پنجاب پولیس کے مسئلے کا نیا حل کیوں
نئی اصلاحات میں تجویز دی گئی ہے پولیس کو ڈی سی اوز کے ماتحت کیا جائے اور بیوروکریسی کو پولیس کے اختیارات دے دیئے جائیں
تحریک انصاف کی 2018 کے الیکشن میں کامیابی کی ایک وجہ خیبرپختوانخو میں ان کی پرفارمنس تھی۔ اس پرفارمنس میں سب سے بڑی کامیابی کے پی کے پولیس کو مثالی بنانا تھا، جس کو تحریک انصاف کے ناقدین نے بھی تسلیم کیا۔ اسی پرفارمنس کی بنیاد پر تحریک انصاف نے 2018 کا الیکشن لڑا۔ عمران خان ہر جلسے میں کہتے تھے کہ انہوں نے کے پی پولیس کو ٹھیک کیا، وہ پنجاب پولیس کو بھی ٹھیک کریں گے۔ پولیس سے تنگ پنجاب کے عوام کو بھی یہ نعرہ خوب پسند آیا اور یوں خان صاحب کو 2013 کی نسبت 2018 میں پنجاب سے کہیں بہتر نتائج دیکھنے کو ملے۔
مگر ایک ہی سال میں یہ پولیس خان صاحب کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ پولیس تشدد سے شہریوں کی ہلاکتیں، سانحہ ساہیوال، چونیاں میں بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات کے بعد پولیس میں اصلاحات حکومت کا اولین ایجنڈا بن چکا ہے۔
نئی اصلاحات میں تجویز دی گئی ہے کہ پولیس کو ڈی سی اوز کے ماتحت کردیا جائے اور بیوروکریسی کو پولیس کے اختیارات دے دیئے جائیں۔ مگر کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ کیا اس سے پولیس ٹھیک ہوگی؟ یا نظام مزید خراب ہوگا؟
ان سوالوں کے جواب کےلیے خان صاحب کو اپنے Tried and Tested طریقے کی جانب ہی دیکھنا ہوگا۔ پولیس میں دوسرے محکموں کی مداخلت اختیارات کی نئی جنگ چھیڑ دے گی۔ کے پی کے پولیس کو بہتر بنانے کےلیے کیا ڈی سی اوز کو اختیار دیئے گئے تھا یا آئی جی صاحب کو؟ پولیس میں احتساب کا عمل لایا گیا تھا یا بیوروکریسی کو پولیس کے سر پر بٹھایا گیا تھا؟ پولیس کو سہولیات فراہم کی گئی تھیں یا معطلیوں سے نظام کو ٹھیک کیا گیا تھا؟ جس آئی جی نے کے پی کے پولیس کو ٹھیک کیا، ان کو پولیس اصلاحات کی ذمے داری سونپی گئی تو ان کے استعفے پر کان کیوں کھڑے نہ ہوئے؟ ان کے استعفے کی وجوہات کیوں تلاش نہ کی گئیں؟
پنجاب پولیس بھی ویسے ہی ٹھیک ہوگی، اس نظام میں بھی ویسے ہی بہتری آئی گی، یہ پولیس بھی ویسے ہی مثالی بنے گی جیسے آپ نے خیبرپختونخوا پولیس کو مثالی بنایا تھا۔ آج بھی پنجاب بھر میں ڈی پی اوز، ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز سیاسی لوگوں کے کہنے پر لگ رہے اور ان کے تبادلے ہورہے ہیں۔ جو خرابیاں ن لیگ کے دور میں تھیں وہ مزید بڑھ گئیں ہیں۔ سیاسی مداخلت میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ سزا اور جزا کا شفاف نظام جس کا وعدہ تھا، وہ تو نافذ ہی نہیں ہوسکا۔ جن ڈی سی اوز سے پنجاب حکومت کو شکوہ ہے کہ پرائس کنڑول کمیٹیوں کو فعال نہیں کرسکے، جس کے باعث مارکیٹ میں آئے روز تاجر قیمتوں کو اپنی مرضی سے بڑھا لیتے ہیں، ان ہی ڈی سی اوز کو ڈینگی پر کنڑول نہ پاسکنے پر معطل کیا جارہا ہے۔ اسی بیوروکریسی سے آپ ناراض ہیں کہ یہ آپ کو کام نہیں کرنے دے رہی اور آپ کو آئے روز بیوروکریٹس کے تبادلے کرنے پڑتے ہیں۔ تو یہ ڈی سی اوز اور بیوروکریسی پولیس کا مسئلہ کیسے حل کرسکے گی۔ یہ آپ کو مزید تباہی کی طرف لے جائے گی، معاملات مزید خراب ہوں گے۔ عوام کو ریلیف کے بجائے محکمے ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے میں لگے رہیں گے۔
پنجاب پولیس میں سدھار اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی مداخلت ختم کی جائے۔ نفری کی تعداد بڑھائیں۔ ایک ایس ایچ او، عام اہلکار کو تھانے جانے کا تو پتہ ہے، مگر کب واپس آئے گا، روٹی کھانے کا وقت ملے گا یا نہیں، یہ اس کو نہیں معلوم۔ تو 24 گھنٹے 365 دن یہ ڈیوٹی کون بہتر طریقے سے کرسکتا ہے؟ تفتیشی نظام کو بہتر بنائیں۔ تفتیشی ٹیموں کو فنڈز دیں۔ فرانزک لیب کا سیٹ اپ ہر ضلع میں ہو، تاکہ شواہد ضائع نہ ہوں۔ بعض کیسز میں شواہد اس وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں کہ رحیم یار خان سے پولیس کو شواہد جمع کرواتے لاہور آنا پڑتا ہے۔ آپ کو پنجاب پولیس سے مسئلے ہیں تو وہیں پنجاب پولیس کو بھی کئی مسئلے ہیں جو کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔ مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل ممکن ہے۔
