جہاں گشت
ہر اک فقرہ پوری ایک ضخیم کتاب پر بھاری، بس سُنتے چلیے جائیے
KARACHI:
قسط 62
حنیف بھائی بھی ایک مُعمّا تھے، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا اور اب تک ہیں۔ نہ جانے کتنے ہی روپ تھے اُن کے اور ہیں۔ اسرار میں لپٹے ہوئے، تہہ در تہہ، جمال بھی جلال بھی، آگ بھی پانی بھی، حَبس بھی ہَوا بھی، صحرا بھی نخلستان بھی، کھیت اور کھلیان بھی، اجاڑ قبرستان بھی، شیریں اتنے کہ بس اور تلخ اتنے کہ پناہ، عجیب تھے اور ہیں ہمارے درویش حنیف بھائی، فقیر تو نہیں جان پایا انہیں۔ بے خوف اتنے کہ جرأت بھی دم بَہ خُود اور اگر خوف زدہ ہوجائیں تو ایسے کہ اپنے سائے سے بھی ڈر جائیں، کبھی ہنسی کا طوفان اور کبھی اشکوں کا طغیان، جب علم و دانش کے موتی بکھیرنے پر اُتر آئیں تو بس سمیٹتے چلے جائیے۔
ہر اک فقرہ پوری ایک ضخیم کتاب پر بھاری، بس سُنتے چلیے جائیے، زندگی کے سربستہ رازوں کو جانیے، واہ واہ کیجیے اور سر دُھنیے اور اگر کبھی خرافات پر اُتر آئیں تو سب کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر توبہ توبہ پر مجبور۔ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن انتہائی ایثار کیش، اور اتنے کہ ایثار بھی ناز کرنے لگے، کوئی مُشکل میں گرفتار ہوجائے تو اس کی مصیبت اپنے سر لینے پر تیار اور تیار ہی نہیں، لے کر سرشار بھی۔ کسی کی مدد پر اُتر آئیں تو اس کے لیے ادھار لینے پر بھی آمادہ، کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے لیے ہلکان، عجب انسان، ہاں واقعی شرف انسانیت۔ فقیر سے آج بھی ایسا تعلق ہے کہ بیان کرنے کی سکت ہی نہیں ہے۔ نہ جانے کیسا تعلق ہے یہ کہ فقیر ان کے سر ہوجاتا ہے۔
گستاخی کرتا ہے، ان کی بات کو ہَوا میں اڑا دیتا ہے، لیکن مجال ہے کبھی خفا ہوئے ہوں، نہیں کبھی نہیں۔ جی فقیر کو کہنے میں کوئی عار نہیں کہ حنیف بھائی کا جو تعلق بابا سے تھا، وہی فقیر کا حنیف بھائی سے ہے۔ بڑے بھائی کی طرح ہر مسئلے کو حل کرنے پر ہر پل تیّار، فقیر کی ہر حرکت پر گرفت، سوال در سوال در سوال، کیوں کیا تھا، کیوں کہا تھا، کیسے لکھا تم نے یہ، کیا ضرورت تھی اس کی، بتاؤ! ایسے حنیف بھائی، اور فقیر اپنی عادت بَد سے مجبور اکثر گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔
چیختا ہے، چلّاتا ہے، ان کے سر ہوجاتا ہے، لیکن مجال ہے جی کبھی انہوں نے اپنی پیشانی شکن آلود کی ہو، نہیں کبھی نہیں، بَل کہ ہنستے ہیں، مُسکراتے ہیں، معاف کرتے چلے جاتے ہیں اور فرماتے ہیں : ''بے وقوف ہے تُو، سدا رہے گا، پاگل تھا تُو، جَھلّا ہی رہے گا، آوارہ گرد و من موجی کملیا۔'' واہ جی واہ! سبحان اﷲ و بہ حمد۔ سلامتی ہو اُن پر، کرم رہے، وہ ابَر رہیں۔
فقیر کو وہ دن اور سمے آج بھی ایسے یاد ہے جیسے ابھی وقوع پذیر ہُوا ہو، جی ابھی اسی وقت۔ ہم اپنی کٹیا پہنچنے کے لیے رواں دواں تھے، وہی ہَوا میں اڑتی ہوئی جارہی تھی ان کی سائیکل جیسے کسی حال مست دیوانی، پگلی، کملی کا دوپٹہ ہَوا میں اُڑتا چلا جاتا ہے۔ ٹیکسلا میوزیم سے گزرتے ہوئے حنیف بھائی نے اچانک ایسی بریک لگائی کہ فقیر سڑک پر آرہا۔ اسلام آباد سے کچھ طالبات ٹیکسلا میوزیم دیکھنے آئی ہوئی تھیں، ان میں سے کچھ سڑک پر مٹر گشت کر رہی تھیں۔
