زمینوں کی بڑی کرپشن
کراچی میں سرکاری زمینوں کی بندربانٹ پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں شروع ہوئی تھی۔
کراچی کی زمین کو ملک بھر میں سب سے مہنگی اور سونا تسلیم کی جاتی ہے اور یہ سو فیصد حقیقت بھی ہے۔
کراچی میں سرکاری زمینوں کی بندربانٹ پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں شروع ہوئی تھی ، جام صادق علی سندھ کے وزیر بلدیات و ہاؤسنگ تھے اور وہ زمینوں کے معاملے میں اتنے مخیر تھے کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو انھیں کہنا پڑا تھا کہ جام صاحب قائد اعظم کا مزار بھی فروخت مت کر دینا۔ 48 سال قبل جب ملک اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی ،اس وقت جام صادق علی نے کراچی کی سونے جیسی قیمتی زمینوں کی بندر بانٹ کی ابتدا کی تھی۔
اس کی انتہا بھی پیپلز پارٹی ہی کے دور میں ہوئی مگر انتہا میں صرف پیپلز پارٹی ہی شامل نہیں رہی بلکہ ایم کیو ایم اپنے مختلف ادوار میں خاص کر جب مشرف دور میں وزارت بلدیات اور ہاؤسنگ ایم کیو ایم کے پاس تھی وہ زمینوں کی بندر بانٹ میں پیپلز پارٹی سے بھی آگے نکل گئی تھی اور مشہور چائنا کٹنگ کا بڑا زرعی اسکینڈل بھی سامنے آیا تھا جس میں مبینہ طور پر سابق سٹی ناظم ، ایم کیو ایم کے سابق رہنما انیس قائم خانی اور متحدہ کے متعدد رہنماؤں کے نام بھی شامل تھے اور ان سمیت متعدد رہنماؤں پر زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ کے مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔
کراچی میں سرکاری زمین جب شہری علاقوں میں باقی نہیں رہی تو پیپلز پارٹی کے وزرائے بلدیات نے کراچی کے نواحی علاقوں میں گوٹھوں کے گوٹھ فروخت کرنا شروع کیے کیونکہ کراچی کے نواحی علاقوں میں سندھیوں کی پرانی آبادیاں قائم تھیں جو پیپلز پارٹی کا پکا ووٹ بینک تھا۔ نواحی علاقوں میں کچی آبادیوں کو بڑے پیمانے پر پی پی رہنماؤں نے ریگولرائزکرایا جس سے اورکراچی کے باہر پھیلنے کی وجہ سے نواحی علاقوں میں رہائشی اور صنعتی زمینوں کی ویلیو بڑھتی چلی گئی۔
سپر ہائی وے پر متعدد صنعتوں کے قیام اور سپر ہائی وے کے دونوں اطراف بڑے لوگوں کے فارم ہاؤسز اور تفریحی واٹر پارکوں نے نواحی علاقوں کی زمینوں کو بھی سونا بنا دیا تھا۔ کراچی کے نواحی علاقوں میں زرعی اراضی ختم ہوتی گئی، سپر ہائی وے کے دونوں اطراف ہوٹلوں اور پٹرول پمپس کی بھرمار ہوتی گئی۔
ناردرن بائی پاس نے تو نواحی علاقوں کو شہروں میں تبدیل کردیا۔ کراچی میں سرکاری ترقیاتی اداروں کے پاس نئے رہائشی منصوبوں کی جگہ ہی باقی نہیں رہی تھی۔ کے ڈی اے کے آخری رہائشی منصوبوں سرجانی ٹاؤن، خدا کی بستی اور شاہ لطیف ٹاؤن کے بعد دو عشروں تک کوئی رہائشی منصوبہ سرکاری طور پر نہیں بنایا گیا۔ لیاری ندی کے دونوں طرف سے آباد لوگوں کو پچاس ہزار روپے اور متبادل طور پر 80 گز کے پلاٹوں کی تیسر ٹاؤن، بلدیہ اور ہاکس بے میں منتقلی سے بھی ان علاقوں کی اہمیت بڑھی۔