خان صاحب جو بھی آپ کو پولیس کو بیوروکریسی کے تحت کرنے کا مشورہ دے رہا ہے، وہ آپ کو مزید تباہی کی طرف لے کر جارہا ہے۔ مسئلے کا حل آپ کے پاس موجود ہے تو نئے تجربات کیوں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مگر ایک ہی سال میں یہ پولیس خان صاحب کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ پولیس تشدد سے شہریوں کی ہلاکتیں، سانحہ ساہیوال، چونیاں میں بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات کے بعد پولیس میں اصلاحات حکومت کا اولین ایجنڈا بن چکا ہے۔
نئی اصلاحات میں تجویز دی گئی ہے کہ پولیس کو ڈی سی اوز کے ماتحت کردیا جائے اور بیوروکریسی کو پولیس کے اختیارات دے دیئے جائیں۔ مگر کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ کیا اس سے پولیس ٹھیک ہوگی؟ یا نظام مزید خراب ہوگا؟
ان سوالوں کے جواب کےلیے خان صاحب کو اپنے Tried and Tested طریقے کی جانب ہی دیکھنا ہوگا۔ پولیس میں دوسرے محکموں کی مداخلت اختیارات کی نئی جنگ چھیڑ دے گی۔ کے پی کے پولیس کو بہتر بنانے کےلیے کیا ڈی سی اوز کو اختیار دیئے گئے تھا یا آئی جی صاحب کو؟ پولیس میں احتساب کا عمل لایا گیا تھا یا بیوروکریسی کو پولیس کے سر پر بٹھایا گیا تھا؟ پولیس کو سہولیات فراہم کی گئی تھیں یا معطلیوں سے نظام کو ٹھیک کیا گیا تھا؟ جس آئی جی نے کے پی کے پولیس کو ٹھیک کیا، ان کو پولیس اصلاحات کی ذمے داری سونپی گئی تو ان کے استعفے پر کان کیوں کھڑے نہ ہوئے؟ ان کے استعفے کی وجوہات کیوں تلاش نہ کی گئیں؟
پنجاب پولیس بھی ویسے ہی ٹھیک ہوگی، اس نظام میں بھی ویسے ہی بہتری آئی گی، یہ پولیس بھی ویسے ہی مثالی بنے گی جیسے آپ نے خیبرپختونخوا پولیس کو مثالی بنایا تھا۔ آج بھی پنجاب بھر میں ڈی پی اوز، ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز سیاسی لوگوں کے کہنے پر لگ رہے اور ان کے تبادلے ہورہے ہیں۔ جو خرابیاں ن لیگ کے دور میں تھیں وہ مزید بڑھ گئیں ہیں۔ سیاسی مداخلت میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ سزا اور جزا کا شفاف نظام جس کا وعدہ تھا، وہ تو نافذ ہی نہیں ہوسکا۔ جن ڈی سی اوز سے پنجاب حکومت کو شکوہ ہے کہ پرائس کنڑول کمیٹیوں کو فعال نہیں کرسکے، جس کے باعث مارکیٹ میں آئے روز تاجر قیمتوں کو اپنی مرضی سے بڑھا لیتے ہیں، ان ہی ڈی سی اوز کو ڈینگی پر کنڑول نہ پاسکنے پر معطل کیا جارہا ہے۔ اسی بیوروکریسی سے آپ ناراض ہیں کہ یہ آپ کو کام نہیں کرنے دے رہی اور آپ کو آئے روز بیوروکریٹس کے تبادلے کرنے پڑتے ہیں۔ تو یہ ڈی سی اوز اور بیوروکریسی پولیس کا مسئلہ کیسے حل کرسکے گی۔ یہ آپ کو مزید تباہی کی طرف لے جائے گی، معاملات مزید خراب ہوں گے۔ عوام کو ریلیف کے بجائے محکمے ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے میں لگے رہیں گے۔
پنجاب پولیس میں سدھار اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی مداخلت ختم کی جائے۔ نفری کی تعداد بڑھائیں۔ ایک ایس ایچ او، عام اہلکار کو تھانے جانے کا تو پتہ ہے، مگر کب واپس آئے گا، روٹی کھانے کا وقت ملے گا یا نہیں، یہ اس کو نہیں معلوم۔ تو 24 گھنٹے 365 دن یہ ڈیوٹی کون بہتر طریقے سے کرسکتا ہے؟ تفتیشی نظام کو بہتر بنائیں۔ تفتیشی ٹیموں کو فنڈز دیں۔ فرانزک لیب کا سیٹ اپ ہر ضلع میں ہو، تاکہ شواہد ضائع نہ ہوں۔ بعض کیسز میں شواہد اس وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں کہ رحیم یار خان سے پولیس کو شواہد جمع کرواتے لاہور آنا پڑتا ہے۔ آپ کو پنجاب پولیس سے مسئلے ہیں تو وہیں پنجاب پولیس کو بھی کئی مسئلے ہیں جو کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔ مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل ممکن ہے۔
خان صاحب جو بھی آپ کو پولیس کو بیوروکریسی کے تحت کرنے کا مشورہ دے رہا ہے، وہ آپ کو مزید تباہی کی طرف لے کر جارہا ہے۔ مسئلے کا حل آپ کے پاس موجود ہے تو نئے تجربات کیوں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