ڈیپوٹیشن افسروں کی محکموں میں واپسی کی تفصیلات طلب
عدالتی حکم کے باوجود محکمہ پولیس میں ڈیپوٹیشن پر تعیناتیاں جاری ہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے تمام محکموں کے سربراہان اور سیکریٹریز سے ڈیپوٹیشن پر تعینات افسران کے عہدے چھوڑنے اور اپنے اصل محکموںمیں واپسی سے متعلق تفصیلات طلب کرلی ہیں،کیسز کی سماعت کے دوران جسٹس انورظہیر جمالی اورجسٹس امیرہانی مسلم پر مشتمل بینچ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ یہ جان کرصدمہ ہوا ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود محکمہ پولیس میں ڈیپوٹیشن پر تعیناتیوں کا سلسلہ جاری ہے، عدالت نے کہا کہ حکومت چاہے تو ڈیپوٹیشن اور ملازمت ضم کیے جانے کے خلاف آرڈیننس لایا جاسکتا ہے یہاں تو آدھے گھنٹے میں قانون بن جاتاہے۔
فاضل بینچ نے ایڈووکیٹ جنرل عبدالفتاح ملک کی یہ تجویز مسترد کردی کہ حکومت سندھ ڈیپوٹیشن اور انضمام کے قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے اس لیے عدالت اس معاملے میں جلد بازی نہ کرے، عدالت نے سیکریٹری لوکل گورنمنٹ علی احمد لوُنڈ کو سندھ میں اپنی تقرریوں کے نوٹیفکیشن جمعے کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے ، فاضل بینچ نے سندھ پولیس میں ڈیپوٹیشن پر تعینات ڈی ایس پی فیصل مختار وقاصی اور ڈی ایس پی شعبان علی کی درخواستوں کومسترد کردیا۔ عدالت نے گورنرسندھ کے مشیر ڈاکٹر نوشاد شیخ کی وضاحت قبول کرلی کہ انھوں نے پرنسپل سیکریٹری کا عہدہ عدالت کے حکم کے بعد چھوڑ دیا تھا لیکن اب وہ مشیر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ سندھ میں 400افسران کو نئے قانون کے تحت مختلف محکموں میں ضم کیا گیا ہے، فاضل بینچ نے سیکریٹری لوکل باڈیز، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ آغا عباس، ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کے عہدے سے محکمہ سروسز کے گریڈ 18 کے افسر ذوالفقار نظامانی کو ہٹا کر گریڈ 16کے افسر کی تقرری پر حکومت سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جمعہ کو جواب طلب کرلیا۔ سیکریٹری سروسز کی جانب سے گریڈ 16کے افسر کی تقرری پر عدالت کی برہمی کے بعد موقف اختیارکیا گیا کہ وہ یہ نوٹیفکیشن واپس لے لیں گے تاہم جسٹس ہانی نے کہا کہ یہ نوٹیفکیشن جاری ہی کیوں کیا گیا؟ اس پر بھی آپ کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ ہم ایک کام صحیح کرتے ہیں آپ دوسرا کام بگاڑ دیتے ہیں۔ فاضل بینچ نے اینٹلی جنس بیورو کے وہاب شیخ کوبھی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے جن کا تبادلہ حال ہی میں سندھ پولیس میںکیا گیا ہے۔
بینچ نے ڈی ایس پی فیصل مختار وقاصی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ڈی ایس پی فیصل مختار وقاصی کو فوری واپس ان کے محکمے نیب میں جانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے سپرٹنڈنٹ انجنیئر ورکس امداد مگسی کو اظہاروجوہ کا نوٹس جاری کردیا۔ امداد مگسی نے عدالت کوزبانی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ورکس ڈیپارٹمنٹ چھوڑ کر واپس اپنے محکمے واٹر بورڈ میں جارہے ہیں تاہم عدالتی وقت ختم ہونے تک ان کی جانب سے تحریری یقین دہانی عدالت میں جمع نہیں کرائی گئی ،
