علم الاعداد اور نام
ہمارےمعاشرےمیں غلط روایت ہے کہ بیٹوں کی پیدائش پرخوشیاں جبکہ بیٹیوں کی پیدائش کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
ISLAMABAD:
سب سے پہلے ہم قارئین کے ساتھ اپنی خوشی شیئر کرنا چاہتے ہیں کہ گزشتہ اتوار29 ستمبر کو اﷲ نے اپنی رحمت کو بیٹی کی صورت ہمارے آنگن میں اتارا ہے۔ ہم اﷲ کی اس کرم نوازی پر اس کے ممنون ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بیٹی اﷲ کی رحمت اور بیٹے نعمت ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں غلط روایت ہے کہ بیٹوں کی پیدائش پر تو خوشیاں منائی جاتی ہیں لیکن بیٹیوں کی پیدائش کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، عجیب تاویلات پیش کی جاتی ہیں کہ بیٹے خاندان کا نام آگے چلاتے ہیں، باپ کا سہارا بنتے ہیں وغیرہ وغیرہ جب کہ لڑکیوں کو بوجھ متصور کیا جاتا ہے۔
معاشرے کی اس سوچ کو دورِ جاہلیت کی باقیات کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ جب بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کردیا جاتا تھا، اب بھی خاندانی جائیداد میں بیٹی کے حصے کو ہڑپنے کی خاطر بنت حوا پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ خیر معاشرے کا یہ تاریک پہلو ہمارا موضوع نہیں ہرچند کہ ہم اس رویے کے سخت مخالف ہیں۔ آج ہمارا موضوع علم الاعداد کی روشنی میں بچوں کے نام رکھنے پر مشتمل ہے کیونکہ بچی کی پیدائش پر ہم بھی اس وقت سے گزرے ہیں کہ درجنوں نام تجویز کیے جارہے تھے لیکن مشکل درپیش تھی کہ کیا نام رکھیں اور کس کی تجویز کو رد کریں۔ بہرحال آج ہم آپ کو طریقہ بتاتے ہیں کہ علم الاعداد کی روشنی میں تاریخ پیدائش کے حساب سے عدد کیسے نکالا جاتا ہے اور اپنے نام کے ''حرف ابجد'' کے مطابق عدد کیسے معلوم کرتے ہیں۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ نام کے شخصیت پر بہت اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس لیے نام ہمیشہ خوبصورت اور بامعنی رکھنا چاہیے، بطور مسلمان ہمیں اسلامی ناموں کا رجحان بڑھانا چاہیے۔ آج کل پاکستانی معاشرے میں یہ غلط رجحان در آیا ہے کہ منفرد نام رکھنے کے چکر میں نام کی ساخت اور معنی پر توجہ نہیں دی جاتی، تلفظ کا بھی صحیح ادراک نہیں ہوتا، بسا اوقات ہندی ڈراموں اور فلموں کے کرداروں کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھ دیے جاتے ہیں جو کہ سراسر غلط چلن ہے۔ اسی طرح ایک اور غلط روایت مشہور شخصیات کی کنیت کو بطور نام رکھنے کی بھی ہے، کنیت کبھی بھی نام نہیں ہوتی لیکن آج کل بہت سے لوگ بچوں کے نام سے پہلے اُمّ، اَبو، بِن اور بنتِ کا استعمال کرتے ہیں جو کہ غلط ہے، فرض کریں آپ کسی بچی کا نام اُمّ حبیبہ رکھ رہے ہیں جس کا مطلب بنتا ہے حبیبہ کی ماں، اب بھلا ایک بچی جو ابھی پیدا ہوئی ہے وہ کسی کی ماں کیسے بن سکتی ہے؟ اس بحث کو یہاں قطع کرتے ہوئے ہم آگے حرف ابجد کی طرف بڑھتے ہیں۔
