ڈپٹی اسپیکر کی کامیابی کالعدم بلوچستان کی سیاست میں ہلچل

قاسم سوری کی جانب سے الیکشن ٹریبونل کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔


رضا الرحمٰن October 02, 2019
قاسم سوری کی جانب سے الیکشن ٹریبونل کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

الیکشن ٹریبونل نے کوئٹہ سے قومی اسمبلی کی نشست این اے265 سے ڈپٹی اسپیکر محمد قاسم سوری کی کامیابی کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دے کر بلوچستان کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے۔

اس نشست پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی کامیابی کو چیلنج کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے اُمیدوار نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے انتخابی عذر داری الیکشن ٹریبونل میں دائر کی تھی جس پر الیکشن ٹریبونل کے جج جناب جسٹس عبداﷲ بلوچ نے ووٹوں کی تصدیق کا حکم دیا تھا۔ نادرا نے حلقہ کے ووٹوں سے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی اس رپورٹ کے مطابق52756 ووٹوں میں کاؤنٹر فائلز پر انگوٹھوں کے نشان غیر واضح جبکہ49042 پر واضح ہیں۔

15 پولنگ اسٹیشنوں کے خاکی تھیلے ہی غائب ہیں جبکہ1533 کاؤنٹر فائلز پر درج شناختی کارڈ نمبر غلط تھے،123 کاؤنٹر فائلز پر شناختی کارڈ دو دو بار درج تھے اسی طرح333 کاؤنٹر فائلز پر ایسے شناختی کارڈ درج ہیں جوکہ اس حلقے میں رجسٹرڈ ہی نہیں۔

قاسم سوری کی جانب سے الیکشن ٹریبونل کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ اس فیصلے کے آنے کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل اور نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ 2018ء کے الیکشن کے حوالے سے ہمارے تحفظات اور خدشات درست ثابت ہوئے ہیں اور انصاف کا بول بالا ہوا ہے۔

اگر اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو ہم وہاں بھی انصاف کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیر جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے کو اس اہم عہدے پر بٹھا کر مراعات دینے اور عوام کے جمہوری حق کو روندنے کا حساب کون دے گا؟۔

الیکشن کمیشن حلقے میں جلد از جلدانتخابات کے انعقاد کا اعلان کرے عوام جسے چاہئیں منتخب کریں ہمیں اعتراض نہیں۔ تحریک انصاف کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جو لوگ بے دلیل، کم علمی اور کسی تکنیکی غلطی کو بنیاد بنا کر دھاندلی کا رونا، بے بنیاد الزامات اور منفی پروپیگنڈہ کر رہے ہیں ان کا اﷲ ہی حافظ ہے پی ٹی آئی نے ہمیشہ جمہوری اقدار اور اصولی سیاست کی ہے،ایسے فیصلے سیاست کا حصہ ہیں جن کو ہم سپریم کورٹ میں عوامی اُمنگوں اور قانونی تقاضوں کی روشنی میں چیلنج کرکے سرخرو ہونگے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے جمہوری وطن پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نوابزادہ شازین بگٹی کے حلقے این اے259 ڈیرہ بگٹی کے29 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا ہے، سپریم کورٹ کے جج جناب جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے نوابزادہ شازین بگٹی کی جانب سے الیکشن ٹریبونل کے دوبارہ الیکشن کے حکم کے خلاف اپیل کی سماعت کرتے ہوئے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

واضح رہے کہ این اے259 ڈیرہ بگٹی سے نوابزادہ شازین بگٹی کی کامیابی کو آزاد اُمیدوار میر طارق کھیتران نے چیلنج کیا تھا۔ سیاسی حلقوں کے مطابق2018ء کے انتخابات کے حوالے سے ان دو اہم فیصلوں نے بلوچستان کی سیاست میں ہلچل سی مچادی ہے، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے فیصلے کا تقریباً صوبے کی تمام سیاسی و قوم پرست اور مذہبی جماعتوں نے خیرمقدم کیا ہے اور اس حوالے سے2018ء کے انتخابات کے نتائج پر اپنے تحفظات اور خدشات کو درست قرار دیتے ہوئے اسے جمہوریت اور انصاف کے تقاضوں کی فتح سے تعبیر کیا۔

سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کی ان نشستوں پر آنے والے فیصلے کے اثرات صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر بھی پڑ سکتے ہیں جس کیلئے سیاسی و قوم پرست اور مذہبی جماعتوں نے سوچ و بچار کیلئے سر جوڑ لئے ہیں اور قانونی و آئینی ماہرین سے بھی رابطے کر رہی ہیں ، سیاسی حلقوں کے مطابق جس طرح سے گرم موسم انگڑائی لے کر سرد موسم کی طرف بڑھ رہا ہے اسی طرح بلوچستان کی سیاست بھی تبدیلی کی انگڑائیاں لینے لگی ہے۔

ان سیاسی حلقوں کے مطابق اکتوبر کا مہینہ بلوچستان کی سیاست میں بہت اہمیت کا حامل ہے، بعض سیاسی حلقے اس حوالے سے مختلف اشارے بھی دے رہے ہیں اور اندرون خانہ صوبے کی پارلیمانی جماعتوں کے درمیان بڑے پیمانے پر رابطوں کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔

ان سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان میں موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سیاسی موسم میں بھی تبدیلی کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں صورتحال آئندہ چند ہفتوں میں واضح ہوجائے گی صوبے کی سیاست پر منڈلاتے بادل کوئی رُخ اختیار کریں گے یا برسیں گے؟

یہ بات کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ تیز ہوائیں بھی چلنے کی نوید دی جا رہی ہے جو کہ ان منڈلاتے بادلوں کو اڑا کر اپنے ساتھ لے جائے؟ اور سیاسی مطلع صاف ہو جائے، بقول سردار اختر جان مینگل بلوچستان کا سیاسی موسم اسلام آباد سے بدلتا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں سیاسی تبدیلی اسلام آباد سے جڑی ہوئی ہے اور وہاں کے موڈ پر ہی منحصر ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ تاہم ان سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں میں ''کھچڑی'' پک رہی ہے، وزیراعلیٰ جام کمال اس صورتحال کو کیسے کنٹرول کرتے ہیں یہ اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کا یقینا ایک امتحان ہوگا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں