے بعد بھارت یہ کڑوی گولی نگل نہیں پائے گا۔ نہرو کی طرح مودی بھی اقوام متحدہ جاکر سانس بحال کرے گا۔ مضبوط موقف بھی جوہری دھماکے سے کم نہیں ہوتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بھارت کو دیکھ لیجیے، مسلمانوں کے پھپھولوں پر مرہم رکھنے والی عمران خان کی یادگار تقریر کا سرکاری جواب کیا دیا۔ نورالہدیٰ شاہ کا تحریر کردہ پی ٹی وی کا یادگار ڈرامہ 'جنگل' یاد آگیا۔ اس ڈرامہ کی وجہ شہرت ایک ملاکھڑا بھی تھا، جو گاؤں کے دو کرداروں کے بیچ انگریزی دانی کے مقابلے پر مبنی تھا۔ مقابلے کا ایک کردار ولایت پلٹ ہے اور انگریزی کی معمولی شدبد رکھتا ہے، جبکہ دوسرے کو سوائے انگریزی میں بیس تک گنتی کے اور کچھ نہیں آتا، جج گاؤں کا سیانا بزرگ ہے، جسے کچھ بھی نہیں آتا اور یہی انگریزی دانی کا معیار بھی ہے کہ ایسی زبان جس کی ہم سادوں کو سمجھ نہ آئے۔ ولایتی کردار انگریزی میں مقابل کا نام پوچھتا ہے وہ جواب میں پانچ تک گنتی سنادیتا ہے۔ ولایتی سٹپٹا جاتا ہے اور اس کی آسانی کےلیے سامنے میز پر رکھے گلاس کی طرف اشارہ کرکے پوچھتا ہے، واٹ از دِس؟ وہ جواب میں دس تک گنتی والا رٹا سنا دیتا ہے۔ ولایتی سمجھ جاتا ہے کہ مقابل کو سوائے انگریزی گنتی کے اور کچھ نہیں آتا۔ وہ اپنی تسلی کےلیے گلاس کے ساتھ رکھے جگ کی طرف اشارہ کرکے پھر وہی سوال دہراتا ہے۔ جواب میں گنتی مکمل کردی جاتی ہے۔ اب ولایتی سینہ چوڑا کرکے اسے بتاتا ہے اوئے احمق دس از گلاس اینڈ دس از جگ۔ یہاں جج صاحب للکارا مارتے ہیں کہ بس ہوگیا فیصلہ۔ ولایتی بھائی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر مجمع کو تفاخرانہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ جج اپنا فیصلہ سناتا ہے کہ گاؤں کا مقامی کردار مقابلہ جیت گیا، جس نے ایک اکھر (لفظ) بھی ہماری زبان کا نہیں بولا، جبکہ ولایتی نے دو الفاظ گلاس اور جگ بولے جو ہم بھی بولتے ہیں۔
بھارت بیس تک گنتی یاد کرکے خود کو عالمی پنڈتوں میں شمار کرنے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اقوام متحدہ میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر کا جواب اپنی ایک جونیئر افسر سے دلوایا۔ بھارتی فرسٹ سیکریٹری ودیشا میترا نے بھی وہ اکھر گنوائے جو عالمی پنڈت نہیں بولتے۔ اعتراض ہوا کہ ایک عالمی رہنما کو خون کی ندیاں، نسلی تعصب، ہتھیار اٹھانے اور آخر تک لڑنے کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں (بلکہ بیس تک گنتی دہرانے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے)۔ سفارتی لبادہ بھی سپرمین کے طلسماتی پہناوے سے کسی طور کم نہیں۔ یہ آپ کو ڈھٹائی کی اوج ثریا تک پہنچا دیتا ہے۔ ہمارے خان صاحب نے جو مذکورہ الفاظ بولے وہ بھارت کو یہ باور کرانے کےلیے تھے کہ اگر تم بدستور اپنی اوقات سے باہر ہوتے رہے تو ردعمل سنبھال نہ سکو گے۔
جب آپ کسی کو ڈرا رہے ہوں اور وہ بجائے ڈرنے کے آپ سے غیر متعلق باتیں کرے تو یہ دو باتوں کی چغلی کھاتا ہے۔ آپ کا مخاطب ڈر سے آزاد ہوگیا ہے، اب اس کےلیے جینا مرنا بے معنی ہوچکا ہے یا وہ چالاکی میں آپ سے کوسوں آگے ہے۔ بھارت کے معاملے میں پہلی بات تو سوچنا بھی محال ہے اور دوسری بات میں شک کرنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ کیوں کہ بزدل کا سب سے بڑا ہتھیار چالاکی ہوتا ہے۔ یہ ہتھیار ہمارے پاس نہیں، اس لیے بھارت مطمئن ہے۔ وہ جج کی نفسیات ہم سے بہتر سمجھتا ہے۔ جس کے نمائندہ میڈیا نے بھی عمران خان کے خطاب کے ایک اکھر ہی کو اپنی شہ سرخیوں کی زینت بنایا، وہ بھی دائیں بائیں کوما ڈال کر، تاکہ پڑھنے والے کا ذہن اس دوسرے مطلب کی طرف ہی جائے جسے بوجہ بیان نہیں کیا گیا۔
بی بی سی اردو کے علاوہ عالمی میڈیائی اداروں نے 49 منٹ کی تقریر سے جو لفظ اچکا، وہ تھا ''بلڈ باتھ یعنی قتل عام''۔ بھارت نے اسی تسلسل میں چند مزید اکھروں کی نشاندہی کردی تاکہ جج کو فیصلہ کرنے میں دقت نہ ہو۔
بھارت آخری اور فیصلہ کن لڑائی تک چالاکی کے میدان میں ہمیں مات دیتا رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں اس آخری معرکے کا انتظار کرنا ہے یا تھوڑی سی چالاکی بھی سیکھنی ہے۔ زندگی کے بہائو میں پائوں جمانے کےلیے تھوڑی سی بے وفائی اور تھوری سی خودغرضی کی طرح تھوڑی سی چالاکی بھی ازحد ضروری ہے۔ مخاطب کو اپنا پس منظر بتانا بے کار ہے، جو سامنے والے کو بخوبی نظر آرہا ہوتا ہے۔ اسے تو یہ بتانا اس کے پاؤں اکھیڑ دے گا کہ اس کے عقب میں کھائی ہے، ذرا محتاط رہے۔ آپ اسے کھائی میں گرا سکتے ہیں۔ جوہری طاقت ہمارا پس منظر ہے جو ساری دنیا کو دکھائی دے رہا ہے۔ اس کا خود تذکرہ کرنا ہمارے بجائے مخالفین کو فائدہ دے گا۔
ہمیں بھارت کو یہ باور کرانا ہے کہ ہم اسے کس کھائی میں گرا سکتے ہیں۔ بلڈ باتھ کے بجائے ہمیں برہان وانی کا تذکرہ تازہ رکھنا ہے۔ بھارتی اقدامات کے نتیجے میں بلڈ باتھ نہیں برہان وانی پیدا ہوں گے، جن کی ہم مدد کریں گے۔ تشخیص کے بعد بھارت یہ کڑوی گولی نگل نہیں پائے گا۔ نہرو کی طرح مودی بھی اقوام متحدہ جاکر سانس بحال کرے گا۔ مضبوط موقف بھی جوہری دھماکے سے کم نہیں ہوتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