زلزلہ زدہ علاقوں میں پھُوٹنے اور پھیلنے والی بیماریوں سے بچاؤ کیسے ممکن ہے

سردی کی شدت میں بتدریج اضافہ انفیکشن، دمہ اور نمونیہ جیسی بیماریوں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔


سردی کی شدت میں بتدریج اضافہ انفیکشن، دمہ اور نمونیہ جیسی بیماریوں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ فوٹو: فائل

یہ عجب اتفاق ہے کہ 1935ء سے لے کر ستمبر 2019ء تک آنے والے تمام زلزلے سردیوں کے موسم میں آئے۔

آواران میں آنے والا زلزلہ گرمیوں کے موسم میں آیا تھا۔ آج کل میرپور آزاد کشمیر میں زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں سردی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے خاص طور پر چھوٹے بچوں میں سینے کا انفیکشن، نمونیہ اور سانس کی دوسری بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔ بڑی عمر کے لوگ پہلے ہی چیسٹ انفیکشن میں مبتلا ہیں۔ زلزلہ کے بعد آفٹر شاکس کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چھوٹے درجے سے لے کر درمیانے درجے کے زلزلوں کے آنے کا سلسلہ زلزلے کے تین ماہ بعد بھی جاری رہتا ہے۔

مکانات کے گرنے سے ملبے میں دب جانے کے باعث زخمی ہو جانے کے علاوہ زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں پیدا ہونے والی بیماریوں کو مندرجہ ذیل اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

1۔معمولی نوعیت کی بیماریاں

2۔نفسیاتی امراض

3۔وبائی امراض

زلزلہ کے فوراً بعد سب سے اہم مرحلہ ریسکیو کا ہوتا ہے جس میں ملبے میں دبے ہوئے افراد کو نکال کر انھیں ابتدائی طبی ا مداد د ے کر ہسپتال بھیجا جاتا ہے۔ 24ستمبر 2019ء کے زلزلہ کے بعد پنجاب سے امدادی ٹیمیں زلزلہ زدہ علاقوں میں پہنچیں اور انھوں نے رات گئے زخمیوں کو ملبے سے نکالا۔ ان کی مرہم پٹی کی ۔ جن لوگوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھی، انھیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا اور نعشوں کے دفنانے کا بندوبست کیا گیا۔

زلزلہ میں سینکڑوں افراد زخمی ہوئے جنھیں مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ ہمارے میڈیکل کیمپوں میں بھی بعض زخمی افراد لائے گئے جن کی فوری مرہم پٹی کی گئی۔ کچھ افراد ملبے تلے دب جانے کی وجہ سے جسم میں دردوں کی شکایت کے ساتھ آئے، جن کا فوری علاج کیا گیا۔ پچھلے ہفتے زلزلہ زدہ علاقوں میں ہم نے میڈیکل کیمپ لگائے جس میں مریضوں میں زیادہ تر افراد بخار، سردرد، ڈائریا، سانس کی تکلیف، بے خوابی، شوگر، ہائی بلڈپریشر، نفسیاتی عوارض نظر کی خرابی وغیرہ کا شکار تھے۔ ان سب کو اچھی طرح چیک کر کے ادویات دی گئیں۔

زلزلہ زدہ علاقوں میں سردی کی شدت میں بتدریج اضافے کی وجہ سے متاثرہ افراد سینے کے امراض مثلاً انفیکشن، دمہ اور نمونیہ وغیرہ میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ خارش کا مرض بھی پھیل رہا ہے۔ زیادہ لوگ پیٹ کے امراض میں مبتلا ہیں۔ ہمارے میڈیکل کیمپوں میں ننھے منے، پیارے، خوب صورت، سرخ گالوں والے بچے زیادہ تر سینے کے امراض میں مبتلا نظر آئے۔ سردی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے بچوں میں نمونیہ کا مرض ہونے کا خدشہ ہے۔

بعض چھوٹے بچے اور کئی بڑے ٹی بی کے جان لیوا مرض میں مبتلا بھی چیک اپ کے لیے آئے۔ اس کے علاوہ کئی بچے اور بڑے جلدی بیماریوں اور خارش میں مبتلا تھے۔ کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کی ٹیموں کو 24 ستمبر 2019ء کے زلزلہ کے فوراً بعد زلزلہ زدہ علاقوں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ وہاں بھی یہ امراض عام تھے۔ اسی تجربہ کے باعث ان امراض کی وافر ادویات ساتھ لے کر گئے تھے جو متاثرہ بچوں اور بڑوں کو دی گئیں۔ آفت زدہ لوگوں نے بتایا کہ ان کے پاس ادویات بالکل ختم ہو گئی تھیں۔ چیک اَپ کے بعد ادویات ملنے سے ان کی تسلی ہوئی۔

زلزلہ زدہ علاقوں میں صفائی کے مناسب انتظامات نہ ہونے اور صاف پانی کے حصول میں مشکل کے باعث کئی وبائی امراض مثلاً ڈائریا، ٹائیفائیڈ، جلدی انفیکشن وغیرہ کے پھوٹنے کا بڑا خدشہ ہوتا ہے۔ ہمارے میڈیکل کیمپ میں بہت سے بچے لائے گئے جو ڈائریا کی وجہ سے بیمار تھے ، نمکول سے بچوں میں ڈائریا کے مرض میں خاطر خواہ کمی ہوئی۔ زلزلہ زدہ علاقوں کی اکثر عورتیں جسم میں درد، کمر میں درد، خون کی کمی، گردوں میں درد اور سانس پھولنے کی تکالیف میں مبتلا ہیں۔ خوراک کی کمی اور کمزوری کے باوجود عورتیں بغیر و قفے کے بچے پیدا کرتی ہیں جس کی وجہ سے 20 سال کی شادی شدہ لڑکی 40 سالہ عورت لگتی ہے۔

24 ستمبر 2019ء کے زلزلہ کے بعد باقاعدگی سے آفٹر شاکس اور چھوٹے بڑے زلزلوں کا سلسلہ جاری رہا ہے اور اب تک 10 سے زیادہ چھوٹے اور بڑے درجے کے زلزلے آفٹر شاکس کی صورت میں رونما ہو چکے ہیں۔ اس وجہ سے خوف و ہراس کی فضا پائی جاتی ہے۔ عدم تحفظ اور خطرے کے احساس کی وجہ سے چھوٹے بچوں میں بالخصوص اور بڑوں میں بالعموم جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔

چھوٹے بچے خواب میں اکثر ڈر جاتے ہیں۔ بعض بچے خوف کے مارے بات نہیں کرتے۔ ایسے چھوٹے بچوں کو دیکھنے کا موقع ملا جو زلزلے سے پہلے ٹھیک ٹھاک بھاگتے دوڑتے تھے لیکن اب ڈر اور خوف کے باعث صحیح طرح کھڑے بھی نہیں ہو سکتے۔ بعض نے چلنے پھرنے سے انکار کردیا ہے۔ ان کے ماں باپ پریشان ہیں کہ کہیں مستقل معذور نہ ہو جائیں۔ متاثرین کو ہر وقت زلزلہ آنے اور اس میں جاں بحق ہونے کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔

جن لوگوں کے رشتہ دار یا قریبی عزیز 24 ستمبر کے زلزلہ میں جاں بحق ہوئے ان کی ذہنی اور نفسیاتی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ جب بھی کسی ایسے متاثرہ فرد سے ملنے کا موقع ملا وہ خلاؤں میں گھورتا نظر آیا۔ ایسے سب بچوں اور بڑوں کو بہت زیادہ توجہ، محبت اور پیار کی ضرورت ہے۔ بھرپور توجہ اور پیار سے ان کے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

اس وقت متاثرین کا سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انھیں چھت مہیا کی جائے، ان کے گھر بنوائے جائیں۔ زلزلہ کے دوران ہونے والے جانی و مالی نقصان کے ساتھ اس سے متاثرہ لوگوں کا روزگار بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ابتدائی دن تو ریلیف کے ساتھ جیسے تیسے گزر جاتے ہیں مگر جوں جوں وقت گزرتا ہے معاشی حالات کی وجہ سے پریشانیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

جس کی وجہ سے نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اکثر زلزلہ متاثرین ذہنی پریشانی، سر میں درد، نیند نہ آنا، بھوک میں کمی، وزن میں کمی وغیرہ کی علامات کے ساتھ میڈیکل کیمپوں میں آتے ہیں اور اپنا دکھڑا اور حالِ دل بیان کرتے ہیں۔ زلزلہ زدگان کے ساتھ بات کرنے، ان کی تکلیف کو سمجھنے اور اس کے مداوا کی کوششوں سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور متاثرہ افراد کی بحالی میں سب سے اہم اور نازک مرحلہ ایسے افراد کی فوری بحالی ہے جو زلزلہ میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان کی وجہ سے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہوگئے ہوں کیوں کہ جسمانی بیماری یا چوٹ کا علاج تو آسانی سے ہو جاتا ہے لیکن دل و دماغ پر لگنے والے زخم بڑی دیر سے مندمل ہوتے ہیں۔

نفسیاتی مسائل میں مبتلا امراض کے مکمل علاج کے لیے حکومتی اور سماجی سطح پر فوری اور مستقل اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر زلزلے اور قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے سپیشل سینٹرز بنائے جائیں جہاں متاثرہ افراد کو زندگی کی تمام سہولتیں مہیا کی جائیں اور جلد سے جلد ان کے لیے مناسب روزگار کا بندوبست کیا جائے تاکہ ہمارے یہ دکھی بہن بھائی پھر سے زندگی کے دھارے میں شامل ہو کر نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔

کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی نے متاثرہ علاقوں میں بھرپور طریقے سے بحالی کا کام شروع کر دیا ہے۔ چترال کے زلزلہ زدہ علاقوں کے مکانوں کی تعمیر شروع کر دی گئی ہے۔ کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے شعبۂ تعمیرات کے انچارج اسرار احمد زندگی اور شفقت رضوان گزشتہ کئی ماہ سے زلزلہ زدہ علاقوں میں موجود ہیں اور صبح و شام زلزلہ زدگان میں امدادی اشیاء کی تقسیم اور ان کے لیے خوب صورت پکے گھر بنانے میں مصروف ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی دو دن پہلے میرپور جا کر زلزلہ میں زخمی ہونے والے افراد کی عیادت کی ہے۔ مختلف سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی آفت زدہ افراد کی مدد کر رہی ہیں۔ پچھلا ہفتہ کشمیر کے زلزلہ زدہ افراد کے ساتھ گزارنے کے بعد اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی گئی کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں زلزلہ سے متاثرہ ہونے والے افراد کو ریلیف اشیاء کے ساتھ جذباتی سہارے اور ذہنی سکون دلانے کے لیے ان کے تمام مسائل حل کرنا ضروری ہے۔ کشمیر کے زلزلہ زدگان کی ہر طرح سے مدد کرنا ہماری قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں