برق گرتی بھی ہے تو مزدوروں پر

آئی ایم ایف کا وفد آج کل پاکستان میں ہے اور ہماری حکومت کو تھپکی دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ خوب ہے اسے مزید بڑھاتے جاؤ۔


Zuber Rehman October 02, 2019
[email protected]

گزشتہ ایک سال میں محنت کشوں پر مہنگائی کی جتنی برق گری ہے، اتنی شاید ہی کسی اور طبقے پر گری ہو۔ ہر چند کہ مہنگائی اور بیروزگاری کے اثرات تمام نچلے درجات کے لوگوں پر پڑے ہیں، لیکن مزدور تو ایک طرح سے نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

اس لیے بھی کہ حکومت نے ایک غیر ہنرمند مزدور کی تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار روپے مقرر کی ہے لیکن 80 فیصد مزدوروں کو یہ بھی میسر نہیں۔ اربوں روپے کے سامان حرب بنائے اور خریدے جاتے ہیں لیکن ایک کسان کے بیٹے کو کتے کے کاٹنے کے بعد ویکسین نہ ہونے وہ ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے اور دھن والے ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں ٹی وی پر دیکھ کر افسوس کرتے ہیں۔ دوزخ کا نظارہ بہت ہی دردناک ہوتا ہے مگر اسے دور سے ہی دیکھنا امیروں کے لیے اچھا ہے۔

اگر ایک مزدور سب کچھ چھوڑ کر صرف سبزی، دال اور آٹے سے جینا چاہے تو بھی اسے نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ اس لیے کہ سبزی سو سے ڈیڑھ سو روپے کلو، دالیں ایک سو ساٹھ سے دو سو تیس روپے کلو اور آٹا پچپن روپے کلو ہے۔

اب اسے پکانے کے لیے مرچ مسالہ، تیل، لہسن، ادرک اور پیاز کی ضرورت ہے۔ مسالے چار سو روپے کلو، لہسن دو سو چالیس روپے کلو، ادرک تین سو بیس روپے کلو، پیاز نوے روپے کلو اور تیل دو سو پینتیس روپے کلو، ایک کمرے کے مکان کا کرایہ چھ ہزار روپے ہے، پانی پینے کا چھوٹا کین بغیر معدنیات کے پندرہ روپے کا، گیس بجلی کا خرچ ایک روز کا کم از کم ایک سو پچاس روپے پڑتا ہے۔ اب بتائیں کہ آٹھ سو سے بارہ سو روپے دیہاڑی پر کام کرنے والا مزدور کیسے گزارا کرتا ہوگا؟

ہر جگہ اور ہر ادارے میں مزدوروں کے حاصل شدہ حقوق کو سرمایہ دار چھینتا جا رہا ہے۔ جیساکہ حسن ابدال شہر کے مضافات میں واقع ایک جرمن کمپنی میں پچیس سال سے چار سو مزدور مختلف شعبوں میں کام کرتے آرہے ہیں۔ کمپنی نے مزدوروں کے تمام حقوق جو آئین پاکستان کی رو سے اور بین الاقوامی لیبر قوانین کے مطابق تمام مراعات حذف کی ہوئی ہیں۔ کمپنی کے کچھ شعبوں کو غیر قانونی ٹھیکیداروں کے حوالے کرکے بے وجود نام نہاد کمپنیوں کا نام استعمال کر رہی ہیں۔

ایک جانب مزدور اپنے حقوق کے حصول کی لڑائی لڑ رہے ہیں تو دوسری طرف انتظامیہ اپنی جانب سے مزدوروں کے خلاف غیر قانونی کارروائی کر رہی ہے' جس کے نتیجے میں مزدوروں کا روزگار چھینا جا رہا ہے جب کہ مزدوروں کا یہ مطالبہ ہے کہ ٹھیکیداری نظام کو ختم کر کے تمام مزدوروں کو مستقل کیا جائے۔

ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک نوجوان نے اپنے انٹرویو میں بیروزگاری، مہنگائی اور ماحولیات پر بڑی دلچسپ اور مدلل نکات اٹھائے۔ انھوں نے کہا کہ جب سے مشترکہ ملکیت اور ساجھے داری کی پیداوار ختم ہوئی اور انفرادی منافع خوری کی ریت شروع ہوئی تب ہی سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ بعض لوگ سرمایہ داری کو ایک فطری نظام قرار دیتے ہیں۔ تو کیا ایک سو پچاس سال کا دور فطری ہے اور ایک لاکھ پچاس ہزار سال کا دور غیر فطری تھا؟ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سرمایہ دار اپنی پیداوار کو پروان چڑھانے کے لیے جو اشتہار بازی کرتا ہے وہ روزانہ اس دنیا میں ایک اعشاریہ دو ٹریلین ڈالر صرف اشتہار پر خرچ ہوتا ہے۔ خود سوچیں کہ پھر لوٹتا کتنا ہوگا؟

قصور میں بچے تو مرگئے، جتنے ہلاکو مرے، چنگیز مرے، ڈاکو مرے شہید ہوئے۔ قصور میں کسانوں کے بچے قتل کر دیے گئے۔ اگر کسی جاگیردار، سرمایہ دار، جنرل، علمائے سو، نوکر شاہی یا امریکی سفیر کا بچہ مرتا تو قیامت برپا ہو جاتی۔ میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد ہی حکمران بشمول پولیس ایکشن میں آئی، ورنہ یہ جرائم پولیس کی سرپرستی میں پھیلتے چلے جاتے۔

کسی انقلابی فلسفی نے درست کہا تھا کہ پولیس جرائم پھیلاتی ہے، ڈاکٹر مرض پھیلاتا ہے، صحافی جھوٹ پھیلاتا ہے، عدلیہ ناانصافی پھیلاتی ہے، علما مذہب سے دور بھگاتے ہیں، وکیل خلفشار پھیلاتے ہیں اور فوج خون بہاتی ہے۔ ان اداروں کو ختم کر دیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ایک طرف آئی ایم ایف کی شرائط کو مانتے ہوئے ہماری حکومت نے مہنگائی کی انتہا کر دی اور مزید کرتی جا رہی ہے۔

آئی ایم ایف کا وفد آج کل پاکستان میں ہے اور ہماری حکومت کو تھپکی دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ خوب ہے اسے مزید بڑھاتے جاؤ۔ جب کہ آج ہی میرے پاس مردان سے محمد نثار کا ایک فون آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے پانچ بچے ہیں اور سب بیروزگار ہیں۔ بچے ہنرمند بھی ہیں، میری بیوی بیمار ہے۔ کھانے کو گھر میں آٹا نہیں تھا۔ کسی دوست سے ایک ہزار روپے قرض لے کر آٹا لایا۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں حکومت گزارا الاؤنس فراہم کرے یا پھر بچوں کو روزگار دے، اس وقت ہماری نوبت نیم فاقہ کشی کی ہے۔ جب کہ دوسری طرف دس بڑے آلات حرب کی پیداوار کرنے والے ممالک میں بھارت اور پاکستان بھی شریک ہے۔ تعلیم اور صحت کی خدمات میں بھارت اور پاکستان کا نمبر سب سے آخر میں آتا ہے۔

اس کے حل کا آسان سا راستہ ہے کہ دونوں ممالک اسلحے کی پیداوار اور خرید بند کر دیں، سرحدیں ختم کر دیں۔ جو جہاں جانا چاہتا ہے وہاں جا سکتا ہے۔ اس سے کھربوں روپے کی (اسلحہ کی پیداوار اور خرید) یعنی غیر پیداواری اخراجات کی کمی ہونے سے یہ رقم مہنگائی، بیروزگاری اور صحت کے شعبوں میں استعمال کر کے اس خطے کو جنت نظیر بنایا جا سکتا ہے، شاداب اور ماحول دوست بنایا جا سکتا ہے۔

مزدوروں کی حالت زار صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ تیل سے مالا مال صرف اٹھارہ لاکھ کی مقامی آبادی والا خلیجی ملک قطر میں پاکستانی مزدوروں کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ یہاں اصلاحات کے باوجود ان مزدوروں کو تباہ کن حالات کا سامنا ہے۔انھیں کئی مہینوں سے تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئی ہیں اور قطری محکموں کی جانب سے ان سے کم ہی تعاون کیا جا رہا ہے۔ جب کہ دوسری جانب دو ہزار بائیس کی فٹبال کے عالمی کپ کی تیاریوں کے سلسلے میں بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے جاری ہیں۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے سماج میں ہی ممکن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں