سب سے بڑی صنعتی و تجارتی تنظیم نے نجکاری پروگرام کی حمایت کر دی
سالانہ500 ارب سفید ہاتھیوں کے بجائے عوام کی فلاح پر خرچ کیے جائیں، نجکاری ذمے دارانہ وشفاف ہو
وفاق ایوانہائے صنعت و تجارت (ایف پی سی سی آئی) نے سرکاری کارپوریشنوں کی نجکاری کے فیصلے کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سالانہ 500 ارب سفید ہاتھیوں کے بجائے عوام کی فلاح پر خرچ کیے جائیں، بحران سے نکلنے کے لیے مخلص اور با بصیرت قیادت کی ضرورت ہے۔
ایف پی سی سی آئی نے حکومت کی جانب سے نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کے فیصلے کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہاکہ سالانہ 500 ارب سفید ہاتھیوں کے بجائے عوام کی فلاح پر خرچ کیے جائیں، نجکاری ذمے دارانہ اور شفاف ہو جبکہ زیادہ خسارہ والے اداروں سے پہلے جان چھرائی جائے، سابقہ نجکاریوں میں قومی اثاثے خریدکر ڈیفالٹ کرنے والوں کوبولی لگانے کی اجازت نہ دی جائے تاکہ الزامات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیر احمد ملک نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے افراد کو کوئی ادارہ فروخت نہ کیا جائے جو اسے چلانے سے زیادہ زمین، مشینری اوراثاثے فروخت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں اور اسٹیل ملز کی فروخت میں کی جانے والی غلطیاں دہرانے سے گریز کیا جائے، نجکاری کے دوران لاکھوں مزدوروں اور ملکی سیکیورٹی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔
زبیر احمد ملک نے کہا کہ اس وقت مقامی سرمایہ کار امن و امان، روپے کے زوال اور عدم استحکام سے خوفزدہ ہے جبکہ بین الاقوامی سرمایہ کار عالمی بحران کی وجہ سے خریداری میں زیادہ دلچسپی نہیں لیں گے جس کے لیے اسٹریٹجی بنائی جائے، عام خیال ہے کہ بین الاقوامی ادارے غریب ممالک کو نا قابل واپسی قرضے دے کر انھیں اثاثے من پسند افراد کو اونے پونے بیچنے پر مجبور کر دیتے ہیں،کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے اس خیال کو تقویت ملے۔ ایف پی سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ اگر امیروں کو نوازنے، غریبوں کو نچوڑنے اور ملکی وسائل پر شاہانہ زندگی گزارنے کی پالیسی جاری رہی تو نجکاری کا پیسہ بھی ضائع ہو جائے گا اور دوبارہ کشکول اٹھانا پڑے گا۔
دیہی اشرافیہ اگر ٹیکس ادا کرے یا ایف بی آر ایمانداری سے کام کرے تو سالانہ 8 کھرب سے زیادہ ٹیکس آسانی سے جمع کیا جا سکتا ہے جس کے بعد کسی اندرونی و بیرونی قرضے کی ضرورت نہیں رہے گی جبکہ ملک و قوم کی قسمت ہمیشہ کے لیے بدل جائے گی، پاکستان کو قرضوں کی نہیں بلکہ مناسب مینجمنٹ کی ضرورت ہے جس میں پلاٹ، پرمٹ، ایس آر او، مراعات اور نا اہل افراد کو نوازنے کی سیاست کا خاتمہ بنیادی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیںبحران سے نکلنے کے لیے مخلص اور صاحب بصیرت قیادت اور جرات مندکی ضرورت ہے۔
ایف پی سی سی آئی نے حکومت کی جانب سے نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کے فیصلے کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہاکہ سالانہ 500 ارب سفید ہاتھیوں کے بجائے عوام کی فلاح پر خرچ کیے جائیں، نجکاری ذمے دارانہ اور شفاف ہو جبکہ زیادہ خسارہ والے اداروں سے پہلے جان چھرائی جائے، سابقہ نجکاریوں میں قومی اثاثے خریدکر ڈیفالٹ کرنے والوں کوبولی لگانے کی اجازت نہ دی جائے تاکہ الزامات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیر احمد ملک نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے افراد کو کوئی ادارہ فروخت نہ کیا جائے جو اسے چلانے سے زیادہ زمین، مشینری اوراثاثے فروخت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں اور اسٹیل ملز کی فروخت میں کی جانے والی غلطیاں دہرانے سے گریز کیا جائے، نجکاری کے دوران لاکھوں مزدوروں اور ملکی سیکیورٹی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔
زبیر احمد ملک نے کہا کہ اس وقت مقامی سرمایہ کار امن و امان، روپے کے زوال اور عدم استحکام سے خوفزدہ ہے جبکہ بین الاقوامی سرمایہ کار عالمی بحران کی وجہ سے خریداری میں زیادہ دلچسپی نہیں لیں گے جس کے لیے اسٹریٹجی بنائی جائے، عام خیال ہے کہ بین الاقوامی ادارے غریب ممالک کو نا قابل واپسی قرضے دے کر انھیں اثاثے من پسند افراد کو اونے پونے بیچنے پر مجبور کر دیتے ہیں،کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے اس خیال کو تقویت ملے۔ ایف پی سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ اگر امیروں کو نوازنے، غریبوں کو نچوڑنے اور ملکی وسائل پر شاہانہ زندگی گزارنے کی پالیسی جاری رہی تو نجکاری کا پیسہ بھی ضائع ہو جائے گا اور دوبارہ کشکول اٹھانا پڑے گا۔
دیہی اشرافیہ اگر ٹیکس ادا کرے یا ایف بی آر ایمانداری سے کام کرے تو سالانہ 8 کھرب سے زیادہ ٹیکس آسانی سے جمع کیا جا سکتا ہے جس کے بعد کسی اندرونی و بیرونی قرضے کی ضرورت نہیں رہے گی جبکہ ملک و قوم کی قسمت ہمیشہ کے لیے بدل جائے گی، پاکستان کو قرضوں کی نہیں بلکہ مناسب مینجمنٹ کی ضرورت ہے جس میں پلاٹ، پرمٹ، ایس آر او، مراعات اور نا اہل افراد کو نوازنے کی سیاست کا خاتمہ بنیادی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیںبحران سے نکلنے کے لیے مخلص اور صاحب بصیرت قیادت اور جرات مندکی ضرورت ہے۔