گورنر سندھ کے ایڈوائزر ڈاکٹر نوشاد شیخ نے بتایا کہ عدالت کے حکم پر انھوں نے3مئی2012کو اپنا عہدہ چھوڑدیا تھا جس پر گورنرسندھ نے انہیں ہدایت کی کہ ان کا پرنسپل سیکریٹری ریٹائرڈ ہوگیا ہے لہٰذاوہ عارضی طور پر یہ عہدہ سنبھال لیں،اگر عدالت حکم دے تو وہ یہ عہدہ چھوڑنے کو تیار ہیں، عدالت نے ہدایت کی وہ عارضی طور پر اپنا کام جاری رکھیں تاہم گورنر کا نیا پرنسپل سیکریٹری مقرر ہونے پر یہ عہدہ چھوڑدیں۔ سیکریٹری بلدیات علی احمد لُونڈ نے بتایا کہ انھیں وفاقی حکومت سے ڈیپوٹیشن پر لایا گیا تھا، انھوں نے 1994سے سندھ میں اپنی تقرریوں کے بارے میں عدالت نے ہدایت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ان کی سیکریٹری بلدیات اور ڈی سی او کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن پیش کیا جائے،
اس موقع پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے سیکریٹری سروسز کو ہدایت کی کہ تمام محکموں کے سربراہان اور متعلقہ سیکریٹریز سے تفصیلات حاصل کرکے عدالت کو بتائیں کہ ڈیپوٹیشن پر کتنے افسران کو تعینات کیا گیا وہ کب گئے اور کب محکمے میں واپس آئے۔ سیکریٹری سروسز اقبال درانی نے بتایا کہ ڈیپوٹیشن افسران کی تنخواہیں روک دی گئی ہیں، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ایسے افسران کیخلاف توہین عدالت کی بھی کارروائی ہوگی۔ ڈی ایس پی شعبان علی نے عدالت کو بتایا کہ ان کا تعلق ہزارہ قبیلے سے ہے ، وہ کوئٹہ میں ایس پی تھے ،
ان پر فرقہ وارایت کے باعث قاتلانہ حملے ہوئے اسلیے کوئٹہ میں ان کی جان کو خطرہ ہے ، جسٹس امیرہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا بلوچستان میں پولیس کا محکمہ ختم ہوگیا ہے ، تمام ایسے افسران کو دیگرصوبوں سے کراچی لاکر تعینات کردیا جائے کہ ان پر حملہ ہوا ہے، اس طرح تو سندھ کے پولیس افسران کا حق بھی مارا جائے گا۔ بینچ نے انھیں مشورہ دیا وہ بلوچستان میں کسی دور دراز مقام پر تبادلہ کرالیں ، جسٹس انور ظہیرجمالی نے کہا کہ پولیس میں من پسند افراد کو چارچاردرجے ترقی دے دی جاتی ہے جس کا کوئی جواز نہیں۔
فاضل بینچ نے ایڈووکیٹ جنرل عبدالفتاح ملک کی یہ تجویز مسترد کردی کہ حکومت سندھ ڈیپوٹیشن اور انضمام کے قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے اس لیے عدالت اس معاملے میں جلد بازی نہ کرے، عدالت نے سیکریٹری لوکل گورنمنٹ علی احمد لوُنڈ کو سندھ میں اپنی تقرریوں کے نوٹیفکیشن جمعے کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے ، فاضل بینچ نے سندھ پولیس میں ڈیپوٹیشن پر تعینات ڈی ایس پی فیصل مختار وقاصی اور ڈی ایس پی شعبان علی کی درخواستوں کومسترد کردیا۔ عدالت نے گورنرسندھ کے مشیر ڈاکٹر نوشاد شیخ کی وضاحت قبول کرلی کہ انھوں نے پرنسپل سیکریٹری کا عہدہ عدالت کے حکم کے بعد چھوڑ دیا تھا لیکن اب وہ مشیر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ سندھ میں 400افسران کو نئے قانون کے تحت مختلف محکموں میں ضم کیا گیا ہے، فاضل بینچ نے سیکریٹری لوکل باڈیز، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ آغا عباس، ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کے عہدے سے محکمہ سروسز کے گریڈ 18 کے افسر ذوالفقار نظامانی کو ہٹا کر گریڈ 16کے افسر کی تقرری پر حکومت سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جمعہ کو جواب طلب کرلیا۔ سیکریٹری سروسز کی جانب سے گریڈ 16کے افسر کی تقرری پر عدالت کی برہمی کے بعد موقف اختیارکیا گیا کہ وہ یہ نوٹیفکیشن واپس لے لیں گے تاہم جسٹس ہانی نے کہا کہ یہ نوٹیفکیشن جاری ہی کیوں کیا گیا؟ اس پر بھی آپ کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ ہم ایک کام صحیح کرتے ہیں آپ دوسرا کام بگاڑ دیتے ہیں۔ فاضل بینچ نے اینٹلی جنس بیورو کے وہاب شیخ کوبھی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے جن کا تبادلہ حال ہی میں سندھ پولیس میںکیا گیا ہے۔
بینچ نے ڈی ایس پی فیصل مختار وقاصی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ڈی ایس پی فیصل مختار وقاصی کو فوری واپس ان کے محکمے نیب میں جانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے سپرٹنڈنٹ انجنیئر ورکس امداد مگسی کو اظہاروجوہ کا نوٹس جاری کردیا۔ امداد مگسی نے عدالت کوزبانی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ورکس ڈیپارٹمنٹ چھوڑ کر واپس اپنے محکمے واٹر بورڈ میں جارہے ہیں تاہم عدالتی وقت ختم ہونے تک ان کی جانب سے تحریری یقین دہانی عدالت میں جمع نہیں کرائی گئی ،
گورنر سندھ کے ایڈوائزر ڈاکٹر نوشاد شیخ نے بتایا کہ عدالت کے حکم پر انھوں نے3مئی2012کو اپنا عہدہ چھوڑدیا تھا جس پر گورنرسندھ نے انہیں ہدایت کی کہ ان کا پرنسپل سیکریٹری ریٹائرڈ ہوگیا ہے لہٰذاوہ عارضی طور پر یہ عہدہ سنبھال لیں،اگر عدالت حکم دے تو وہ یہ عہدہ چھوڑنے کو تیار ہیں، عدالت نے ہدایت کی وہ عارضی طور پر اپنا کام جاری رکھیں تاہم گورنر کا نیا پرنسپل سیکریٹری مقرر ہونے پر یہ عہدہ چھوڑدیں۔ سیکریٹری بلدیات علی احمد لُونڈ نے بتایا کہ انھیں وفاقی حکومت سے ڈیپوٹیشن پر لایا گیا تھا، انھوں نے 1994سے سندھ میں اپنی تقرریوں کے بارے میں عدالت نے ہدایت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ان کی سیکریٹری بلدیات اور ڈی سی او کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن پیش کیا جائے،
اس موقع پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے سیکریٹری سروسز کو ہدایت کی کہ تمام محکموں کے سربراہان اور متعلقہ سیکریٹریز سے تفصیلات حاصل کرکے عدالت کو بتائیں کہ ڈیپوٹیشن پر کتنے افسران کو تعینات کیا گیا وہ کب گئے اور کب محکمے میں واپس آئے۔ سیکریٹری سروسز اقبال درانی نے بتایا کہ ڈیپوٹیشن افسران کی تنخواہیں روک دی گئی ہیں، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ایسے افسران کیخلاف توہین عدالت کی بھی کارروائی ہوگی۔ ڈی ایس پی شعبان علی نے عدالت کو بتایا کہ ان کا تعلق ہزارہ قبیلے سے ہے ، وہ کوئٹہ میں ایس پی تھے ،
ان پر فرقہ وارایت کے باعث قاتلانہ حملے ہوئے اسلیے کوئٹہ میں ان کی جان کو خطرہ ہے ، جسٹس امیرہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا بلوچستان میں پولیس کا محکمہ ختم ہوگیا ہے ، تمام ایسے افسران کو دیگرصوبوں سے کراچی لاکر تعینات کردیا جائے کہ ان پر حملہ ہوا ہے، اس طرح تو سندھ کے پولیس افسران کا حق بھی مارا جائے گا۔ بینچ نے انھیں مشورہ دیا وہ بلوچستان میں کسی دور دراز مقام پر تبادلہ کرالیں ، جسٹس انور ظہیرجمالی نے کہا کہ پولیس میں من پسند افراد کو چارچاردرجے ترقی دے دی جاتی ہے جس کا کوئی جواز نہیں۔