وہ بھی اُن میں سے ایک تھی، اب اس کے بارے میں کیا کہوں، وہ کوہ قاف سے راہ گم کرکے اس طرف نکل آئی تھی، حُسن و سادگی کو اوڑھے ہوئے اک ماہ وش پَری۔ اسی کو بچانے کے لیے انہوں نے ایسا کیا تھا کہ مجھے سڑک کی دُھول چاٹنا پڑی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا کہ ہوجاتا ہے ایسا تو، اس میں کیا نئی بات ہے۔ لیکن پھر ایسا ہوا کہ حنیف بھائی اس میں کھو گئے، اور ایسا کھوئے کہ واہ جی واہ! کھونا کہتے ہیں اسے۔ مجھے ہی کیا وہ تو خود کو بُھول بیٹھے تھے، اور بس اسے ہی تکے جارہے تھے، جی! جیسے کسی عامل نے معمول کو اپنا اسیر کر لیا ہو کہ عامل پکارتا ہے۔
ادھر آؤ تو معمول جپتا ہے آگیا، عامل کہتا ہے جو کہوں گا وہ کرے گا تب معمول سرشار ہوکر پکارتا ہے، کرے گا جی کرے گا، بس ایسا ہی کچھ، اسیری اسے ہی تو کہتے ہیں۔ ہاں ایک اسیری جبری ہوتی ہے اور دوسری خود اختیار کردہ اور کبھی بے اختیاری۔ رکیے! واپس پلٹتے ہیں، ورنہ پھر کہیں اور نکل جائیں گے، جی کبھی اس اسیری اور رہائی پر بھی زبان دراز کریں گے۔ حنیف بھائی نے مجھ سمیت سائیکل بھی سڑک پر چھوڑی اور اس کے پیچھے چلے، اُس نے ہنس کر معافی طلب کی تو جناب بولے: نہیں سرکار نہیں، عاصی کو اور زیادہ گناہ گار مت کیجیے، لاکھ مرتبہ ایسا کیجیے، آپ کو چوٹ تو نہیں آئی ناں جی! کہتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کے وہیں بیٹھ گئے۔
اس کی ہم جولیاں یہ منظر دیکھ رہی تھیں، ہنسی کے ساتھ کچھ نے مجنوں کے نعرے بھی بلند کیے، لیکن ذرا سا ٹھہریے ناں جی! حنیف بھائی کو بھی رب تعالٰی نے ایسا نایاب بنایا ہے، وجیہہ، دراز قد، کشادہ پیشانی، روشن اور چمکتے ہوئے نین، جی نیلے بلّور کنچے کی طرح اور نقش تو بس قلم توڑ ہی دیجیے، دودھ میں گُندھے ہوئے ایسے حنیف بھائی۔ فقیر یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا تو اندر سے آواز آئی: تم غلط سمجھے، رکو! دیکھو! تم جسے معمول سمجھ بیٹھے ہو، وہ ہے عامل، اور پھر ایسا ہی ہوا وہ شوخ ان میں ایسا کھوئی ایسا کھوئی کہ اپنا ہاتھ چُھڑانا ہی بُھول گئی، ایسی مُجسّم ہوئی کی اس کا ہر انگ پکارنے لگا، اب مجھے مت چھوڑنا، کبھی نہیں۔ اس کی ہم جولیوں نے اسے جھنجھوڑا، لیکن صاحبو!
تُونے دیوانہ بنایا تو میں دیوانہ بنا
اب مجھے ہوش کی دنیا میں تماشا نہ بنا
حنیف بھائی نے اسے بس اتنا ہی کہا تھا: فکر نہ کریں جی، آسودہ ہوجائیں جی، ہم ایک تھے جی، ہم ایک ہیں جی، ہم ایک رہیں گے جی۔ اور اُس نے اپنی ڈائری کا ایک صفحہ پھاڑ کر اس پر اپنا نام پتا لکھ کر فقیر ہی کو دیا تھا۔ جدائی! جدائی وقتی ہی کیوں نہ ہو آزار تو دیتی ہے ناں، میں نے سائیکل اٹھائی اور پیدل اپنی کٹیا کی جانب چلے، حنیف بھائی اسے دُور تک مُڑ مُڑ کر دیکھتے رہے، اور پھر برسے، اور ایسا برسے کہ جل کا تھل ہوگیا، یہ میری ہے ناں! سُن رہا ہے ناں، یہ میری ہے بس میری۔ آہ و زاری ایسی کہ کوئل کی درد بھری کُوک۔ وہ خُلد مکیں ریشماں جی جیسی ملنگنی کو سُنا نہیں ناں آپ نے جب وہ پکارتی ہیں: کوئل کی کُوک نے ہُوک اٹھائی، ہائے! سُنا تو ہوگا لیکن جی! کیا سنا آپ نے؟ نہیں سنا ناں، تُو نے سُنا ہی نہیں دوبارہ سُن، تُو نے دیکھا ہی نہیں دوبارہ دیکھ۔
بہ مشکل ہم کٹیا پہنچے تو بابا منتظر تھے، انہوں نے دیر سے آنے کا معلوم ہی نہیں کیا، بس حنیف بھائی کی جانب دیکھا جن کا چہرہ شدّت جذبات سے سُلگتا خورشید بنا ہوا تھا، پھر میری جانب دیکھا، مسکرائے اور کہا: تو تمہارے بھائی کو اس نے اپنا اسیر بنا ہی لیا۔ اس نے بھائی کو اسیر بنایا یا بھائی نے اسے اپنے دام میں اسیر کرلیا ؟ میرا جواب سن کر بابا نے مجھے گُھور کر دیکھا اور کہا: ضروری ہے کیا بولنا، خاموش رہو تم! میں نے وہ کاغذ جس پر پتا لکھا ہوا تھا بابا کے حوالے کیا اور باہر آکر رب تعالٰی کی صناعی کو دیکھنے لگا۔ واہ جی سبحان اﷲ!
فقیر نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ کسی جنگل میں، صحرا یا ویرانے میں، ساحل پر یا ندی، دریا اور جھیل کنارے، کہساروں یا میدانوں میں اجاڑ قبرستانوں میں مکمل اندھیرا ہو تو اتنا پراسرار نہیں ہوتا، لیکن اگر چاندنی ہو تو پھر مت پوچھیے اس کے اسرار کو، اچھے اچھوں کے پسینے چُھوٹ جاتے ہیں اور فقیر نے تو جرأت و بہادری کے شاہ کاروں کو اس منظر میں خوف زدہ ہوکر چیختے چلاتے سرپٹ دوڑتے دیکھا ہے، جب کہ وہاں تھا بھی کچھ نہیں، بس ہَِوا سے درخت کی کوئی ٹہنی سرسرائی اور اس کا زمین پر عکس بنا ذرا سا ڈولا اور پھر خوف کے مارے کا دل دھڑکنا بھول گیا، رہے نام مالک کا۔
وہ بھی ایک ایسی ہی شب تھی، میں باہر بیٹھا ہوا تھا کہ حنیف بھائی میرے پاس آکر بیٹھ گئے لیکن وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اور خود کلامی کر رہے تھے۔ پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور محو رقص ہوئے، '' وہ میری ہے ناں'' کی تان پر جُھوم رہے تھے۔ شب بھی آخر گزر ہی گئی اور ہوئی پھر صبح، ہم نے نماز فجر ادا کی۔ بابا نے اپنے کپڑے تبدیل کیے۔
سائیکل لی اور مجھے تم اپنے بھائی کا خیال رکھنا، کہہ کر روانہ ہوگئے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیسے حنیف بھائی کا خیال رکھوں، رات سے انہوں نے کچھ نہیں کھایا پیا تھا، نہ ہی کوئی بات کی تھی، وہ تو بس گُم تھے۔ آخر میں نے ان سے کہا ناشتہ کرلیں، لیکن بھائی نے تو سُنی ان سُنی کردی، میں نے کئی مرتبہ اصرار کیا لیکن وہ تو بُت بن گئے تھے۔ ہاں میں نے انہیں پانی پلانے کی کوشش کی تو انہوں نے میرے بے حد اصرار بل کہ ضد پر دو گھونٹ پانی ضرور پیا تھا۔ ظاہر ہے میں اکیلا کیسے کچھ کھاتا پیتا، سو مجھے بھی پانی پر قناعت کرنا پڑی۔ کہیں دُور سے اذان ظہر سنائی دی۔ مجھے بابا پر حیرت ہورہی تھی کہ عجیب بات ہے بابا انہیں ایسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے، لیکن میں کیا کرسکتا تھا سو ان کے آنے کا انتظار۔ بابا اپنے وقت پر کٹیا پہنچے، مجھے دیکھ کر مسکرائے اور اپنا تھیلا مجھے تھماتے ہوئے کہا: اُس نے کچھ نہیں کھایا پیا تو تم بھی اس کے ساتھ فاقہ کرنے لگے۔
تو اور کیا کرتا میں بابا؟ میرا جواب سن کر مسکرائے: ہاں جی! اور کیا کرتے، بھائی جو ہے وہ تمہارا، وہ بھوکا رہے گا تو تم بھی بھوکے رہو گے، تعلق ہو تو ایسا ہو، کہہ کر وہ مغرب کی نماز کی تیاری کرنے لگے۔ ہم نے نماز مغرب ادا کی۔ بابا، حنیف سے کوئی بات کر رہے تھے اور نہ حنیف بابا سے، آخر مجھ بے صبرے جلدباز کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ بابا! کب تک ایسا ہوگا ؟ آپ تو حنیف بھائی سے کوئی بات ہی نہیں کر رہے۔ میرے سوال پر بابا مسکرائے اور کہا : تو تمہارا حنیف بھائی بھی تو مجھ سے کوئی بات نہیں کر رہا ناں۔ وہ تو اپنے حال میں نہیں ہیں، وہ تو بے دست و پا ہیں، آپ تو ٹھیک ہیں ناں بابا، میرے سوال پر پھر مسکرائے اور کہا: دیکھو بیٹا! جلدی مت کرو، بہت صبر چاہیے۔
ابھی تو ابتدا ہے اور تم ابھی سے گھبرا گئے پگلے، میں اگر اس وقت اس سے بات کروں گا تو اسے کچھ سمجھ نہیں آئے گا، ہاں کچھ بھی نہیں، اس لیے کہ وہ کچھ بھی نہیں سننا چاہتا، وہ تو بس ایک رو میں بہہ رہا ہے، خود کہہ رہا ہے، خود سے سوال کرتا ہے، خود ہی اس کا جواب دیتا ہے، وہ اس وقت اپنی ہی تخلیق کی ہوئی خیالی دنیا میں کھویا ہوا ہے، اس وقت اس سے بات کرنا عبث ہے، جب وہ واپس آجائے گا تو پھر میں اس سے بات کروں گا، سمجھاؤں گا، اور جو کچھ بھی بن پڑا کر گزروں گا، انسان تو اپنی سعی کرتا ہے، اور کرنا بھی چاہیے لیکن یہ جو لوگ اپنی مرضی کے نتائج چاہتے ہیں ناں، بس یہیں خرابی پیدا ہوتی ہے۔