علم الاعداد میں حرف تہجی کی تختی حرف ابجد کی طرز پر پڑھی جاتی ہے جیسے ابجد ھوز حطی کلمن وغیرہ۔ یہاں ہر حرف کو ایک مخصوص عدد دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے آپ اس تختی کے مطابق ان حروف کے اعداد کو ذہن نشین کرلیں۔ الف = 1، ب = 2، ج = 3، د = 4، ھ = 5، و = 6، ز = 7، ح = 8، ط = 9، ی = 10، ک = 20، ل = 30، م = 40، ن = 50، س = 60، ع = 70، ف = 80، ص = 90، ق = 100، ر = 200، ش = 300، ت = 400، ث = 500، خ = 600، ذ = 700، ض = 800، ظ = 900، غ = 1000۔ یہ بھی واضح رہے کہ مد، حمزہ اور کھڑا زبر جسے چھوٹا الف بھی کہتے ہیں اس کا عدد شمار نہیں ہوتا جیسے آصف کا پہلا لفظ الف تصور ہوگا اور الٰہی میں ل کے بعد ہ لیا جائے گا۔
ہم یہاں حرف ابجد کو بہت سہل انداز میں بیان کر رہے ہیں تاکہ قارئین باآسانی اس بحث کو سمجھ سکیں جب کہ یہ موضوع کسی قدر وقیع ہے۔ آپ صرف بالائی باتوں کو ذہن نشین کرکے باآسانی یہ حساب خود لگا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تاریخ پیدائش کے حساب سے عدد نکالنے کا طریقہ نوٹ کریں۔ جیسے ہماری تاریخ پیدائش ہے 24 نومبر 1983، اب ہم اس تاریخ کو اس طرح لکھتے ہیں 24+11+1983 ... تمام اعداد کا حاصل جمع بنتا ہے 2018، چونکہ ہم 9 عدد کی طاقت پر چلتے ہیں اس لیے صرف 1 سے 9 تک ہی اعداد شمار کرتے ہیں، اب ہم حاصل جمع کو اس طرح لکھیں گے 2+0+1+8، اس کا حاصل جمع 11 بنتا ہے، دوبارہ حساب لگانے کے لیے 1+1=2، یعنی ہماری تاریخ پیدائش کے لحاظ سے ہمارا عدد 2 ہے۔ اب اس لحاظ سے اگر ہم بچے کا نام رکھتے ہوئے اس حرف کا انتخاب کریں جس کا عدد 2 ہو اور وہ نام رکھیں جس کا عدد بھی 2 نکلے تو اس کے بچے کی شخصیت اور قسمت پر بہت مثبت اثرات پڑیں گے، وہ بچہ زندگی کے ہر معاملے میں ترقی کرے گا اور کامیابی کی معراج پائے گا۔
نام کا مطلوبہ عدد حاصل کرنے کے لیے مرکب نام بھی رکھا جاسکتا ہے۔ اب ہم طریقہ بیان کرتے ہیں کہ کسی نام کا عدد کیسے معلوم کیا جائے۔ مثال کے طور پر شایان تمثیل... اب اوپر دیے گئے حرف ابجد کے جدول کو دیکھیے اور اس نام کے تمام حرف کے الگ الگ نمبر کو لے کر حاصل جمع نکالیں، جیسے ش کا 300، ا کا 1، ی کا 10، ن کا 50، اسی طرح دیگر تو جواب آئے گا 1342، تمام عدد کو الگ الگ کرکے جمع کریں تو عدد نکلے گا 1+3+4+2=12، اسی طرح 1+2=3، یعنی شایان تمثیل جیسے مرکب نام کا عدد 3 ہے۔ برسبیل تذکرہ قارئین کو بتاتے چلیں کہ شایان تمثیل ہمارا اصل نہیں بلکہ قلمی نام ہے۔ امید ہے مندرجہ بالا چارٹ کے ذریعے قارئین باآسانی اپنے نام کا عدد معلوم کرسکیں گے۔
حرف آخر کے طور پر دوبارہ کہتے چلیں کہ نام کے شخصیت پر بے پناہ اثرات ہوتے ہیں اس لیے اسلام میں بھی اچھے نام رکھنے اور پکارنے کی تلقین کی گئی ہے اور برے ناموں سے پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ بچوں کے نام رکھتے ہوئے معنی لازمی مدنظر رکھیں، اگر نام کے معنی سخت یا برے ہوں گے تو بچے کی تمام شخصیت اس کے نام کی عکاس ہوگی، نام بچوں کی صحت پر بھی اثر انداز کرتے ہیں، ایسے نام جس کے معنی سخت، خطرناک، ضدی، انا پرست، مشکل، شدت پسند، جنگجو قسم کے ہوں وہ نام رکھنے سے گریز کیا جائے۔ نام کو صحیح تلفظ سے پکارا اور صحیح املا سے لکھا جائے، جیسے مُحب کو مُہیب کہنا معنی کو بالکل بدل دے گا اور چاہے جانے والا، ڈرائونا بن جائے گا۔ نام کے انتخاب میں اگر مشکل درپیش ہو تو کسی صاحب علم بزرگ سے مشورہ کرلینا ہی راست اقدام ہے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں www.facebook.com/shayan.taseel)
سب سے پہلے ہم قارئین کے ساتھ اپنی خوشی شیئر کرنا چاہتے ہیں کہ گزشتہ اتوار29 ستمبر کو اﷲ نے اپنی رحمت کو بیٹی کی صورت ہمارے آنگن میں اتارا ہے۔ ہم اﷲ کی اس کرم نوازی پر اس کے ممنون ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بیٹی اﷲ کی رحمت اور بیٹے نعمت ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں غلط روایت ہے کہ بیٹوں کی پیدائش پر تو خوشیاں منائی جاتی ہیں لیکن بیٹیوں کی پیدائش کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، عجیب تاویلات پیش کی جاتی ہیں کہ بیٹے خاندان کا نام آگے چلاتے ہیں، باپ کا سہارا بنتے ہیں وغیرہ وغیرہ جب کہ لڑکیوں کو بوجھ متصور کیا جاتا ہے۔
معاشرے کی اس سوچ کو دورِ جاہلیت کی باقیات کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ جب بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کردیا جاتا تھا، اب بھی خاندانی جائیداد میں بیٹی کے حصے کو ہڑپنے کی خاطر بنت حوا پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ خیر معاشرے کا یہ تاریک پہلو ہمارا موضوع نہیں ہرچند کہ ہم اس رویے کے سخت مخالف ہیں۔ آج ہمارا موضوع علم الاعداد کی روشنی میں بچوں کے نام رکھنے پر مشتمل ہے کیونکہ بچی کی پیدائش پر ہم بھی اس وقت سے گزرے ہیں کہ درجنوں نام تجویز کیے جارہے تھے لیکن مشکل درپیش تھی کہ کیا نام رکھیں اور کس کی تجویز کو رد کریں۔ بہرحال آج ہم آپ کو طریقہ بتاتے ہیں کہ علم الاعداد کی روشنی میں تاریخ پیدائش کے حساب سے عدد کیسے نکالا جاتا ہے اور اپنے نام کے ''حرف ابجد'' کے مطابق عدد کیسے معلوم کرتے ہیں۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ نام کے شخصیت پر بہت اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس لیے نام ہمیشہ خوبصورت اور بامعنی رکھنا چاہیے، بطور مسلمان ہمیں اسلامی ناموں کا رجحان بڑھانا چاہیے۔ آج کل پاکستانی معاشرے میں یہ غلط رجحان در آیا ہے کہ منفرد نام رکھنے کے چکر میں نام کی ساخت اور معنی پر توجہ نہیں دی جاتی، تلفظ کا بھی صحیح ادراک نہیں ہوتا، بسا اوقات ہندی ڈراموں اور فلموں کے کرداروں کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھ دیے جاتے ہیں جو کہ سراسر غلط چلن ہے۔ اسی طرح ایک اور غلط روایت مشہور شخصیات کی کنیت کو بطور نام رکھنے کی بھی ہے، کنیت کبھی بھی نام نہیں ہوتی لیکن آج کل بہت سے لوگ بچوں کے نام سے پہلے اُمّ، اَبو، بِن اور بنتِ کا استعمال کرتے ہیں جو کہ غلط ہے، فرض کریں آپ کسی بچی کا نام اُمّ حبیبہ رکھ رہے ہیں جس کا مطلب بنتا ہے حبیبہ کی ماں، اب بھلا ایک بچی جو ابھی پیدا ہوئی ہے وہ کسی کی ماں کیسے بن سکتی ہے؟ اس بحث کو یہاں قطع کرتے ہوئے ہم آگے حرف ابجد کی طرف بڑھتے ہیں۔
