خونی کہانیاں
روز اول ہی سے خونی کہانی وجود میں آگئی تھی، جب قابیل نے ہابیل کا قتل کیا تھا۔
روز اول ہی سے خونی کہانی وجود میں آگئی تھی، جب قابیل نے ہابیل کا قتل کیا تھا، وہ دنیا کا پہلا قتل تھا، بی بی حوا اور باوا آدم کو اس حادثے کا بے حد دکھ تھا، ایک بیٹا جہنمی بن گیا تو دوسرا اس دنیا میں ہی نہ رہا لیکن آپ دونوں نے صبر کیا کہ رضائے الٰہی یہی تھی، پھر قتل کرنے کی سازش ایک بار پھر ہوئی۔ وہ اس طرح کہ اﷲ کے پیغمبر حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈال کر جان سے مارنے کی کوشش کی گئی لیکن حکم خداوندی سے آگ گلزار بن گئی۔ اور پھر ایک اور قتل ہوا، حضرت موسیٰ ؑکے صرف ایک گھونسے سے ایک شخص کی ہلاکت ہوگئی۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک روز حضرت موسیٰ ؑ ایسے وقت شہر (مصر) میں داخل ہوئے جب وہاں کے لوگ خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے تھے۔ انھوں نے دو آدمیوں کو آپس میں لڑتے دیکھا، ایک شخص تو ان کی قوم (بنی اسرائیل) سے تھا اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا، جو آدمی حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کا تھا، اس نے حضرت موسیٰ ؑ سے مدد چاہی تو موسیٰ ؑ نے ایک مکا مارا اور ایک مکے میں ہی اس کا کام تمام ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد حضرت موسیٰ ؑ نے سوچا کہ یہ تو ایک شیطانی حرکت ہے۔ بے شک شیطان دشمن اور گمراہ کرنے والا ہے۔ پھر آپ ؑ نے فرمایا کہ: ''بے شک میں نے ظلم کیا اپنی جان پر، پس معاف کر مجھے، تو معاف کردیا اﷲ نے، بے شک وہی بڑا بخشنے والا، رحم والاہے۔'' (16القصص)
قارون بھی موسیٰ ؑ کی قوم سے تھا، بڑا مغرور اور سرکش، اسے اپنی دولت پر بڑا گھمنڈ تھا، اس کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ میں نے اپنی طاقت اور محنت کی بدولت حاصل کیا ہے اور ایک وقت وہ آیا جب اس کا غرور خاک میں مل گیا اور اﷲ کے حکم سے قارون اور اس کا گھر زمین میں دھنس گیا اور وہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوا۔ قتل و غارت کا سلسلہ آگے بڑھتا ہی رہا، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کو بھی شہید کیا گیا اور پھر حق و باطل کا معرکہ جس نے تاریخ اسلام کو ایک نیا موڑ دیا اور کفر کے آگے کبھی نہ جھکنے دیا۔ واقعہ کربلا میں نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کی قابل قدر، قابل احترام شخصیات کی شہادت ہوئی۔
قتل کی کہانی بڑی طویل بھی ہے اور پرانی بھی، چنگیز خان و ہلاکو خان کے مظالم و قتل، جنگ اول و جنگ دوم نے بھی خونیں واقعات کو رقم کیا ہے اور پھر ہٹلر اور یہودیوں کی جنگیں، ہندوستان کی مشہور جنگیں، پانی پت کی جنگ، اول، دوئم، سوم۔ ٹیپو سلطان اور سلطان صلاح الدین کی انگریزوں سے لڑنے والے معرکے اور جنگیں، پھر ہند و پاک کی جنگ اور بھی جنگ و الم کے بے شمار واقعات سے تاریخ کے اوراق خون سے رنگے ہوئے ہیں اور آج تک جنگ و جدل، نفرت و تعصب کی کہانیاں وجود میں آرہی ہیں اور خوب پنپ رہی ہیں۔ قیام پاکستان کے موقع پر بھی انسانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا۔ تاریخ جب بھی کروٹ لیتی ہے، خون کی ندیاں ہر قدم اور ہر موڑ پر بہتی نظر آتی ہیں اور تاریخ کے صفحات پر خون کے چھینٹے نمایاں ہوجاتے ہیں۔ اﷲ سے سرکشی کا نتیجہ تباہی و بربادی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ سیلاب، زلزلے، عمارتوں کا انہدام، جان لیوا بیماریاں، انسان کے اپنے برے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ اس قسم کی باتوں کا ذکر قرآن پاک میں جا بجا نظر آتا ہے۔ اﷲ کی نافرمانی و سرکشی، ایک شیطانی عمل ہے، شیطان انسان کو اس قدر بہکاتا ہے کہ ایک دن وہی نادان و گمراہ انسان عذاب میں مبتلا ہوجاتاہے۔