انسان کو کوشش کرنا چاہیے اور نتائج رب تعالٰی پر چھوڑ دینا چاہیے کہ یہی تو توکّل ہے، یہی اعتماد و بھروسا ہے کہ وہ ذات باری جو کچھ بھی کرے گا، میرے بھلے کے لیے ہی کرے گا، مجھے سمجھ آئے، نہ آئے، میں تو اس پر کامل یقین رکھوں گا بس اور اس کے ساتھ یہ بھی کڑی شرط ہے کہ وہ خواہش روا بھی ہو، کچھ سمجھے تم کہ نہیں۔ بابا یہ کہہ کر میری جانب دیکھنے لگے۔ سچ بتاؤں بابا! تھوڑا سا تو سمجھ میں آگیا ہے کہ ہر بات کا ایک وقت ہوتا ہے، انسان کو سمجھانے سے پہلے سمے دیکھنا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی اس کی کیفیت بھی اور یہ بھی کہ وہ سننا اور سمجھنا بھی چاہتا ہے کہ نہیں، اگر وہ بات کرنے اور سننے پر آمادہ ہو، سمجھنا چاہتا ہو، اس کے بعد ہی اس سے گفت گُو کرنا چاہیے، لیکن بابا یہاں تک تو ٹھیک ہو لیکن یہ آپ نے فرمایا کہ وہ خواہش روا بھی ہو، یہ بات نہیں آئی سمجھ میں۔ بابا مسکرائے اور بتایا: پگلے! سیدھی سی بات ہے کہ رب تعالٰی نے جس خواہش کی اجازت دی ہے۔
بس وہ روا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا بابا! میں نے بے بسی سے کہا۔ بابا نے پھر اپنی بات کی وضاحت فرمائی: دیکھو بیٹا! انسان تو خواہشات میں گھرا ہوا ہے، لالچی ہے، خودغرض ہے، جلدباز ہے اور نہ جانے کیا کیا، اب کسی کی خواہش ہے کہ وہ مال دار بن جائے تو یہ خواہش کرنا تو جائز ہے، اس کے لیے تو سعی کرنا چاہیے، اور جائز ذرائع اختیار کرنا چاہیں، لیکن کوئی مال دار بننے کے لیے لُوٹ مار شروع کردے، کسی کے مال و اسباب پر بہ زور قبضہ کرلے تو یہ تو روا نہیں ہے، اسی طرح کسی لڑکی سے شادی کی خواہش کرنا تو روا ہے۔
اگر وہ بھی آمادہ ہو تب لیکن ا گر کوئی کسی معصوم کو اغواء کرلے، یا کسی کی منکوحہ پر نظر رکھے تو یہ تو بالکل بھی روا نہیں ہے ناں، تو جو خواہش ہو تو جائز اور روا ہو، پھر انسان اس کے لیے محنت کرے جائز خواہش کے لیے جائز محنت کرے تو رب تعالٰی اس انسان کی مدد فرماتا ہے لیکن اس کے لیے بھی شرط ہے کہ بے صبرا نہ بنے اور کسی بھی جائز خواہش کے لیے اپنی محنت جاری رکھے تو بس وہ بامراد ہوجائے گا۔ جی بابا! تھوڑا سا سمجھ میں آگیا مجھے، لیکن بابا ہمارے حنیف بھائی تو اچانک ہی اس بھنور میں پھنس گئے ناں، انہوں نے تو کوئی خواہش نہیں کی تھی، وہ تو بس ایک حادثہ ہوا اور وہ اسیر ہوگئے۔
میری بات کو بابا نے توجہ سے سنا اور کہا: لیکن بیٹا جی! تم تو کل کہہ رہے تھے کہ تمہارے بھائی نے اسے اپنے دام میں اسیر کیا اور اب تم کہہ رہے ہو کہ بھائی اس کے سحر میں پھنس گیا، پہلے یہ طے تو کرلو کہ کس نے کسے اسیر بنایا۔ میں بُری طرح سے الجھ گیا تو میں نے بابا سے کہا: مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا، کچھ بھی۔ بابا مسکرائے: اچھا تو اس میں جلدی کیا ہے، سمجھ جاؤ گے سب کچھ، ذرا صبر، انتظار کرو، سمے آئے گا تو سب کچھ عیاں ہوجائے گا بیٹا۔ لیکن بابا یہ حنیف بھائی کا کیا کریں اب ؟ کچھ نہیں کریں، اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ لیکن بابا ایسے کب تک چھوڑ دیں انہیں۔ ارے بیٹا! تم تو ہلکان ہوتے جارہے ہو۔
اسے دیکھو اسے ہماری کوئی پروا ہی نہیں ہے، اپنی حسِین دنیا میں کھویا ہوا ہے، اپنے خواب کی تعبیر میں گم ہے، وہ ہماری کچھ سُن ہی نہیں رہا اور تم ہلکان ہوئے جارہے ہو، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ مزے میں ہے مست رہنے دو اسے، بس اس کا خیال رکھنا، وہ اپنی رو میں بہہ رہا ہے، پھر جیسے ہی وہ باہر آئے گا تو اس وقت اسے سنبھالنا ہوگا، بہت مشکل سے سنبھلے گا وہ ، ایسے جیسے کسی مُردے میں پھر سے روح داخل ہوگئی ہو تو وہ بہت مشکل سے سنبھلتا ہے، وہ بہت دُور چلا گیا ہے، بس اس کی واپسی کا انتظار کرو۔
اچھا جی کہہ کر میں خاموش ہوگیا تو بابا نے اچانک ہی کہا: انسان بھی کتنا خودغرض ہے ناں بیٹا! تم اپنے بھائی کے لیے ہلکان ہوئے جارہے ہو، تم بھی عجیب ہو، انسان کتنا مفاد پرست ہے ناں بیٹا، تم نے ایک مرتبہ بھی نہیں پوچھا کہ بابا وہ سادہ دل معصوم لڑکی کس حال میں ہوگی، نہیں معلوم کیا ناں تم نے، عجیب ہے انسان بھی۔ میں نے شرمندگی کے ساتھ بابا کی طرف دیکھا جن کی آنکھیں نم تھیں۔ پھر فقیر پکارا، جی بابا جی! سچ فرمایا آپ نے میں بھی خودغرض ہوں، آپ تو پوچھنے کا فرما رہے ہیں میں نے تو اس معصوم کا ایک لمحے سوچا بھی نہیں، تُف ہے مجھ پر۔ اچھا اچھا تم اقرار کرتے ہو اور بچ جاتے ہو، اب ہلکان ہونا چھوڑو، تم اپنے حنیف بھائی کا خیال رکھو، اس بچی کو میں رب تعالٰی کے حکم سے خود دیکھ رہا ہوں، وہیں ہوں میں، سنبھال لیں گے رب تعالٰی کے کرم سے۔
مجھے حیرت کے سمندر میں غرق کرنے کے بعد بابا سونے چلے گئے تھے، ابھی تو پریشاں رات ساری بکھری پڑی تھی ۔۔۔۔۔۔ حنیف بھائی اس میں محو رقص تھے۔
قسط 62
حنیف بھائی بھی ایک مُعمّا تھے، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا اور اب تک ہیں۔ نہ جانے کتنے ہی روپ تھے اُن کے اور ہیں۔ اسرار میں لپٹے ہوئے، تہہ در تہہ، جمال بھی جلال بھی، آگ بھی پانی بھی، حَبس بھی ہَوا بھی، صحرا بھی نخلستان بھی، کھیت اور کھلیان بھی، اجاڑ قبرستان بھی، شیریں اتنے کہ بس اور تلخ اتنے کہ پناہ، عجیب تھے اور ہیں ہمارے درویش حنیف بھائی، فقیر تو نہیں جان پایا انہیں۔ بے خوف اتنے کہ جرأت بھی دم بَہ خُود اور اگر خوف زدہ ہوجائیں تو ایسے کہ اپنے سائے سے بھی ڈر جائیں، کبھی ہنسی کا طوفان اور کبھی اشکوں کا طغیان، جب علم و دانش کے موتی بکھیرنے پر اُتر آئیں تو بس سمیٹتے چلے جائیے۔
ہر اک فقرہ پوری ایک ضخیم کتاب پر بھاری، بس سُنتے چلیے جائیے، زندگی کے سربستہ رازوں کو جانیے، واہ واہ کیجیے اور سر دُھنیے اور اگر کبھی خرافات پر اُتر آئیں تو سب کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر توبہ توبہ پر مجبور۔ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن انتہائی ایثار کیش، اور اتنے کہ ایثار بھی ناز کرنے لگے، کوئی مُشکل میں گرفتار ہوجائے تو اس کی مصیبت اپنے سر لینے پر تیار اور تیار ہی نہیں، لے کر سرشار بھی۔ کسی کی مدد پر اُتر آئیں تو اس کے لیے ادھار لینے پر بھی آمادہ، کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے لیے ہلکان، عجب انسان، ہاں واقعی شرف انسانیت۔ فقیر سے آج بھی ایسا تعلق ہے کہ بیان کرنے کی سکت ہی نہیں ہے۔ نہ جانے کیسا تعلق ہے یہ کہ فقیر ان کے سر ہوجاتا ہے۔
گستاخی کرتا ہے، ان کی بات کو ہَوا میں اڑا دیتا ہے، لیکن مجال ہے کبھی خفا ہوئے ہوں، نہیں کبھی نہیں۔ جی فقیر کو کہنے میں کوئی عار نہیں کہ حنیف بھائی کا جو تعلق بابا سے تھا، وہی فقیر کا حنیف بھائی سے ہے۔ بڑے بھائی کی طرح ہر مسئلے کو حل کرنے پر ہر پل تیّار، فقیر کی ہر حرکت پر گرفت، سوال در سوال در سوال، کیوں کیا تھا، کیوں کہا تھا، کیسے لکھا تم نے یہ، کیا ضرورت تھی اس کی، بتاؤ! ایسے حنیف بھائی، اور فقیر اپنی عادت بَد سے مجبور اکثر گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔
چیختا ہے، چلّاتا ہے، ان کے سر ہوجاتا ہے، لیکن مجال ہے جی کبھی انہوں نے اپنی پیشانی شکن آلود کی ہو، نہیں کبھی نہیں، بَل کہ ہنستے ہیں، مُسکراتے ہیں، معاف کرتے چلے جاتے ہیں اور فرماتے ہیں : ''بے وقوف ہے تُو، سدا رہے گا، پاگل تھا تُو، جَھلّا ہی رہے گا، آوارہ گرد و من موجی کملیا۔'' واہ جی واہ! سبحان اﷲ و بہ حمد۔ سلامتی ہو اُن پر، کرم رہے، وہ ابَر رہیں۔
فقیر کو وہ دن اور سمے آج بھی ایسے یاد ہے جیسے ابھی وقوع پذیر ہُوا ہو، جی ابھی اسی وقت۔ ہم اپنی کٹیا پہنچنے کے لیے رواں دواں تھے، وہی ہَوا میں اڑتی ہوئی جارہی تھی ان کی سائیکل جیسے کسی حال مست دیوانی، پگلی، کملی کا دوپٹہ ہَوا میں اُڑتا چلا جاتا ہے۔ ٹیکسلا میوزیم سے گزرتے ہوئے حنیف بھائی نے اچانک ایسی بریک لگائی کہ فقیر سڑک پر آرہا۔ اسلام آباد سے کچھ طالبات ٹیکسلا میوزیم دیکھنے آئی ہوئی تھیں، ان میں سے کچھ سڑک پر مٹر گشت کر رہی تھیں۔