لیاری ندی جو اندرون شہر کے مختلف علاقوں سے گزرتی ہے وہاں دونوں اطراف ٹریفک کے مسائل حل کرانے کے لیے لیاری ایکسپریس وے بنانے کے منصوبے میں سب سے زیادہ کرپشن ہوئی۔ لیاری ندی کے کنارے جن کے پلاٹ نہیں تھے اور جو لوگ رہائش پذیر تھے ان سے سٹی حکومت میں لینڈ ڈپارٹمنٹ والے رشوت لے کر کروڑوں پتی بن گئے۔
جنھیں منہ مانگی رشوت دے کر چھوٹے گھر میں دو دروازے لگوا کر، بھینسوں کے باڑے والوں اور قبضہ مافیا نے حکومت سے پچاس پچاس ہزار روپے اور متبادل پلاٹ اپنی مرضی کی تعداد میں حاصل کیے اور حکومت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ حکومت نے لیاری ایکسپریس وے تو بنا لیا مگر اس سلسلے میں کرپشن کا بھی نیا ریکارڈ بنا اور سرکاری اور غیر سرکاری لوگ بڑے پیمانے پر فیض یاب ہوئے۔
کراچی میں پہلے کے ڈی اے تھی جو بعد میں ایم ڈی اے اور ایل ڈی اے تین ترقیاتی ادارے تو بن گئے مگر ان تینوں اداروں کے کرپٹ افسروں اور اہلکاروں نے جو مال بنایا وہ کسی تحقیقاتی ادارے کو نظر نہیں آیا۔ ان کے حد سے بڑھے ہوئے اثاثوں کی اداروں کو تحقیقات کا موقعہ نہیں ملا۔ کراچی کی سرکاری زمینوں پر قبضے کرانے میں نواحی علاقوں کے پولیس تھانوں، پولیس افسروں اور سپاہیوں تک نے اہم کردار ادا کیا۔
نواحی علاقوں کے تھانوں گڈاپ، بن قاسم، شاہ لطیف ٹاؤن، ملیر، کیماڑی، گلزار ہجری، اجمیر نگری، سرجانی، ابراہیم حیدری، منگھو پیر، بلدیہ، کورنگی و دیگر میں سرکاری زمینوں پر نہ صرف پولیس رشوت لے کر قبضے کراتی تھی بلکہ گھروں کی تعمیر بھی پولیس کو رشوت دیے بغیر ممکن نہیں ہوتی تھی۔ حال ہی میں منگھوپیر تھانہ کے ایس ایچ او کی خبر میڈیا میں آئی ہے جس نے مبینہ طور پر زمینوں پر قبضے کے لیے 15 لاکھ رشوت دینے پر اپنے ہی اے ایس آئی کو گرفتار کرایا ہے۔ گرفتار پولیس افسر کے خلاف ایس ایچ او نے اپنی ہی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرائی ہے کہ اس نے علاقے کے ایک قبضہ مافیا کے لیے دیہہ چاکرو میں زمین پر قبضہ کرانے کے لیے 15 لاکھ روپے رشوت دینے کی کوشش کی تھی۔ مذکورہ سرکاری زمین کے تین دعوے دار تھے۔
اینٹی کرپشن پولیس نے گلستان جوہر میں 6 سے 7 ارب کی سرکاری زمین کی چائنا کٹنگ کرکے فروخت کرنے کے الزام میں خلد آباد پولیس چوکی کے انچارج سمیت تین ملزموں کو گرفتار کرلیا ہے۔ اینٹی کرپشن ایسٹ زون نے بھی سرکاری زمینوں کی فروخت میں انتہائی مطلوب ملزم احسان نقوی کو گرفتار کیا ہے جب کہ ملزم کا ایک ساتھی سب رجسٹرار گڈاپ پہلے ہی گرفتار ہے ملزم کے خلاف پولیس اور ایف آئی اے میں تین مقدمات درج تھے۔
زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ میں ریونیو افسران اور پولیس تو ملوث ہے ہی مگر کراچی کے دو اضلاع ملیر اور شرقی کے دو ڈپٹی کمشنر قاضی جان محمد اور شوکت جوکھیو بھی گرفتار ہوچکے ہیں۔ کراچی میں لینڈ مافیا نے سرکاری افسروں اور پولیس کے ذریعے اربوں کھربوں روپے کی سرکاری زمینیں غیر قانونی طور پر فروخت کرائیں جس میں متعدد ارکان اسمبلی بھی ملوث ہیں اور لینڈ مافیا انتہائی بااثر و طاقتور ہے۔