ریاست مدینہ کا خواب

غریب آبادیوں میں جب معاشی بے چارگی کی لہر دوڑتی ہے تو وہ اپنے دل میں ریاست مدینہ کے چراغ کی روشنی دیکھتے ہیں۔

anisbaqar@hotmail.com

HYDERABAD:
عمران خان نے ملکی قیادت سنبھالنے کے بعد بے شمار تقریریں اور مباحثے کیے۔ خصوصاً حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر کی دھوم ملک بھر میں ہے لیکن یہ تقریریں اور مباحثے عمران خان کے ریاست مدینہ کا تصور جو انھوں نے پیش کیا قوم اس کو بھلا نہ سکے گی۔

یہ جملہ اس بنیاد پر تحریر کیا گیا ہے کہ ریاست مدینہ کے تصور کو بے شمار لوگوں سے گفتگوکے بعد لکھا جا رہا ہے۔ کم ازکم مجھے پچاس لوگوں سے انٹرویو کے بعد یہ محسوس ہوا کہ ریاست مدینہ کا تصور اتنا دل نشین ہے کہ لوگ پاکستان میں اسی تصور کو عملاً دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس موقع پر پاکستانی قوم کی جتنی بھی پذیرائی کی جائے وہ کم ہے کہ انھوں نے مستقبل کی حسین تصوراتی ریاست کے عوض فی الوقت مشکلات کی راہ سے گزرنا پسند کر لیا اور ایک فرد بھی سڑک پر مخالفت کا پرچم اٹھائے نظر نہ آیا۔ گوکہ مخالف پارٹیوں نے اس موقع کو کیش کرنے کے لیے بے شمار افواہوں کا دروازہ کھول دیا تھا۔ اس سے دو چیزوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

پہلی یہ کہ عوام کو اپنے لیڈرکی بات پر یقین ہے اور انھیں روزمرہ کی چیزوں کی قیمتوں کے بے تحاشا اضافے پر کسی قسم کا شک و شبہ نظر نہ آیا۔ بلکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی اتنی پستی پر بھی کوئی اعتراض محسوس نہ ہوا۔ کاروباری حضرات تو پھر بھی مشکلات کو کسی نہ کسی طرح جھیلنے میں پرسکون رہے۔

لیکن اصل مشکل لوئر مڈل کلاس کے پڑھے لکھے طبقے پر گزر رہی ہے۔ جن کے بچوں کے نام اسکولوں سے اس لیے کاٹ دیے گئے کہ وہ اپنی چار پانچ ہزار روپے ماہانہ فیس کی رقم والدین سے نہ لاسکے۔ یہ صوبہ سندھ کے ان والدین کے بچے ہیں جو خود تو میٹرک یا انٹرمیڈیٹ ہیں اور دفاتر میں بابو بنے بیٹھے ہیں۔ پنجاب میں تو گورنمنٹ اسکول فعال ہیں۔ مگر کراچی میں گورنمنٹ اسکول برائے نام رہ گئے ہیں۔ آپ خود غور کریں کہ پندرہ بیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والے افراد اپنی نئی نسل کو کس طرح تعلیم دلا سکتے ہیں۔

گورنمنٹ اسکولوں میں تالا لگنے کی کہانی گزشتہ تین دہائیوں سے چلی آ رہی ہے۔ ایسا یقینی ہے کہ آیندہ دس برسوں میں سندھ میں بسنے والے لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس میں تعلیم یافتہ لوگوں کا تناسب نصف رہ جائے گا اور ملک کے موجودہ حکمرانوں پر جاں نثار کرنے والوں میں مایوسی کی لہر دوڑ جانے کا خطرہ ہے۔ درحقیقت ریاست مدینہ کا تصور مجموعی طور پر پورے پاکستانیوں کے دماغ میں ہے۔ ہر شخص نے ریاست مدینہ کا خواب اپنے دماغ اور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ زیادہ پڑھے لکھے اور مغرب زدہ لوگ ریاست مدینہ کا تصور اسکنڈے نیون ممالک سے قریب تر سمجھتے ہیں۔

جو سوشل ویلفیئر اسٹیٹس ہیں جن میں سوئیڈن، ناروے، ڈنمارک وغیرہ ہیں مگر عام پاکستانی اس کو آنحضرتؐ کے دور نگہبانی اور ان کی خلافت کی حکومت کے تصورات کو اپنے ذہن میں لاکر وہ یہ سوچتے ہیں کہ ایک حکومت ایسی آئے گی جس میں ان کے بچے بھی عام لوگوں کی طرح تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ جیسے کہ انگلینڈ امریکا میں تعلیم کے حصول کا حکومت نے بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ گوکہ یہ سوشل ویلفیئر اسٹیٹ نہیں ہے اور یہ سرمایہ دارانہ حکومتوں کے ستون ہیں۔

جہاں تک اعلیٰ تعلیم کا تصور ہے وہ پاکستان میں ناپید ہوتا جا رہا ہے اور اس پر بڑی ضرب سابق چیف جسٹس نے لگائی جنھوں نے انصاف کی دوسال کی تعلیم کو پانچ سال پر محیط کر دیا اور نصابی مواد عوام کو نہ دے سکے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غریب طالب علم جو شام کو لا کلاسز میں پڑھ کر ایل ایل بی کر لیا کرتے تھے اس سے محروم ہو گئے۔


افسوس کی بات یہ ہے کہ اس فیصلے پر وکلا کی انجمنوں نے بھی اعتراض نہ کیا۔ وکلا کے لیڈر جو پرویز مشرف کو ہٹانے میں پیش پیش تھے وہ بھی ایل ایل بی دو سال میں کر کے فارغ ہوئے تھے۔ یہ مانا کہ پارٹ ٹائم وکالت کی تعلیم میں جو طلبا آتے تھے ان کی علمی استعداد نمایاں نہ ہوتی تھی۔ مگر ان میں سے بہت سے بڑے وکلا نمایاں ہوئے۔

وکالت کے شعبے کے علاوہ اور بھی دیگر شعبے ہیں جو حکومت کے لیے اہم ہیں۔ معاشیات ان کی بنیاد ہے۔ مگر مجبوری یہ ہے کہ پاکستان میں جانے والے حکمرانوں نے معیشت کی گردن توڑ دی اور ذاتی منفعت کے راستے پر چل پڑے۔ اسی لیے مخالف لیڈروں نے اسمبلی میں جا کر اعدادی جنگ لڑنے کی بھی جرأت نہیں گو کہ مخالف پارٹیوں کی اجتماعی قوت اور حکمران جماعت کی ایوان میں تعداد کے لحاظ سے کوئی زیادہ فرق نہیں لیکن پھر بھی سابق حکمرانوں نے عدم اعتماد کی ووٹنگ کرانے کی سکت نہیں کی۔

یہاں تک کہ سینیٹ کے الیکشن میں جس میں اپوزیشن نے جو بہت شور و غوغا مچا رہی تھی بہت بری طرح شکست کھائی۔ اس پر ایک پرانی مثل یاد آئی کہ جو بیجو گے وہی کاٹو گے۔ اپوزیشن کے اموال تو یہ ہیں کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن سے آزادی مارچ کے التوا کی درخواست کر رہے ہیں۔ اس پر یہ مصرع ان کے نام ہے:

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے

یہ بازو تو سب آزمائے ہوئے ہیں

ایسی صورتحال میں حکمران جماعت جو درحقیقت ماضی کے حکمرانوں کا چربہ ہے۔ پھر بھی ان کے کارکن اور لیڈر غیر جمہوری اور غیر اخلاقی راہ پر چلنے کی جرأت نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے لیڈر کی عوام پر گرفت مضبوط ہے اسی لیے اپوزیشن کے لیڈران مولانا فضل الرحمن سے ملنے کے لیے بے تاب ہیں۔

یہ بات تو رہی عوام کی مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکمران جماعت اس چراغ کو بجھا دے جو اس نے ریاست مدینہ کے نام سے روشن کیا ہے۔

غریب آبادیوں میں جب معاشی بے چارگی کی لہر دوڑتی ہے تو وہ اپنے دل میں ریاست مدینہ کے چراغ کی روشنی دیکھتے ہیں۔ ان کو گھر بیٹھ کر وظیفہ لینے کا تصور نہیں بلکہ محنت کی بنیاد پر رزق کمانے کا شوق ہے۔ ان کی نظر اسمبلی کے اجلاس سے لے کر اس چراغ کی لو پر بھی ہے۔ لہٰذا حکومت وقت کو کشمیری محاذ کے علاوہ محنت کشوں کے محاذ پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔

یہ مانا کہ موجودہ حالات میں کشمیری حالات اولیت کے حامل ہیں۔ لیکن کوئی ان گھروں میں جائے جن کے بچے اسکولوں سے نکال دیے گئے ہیں یا جن کے گھروں میں ایک یا دو نوجوان گھر بیٹھے ہیں اور روزگار نہیں ہے۔ اگر فیکٹری مالکان سے یہ پوچھا جائے کہ چھانٹی کیوں کی جا رہی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس معاشی اہداف کم تر ہو گئے ہیں ایسی صورتحال میں حکمران جماعت کو عوام سے روزگار کے مسائل پر امید دلانے کی اور پیش رفت کی ضرورت ہے تا کہ حکمران جماعت اپنے اہداف پورے کر سکے۔
Load Next Story