اکا دکا پیغامات
میں ایک بہت ہی معمولی، دوسرے بلکہ تیسرے درجے کا کالم نگار ہوں۔
MULTAN:
چلیے آج یوں سہی کہ میں وہ کام کرلیتا ہوں جو آج سے پہلے کبھی نہیں کیا۔ میں ایک بہت ہی معمولی، دوسرے بلکہ تیسرے درجے کا کالم نگار ہوں۔ معیار کے اعتبار سے آج کل لکھنے والے اردو کالم نگاروں میں میرا نمبر ''1733 واں'' ہے۔ لکھنے والوں کی کل تعداد بھی اتنی ہی ہے۔ ہاں البتہ میں جس اخبار میں چھپتا ہوں وہ کمزور نہیں ہے۔ بے حد مضبوط ہے۔ اس کے باوجود میری بدقسمتی ہے کہ میری تحریر حالات کے ٹھہرے ہوئے پانی میں ایک چھوٹے سے کنکر جتنا ارتعاش بھی پیدا نہیں کرتی۔ میں نے دیکھا ہے کہ گمنام اخبارات کے گمنام لکھاریوں کے ''میل باکس'' بھرے رہتے ہیں۔ کالم شائع ہوتے ہی قارئین میں تھرتھلی مچ جاتی ہے اور وہ فون، ایس ایم ایس، خطوط اور ای میلز کے ذریعے لکھاری کا ناطقہ بند کردیتے ہیں۔ یہ بات وہ خود ہی اپنے اگلے کالم میں بتاتے ہیں۔ ٹھیک ہی بتاتے ہوں گے۔ افسوس کہ مجھے ایسے فیڈ بیک کا عشر عشیر بھی موصول نہیں ہوتا۔ فیس بک کا معاملہ دوسرا ہے۔ وہاں تو دوست ہوتے ہیں جو شرمو شرمی جھوٹی سچی واہ واہ کردیتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میں کہیں سے کچھ سننے کو ترستا ہی رہتا ہوں۔
آج میں یہی کرنے لگا ہوں کہ مجھے جو اکا دکا پیغامات موصول ہوتے ہیں ان میں سے کچھ کا جواب دے دوں۔ سب سے پہلے عبدالمجید صاحب کا ذکر۔ انھوں نے اپنی چند ای میلز میں میرے کچھ کالموں کی خوب خبرلی ہے۔ ان سے عرض ہے کہ لکھتے وقت عموماً تمام بھلے برے پہلو میرے سامنے ہوتے ہیں لیکن کیا کروں اردو اخبار میں زیادہ تکنیکی گفتگو نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے قاری کو ساتھ رکھنے کے لیے، تفصیلات سے کنی کترا کے گزر جاتا ہوں۔ ویسے وہ اطمینان رکھیں، میں یہ وضاحت کرچکا ہوں کہ دوسرے کاروباروں کی طرح اسٹاک مارکیٹ میں بھی تجارت کی دو سطحیں ہیں۔ ایک وہ جس میں حقیقی اور محتاط سرمایہ کار کام کرتے ہیں ۔ وہ کبھی مار نہیں کھاتے اور دوسرے وہ سٹہ باز جو کاغذی کمپنیوں میں کاغذی جوا کھیلتے ہیں۔
ایسے لوگوں کو اپنا کام کرنے دیں۔ آخر ان سے سروکار ہی کیوں رکھا جائے۔ بازار میں چور، اچکے اور دو نمبری دکاندار بھی ہوتے ہیں۔ آپ ان کے پاس جانا چھوڑ دیتے ہیں، بازار جانا نہیں۔عبدالحمید صاحب کی دو باتوں سے مجھے پوری طرح اتفاق ہے۔ ایک یہ کہ پنشنرز کو، بیواؤںکو اور ناتجربہ کاروں کو اسٹاک مارکیٹ میں پیسہ نہیں لگانا چاہیے۔ یہ کاروبار ہے اور کاروبار میں نفع بھی ہوسکتا ہے اور اناڑی پن کے باعث نقصان بھی۔ بے تحاشہ نفع اور بے تحاشہ نقصان، جو یہ لوگ افورڈ نہیں کرسکتے۔ ان کے لیے حکومت کو بہتر قسم کی فلاحی اسکیمیں بنانی چاہئیں۔ دوسری بات جس سے مجھے اتفاق ہے وہ عبدالحمید صاحب کا درج کیا ہوا ایک قول ہے کہ ''آگے چل کے خوش حال ہوجانا کوئی معنی نہیں رکھتا کیوں کہ "in the long run" تو ہم سب مرجاتے ہیں''۔
شکیل اختر نے گلہ کیا ہے کہ ہمارے ملک پر جعلی ڈگریوں کی بمباری ابھی تک جاری ہے لیکن اسی ملک پر ایک ایسا شخص بھی گج وج کے حکومت کر گیا ہے جسے GOD کے ہجے بھی نہیں آتے، میں نے اس پر کیوں نہیں لکھا۔ جواباً عرض ہے کہ اس شخص نے GOD کے کاموں میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ایک پیر بھی رکھا ہوا تھا جو محل کے کونوں میں ہر شام جادو پھونکتا تھا۔۔۔۔ اور میں تو ایک ڈرپوک آدمی ہوں۔
اسامہ شاہد نے میرے طرز تحریر کی بالکل بے جا تعریف کرنے کے بعد میرے ایک کالم کے بارے میں لکھا ہے کہ ''پڑھ کے مزہ آگیا۔ اس میں آپ نے حکومت کے وہ گھماگھما کے چپیڑیں ماری ہیں کہ جواب نہیں وغیرہ وغیرہ''۔ حالانکہ میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اسامہ نے یہ ڈاک کسی اور کو بھیجنا تھی۔ غلطی سے میرے پاس آگئی۔ بہرحال حکومت نوٹ کرلے کہ اس کے بارے میں لوگوں کے خیالات کتنے پاکیزہ اور محبت بھرے ہیں۔
گزشتہ اتوار کو ہفت روزہ ''چٹان'' کے ایک قدیم شمارے میں مولانا کوثر نیازی کی ایک انمول تصویر کے بارے میں میرا کالم شائع ہوا تو دوپہر میں نثار حسین کا فون آگیا۔ نثار صاحب کتابوں کے پبلشر ہیں اور نامور مصنف شوکت صدیقی کی کتابیں وہی شائع کرتے ہیں۔ انھیں مولانا کوثر نیازی کی وہ تصویر اچھی طرح یاد تھی جس میں وہ سگریٹ کا زوردار سوٹا لگا رہے ہیں اور نیچے کیپشن ہے ''آج کل نوجوانوں میں چرس پینے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے''۔ پھر انھوں نے مولانا کے کئی دلچسپ واقعات سنائے۔ ان میں سے ایک واقعہ، جسے یہاں آسانی سے بیان کیا جاسکتا ہے وہ میں آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ اس کا تعلق بھی مولانا کی بے تکلفی سے ہے اور راوی شوکت صدیقی ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب کوثر نیازی نے پیپلز پارٹی میں تو شمولیت اختیار کرلی تھی لیکن ابھی وزیر نہیں بنے تھے۔
وہ کراچی آئے تو میٹروپول کے علاقے میں ایک معروف ہوٹل میں قیام کیا۔ شوکت صدیقی کا جی چاہا کہ ان سے ایک دانشورانہ ملاقات کی جائے۔ وہ ہوٹل کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ دیکھا پیر صاحب مانکی شریف نیچے اتر رہے ہیں۔ انھوں نے شوکت صدیقی سے پوچھا کہ آپ کہاں جارہے ہیں؟ انھوں نے بتایا ''میں کوثر نیازی سے ملاقات کے لیے آرہا ہوں''۔ پیر صاحب بولے ''میں بھی اسی ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہوں اور کوثر نیازی کا کمرہ میرے پاس ہی ہے۔ آئیے میں آپ کو وہاں لے چلتا ہوں''۔ دونوں ایک ساتھ اوپر گئے اور پیر صاحب مانکی شریف نے مولانا کوثر نیازی کے دروازے پر ایک ہلکی سی دستک دی۔ پھر دروازہ کھلا دیکھ کے دونوں اندر داخل ہوگئے۔ وہاں ایک چٹی سفید وہیل مچھلی اوندھی لیٹی ہوئی تھی اور اس نے صرف جانگیہ پہنا ہوا تھا۔ پیر صاحب نے آگے بڑھ کے اس کی پشت پر ایک زوردار دوہتڑ مارا اور مڑ کے شوکت صدیقی سے بولے ''لیجیے! یہ ہیں آپ کے مولانا کوثر نیازی۔ ملاقات فرما لیجیے''۔
میری تازہ ترین ڈاک ایک پارسل ہے جو مجھے گزشتہ روز ملا۔ یہمعروف کالم نگار پروفیسر رئیس فاطمہ کے افسانوں کی نئی کتاب ''بے چہرہ لوگ'' ہے۔ اس روز نہ ملتی تو اگلے دن میں بازار سے خریدنے والا تھا۔ یوں میرے تین سو روپے بچ گئے۔ تبصرہ وغیرہ نہ تو مجھے کرنا آتا ہے اور نہ ہی میں اس کی کوشش کرتا ہوں، لیکن یہ تو ہے کہ میں یہ دلچسپ کتاب پڑھ رہا ہوں اور پڑھے ہی چلا جارہا ہوں۔