آج نفسا نفسی اور افراتفری کا عالم ہے، مفاد پرستی عروج پر ہے، انسانیت دم توڑ رہی ہے اور انسان درندگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ قاتل بھی انسان ہے اور مقتول بھی انسان ہے، زخم بھی وہی لگاتا ہے، مرہم بھی اس کے ہاتھوں سے لگتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے قہر و حشر کے بارے میں وضاحت سے بتادیا ہے۔ راہ مستقیم بھی دکھادی ہے، اب انسانوں کی یہ مرضی پر منحصر ہے کہ وہ گہرائی کی دلدل میں گرجائیں اور لوگوں کا خون کرکے ہمیشہ کے لیے جہنم کو اپنے نام الاٹ کرلیں اور چاہیں تو بلکتی ہوئی انسانیت کی خدمت کرکے اعلیٰ و ارفع مقام کے حقدار بنیں۔ روشن راستے انسان کا استقبال کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور تاریک راہیں بھی اسے بہت پیار سے بلاتی ہیں اور ایک نئی دنیا کا پتہ دیتی ہیں جہاں اندھیرے اجالے کی داستانیں جنم لیتی ہیں اور انجام زوال کی طرف لے جاتا ہے اور دہشت گردی کا داغ آنے والی نسلوں کو منتقل ہوتا رہتا ہے۔
قتل و غارت گری اپنی جگہ، اخلاقی قدروں کی بربادی اپنی جگہ، انسان تھوڑی سی دولت، علم و شہرت حاصل کرکے اپنے رب کو ناراض کرلیتا ہے اور قارون و فرعون کی صف میں شامل ہونے کی سعی کرتا ہے۔ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا کی تمام کرسیاں ناپائیدار ہوتی ہیں، عروج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کسی کو نصیب نہیں ہوتا ہے۔ ایک دن وہ ضرور آتا ہے جب وہ کمزور سی لکڑی یا لوہے کی کرسی سے اتار دیا جاتا ہے تب اس کے ہوش ٹھکانے آتے ہیں کہ وہ کیا اور اس کی حقیقت کیا ہے۔ جس بات پر غرور تھا، جس کامیابی پر نازاں تھا، وہ کامیابی و کامرانی پانی کے بلبلے کی طرح بہت جلد بیٹھ گئی۔ ہم نے اپنی زندگی میں ایسے چھوٹے چھوٹے پست کردار والے لوگ بہت سے دیکھے ہیں اور جنھیں وقت نے ایک سنگین مذاق بنادیا ہے۔ دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جنھوں نے قدم قدم پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں، فتح کا علم بلند کیا ہے، ان میں اس قدر انکساری و عاجزی پنہاں ہے کہ ہر شخص ان سے مل کر نہال ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ عزت و ذلت اﷲ کے ہاتھ میں ہے پھر کس بات کے نخرے، وہ پچھلے لوگوں کے انجام اور اسلامی تعلیمات سے سبق سیکھتے ہیں۔ یہی لوگ حقیقتاً بڑے ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی اندھیرے کی دبیز چادر کو تار تار کردیا جائے تاکہ ہر شخص نفع و نقصان کی پہچان کرسکے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تعلیم کو عام کیا جائے، تعلیم سے دوری کا نتیجہ یہی ہے کہ ہمارے نوجوان ہاتھ میں اسلحہ لے کر اپنے مشن پر روانہ ہوجاتے ہیں اور بغیر کسی دشمنی و نفرت کے ان لوگوں کا قتل کردیتے ہیں جن سے وہ واقف بھی نہیں ہیں اور یہی بڑا المیہ ہے۔
قارون بھی موسیٰ ؑ کی قوم سے تھا، بڑا مغرور اور سرکش، اسے اپنی دولت پر بڑا گھمنڈ تھا، اس کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ میں نے اپنی طاقت اور محنت کی بدولت حاصل کیا ہے اور ایک وقت وہ آیا جب اس کا غرور خاک میں مل گیا اور اﷲ کے حکم سے قارون اور اس کا گھر زمین میں دھنس گیا اور وہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوا۔ قتل و غارت کا سلسلہ آگے بڑھتا ہی رہا، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کو بھی شہید کیا گیا اور پھر حق و باطل کا معرکہ جس نے تاریخ اسلام کو ایک نیا موڑ دیا اور کفر کے آگے کبھی نہ جھکنے دیا۔ واقعہ کربلا میں نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کی قابل قدر، قابل احترام شخصیات کی شہادت ہوئی۔
