ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم

کیا ہم ایسے ہی تھے جیسے اب ہم ہوگئے ہیں۔ کیا ہمارے بڑوں نے ہمیں اسی طرح بڑا کیا تھا۔

moosaafendi@gmail.com

کیا ہم ایسے ہی تھے جیسے اب ہم ہوگئے ہیں۔ کیا ہمارے بڑوں نے ہمیں اسی طرح بڑا کیا تھا۔ جس طرح سے ہم نے اپنے چھوٹوں کو بڑا کر دیا ہے۔ کیا ہمیں قرآن نے یہ سبق نہیں پڑھایا تھا کہ تمہارے اندر تفریق جان پہچان کے لیے ہے تعریف کے لیے نہیں۔ تعریف تو فقط اللہ کے لیے ہے۔ اور کوئی بھی تعریف کا سزا وار نہیں۔ کیا ہم نے اپنی پہچان کھو دی ہے یا نئی پہچان بنالی ہے؟ پہچان کے بھی کئی رنگ روپ ہوتے ہیں۔ اچھی پہچان بھی ہوسکتی ہے اور بری پہچان بھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پہچان کا تعلق نظریات اور خیالات سے زیادہ چال چلن کردار اور عادات واطوار سے ہوتا ہے۔ نظریات اور عقائد رکھنے والے اپنے کردار اور اطوار کے لحاظ سے اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی، ظالم بھی اور مظلوم بھی، قاہر بھی اور رحمدل بھی، بداخلاق بھی اور خوش اخلاق بھی۔ غرض کہ ہر قسم کے لوگوں کے اندر ہرطرح کے کردار اور افعال کے حامل لوگ موجود ہوتے ہیں اور اپنی علیحدہ سے پہچان رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اسی نسبت سے جانے جاتے ہیں اور ان ہی نسبتوں سے وابستہ رہ کر زندگیاں گذار دیتے ہیں۔

یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے دوران بدلتے رہتے ہیں۔ یعنی ضروری نہیں ہے کہ جو اچھا ہے وہ ہمیشہ اچھا رہے اور جو برُا ہے وہ ہمیشہ برُا ہی رہے۔ ظاہر ہے آدمی کوئی مشین سے نکلا ہوا کل پرزہ نہیں ہے جسے بس اسی طرح رہنا ہوتا ہے جس طرح مشین نے بنا کے پھینک دیا۔ آدمی کو خدا نے جن بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے انھیں تبدیل کرنے کی صلاحیت انتہائی اہم ہے۔ یہی وہ آدمی کی خاص صفت ہے جس کی بنیاد پر وہ سزا یا جزا کا مستحق ٹھہرتا ہے کیونکہ اُسے اچھے اور برے کے درمیان فرق کو سمجھنے کی توفیق عطا کی گئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک ابلیس کے بہکاوے کو روکنے کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث نہ ہوتے۔ آدمی کی اسی صلاحیت کے پیش نظر اسے مسلسل ہدایت سے نوازا گیا اور سیدھا راستہ دکھانے کے لیے باقاعدہ تسلسل کے ساتھ یاد دہانی کرائی گئی۔ انسانیت کو آخری مرتبہ قیامت تک کے لیے سرکار دوعالمؐ کے ذریعے ہدایت جاری کی گئی جو آج تک واضح بھی ہے اور قائم بھی۔

کتنی عجیب بات ہے کہ آپ جس بھی مسلمان سے بات کریں چاہے اس کا تعلق کسی بھی مسلک یا فرقے سے کیوں نہ ہو وہ بخوبی جانتا ہے کہ پیغمبر آخر الزمانؐ جو ہدایت نامہ اور تعلیمات لے کر مبعوث ہوئے وہ بہت سیدھی اور آسان سی ہدایات کا مجموعہ ہے جسے نہ جانے کیوں اسقدر مشکل اور پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ انھیں سمجھنے کی طرف رغبت کافی مشکل ہوگئی ہے۔ کیا یہ کام عام سیدھے سادھے مسلمانوں کا ہے یا انھیں آگے لگانے والوں کا۔ ایک خدا ایک رسول اور ایک کتاب کے ہوتے ہوئے ہم کتنے مختلف گروہوں طبقوں مسلکوں فرقوں اور پہچانوں میں بٹ گئے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے ہم کبھی ایک تھے ہی نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نہ صرف ایک تھے بلکہ آج بھی ایک ہی ہیں تبھی تو ہمیں آپس میں لڑانے کی اسقدر کوششو ں کے باوجود ہم جدا نہیں ہوئے اور آہستہ آہستہ ہمیں واضح طور پر پتہ چلنے لگ گیا ہے جو ہمیں ایک نہیں رہنے دے رہا وہ ہم میں سے نہیں ہے لیکن وہ اسقدر چالاک اور ہوشیار ہے کہ ہمارے اندر رہ کر ہمیں ایک دوسرے سے بڑی ہوشیاری اور مکاری کے ساتھ دُور کرنے کی کوشش کررہا ہے اس کی مکاری اور ہمارے شعور کا تقاضا ہے کہ وہ کامیاب نہ ہونے پائے۔ انشاء اللہ وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوگا اور ہم ہمیشہ ایک ہی رہینگے۔

آئیے میں آپکو ایک حدیث پاک کے ذریعے سے بتاتا ہوں کہ کتنی آسان بات کو ہم نے کتنا مشکل بنا دیا ہے اور جب ہم آسان باتوں کو مشکل بنانے پر تُل جائیں گے تو زندگی ہمارے اپنے لیے اجیرن ہوجائے گی جس طرح سے اب بڑی حد تک ہوچکی ہے۔

