قوم کی تعمیر نو
کسی ملک کی بقاوفلاح کیلئے3چیزیں اہم ہیں، طاقتور فو ج، خوراک کی افراط اور عوام کی باہمی یکجہتی، ہم آہنگی اورخوشحالی
کنفیوشس سے اس کے شاگرد نے پوچھا کہ کسی ملک کی سلامتی و فلا ح اور اصلاح کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے اس نے جواب میں کہا کہ کسی ملک کی بقاو فلاح کے لیے تین چیزیں اہم ہیں (1) طاقتور فو ج (2) خوراک کی افراط (3) عوام کی باہمی یکجہتی ، ہم آہنگی اور خوشحالی ۔ شاگر د نے پھر سوال کیاکہ اگر یہ تینوں بہ یک وقت میسر نہ آسکیں تو پھر ؟کنفیوشس نے جواب دیا اگر طاقتورفوج نہیں ہوگی تو کوئی بات نہیں کسی ملک کی سب سے بڑی فوج اس کے عوام ہوتے ہیں عوام خود اپنا دفاع کرلیں گے۔
شاگرد نے پھر پوچھا کہ ان باقی دو چیزوں میں سے وہ کون سی چیز ہے کہ جس کے بغیر گذارا ہوسکتا ہے۔ کنفیوشس نے جواب میں کہا کہ اگر خوراک کی قلت ہوگی تو کوئی بات نہیں کسی نہ کسی طرح گذارا ہو ہی جائے گا عوام باہم مل کر اس کمی کا مقابلہ کرلیں گے لیکن اگر عوام میںہم آہنگی اور یکجہتی نہیں ہوگی تو ملک کی تباہی اور بربادی یقینی ہے ، دنیا کے تمام ممالک نے اس وقت ترقی کی جب انھوں نے تمام فیصلوں کا اختیار اپنے عوام کو دے دیا اور انہیں با اختیار اور خوشحال بنا دیا۔ فرد واحد غلط فیصلے کرسکتا ہے لیکن عوام کبھی غلط فیصلے نہیں کرتے عوام سے زیادہ سمجھ دار کوئی اور ہوہی نہیں سکتا کوئی بھی جنگ عوام کی مدد کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی ۔ فتح و شکست کا فیصلہ میدان میں نہیں ذہن میں ہوتا ہے جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبوں سے جیتی جاتی ہے تباہ شدہ قوم کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔
مسمار شہروں کی تعمیر نو ہوسکتی ہے لیکن جب ایک قوم کے جذبے مردہ ہوجائیں تو اس مرض کا کوئی چارہ نہیں ہوتا کیونکہ جذبے کا تعلق خوشحالی اور اختیار سے جڑاہواہے آج پاکستان جن مسائل اور عذاب سے دو چار ہے یہ سب کے سب نتیجہ ہیں ان اقدامات کا جو ہم پہلے ہی روز سے کرتے آئے ہیں جب ہم قوم تھے تو زمین نہیں تھی اور جب زمین ملی تو ہم قوم نہیں رہے ایک ایسی بھیڑ میں تبدیل ہوگئے جنہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کی منزل کیا ہے ۔
ہم نامعلوم منزلوں کے مسافر بن کے رہ گئے ہیں، ابتدا ہی سے ہم نے اپنی نظریاتی بنیادوں میں بارودی سرنگیں نصب کر دینا شروع کر دی تھیں اقتصادی بنیادوں کی طرف دیکھنے کے لیے ہمارے پاس فرصت ہی کہاں تھی کیونکہ ہماری ساری کی ساری توجہ اپنی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میںلگی ہوئی تھیں ۔ اب ہمارے پاس نظریاتی اور اقتصادی بنیاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے ہماری ساری تگ و دو، جدوجہد اور محنت کے بعد جو چیز ہمارے ہاتھ لگی ہے وہ ہے بنیاد پرستی،باقی اللہ اللہ خیرصلا ،شیکسپئر اپنی تمثیل کنگ لیئر میں دکھاتا ہے جب تک کنگ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اورگلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اس وقت تک نظرنہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا ۔اس وقت بالکل یہ ہی حال ہمارا ہے ۔ آج پاکستان کے اصل مالک عوام جو بھوکے ننگے ، ذلیل وخوار،کنگال، بے بس،منقسم ،لاچار ہیں یہ کارنامہ کسی اور کا نہیں بلکہ یہ ہماری اپنی ہی فخریہ پیشکش ہے پاکستان عوام کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہوا یہ سب سے بڑی سچائی ہے کہ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں نہ ملا شریک تھے اور نہ ہی فو ج نے اس میں حصہ لیاتھا۔
برصغیرکے عوام نے پاکستان بنانے کے لیے قربانیاں اپنی خوشحالی،آزادی اور بااختیار ہونے کے لیے دی تھیں ، لیکن یہ عوام کی بد قسمتی تھی کہ ملک تو آزاد ہوگیا لیکن نہ تو عوام آزاد ہو سکے نہ خوشحال اور نہ ہی بااختیار بلکہ عوام غلام ابن غلام ابن غلام ہی رہے،اس کے بالکل برعکس پاکستان پر قابض اشرافیہ جنھوں نے پاکستان بنانے کے لیے نہ تو کوئی قربانی دی تھی اور نہ ہی جدوجہد میں ان کا کوئی کردار تھا پہلے روز سے لے کر آج تک ملک کے سارے اختیارات اور وسائل کی مالک بنی بیٹھی ہے قبضہ کیے بیٹھی ہے یہ اشرافیہ اپنی عیاشیوں میں اس قدر مست ہے کہ اسے یہ ترستے ، بلکتے ، سسکتے ، تڑپتے ، 18 کروڑ انسان دکھائی نہیں دیتے ہیں جنہیں یہ احساس تک نہیں ہے کہ پاکستان کا عام آدمی کس قدر تکلیف دہ اور اذیت ناک زندگی گذار رہا ہے۔
اشرافیہ کا صرف ایک فرد صرف ایک دن کے لیے اگرعام آدمی بن جائے تو پھر اسے اس تلخ اور اذیت ناک سچائی کا احساس ہو گا کہ پاکستان کا عام آدمی کس طرح روز جیتا اور کس طرح روز مرتا ہے ۔ جب وہ ایک چھوٹے سے کرائے کے گھر میں شدید گرمی میں گھنٹوں بجلی آنے کا انتظار کر یگا جب وہ ساری ساری رات جاگ کر نلکے میں پانی آنے کا انتظار کریگا پانی کی صرف ایک بالٹی کی خاطر میلوں پیدل چلے گا جب وہ پھٹے کپڑوں اور ننگے پیروں کے ساتھ تپتی دھوپ میں صرف چند روپوں کی خاطر سارا سارا دن مزدوری کرے گا۔ جب وہ کیچڑ والا پانی چھان چھان کر پیے گا جب وہ بغیر دوائی اسپتال اور ڈاکٹر کے تڑپ تڑپ کر مرے گا۔ جب وہ ہاتھ میں ڈگری پکڑے چھوٹی چھوٹی نوکری کے لیے دھکے کھاتا پھرے گا ۔جب وہ روز طاقتور اور امیر لوگوں کی گالیاں سنے گا جب وہ سوکھی روٹی پانی میں بھگو بھگو کر کھائے گا جب اسے کئی کئی روز فاقے کرنا پڑیں گے جب وہ اپنے بچوں کو دودھ کے لیے تڑپتا دیکھے گا جب وہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عمریں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی دیکھے گا جب وہ جانوروں کی طرح بس اور ویگنوں میں سفر کرے گا جب وہ روز ٹی وی پر مہنگائی ، بجلی اور پیڑول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا سنے گا جب وہ روز اپنے نصیبوں اورقسمت پر ماتم کر ے گا۔