علم الاعداد میں حرف تہجی کی تختی حرف ابجد کی طرز پر پڑھی جاتی ہے جیسے ابجد ھوز حطی کلمن وغیرہ۔ یہاں ہر حرف کو ایک مخصوص عدد دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے آپ اس تختی کے مطابق ان حروف کے اعداد کو ذہن نشین کرلیں۔ الف = 1، ب = 2، ج = 3، د = 4، ھ = 5، و = 6، ز = 7، ح = 8، ط = 9، ی = 10، ک = 20، ل = 30، م = 40، ن = 50، س = 60، ع = 70، ف = 80، ص = 90، ق = 100، ر = 200، ش = 300، ت = 400، ث = 500، خ = 600، ذ = 700، ض = 800، ظ = 900، غ = 1000۔ یہ بھی واضح رہے کہ مد، حمزہ اور کھڑا زبر جسے چھوٹا الف بھی کہتے ہیں اس کا عدد شمار نہیں ہوتا جیسے آصف کا پہلا لفظ الف تصور ہوگا اور الٰہی میں ل کے بعد ہ لیا جائے گا۔
ہم یہاں حرف ابجد کو بہت سہل انداز میں بیان کر رہے ہیں تاکہ قارئین باآسانی اس بحث کو سمجھ سکیں جب کہ یہ موضوع کسی قدر وقیع ہے۔ آپ صرف بالائی باتوں کو ذہن نشین کرکے باآسانی یہ حساب خود لگا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تاریخ پیدائش کے حساب سے عدد نکالنے کا طریقہ نوٹ کریں۔ جیسے ہماری تاریخ پیدائش ہے 24 نومبر 1983، اب ہم اس تاریخ کو اس طرح لکھتے ہیں 24+11+1983 ... تمام اعداد کا حاصل جمع بنتا ہے 2018، چونکہ ہم 9 عدد کی طاقت پر چلتے ہیں اس لیے صرف 1 سے 9 تک ہی اعداد شمار کرتے ہیں، اب ہم حاصل جمع کو اس طرح لکھیں گے 2+0+1+8، اس کا حاصل جمع 11 بنتا ہے، دوبارہ حساب لگانے کے لیے 1+1=2، یعنی ہماری تاریخ پیدائش کے لحاظ سے ہمارا عدد 2 ہے۔ اب اس لحاظ سے اگر ہم بچے کا نام رکھتے ہوئے اس حرف کا انتخاب کریں جس کا عدد 2 ہو اور وہ نام رکھیں جس کا عدد بھی 2 نکلے تو اس کے بچے کی شخصیت اور قسمت پر بہت مثبت اثرات پڑیں گے، وہ بچہ زندگی کے ہر معاملے میں ترقی کرے گا اور کامیابی کی معراج پائے گا۔
نام کا مطلوبہ عدد حاصل کرنے کے لیے مرکب نام بھی رکھا جاسکتا ہے۔ اب ہم طریقہ بیان کرتے ہیں کہ کسی نام کا عدد کیسے معلوم کیا جائے۔ مثال کے طور پر شایان تمثیل... اب اوپر دیے گئے حرف ابجد کے جدول کو دیکھیے اور اس نام کے تمام حرف کے الگ الگ نمبر کو لے کر حاصل جمع نکالیں، جیسے ش کا 300، ا کا 1، ی کا 10، ن کا 50، اسی طرح دیگر تو جواب آئے گا 1342، تمام عدد کو الگ الگ کرکے جمع کریں تو عدد نکلے گا 1+3+4+2=12، اسی طرح 1+2=3، یعنی شایان تمثیل جیسے مرکب نام کا عدد 3 ہے۔ برسبیل تذکرہ قارئین کو بتاتے چلیں کہ شایان تمثیل ہمارا اصل نہیں بلکہ قلمی نام ہے۔ امید ہے مندرجہ بالا چارٹ کے ذریعے قارئین باآسانی اپنے نام کا عدد معلوم کرسکیں گے۔
حرف آخر کے طور پر دوبارہ کہتے چلیں کہ نام کے شخصیت پر بے پناہ اثرات ہوتے ہیں اس لیے اسلام میں بھی اچھے نام رکھنے اور پکارنے کی تلقین کی گئی ہے اور برے ناموں سے پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ بچوں کے نام رکھتے ہوئے معنی لازمی مدنظر رکھیں، اگر نام کے معنی سخت یا برے ہوں گے تو بچے کی تمام شخصیت اس کے نام کی عکاس ہوگی، نام بچوں کی صحت پر بھی اثر انداز کرتے ہیں، ایسے نام جس کے معنی سخت، خطرناک، ضدی، انا پرست، مشکل، شدت پسند، جنگجو قسم کے ہوں وہ نام رکھنے سے گریز کیا جائے۔ نام کو صحیح تلفظ سے پکارا اور صحیح املا سے لکھا جائے، جیسے مُحب کو مُہیب کہنا معنی کو بالکل بدل دے گا اور چاہے جانے والا، ڈرائونا بن جائے گا۔ نام کے انتخاب میں اگر مشکل درپیش ہو تو کسی صاحب علم بزرگ سے مشورہ کرلینا ہی راست اقدام ہے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں www.facebook.com/shayan.taseel)