''پیغمبر اسلام ؐنے فرمایا: مسلمان اپنے مسلمان بھائی پر تیس حق رکھتا ہے جن سے وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ وہ ان حقوق کو ادا نہ کردے۔ یا اس کا مسلمان بھائی اس کو معاف نہ کردے۔ ''اس کی لغزشوں کو معاف کردے۔ اس کی پریشانی میں اس پر مہربانی کرے۔ اس کے رازوں کو پوشیدہ رکھے۔ اس کی غلطیوں کی تلافی کرے۔ اس کے عذر قبول کرے۔ بد گوئی کرنے والے سے اس کا دفاع کرے۔ ہمیشہ اس کا خیر خواہ رہے۔ اس کی دوستی کی پاسداری کرے۔ اس کے عہد وپیمان کی رعائت کرے۔ حالت بیماری میں اس کی عیادت کرے۔ اس کی موت کی حالت میں اس کے جنازے میں حاضر ہو۔ اس کی دعوت کو قبول کرے۔ اس کے ہدیہ کو قبول کرے۔ اس کے عطیہ کا بدلہ دے۔ اس کے احسان کا شکریہ ادا کرے۔


اس کی مدد میں کوشش کرے۔ اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کرے۔ اس کی حاجت پوری کرے۔ اس کی درخواست کی شفاعت کرے۔ اس کی چھینک پر ''یرحمک اللہ'' کہے اس کی گمشدہ چیزوں میں رہنمائی کرے۔ اس کے سلام کا جواب دے۔ اس کی گفتگو کو اچھا سمجھے اس کے انعام کو خوب قرار دے۔ اس کی قسموں کی تصدیق کرے اس کے دوست کو دوست رکھے اور اس کے ساتھ دشمنی نہ کرے۔ اس کی مدد میں کوشش کرے چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مد د یہ ہے کہ اُسے ظلم سے روکے اور مظلوم ہونے کی صورت میں اس کی مدد یہ ہے کہ اس کی اس کا حق حاصل کرنے میں مدد کرے۔ اسے حوادث زمانہ کے مقابلے میں تنہا نہ چھوڑے۔ نیکیوں اور اچھائیوں میں سے جن چیزوں کو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اس کے لیے بھی پسند کرے اور برائیوں میں سے جن چیزوں کو اپنے لیے نہیں چاہتا اس کے لیے بھی نہ چاہے''۔

اس حدیث پاک کی روشنی میں اگر ہم اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو پتہ چلے گا کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو خود مشکل بنایا ہوا ہے ہمیں بڑی آسان اور سیدھی باتیں بتائی گئی ہیں جو صرف اور صرف فائدے میں ہیں اور جنھیں ہم نے خود بہت زیادہ کوشش اور محنت کرکے مشکل بنا کے رکھ چھوڑا ہے۔ جب میں خود اپنے لیے مشکلات پیدا کرنے پر تُل جائوں تو کوئی بھی میرے لیے آسانیاں پیدا نہیں کرسکتا ۔

جس نبی پاکؐ کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں مندرجہ بالا باتوں کو اُسؐ آخری پیغمبر نے غیر مسلموں اور کافروں کے ساتھ بھی روا رکھا اور ہم اسؐ کی امت ہوتے ہوئے خود اپنوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک جاری رکھنے سے قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم واقعی کسی مشکل میں پھنس جائیں تو ہمیں غیر شعوری طور پر ان موقعوں یا واقعات کی یاد عذاب بن کر ستانے لگتی ہے۔ جب اسی قسم کی صورت حال میں ہم نے اپنے کسی قریبی عزیز بھائی یا بہن، ماں یا باپ یا دوست کی بالکل بھی مدد نہیں کی تھی جب کہ ہم ایسا کرنے کی طاقت رکھتے تھے۔ درحقیقت یہ قدرت کی طرف سے ایک بہت بڑی سزا ہوتی ہے۔ جو اکثر ہمیں بے بسی کے لمحات میں ملتی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود ہم اس سے پھر بھی سبق نہیں سیکھتے۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ''تم اپنے دو ہاتھوں سے لوگوں کی مدد کرو۔ وقت ضرورت سیکڑوں ہاتھ تمہای مدد کے لیے نکل آئیں گے۔'' ہم نے چونکہ اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف اور صرف اپنے لیے مخصوص کررکھا ہے اس لیے وقت ضرورت کوئی ہاتھ ہماری مدد کے لیے نہیں نکلتا اور سوائے تاسف اور پشمانی کے کچھ بھی ہمارے ہاتھ نہیں لگتا۔

اب کیا ہوسکتا ہے؟ اب بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے اگر ہم اپنے کیے ہوئے کرتوتوں کی معافی مانگ لیں۔ توبہ کرلیں اور آئندہ کے لیے ان عادات رذیلہ سے تائب ہو جائیں تو ستر مائوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہمیں نہ صرف معاف کردے گا بلکہ ہمیں خوف وہراس کی فضائوں سے نکال کر امن اور سکون کی وادیوں میں لوٹا دے گا۔ ہمیں باقاعدہ طور پر ایک کردے گا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم خود کوتقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ دنیا ہمارے ایک ہونے کی طاقت اور قوت سے ہی گھبراتی ہے۔ خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین۔
Load Next Story