جب وہ اپنوں کی خود کشیوں کی خبر سنے گا تو پھر اسے احساس ہو گاکہ پاکستان کا عام آدمی کس طرح دوزخ میں زندگی بسر کر رہاہے ۔خدا کے بعد زمین پر معجزے انسانوں کے ہاتھوں ہی رونما ہوئے ہیں انسان دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے پاکستان کے اصل مالک 18 کروڑ انسان ہیں نہ کہ چند ہزار پر مشتمل اشرافیہ پاکستان کے عوام کی باہمی یکجہتی اور ہم آہنگی انہیں خوشحال ، بااختیاراور مالک بنا سکتی ہے انسان تلخی حالات سے گھبرا کر دوسمتوں میں بھا گ سکتاہے ماضی میں یا مستقبل میں ، اس کا چنائو کردار اور نظرئیے پر منحصر ہے حقیقت سے نظر چرانا بزدلی اور خود کو دھوکے میں رکھنے والی بات ہوسکتی ہے ہم تلخی حالات سے گھبرا کر ہمیشہ ماضی کی سمت بھاگے ہیں اسی وجہ سے ہم ماضی کے مزاروں کے متو لی بن چکے ہیں ہم تمام شد کی سمت تیزی سے دوڑے جارہے ہیں مکمل تباہی کے کنارے کھڑے ہیں اس میں سارا کا سارا قصور ہمارا اپنا ہے ہم اپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں جل رہے ہیں ۔
تبدیلی کبھی بھی بیرونی عوامل یا خواہش پر نہیں آتی تبدیلی کا سارا کا سارا دارومدار اندرونی خواہش پر مبنی ہوتا ہے اس کے لیے سب سے پہلے احساس کا پیدا ہونا پھر اتفاق کا اور پھر خواہش کا جاگنا ضروری ہو تا ہے ۔ افلاطون نے بہت پہلے یہ انکشاف کر دیاتھا کہ کسی چیز کی اصطلاح پر متفق ہو نے سے قبل اس کو زیر بحث لانا ناممکن ہے ۔ دنیا میں ہر جگہ تبدیلی رونما ہورہی ہے اور یہ اثر چیزوں کی جڑوں اور بنیادوں تک نظر آرہا ہے ۔ یہ بے چارگی، غربت، افلاس، بے اختیاری، ذلت، گالیاں، دہشت گردی ، انتہا پسندی ہمارا نصیب نہیں ہیں ۔ آئیں ہم باہمی یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کر کے ان عذابوں سے ہمیشہ ، ہمیشہ کے لیے اپنی جان چھڑا لیں اور خوشحال بن جائیں۔
شاگرد نے پھر پوچھا کہ ان باقی دو چیزوں میں سے وہ کون سی چیز ہے کہ جس کے بغیر گذارا ہوسکتا ہے۔ کنفیوشس نے جواب میں کہا کہ اگر خوراک کی قلت ہوگی تو کوئی بات نہیں کسی نہ کسی طرح گذارا ہو ہی جائے گا عوام باہم مل کر اس کمی کا مقابلہ کرلیں گے لیکن اگر عوام میںہم آہنگی اور یکجہتی نہیں ہوگی تو ملک کی تباہی اور بربادی یقینی ہے ، دنیا کے تمام ممالک نے اس وقت ترقی کی جب انھوں نے تمام فیصلوں کا اختیار اپنے عوام کو دے دیا اور انہیں با اختیار اور خوشحال بنا دیا۔ فرد واحد غلط فیصلے کرسکتا ہے لیکن عوام کبھی غلط فیصلے نہیں کرتے عوام سے زیادہ سمجھ دار کوئی اور ہوہی نہیں سکتا کوئی بھی جنگ عوام کی مدد کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی ۔ فتح و شکست کا فیصلہ میدان میں نہیں ذہن میں ہوتا ہے جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبوں سے جیتی جاتی ہے تباہ شدہ قوم کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔
مسمار شہروں کی تعمیر نو ہوسکتی ہے لیکن جب ایک قوم کے جذبے مردہ ہوجائیں تو اس مرض کا کوئی چارہ نہیں ہوتا کیونکہ جذبے کا تعلق خوشحالی اور اختیار سے جڑاہواہے آج پاکستان جن مسائل اور عذاب سے دو چار ہے یہ سب کے سب نتیجہ ہیں ان اقدامات کا جو ہم پہلے ہی روز سے کرتے آئے ہیں جب ہم قوم تھے تو زمین نہیں تھی اور جب زمین ملی تو ہم قوم نہیں رہے ایک ایسی بھیڑ میں تبدیل ہوگئے جنہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کی منزل کیا ہے ۔
ہم نامعلوم منزلوں کے مسافر بن کے رہ گئے ہیں، ابتدا ہی سے ہم نے اپنی نظریاتی بنیادوں میں بارودی سرنگیں نصب کر دینا شروع کر دی تھیں اقتصادی بنیادوں کی طرف دیکھنے کے لیے ہمارے پاس فرصت ہی کہاں تھی کیونکہ ہماری ساری کی ساری توجہ اپنی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میںلگی ہوئی تھیں ۔ اب ہمارے پاس نظریاتی اور اقتصادی بنیاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے ہماری ساری تگ و دو، جدوجہد اور محنت کے بعد جو چیز ہمارے ہاتھ لگی ہے وہ ہے بنیاد پرستی،باقی اللہ اللہ خیرصلا ،شیکسپئر اپنی تمثیل کنگ لیئر میں دکھاتا ہے جب تک کنگ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اورگلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اس وقت تک نظرنہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا ۔اس وقت بالکل یہ ہی حال ہمارا ہے ۔ آج پاکستان کے اصل مالک عوام جو بھوکے ننگے ، ذلیل وخوار،کنگال، بے بس،منقسم ،لاچار ہیں یہ کارنامہ کسی اور کا نہیں بلکہ یہ ہماری اپنی ہی فخریہ پیشکش ہے پاکستان عوام کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہوا یہ سب سے بڑی سچائی ہے کہ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں نہ ملا شریک تھے اور نہ ہی فو ج نے اس میں حصہ لیاتھا۔
برصغیرکے عوام نے پاکستان بنانے کے لیے قربانیاں اپنی خوشحالی،آزادی اور بااختیار ہونے کے لیے دی تھیں ، لیکن یہ عوام کی بد قسمتی تھی کہ ملک تو آزاد ہوگیا لیکن نہ تو عوام آزاد ہو سکے نہ خوشحال اور نہ ہی بااختیار بلکہ عوام غلام ابن غلام ابن غلام ہی رہے،اس کے بالکل برعکس پاکستان پر قابض اشرافیہ جنھوں نے پاکستان بنانے کے لیے نہ تو کوئی قربانی دی تھی اور نہ ہی جدوجہد میں ان کا کوئی کردار تھا پہلے روز سے لے کر آج تک ملک کے سارے اختیارات اور وسائل کی مالک بنی بیٹھی ہے قبضہ کیے بیٹھی ہے یہ اشرافیہ اپنی عیاشیوں میں اس قدر مست ہے کہ اسے یہ ترستے ، بلکتے ، سسکتے ، تڑپتے ، 18 کروڑ انسان دکھائی نہیں دیتے ہیں جنہیں یہ احساس تک نہیں ہے کہ پاکستان کا عام آدمی کس قدر تکلیف دہ اور اذیت ناک زندگی گذار رہا ہے۔
اشرافیہ کا صرف ایک فرد صرف ایک دن کے لیے اگرعام آدمی بن جائے تو پھر اسے اس تلخ اور اذیت ناک سچائی کا احساس ہو گا کہ پاکستان کا عام آدمی کس طرح روز جیتا اور کس طرح روز مرتا ہے ۔ جب وہ ایک چھوٹے سے کرائے کے گھر میں شدید گرمی میں گھنٹوں بجلی آنے کا انتظار کر یگا جب وہ ساری ساری رات جاگ کر نلکے میں پانی آنے کا انتظار کریگا پانی کی صرف ایک بالٹی کی خاطر میلوں پیدل چلے گا جب وہ پھٹے کپڑوں اور ننگے پیروں کے ساتھ تپتی دھوپ میں صرف چند روپوں کی خاطر سارا سارا دن مزدوری کرے گا۔ جب وہ کیچڑ والا پانی چھان چھان کر پیے گا جب وہ بغیر دوائی اسپتال اور ڈاکٹر کے تڑپ تڑپ کر مرے گا۔ جب وہ ہاتھ میں ڈگری پکڑے چھوٹی چھوٹی نوکری کے لیے دھکے کھاتا پھرے گا ۔جب وہ روز طاقتور اور امیر لوگوں کی گالیاں سنے گا جب وہ سوکھی روٹی پانی میں بھگو بھگو کر کھائے گا جب اسے کئی کئی روز فاقے کرنا پڑیں گے جب وہ اپنے بچوں کو دودھ کے لیے تڑپتا دیکھے گا جب وہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عمریں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی دیکھے گا جب وہ جانوروں کی طرح بس اور ویگنوں میں سفر کرے گا جب وہ روز ٹی وی پر مہنگائی ، بجلی اور پیڑول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا سنے گا جب وہ روز اپنے نصیبوں اورقسمت پر ماتم کر ے گا۔
جب وہ اپنوں کی خود کشیوں کی خبر سنے گا تو پھر اسے احساس ہو گاکہ پاکستان کا عام آدمی کس طرح دوزخ میں زندگی بسر کر رہاہے ۔خدا کے بعد زمین پر معجزے انسانوں کے ہاتھوں ہی رونما ہوئے ہیں انسان دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے پاکستان کے اصل مالک 18 کروڑ انسان ہیں نہ کہ چند ہزار پر مشتمل اشرافیہ پاکستان کے عوام کی باہمی یکجہتی اور ہم آہنگی انہیں خوشحال ، بااختیاراور مالک بنا سکتی ہے انسان تلخی حالات سے گھبرا کر دوسمتوں میں بھا گ سکتاہے ماضی میں یا مستقبل میں ، اس کا چنائو کردار اور نظرئیے پر منحصر ہے حقیقت سے نظر چرانا بزدلی اور خود کو دھوکے میں رکھنے والی بات ہوسکتی ہے ہم تلخی حالات سے گھبرا کر ہمیشہ ماضی کی سمت بھاگے ہیں اسی وجہ سے ہم ماضی کے مزاروں کے متو لی بن چکے ہیں ہم تمام شد کی سمت تیزی سے دوڑے جارہے ہیں مکمل تباہی کے کنارے کھڑے ہیں اس میں سارا کا سارا قصور ہمارا اپنا ہے ہم اپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں جل رہے ہیں ۔
تبدیلی کبھی بھی بیرونی عوامل یا خواہش پر نہیں آتی تبدیلی کا سارا کا سارا دارومدار اندرونی خواہش پر مبنی ہوتا ہے اس کے لیے سب سے پہلے احساس کا پیدا ہونا پھر اتفاق کا اور پھر خواہش کا جاگنا ضروری ہو تا ہے ۔ افلاطون نے بہت پہلے یہ انکشاف کر دیاتھا کہ کسی چیز کی اصطلاح پر متفق ہو نے سے قبل اس کو زیر بحث لانا ناممکن ہے ۔ دنیا میں ہر جگہ تبدیلی رونما ہورہی ہے اور یہ اثر چیزوں کی جڑوں اور بنیادوں تک نظر آرہا ہے ۔ یہ بے چارگی، غربت، افلاس، بے اختیاری، ذلت، گالیاں، دہشت گردی ، انتہا پسندی ہمارا نصیب نہیں ہیں ۔ آئیں ہم باہمی یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کر کے ان عذابوں سے ہمیشہ ، ہمیشہ کے لیے اپنی جان چھڑا لیں اور خوشحال بن جائیں۔