ہارٹ اٹیک کے علاج کے لیے نئی تکنیک کے زبردست نتائج

ہارٹ اٹیک کے مریضوں کا علاج کرتے وقت ایک نئی تکینک استعمال کی جائے تو ہزاروں زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے

مریض کی ایک مرکزی بند شریان کھولنے کے ساتھ ہی دیگر بند شریانیں بھی کھول دینی چاہئیں. فوٹو : فائل

امراض قلب کے ماہرین نے کہا ہے کہ ہارٹ اٹیک کے مریضوں کا علاج کرتے وقت ایک نئی تکینک استعمال کی جائے تو ہزاروں زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے۔کلائیڈ بینک ہسپتال کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تکنیک کے تحت جب ہارٹ اٹیک کا کوئی مریض ہسپتال میں آتا ہے تو اس کی صرف ایک مکمل طورپر بند شریان کھولنے کے بجائے وہ تمام شریانیں کھول دینی چاہئیں جو تنگ ہوں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ یوکے کے گولڈن جوبلی نیشنل ہسپتال میں اس حوالے سے تجربہ کیا گیا جو اس قدر کامیاب رہا کہ تحقیق کو جلد روک دیا گیا۔جوبلی ہسپتال کے ماہر قلب پروفیسر کولن بیری نے بتایا کہ تجربے کے نتائج حیران کن تھے۔ایک اور کارڈیالوجسٹ پروفیسر کیتھ اولڈروئڈ کا کہنا تھا کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جب ہارٹ اٹیک کا کوئی مریض ہسپتال میں آتا ہے تو اس کا فوری طورپر ایمرجنسی اینجیو گرام کیا جاتا ہے اور اس کے دوران عام طورپر صرف وہ شریان کھولی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہورہا ہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ عام طورپر ایسے مریضوں کی کئی اور شریانیں بھی تنگ ہوچکی ہوتی ہیں اوراب ہم اینجیو گرام کے ذریعے مرکزی بند شریان کے ساتھ یہ شریانیں بھی کھول رہے ہیں اور اب ہمیں دیکھنا ہے کہ اس کا کیا اضافی فائدہ ہوتا ہے۔



رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں افراد اس قسم کے ہارٹ اٹیک سے دوچار ہوتے ہیں جس کا اینجیو پلاسٹی کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔اس میں بند شریان میں ایک سٹنٹ یا باریک تار ڈال کر شریان کو کھولا جاتا ہے اور خون کے بہاؤ کو بحال کیا جاتا ہے۔شریانیں چربی کی وجہ سے تنگ ہوجاتی ہیں تاہم عام طور پر یہ خون کا لوتھڑا ہوتا ہے جو شریان کو مکمل طورپر بند کردیتا ہے۔

اس وقت جو پریکٹس چل رہی ہے اس میں عام طورپر صرف اس شریان کا علاج کرنے کو کہا جاتا ہے جو مکمل طور پر بند ہوچکی ہو۔پروفیسر اولڈ روئڈ کے مطابق بہت سے کارڈیالوجسٹ یہ خیال کرتے ہیں کہ مرکزی طورپر بند شریان کے ساتھ دوسری یا تیسری شریان کا ایک ساتھ علاج کرنا محفوظ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات مریضوں کو کئی ہفتوں بعد دوبارہ ہسپتال میں داخل ہونا پڑتا ہے اور بعض اوقات صرف دواؤں سے کام بن جاتا ہے۔اس تجربے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ بالا موجودہ پریکٹس پر نظرثانی کی جائے۔

مذکورہ بالا تجربات یوکے میں کیے گئے جن میں 465مریضوں کو شامل کیا گیا۔تجربے کے سلسلے میں ہارٹ اٹیک کے نصف مریضوں کی تمام شریانوں کو کھولا گیا جبکہ باقی مریضوں کا روایتی طریقے سے علاج کیا گیا۔ پروفیسر کیتھ اولڈ روئڈ کے مطابق زیادہ تر مریضوں میں ایک سے زیادہ شریانیں بند تھیں۔محققین نے تجربے کے نتائج کو بہت زبردست پایا یعنی اس کے ذریعے موت کے دو مجموعی خطرات یعنی ایک اور ہارٹ اٹیک ہونے کا خطرہ اور اینجائنا کا خطرہ دو تہائی حد تک کم ہوگئے۔ یہ اس قدر زبردست نتیجہ تھا کہ مزید تحقیق کو روک دیا گیا۔نئی تکنیک سے علاج میں صرف بیس منٹ اضافی صرف ہوئے۔

اس تحقیق کے نتائج نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوئے اور اس ماہ کے آغاز میں ایمسٹرڈیم میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کیے گئے۔یونیورسٹی آف گلاسگو کے پروفیسر کولن بیری کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی سٹڈی کے اس قدر حیران کن نتائج پہلے کبھی نہیں دیکھے۔اس تجربے کے نتائج نے واقعی روایتی پریکٹس کو چیلنج کردیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک حوصلہ افزاء کوشش ہے جس کی افادیت آج نہیں تو کل مریضوں کو ضرور حاصل ہوگی۔امراض قلب اور ان کے علاج کی دنیا میں یہ ایک سنگ میل ہے۔

امراض قلب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ پرجوش ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے جلد ازجلد مزید بڑی سٹڈیز کی جانی چاہئیں۔ماضی میں طبی دنیا میں کوئی نئی تکنیک یا طریقہ علاج اختیار کرنے میں دس سال اور اس سے زائد عرصہ لگ جاتا تھا تاہم پروفیسر بیری کا کہنا ہے کہ اس تکنیک کے لیے اس قدر زیادہ انتظار کی ضرورت نہیں۔یہ کوئی دوا نہیں بلکہ ایک تکنیک ہے جس کو فوری طورپر اختیار کیا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ ان کے بقول اس سے مالی بچت بھی ہوگی۔لاجسٹک اور اخراجات کی مد میں بچت ہوگی۔جب ہارٹ اٹیک کے مریض کی تمام شریانیں پہلے ہی صاف کردی جائیں گی تو اس کو دوبارہ ہارٹ اٹیک کا خدشہ کم ہوجائے گا۔اس طرح اسے دوبارہ ہسپتال داخل کرانے اور دوبارہ علاج پر جو اخراجات ہوں گے ، ان سے بچت ہوجائے گی۔ اس سے نہ صرف مریضوں کو فائدہ ہوگا بلکہ ہسپتالوں پر سے بوجھ بھی کم ہوجائے گا۔ لہٰذا اس تکنیک کو جلد ازجلد اختیار کیا جانا چاہیے۔

ورزش، ڈائٹ اور کافی رحم کے کینسر سے بچاتے ہیں
ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ورزش ، ڈائٹ اور کافی کے ذریعے رحم کے کینسر کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اگر عورتیں اپنا وزن کم کریں اور متحرک رہیں تو صرف یوکے میں سالانہ رحم کے کینسر کے واقعات کو نصف کیا جاسکتا ہے۔ یہ تحقیق لندن کے امپیریل کالج کے محققین کی جانب سے کی گئی جنہوں نے قرار دیا کہ روزانہ آدھاگھنٹہ کی ورزش اور ایک صحت مند وزن قائم رکھنے کی صورت میں خواتین خود کو لاحق رحم کے کینسر کا خدشہ کم کرسکتی ہیں۔




ورلڈ کینسر ریسرچ فنڈ کی رپورٹ کے مطابق تحقیق سے کافی کے بارے میں بھی پتہ چلا کہ یہ بھی رحم کے کینسر کے خدشے کو کم کرتی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی کافی کے بارے میں اس قدر ٹھوش شواہد موجود نہیں کہ مذکورہ بالا بیماری سے تحفظ کے لیے خواتین کو اس کی سفارش کی جائے۔ رحم کا کینسر زیادہ تر ساٹھ سال سے اوپر کی خواتین میں ہوتا ہے۔ رحم کے کینسر کی کئی علامات ہوسکتی ہیں جن میں خون کا نارمل سے زیادہ اخراج اور ڈسچارج وغیرہ جبکہ پیٹ کے نچلے حصے میں درد کے علاوہ ازدواجی تعلق کے دوران بھی درد ہوسکتا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ابھی ایسے کوئی قابل بھروسہ ٹیسٹ یا سکریننگ کا نظام موجود نہیں جس سے خواتین میں رحم کے کینسر کا پتہ چلایا جاسکے۔ رحم کے کینسر کو اینڈو میٹریل کینسر بھی کہتے ہیں اور دنیا کے مختلف ملکوں میں اب اس کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔امپیریل کالج لندن کے محققین نے 2007ء سے ایک عالمی تجزیے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جس میں رحم کے کینسر کے حوالے سے سائنسی تحقیق کا جائزہ لیا گیا ہے اور پتہ چلا ہے کہ اس بیماری کا غذا ، جسمانی سرگرمی اور وزن سے خاصا تعلق ہے۔



تحقیق میں ایسے شواہد ملے جس کے مطابق اگر خواتین روزانہ آدھا گھنٹہ کی ورزش کریں اور جسم کا صحت مند وزن قائم رکھیں تو اس بیماری کی روک تھا م کی جاسکتی ہے۔یوکے کے اعداد وشمار کے مطابق تحقیق کے لیے صرف 56 فیصد خواتین نے روزانہ نصف گھنٹہ ورزش کی سفارش پر عمل کیا جبکہ صرف 39 فیصد خواتین کا وزن صحت مند تھا۔ اسٹڈی کی سرکردہ مصنف ڈاکٹر ٹیریزا نوراٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر آپ جسمانی طورپر متحرک ہیں اور آپ کے جسم پر فالتو گوشت کا وزن نہیں ہے تو آپ رحم کے کینسر سے بچ سکتے ہیں اور اپنی عمومی صحت کو بہتر بناسکتے ہیں۔

ورلڈ کینسر ریسرچ فنڈ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیرن سیڈلر کا کہنا ہے کہ کافی کے حوالے سے شواہد بہت دلچسپ ہیںاور کینسر اور کافی کے درمیان تعلق کے حوالے سے یہ مزید شواہد ہیںتاہم اس حوالے سے ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں دیگر کینسرز اور دیگر بیماریوں پربھی اس کے (کافی) اثرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے ہم مزید تحقیق کر رہے ہیں۔

بندروں پرتجربات: ایڈز کے مریضوں کے لیے امید جاگ گئی
ایک اسٹڈی کے مطابق ایک ویکسین کے ذریعے بندروں میں ایچ آئی وی سے ملتے جلتے وائرس کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ جریدے نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ویکیسین دیے گئے بندروں میں ایس آئی وی وائرس Simian Immunodeficiency Virus (SIV)کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے جو کہ ایچ آئی وی سے ملتا جلتا وائرس ہے۔امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اب وہ چاہتے ہیں کہ مذکورہ بالا طریقے کے ذریعے انسانوں میں ایچ آئی وی کا علاج تلاش کیا جائے اور انسانوں میں کسی ویکسین کا تجربہ کیا جائے۔

اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کے ویکسین اینڈ جین تھیریپی کے پروفیسر لوئس پکر کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ بیماری کا مکمل طورپر خاتمہ کرنا بہت مشکل ہے ۔ کوئی نہ کوئی ایسا خلیہ رہ جاتا ہے جسے ہم دیکھ نہیں پاتے اور جس میں وائرس رہ جاتا ہے۔ تاہم جہاں تک بندروں پر تجربے کا تعلق ہے تو یہ خوشی کی بات ہے کہ ویکسین کے استعمال کے بعد ان میں کوئی وائرس باقی نہیں رہا تھا۔



تحقیق کے سلسلے میں محققین نے ایس آئی وی وائرس SIVmac239 کی ایک انتہائی جارحانہ قسم کو دیکھا جو کہ ایچ آئی وی وائرس سے سو گنا زیادہ مہلک ہے۔اس سے متاثرہ بندر عام طورپر دوسال کے اندر مرجاتا ہے تاہم جن بندروں کو ویکسین دی گئی ان میں یہ وائرس ٹھہر نہ سکا۔اس کے نتیجے میں ایک ''مسلح فوج '' قائم ہوجاتی ہے جو جسم کے تمام ٹشوز میں ہمہ وقت گشت کرتی ہے۔

یہ ویکسین ایک اور وائرس کی بنیاد پر تیار کی گئی جسے cytomegalovirus (CMV) کہا جاتا ہے اور جس کا تعلق herpes یعنی داد کے خاندان سے ہے۔ویکسین کے ذریعے (CMV)کی متعدی طاقت کو استعمال کیا گیا کہ وہ پورے جسم کی صفائی کرے تاہم بجائے بیماری کی وجہ بننے کے اس نے خود کو تبدیل کرلیا اور مدافعتی نظام کو ایس آئی وی کے مالیکولز سے جنگ کے لیے تیار کیا۔

محققین نے پہلے مکا نسل کے بندروں کو یہ ویکسین دی اور اس کے بعد انہیں ایس آئی وی سے متاثر کیا۔اس کے بعد دیکھا گیا کہ پہلے تو انفیکشن نے خود کو قائم کیا اور اس کے بعد پھیلایا لیکن پھر اس کے بعد بندروں کے جسم نے جوابی ردعمل ظاہر کیا ۔ تمام انفیکشن کو تلاش کیا اور وائرس کی تمام علامات کو ختم کردیا۔جن بندروں میں ویکسین نے کامیابی سے کام کیا وہ آج اس تجربے کے اڑھائی سے تین سال کے درمیان انفیکشن سے مکمل طورپر پاک ہوچکے ہیں تاہم نصف بندروں میں یہ ویکسین کام نہ کرسکی۔

پروفیسر پکر کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم تاحال کوشش کررہی ہے کہ یہ پتہ چلایا جائے کہ ان بندروں میں ویکسین کام کیوں نہ کرسکی۔یہ حقیقت ہے کہ ایس آئی وی اس قدر مہلک بیماری ہے کہ کسی کو یہ بیماری نہیں ہونی چاہیے۔اس میں ایک جنگ ہوتی ہے جس میں آدھی مرتبہ ویکسین جیت جاتی ہے اور آدھی مرتبہ ناکام ہوجاتی ہے۔

محققین اب یہ بھی جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آیا ویکسین ان بندروں کو بھی صحت یاب کرسکتی ہے جو پہلے ہی ایس آئی وی وائرس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔وہ یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا یہ تکنیک انسانوں پر بھی کارگر ہوسکتی ہے۔پروفیسر پکر کے مطابق انسانوں کے لیے اس دوا کا ورژن تیار کرنے کے لیے ہمیں یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ یہ مکمل طورپر محفوظ ہو۔
Load Next Story