مولانا فضل الرحمن دھرنا
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں شرکت پر تیار نہیں۔
مولانا فضل الرحمن مذہبی نعروں کے ساتھ اسلام آباد پر دھاوا بولنا چاہتے ہیں، مسلم لیگ ن اس دھرنے کی حمایت پر تیار نہیں ہے ، اس نے آزادی مارچ نومبر تک موخر کرنے کی تجویز دی ہے، اسی طرح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں شرکت پر تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کی اس کوشش کی اخلاقی حمایت تو کریں گے مگر پیپلز پارٹی دھرنا سیاست کا حصہ نہیں بنے گی۔
بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے نہ مولانا طاہر القادری کے دھرنے کی حمایت کی تھی ، نہ ہی عمران خان کے دھرنے کی اور نہ ہی تحریک لبیک والوں کی۔ یہ پالیسی برقرار ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے رہنما اکرم درانی جو آل پارٹیز کانفرنس کی رہبر کمیٹی کے سربراہ ہیں اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں شیریں رحمن، نیر بخاری اور فیصل کریم کنڈی کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں کچھ اتفاق ہوا اور کچھ اختلاف کی خبریں آئیں۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ بلاول کے مستقبل کے لیے چھ نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری دی ہے۔
اس چارٹر آف ڈیمانڈ کا پہلا نکتہ آئین کی بحالی، آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کو مستقبل میں ختم نہ کرنے، احتساب کا عمل تمام اداروں کے بدعنوان افراد تک توسیع کرنے، میثاق جمہوریت کے مطابق آئینی عدالت کا قیام، آئین میں کی گئی 19ویں ترمیم کا خاتمہ اور آئین کے آرٹیکل 184(3) کا خاتمہ شامل ہے۔ ان شقوں میں ججوں کے تقرر میں اعلیٰ عدلیہ کی بالادستی اور سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کا اختیار ختم کرنا، آزادئ اظہار اور آزادئ میڈیا کے تحفظ پر مشتمل نکات شامل ہیں۔
بلاول بھٹو نے ابھی تک اصولی سیاست کو اپنایا ہوا ہے۔ جب رمضان میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی تھی تو مولانا فضل الرحمن کی کوشش تھی کہ عمران خان نے اپنی تیسری تقریر میں کچھ غلطیاں کی تھیں تو ان غلطیوں کی بناء پر اے پی سی فوری طور پر کوئی مہم شروع کرے اور اس معاملے کو کانفرنس کے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا جائے مگر بلاول بھٹو نے جرات مندانہ مؤقف اختیار کیا کہ پیپلز پارٹی مذہبی معاملات کو سیاست میں استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ اس بناء پر ان نکات کو ایجنڈے میں شامل نہیں کرنا چاہیے۔
یوں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بلاول کی تجویز پر اتفاق رائے کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن 2018 کے انتخابات کے بعد سے تحریک انصاف کی اس حکومت کو ختم کرنے کے لیے تحریک چلانے پر زور دے رہے ہیں مگر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری مولانا فضل الرحمن کی تجویز پر متفق نہیں ہوئے، یوں اب ایک سال گزرنے پر انھوں نے ازخود آزادی مارچ کا اعلان کردیا۔ مولانا فضل الرحمن نے ابھی تک مذہبی مقاصد کے علاوہ دوسرے کسی مقصد کو واضح نہیں کیا ہے۔
اس ملک میں فوجی حکومتوں کے خلاف بھی عوامی تحریک چلی اور انتخابات کے ذریعے برسر اقتدار آنے والی حکومتوں کے خلاف تحریک منظم ہوئی مگر جب ہم جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف چلائی جانے والی تحریکوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ان تحریکوں کے مقاصد واضح تھے۔
ایوب خان کے خلاف تحریک کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ایسا آئین بنایا جائے جس میں ہر فرد کو ووٹ دینے کا حق ہو۔ اکثریت کو ملک پر حکومت کا حق دیا جائے، ون یونٹ کو ختم کر کے بلوچستان، سندھ، سرحد اور پنجاب کو صوبوں کی حیثیت سے بحال کیا جائے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں ایوب خان مستعفی ہوئے مگر یحییٰ خان برسر اقتدار آگئے مگر ون یونٹ ٹو ٹ گیا، ہر فرد کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوا۔
پھر 1970کے انتخابات میں عوامی لیگ اکثریت حاصل کر کے کامیاب ہوئی۔ جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی نے جنرل یحییٰ خان کی حمایت کی، یوں 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوا۔ دوسرے فوجی حکمراں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کر کے 1973 کے آئین کو معطل کردیا تھا۔ 80 کی دھائی میں چلائی جانے والی تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) کی تحریک کا بنیادی مقصد 1973 کے آئین کی بحالی تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی بنیاد انتخابات کرائے اور محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا مگر پھر اپنی بنائی ہوئی حکومت کو برطرف کیا۔ پھر وہ تاریخ کے کوڑے دان میں کھو گئے۔ 1973 کا آئین بحال ہوا اور 1988سے 1999تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں قائم رہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا۔ ایک دفعہ پھر 1973کا آئین معطل ہوا۔