قتل کی کہانی بڑی طویل بھی ہے اور پرانی بھی، چنگیز خان و ہلاکو خان کے مظالم و قتل، جنگ اول و جنگ دوم نے بھی خونیں واقعات کو رقم کیا ہے اور پھر ہٹلر اور یہودیوں کی جنگیں، ہندوستان کی مشہور جنگیں، پانی پت کی جنگ، اول، دوئم، سوم۔ ٹیپو سلطان اور سلطان صلاح الدین کی انگریزوں سے لڑنے والے معرکے اور جنگیں، پھر ہند و پاک کی جنگ اور بھی جنگ و الم کے بے شمار واقعات سے تاریخ کے اوراق خون سے رنگے ہوئے ہیں اور آج تک جنگ و جدل، نفرت و تعصب کی کہانیاں وجود میں آرہی ہیں اور خوب پنپ رہی ہیں۔ قیام پاکستان کے موقع پر بھی انسانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا۔ تاریخ جب بھی کروٹ لیتی ہے، خون کی ندیاں ہر قدم اور ہر موڑ پر بہتی نظر آتی ہیں اور تاریخ کے صفحات پر خون کے چھینٹے نمایاں ہوجاتے ہیں۔ اﷲ سے سرکشی کا نتیجہ تباہی و بربادی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ سیلاب، زلزلے، عمارتوں کا انہدام، جان لیوا بیماریاں، انسان کے اپنے برے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ اس قسم کی باتوں کا ذکر قرآن پاک میں جا بجا نظر آتا ہے۔ اﷲ کی نافرمانی و سرکشی، ایک شیطانی عمل ہے، شیطان انسان کو اس قدر بہکاتا ہے کہ ایک دن وہی نادان و گمراہ انسان عذاب میں مبتلا ہوجاتاہے۔آج نفسا نفسی اور افراتفری کا عالم ہے، مفاد پرستی عروج پر ہے، انسانیت دم توڑ رہی ہے اور انسان درندگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ قاتل بھی انسان ہے اور مقتول بھی انسان ہے، زخم بھی وہی لگاتا ہے، مرہم بھی اس کے ہاتھوں سے لگتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے قہر و حشر کے بارے میں وضاحت سے بتادیا ہے۔ راہ مستقیم بھی دکھادی ہے، اب انسانوں کی یہ مرضی پر منحصر ہے کہ وہ گہرائی کی دلدل میں گرجائیں اور لوگوں کا خون کرکے ہمیشہ کے لیے جہنم کو اپنے نام الاٹ کرلیں اور چاہیں تو بلکتی ہوئی انسانیت کی خدمت کرکے اعلیٰ و ارفع مقام کے حقدار بنیں۔ روشن راستے انسان کا استقبال کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور تاریک راہیں بھی اسے بہت پیار سے بلاتی ہیں اور ایک نئی دنیا کا پتہ دیتی ہیں جہاں اندھیرے اجالے کی داستانیں جنم لیتی ہیں اور انجام زوال کی طرف لے جاتا ہے اور دہشت گردی کا داغ آنے والی نسلوں کو منتقل ہوتا رہتا ہے۔
قتل و غارت گری اپنی جگہ، اخلاقی قدروں کی بربادی اپنی جگہ، انسان تھوڑی سی دولت، علم و شہرت حاصل کرکے اپنے رب کو ناراض کرلیتا ہے اور قارون و فرعون کی صف میں شامل ہونے کی سعی کرتا ہے۔ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا کی تمام کرسیاں ناپائیدار ہوتی ہیں، عروج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کسی کو نصیب نہیں ہوتا ہے۔ ایک دن وہ ضرور آتا ہے جب وہ کمزور سی لکڑی یا لوہے کی کرسی سے اتار دیا جاتا ہے تب اس کے ہوش ٹھکانے آتے ہیں کہ وہ کیا اور اس کی حقیقت کیا ہے۔ جس بات پر غرور تھا، جس کامیابی پر نازاں تھا، وہ کامیابی و کامرانی پانی کے بلبلے کی طرح بہت جلد بیٹھ گئی۔ ہم نے اپنی زندگی میں ایسے چھوٹے چھوٹے پست کردار والے لوگ بہت سے دیکھے ہیں اور جنھیں وقت نے ایک سنگین مذاق بنادیا ہے۔ دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جنھوں نے قدم قدم پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں، فتح کا علم بلند کیا ہے، ان میں اس قدر انکساری و عاجزی پنہاں ہے کہ ہر شخص ان سے مل کر نہال ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ عزت و ذلت اﷲ کے ہاتھ میں ہے پھر کس بات کے نخرے، وہ پچھلے لوگوں کے انجام اور اسلامی تعلیمات سے سبق سیکھتے ہیں۔ یہی لوگ حقیقتاً بڑے ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی اندھیرے کی دبیز چادر کو تار تار کردیا جائے تاکہ ہر شخص نفع و نقصان کی پہچان کرسکے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تعلیم کو عام کیا جائے، تعلیم سے دوری کا نتیجہ یہی ہے کہ ہمارے نوجوان ہاتھ میں اسلحہ لے کر اپنے مشن پر روانہ ہوجاتے ہیں اور بغیر کسی دشمنی و نفرت کے ان لوگوں کا قتل کردیتے ہیں جن سے وہ واقف بھی نہیں ہیں اور یہی بڑا المیہ ہے۔