وہ بھی اُن میں سے ایک تھی، اب اس کے بارے میں کیا کہوں، وہ کوہ قاف سے راہ گم کرکے اس طرف نکل آئی تھی، حُسن و سادگی کو اوڑھے ہوئے اک ماہ وش پَری۔ اسی کو بچانے کے لیے انہوں نے ایسا کیا تھا کہ مجھے سڑک کی دُھول چاٹنا پڑی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا کہ ہوجاتا ہے ایسا تو، اس میں کیا نئی بات ہے۔ لیکن پھر ایسا ہوا کہ حنیف بھائی اس میں کھو گئے، اور ایسا کھوئے کہ واہ جی واہ! کھونا کہتے ہیں اسے۔ مجھے ہی کیا وہ تو خود کو بُھول بیٹھے تھے، اور بس اسے ہی تکے جارہے تھے، جی! جیسے کسی عامل نے معمول کو اپنا اسیر کر لیا ہو کہ عامل پکارتا ہے۔
ادھر آؤ تو معمول جپتا ہے آگیا، عامل کہتا ہے جو کہوں گا وہ کرے گا تب معمول سرشار ہوکر پکارتا ہے، کرے گا جی کرے گا، بس ایسا ہی کچھ، اسیری اسے ہی تو کہتے ہیں۔ ہاں ایک اسیری جبری ہوتی ہے اور دوسری خود اختیار کردہ اور کبھی بے اختیاری۔ رکیے! واپس پلٹتے ہیں، ورنہ پھر کہیں اور نکل جائیں گے، جی کبھی اس اسیری اور رہائی پر بھی زبان دراز کریں گے۔ حنیف بھائی نے مجھ سمیت سائیکل بھی سڑک پر چھوڑی اور اس کے پیچھے چلے، اُس نے ہنس کر معافی طلب کی تو جناب بولے: نہیں سرکار نہیں، عاصی کو اور زیادہ گناہ گار مت کیجیے، لاکھ مرتبہ ایسا کیجیے، آپ کو چوٹ تو نہیں آئی ناں جی! کہتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کے وہیں بیٹھ گئے۔
اس کی ہم جولیاں یہ منظر دیکھ رہی تھیں، ہنسی کے ساتھ کچھ نے مجنوں کے نعرے بھی بلند کیے، لیکن ذرا سا ٹھہریے ناں جی! حنیف بھائی کو بھی رب تعالٰی نے ایسا نایاب بنایا ہے، وجیہہ، دراز قد، کشادہ پیشانی، روشن اور چمکتے ہوئے نین، جی نیلے بلّور کنچے کی طرح اور نقش تو بس قلم توڑ ہی دیجیے، دودھ میں گُندھے ہوئے ایسے حنیف بھائی۔ فقیر یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا تو اندر سے آواز آئی: تم غلط سمجھے، رکو! دیکھو! تم جسے معمول سمجھ بیٹھے ہو، وہ ہے عامل، اور پھر ایسا ہی ہوا وہ شوخ ان میں ایسا کھوئی ایسا کھوئی کہ اپنا ہاتھ چُھڑانا ہی بُھول گئی، ایسی مُجسّم ہوئی کی اس کا ہر انگ پکارنے لگا، اب مجھے مت چھوڑنا، کبھی نہیں۔ اس کی ہم جولیوں نے اسے جھنجھوڑا، لیکن صاحبو!
تُونے دیوانہ بنایا تو میں دیوانہ بنا
اب مجھے ہوش کی دنیا میں تماشا نہ بنا
حنیف بھائی نے اسے بس اتنا ہی کہا تھا: فکر نہ کریں جی، آسودہ ہوجائیں جی، ہم ایک تھے جی، ہم ایک ہیں جی، ہم ایک رہیں گے جی۔ اور اُس نے اپنی ڈائری کا ایک صفحہ پھاڑ کر اس پر اپنا نام پتا لکھ کر فقیر ہی کو دیا تھا۔ جدائی! جدائی وقتی ہی کیوں نہ ہو آزار تو دیتی ہے ناں، میں نے سائیکل اٹھائی اور پیدل اپنی کٹیا کی جانب چلے، حنیف بھائی اسے دُور تک مُڑ مُڑ کر دیکھتے رہے، اور پھر برسے، اور ایسا برسے کہ جل کا تھل ہوگیا، یہ میری ہے ناں! سُن رہا ہے ناں، یہ میری ہے بس میری۔ آہ و زاری ایسی کہ کوئل کی درد بھری کُوک۔ وہ خُلد مکیں ریشماں جی جیسی ملنگنی کو سُنا نہیں ناں آپ نے جب وہ پکارتی ہیں: کوئل کی کُوک نے ہُوک اٹھائی، ہائے! سُنا تو ہوگا لیکن جی! کیا سنا آپ نے؟ نہیں سنا ناں، تُو نے سُنا ہی نہیں دوبارہ سُن، تُو نے دیکھا ہی نہیں دوبارہ دیکھ۔
بہ مشکل ہم کٹیا پہنچے تو بابا منتظر تھے، انہوں نے دیر سے آنے کا معلوم ہی نہیں کیا، بس حنیف بھائی کی جانب دیکھا جن کا چہرہ شدّت جذبات سے سُلگتا خورشید بنا ہوا تھا، پھر میری جانب دیکھا، مسکرائے اور کہا: تو تمہارے بھائی کو اس نے اپنا اسیر بنا ہی لیا۔ اس نے بھائی کو اسیر بنایا یا بھائی نے اسے اپنے دام میں اسیر کرلیا ؟ میرا جواب سن کر بابا نے مجھے گُھور کر دیکھا اور کہا: ضروری ہے کیا بولنا، خاموش رہو تم! میں نے وہ کاغذ جس پر پتا لکھا ہوا تھا بابا کے حوالے کیا اور باہر آکر رب تعالٰی کی صناعی کو دیکھنے لگا۔ واہ جی سبحان اﷲ!
فقیر نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ کسی جنگل میں، صحرا یا ویرانے میں، ساحل پر یا ندی، دریا اور جھیل کنارے، کہساروں یا میدانوں میں اجاڑ قبرستانوں میں مکمل اندھیرا ہو تو اتنا پراسرار نہیں ہوتا، لیکن اگر چاندنی ہو تو پھر مت پوچھیے اس کے اسرار کو، اچھے اچھوں کے پسینے چُھوٹ جاتے ہیں اور فقیر نے تو جرأت و بہادری کے شاہ کاروں کو اس منظر میں خوف زدہ ہوکر چیختے چلاتے سرپٹ دوڑتے دیکھا ہے، جب کہ وہاں تھا بھی کچھ نہیں، بس ہَِوا سے درخت کی کوئی ٹہنی سرسرائی اور اس کا زمین پر عکس بنا ذرا سا ڈولا اور پھر خوف کے مارے کا دل دھڑکنا بھول گیا، رہے نام مالک کا۔
وہ بھی ایک ایسی ہی شب تھی، میں باہر بیٹھا ہوا تھا کہ حنیف بھائی میرے پاس آکر بیٹھ گئے لیکن وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اور خود کلامی کر رہے تھے۔ پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور محو رقص ہوئے، '' وہ میری ہے ناں'' کی تان پر جُھوم رہے تھے۔ شب بھی آخر گزر ہی گئی اور ہوئی پھر صبح، ہم نے نماز فجر ادا کی۔ بابا نے اپنے کپڑے تبدیل کیے۔
سائیکل لی اور مجھے تم اپنے بھائی کا خیال رکھنا، کہہ کر روانہ ہوگئے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیسے حنیف بھائی کا خیال رکھوں، رات سے انہوں نے کچھ نہیں کھایا پیا تھا، نہ ہی کوئی بات کی تھی، وہ تو بس گُم تھے۔ آخر میں نے ان سے کہا ناشتہ کرلیں، لیکن بھائی نے تو سُنی ان سُنی کردی، میں نے کئی مرتبہ اصرار کیا لیکن وہ تو بُت بن گئے تھے۔ ہاں میں نے انہیں پانی پلانے کی کوشش کی تو انہوں نے میرے بے حد اصرار بل کہ ضد پر دو گھونٹ پانی ضرور پیا تھا۔ ظاہر ہے میں اکیلا کیسے کچھ کھاتا پیتا، سو مجھے بھی پانی پر قناعت کرنا پڑی۔ کہیں دُور سے اذان ظہر سنائی دی۔ مجھے بابا پر حیرت ہورہی تھی کہ عجیب بات ہے بابا انہیں ایسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے، لیکن میں کیا کرسکتا تھا سو ان کے آنے کا انتظار۔ بابا اپنے وقت پر کٹیا پہنچے، مجھے دیکھ کر مسکرائے اور اپنا تھیلا مجھے تھماتے ہوئے کہا: اُس نے کچھ نہیں کھایا پیا تو تم بھی اس کے ساتھ فاقہ کرنے لگے۔
تو اور کیا کرتا میں بابا؟ میرا جواب سن کر مسکرائے: ہاں جی! اور کیا کرتے، بھائی جو ہے وہ تمہارا، وہ بھوکا رہے گا تو تم بھی بھوکے رہو گے، تعلق ہو تو ایسا ہو، کہہ کر وہ مغرب کی نماز کی تیاری کرنے لگے۔ ہم نے نماز مغرب ادا کی۔ بابا، حنیف سے کوئی بات کر رہے تھے اور نہ حنیف بابا سے، آخر مجھ بے صبرے جلدباز کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ بابا! کب تک ایسا ہوگا ؟ آپ تو حنیف بھائی سے کوئی بات ہی نہیں کر رہے۔ میرے سوال پر بابا مسکرائے اور کہا : تو تمہارا حنیف بھائی بھی تو مجھ سے کوئی بات نہیں کر رہا ناں۔ وہ تو اپنے حال میں نہیں ہیں، وہ تو بے دست و پا ہیں، آپ تو ٹھیک ہیں ناں بابا، میرے سوال پر پھر مسکرائے اور کہا: دیکھو بیٹا! جلدی مت کرو، بہت صبر چاہیے۔
ابھی تو ابتدا ہے اور تم ابھی سے گھبرا گئے پگلے، میں اگر اس وقت اس سے بات کروں گا تو اسے کچھ سمجھ نہیں آئے گا، ہاں کچھ بھی نہیں، اس لیے کہ وہ کچھ بھی نہیں سننا چاہتا، وہ تو بس ایک رو میں بہہ رہا ہے، خود کہہ رہا ہے، خود سے سوال کرتا ہے، خود ہی اس کا جواب دیتا ہے، وہ اس وقت اپنی ہی تخلیق کی ہوئی خیالی دنیا میں کھویا ہوا ہے، اس وقت اس سے بات کرنا عبث ہے، جب وہ واپس آجائے گا تو پھر میں اس سے بات کروں گا، سمجھاؤں گا، اور جو کچھ بھی بن پڑا کر گزروں گا، انسان تو اپنی سعی کرتا ہے، اور کرنا بھی چاہیے لیکن یہ جو لوگ اپنی مرضی کے نتائج چاہتے ہیں ناں، بس یہیں خرابی پیدا ہوتی ہے۔
انسان کو کوشش کرنا چاہیے اور نتائج رب تعالٰی پر چھوڑ دینا چاہیے کہ یہی تو توکّل ہے، یہی اعتماد و بھروسا ہے کہ وہ ذات باری جو کچھ بھی کرے گا، میرے بھلے کے لیے ہی کرے گا، مجھے سمجھ آئے، نہ آئے، میں تو اس پر کامل یقین رکھوں گا بس اور اس کے ساتھ یہ بھی کڑی شرط ہے کہ وہ خواہش روا بھی ہو، کچھ سمجھے تم کہ نہیں۔ بابا یہ کہہ کر میری جانب دیکھنے لگے۔ سچ بتاؤں بابا! تھوڑا سا تو سمجھ میں آگیا ہے کہ ہر بات کا ایک وقت ہوتا ہے، انسان کو سمجھانے سے پہلے سمے دیکھنا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی اس کی کیفیت بھی اور یہ بھی کہ وہ سننا اور سمجھنا بھی چاہتا ہے کہ نہیں، اگر وہ بات کرنے اور سننے پر آمادہ ہو، سمجھنا چاہتا ہو، اس کے بعد ہی اس سے گفت گُو کرنا چاہیے، لیکن بابا یہاں تک تو ٹھیک ہو لیکن یہ آپ نے فرمایا کہ وہ خواہش روا بھی ہو، یہ بات نہیں آئی سمجھ میں۔ بابا مسکرائے اور بتایا: پگلے! سیدھی سی بات ہے کہ رب تعالٰی نے جس خواہش کی اجازت دی ہے۔
بس وہ روا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا بابا! میں نے بے بسی سے کہا۔ بابا نے پھر اپنی بات کی وضاحت فرمائی: دیکھو بیٹا! انسان تو خواہشات میں گھرا ہوا ہے، لالچی ہے، خودغرض ہے، جلدباز ہے اور نہ جانے کیا کیا، اب کسی کی خواہش ہے کہ وہ مال دار بن جائے تو یہ خواہش کرنا تو جائز ہے، اس کے لیے تو سعی کرنا چاہیے، اور جائز ذرائع اختیار کرنا چاہیں، لیکن کوئی مال دار بننے کے لیے لُوٹ مار شروع کردے، کسی کے مال و اسباب پر بہ زور قبضہ کرلے تو یہ تو روا نہیں ہے، اسی طرح کسی لڑکی سے شادی کی خواہش کرنا تو روا ہے۔
اگر وہ بھی آمادہ ہو تب لیکن ا گر کوئی کسی معصوم کو اغواء کرلے، یا کسی کی منکوحہ پر نظر رکھے تو یہ تو بالکل بھی روا نہیں ہے ناں، تو جو خواہش ہو تو جائز اور روا ہو، پھر انسان اس کے لیے محنت کرے جائز خواہش کے لیے جائز محنت کرے تو رب تعالٰی اس انسان کی مدد فرماتا ہے لیکن اس کے لیے بھی شرط ہے کہ بے صبرا نہ بنے اور کسی بھی جائز خواہش کے لیے اپنی محنت جاری رکھے تو بس وہ بامراد ہوجائے گا۔ جی بابا! تھوڑا سا سمجھ میں آگیا مجھے، لیکن بابا ہمارے حنیف بھائی تو اچانک ہی اس بھنور میں پھنس گئے ناں، انہوں نے تو کوئی خواہش نہیں کی تھی، وہ تو بس ایک حادثہ ہوا اور وہ اسیر ہوگئے۔
میری بات کو بابا نے توجہ سے سنا اور کہا: لیکن بیٹا جی! تم تو کل کہہ رہے تھے کہ تمہارے بھائی نے اسے اپنے دام میں اسیر کیا اور اب تم کہہ رہے ہو کہ بھائی اس کے سحر میں پھنس گیا، پہلے یہ طے تو کرلو کہ کس نے کسے اسیر بنایا۔ میں بُری طرح سے الجھ گیا تو میں نے بابا سے کہا: مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا، کچھ بھی۔ بابا مسکرائے: اچھا تو اس میں جلدی کیا ہے، سمجھ جاؤ گے سب کچھ، ذرا صبر، انتظار کرو، سمے آئے گا تو سب کچھ عیاں ہوجائے گا بیٹا۔ لیکن بابا یہ حنیف بھائی کا کیا کریں اب ؟ کچھ نہیں کریں، اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ لیکن بابا ایسے کب تک چھوڑ دیں انہیں۔ ارے بیٹا! تم تو ہلکان ہوتے جارہے ہو۔
اسے دیکھو اسے ہماری کوئی پروا ہی نہیں ہے، اپنی حسِین دنیا میں کھویا ہوا ہے، اپنے خواب کی تعبیر میں گم ہے، وہ ہماری کچھ سُن ہی نہیں رہا اور تم ہلکان ہوئے جارہے ہو، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ مزے میں ہے مست رہنے دو اسے، بس اس کا خیال رکھنا، وہ اپنی رو میں بہہ رہا ہے، پھر جیسے ہی وہ باہر آئے گا تو اس وقت اسے سنبھالنا ہوگا، بہت مشکل سے سنبھلے گا وہ ، ایسے جیسے کسی مُردے میں پھر سے روح داخل ہوگئی ہو تو وہ بہت مشکل سے سنبھلتا ہے، وہ بہت دُور چلا گیا ہے، بس اس کی واپسی کا انتظار کرو۔
اچھا جی کہہ کر میں خاموش ہوگیا تو بابا نے اچانک ہی کہا: انسان بھی کتنا خودغرض ہے ناں بیٹا! تم اپنے بھائی کے لیے ہلکان ہوئے جارہے ہو، تم بھی عجیب ہو، انسان کتنا مفاد پرست ہے ناں بیٹا، تم نے ایک مرتبہ بھی نہیں پوچھا کہ بابا وہ سادہ دل معصوم لڑکی کس حال میں ہوگی، نہیں معلوم کیا ناں تم نے، عجیب ہے انسان بھی۔ میں نے شرمندگی کے ساتھ بابا کی طرف دیکھا جن کی آنکھیں نم تھیں۔ پھر فقیر پکارا، جی بابا جی! سچ فرمایا آپ نے میں بھی خودغرض ہوں، آپ تو پوچھنے کا فرما رہے ہیں میں نے تو اس معصوم کا ایک لمحے سوچا بھی نہیں، تُف ہے مجھ پر۔ اچھا اچھا تم اقرار کرتے ہو اور بچ جاتے ہو، اب ہلکان ہونا چھوڑو، تم اپنے حنیف بھائی کا خیال رکھو، اس بچی کو میں رب تعالٰی کے حکم سے خود دیکھ رہا ہوں، وہیں ہوں میں، سنبھال لیں گے رب تعالٰی کے کرم سے۔
مجھے حیرت کے سمندر میں غرق کرنے کے بعد بابا سونے چلے گئے تھے، ابھی تو پریشاں رات ساری بکھری پڑی تھی ۔۔۔۔۔۔ حنیف بھائی اس میں محو رقص تھے۔