سپریم کورٹ نے آئین کی معطلی کو قانونی قرار دیا، جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا مگر جنرل پرویز مشرف 10 سال تک فوج کے سربراہ رہے۔ جب 2007 کے صدارتی انتخاب میں جنرل پرویز مشرف دوبارہ امیدوار بنے تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جنرل مشرف کے صدارتی امیدوار بننے کی اہلیت کو اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ وہ سرکاری ملازم کی حیثیت سے صدارتی امیدوار بننے کے اہل نہیں ہیں۔
جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی اور عبوری آئینی حکم جاری کرکے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ججوں او ر ہائی کورٹ کے ججوں کو معذول کردیا اور نئے چیف جسٹس سے اپنے حق میں فیصلہ لے لیا۔ مگر 2008میں منتخب ہونے والی اسمبلی میں جنرل پرویز مشرف کے مواخذہ کی تحریک پیش ہوئی اور انھیں مستعفی ہونا پڑا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (P.N.A) نے 1977 میں تحریک شروع کی۔ یہ تحریک بنیادی طور پر انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تھی مگر پھر نظام مصطفی کا نعرہ لگایا مگر جب 5جولائی 1977 کی رات کو متنازعہ انتخابی نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے پر اتفاق رائے ہوا تو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے نیویارک میں اپنے ایک انٹرویو میں امریکا اور جنرل ضیاء الحق کے افغانستان میں جہاد پروجیکٹ کے نقصانات بیان کیے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں نے اس خطہ کو مذہبی جنونیت میں مبتلا کردیا۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو 1988 میں اقتدار میں آئیں۔ غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں متحدہ حزب اختلاف نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ کہا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن نے اس تحریک عدم اعتماد کے لیے فنڈز فراہم کیے۔ یہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو غلام اسحاق خان نے بے نظیر حکومت کو برطرف کردیا۔ پھر میاں نواز شریف اقتدار میں آئے مگر صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کے اختلافات بڑھ گئے۔
بے نظیر بھٹو کی قیادت میں ایک لانگ مارچ ہوا۔ غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف مستعفی ہوئے اور معین قریشی کی سربراہی میں عبوری حکومت بنی اور انتخابات میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ مگر ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد صدر فاروق لغاری نے اپنی جماعت کی وزیر اعظم کو برطرف کیا۔
نواز شریف کے دوسرے دور میں بے نظیر بھٹو کی حمایت سے آئین میں کی گئی آٹھویں ترمیم ختم ہوئی تو صدر کا اسمبلیاں توڑنے کا اختیار ختم ہوا مگر پھر 1999میں جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف حکومت کو برطرف کیا مگر یہ حقیقت سامنے آئی کہ کوئی منتخب حکومت اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ 2006میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان 2006 میں لندن میں میثاق جمہوریت ہوا۔ اس میثاق میں اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ ہر منتخب حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ 2008سے برسر اقتدار آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں نے اپنی آئینی معیاد پوری نہیں کی۔
پیپلز پارٹی کے آخری دور میں مولانا طاہر القادری اچانک لندن سے لاہور آئے اور انھوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ مولانا کو الیکشن کمیشن کے طریقہ کار پر اعتراض تھا مگر وہ انتخابات سے کچھ مہینے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کررہے تھے اور یہ واضح تھا کہ طالع آزما قوتیں پورے نظام کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ حزب اختلاف نے مولانا طاہر القادری کی حمایت نہیں کی۔ پھر جب عمران خان نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا تو وہ اچانک نواز شریف حکومت کے خاتمے کے نعرہ لگانے لگے۔ اس دھرنے میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنانے کا مطالبہ ہوا۔ ابھی عمران خان کی حکومت کو اقتدار میں آئے ایک سال ہوا۔ عمران حکومت کے نعرے ایکسپوز ہورہے ہیں۔
خارجہ پالیسی ناکام ہوگئی،معاشی بدحالی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے گئے مگر ان کی معیاد میں ابھی چار سال باقی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی خواہش کے مطابق مذہبی نعروں پر جذباتی فضاء بنا کر اسلام آباد کا لاک ڈاؤن کیا جائے تو پھر اس با ت کا امکان ہے کہ کوئی طالع آزما 1973 کا آئین ختم کر کے ملک کو پیچھے لے جائے اور عمران خان مظلوم بن کر اپنی مقبولیت کو بڑھالے، یوں مولانا فضل الرحمن کو اس وقت حکومت کے خاتمے کے مطالبہ کے بجائے حکومت کی ناقص پالیسیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنی چاہیے۔