تبدیلی کے دھپ دھپ سر

معاشرہ ہے کہ اپنی کل سیدھی کیے بغیر چل سو چل کی دھن میں بے تکان چلے جا رہا ہے۔


وارث رضا October 04, 2019
[email protected]

بچپن کی یادیں بھی اپنے ساتھ عجیب وغریب رنگ ترنگ اوردلفریبیاں لیے ہوتی ہیں۔کبھی یہ یاد خوف کی علامت تو کبھی دلچسپی کا سامان ہوا کرتی ہے۔ بچپن کی اٹھکیلیاں اور اس وقت کی حماقتیں ایک سنجیدہ عمر میں قہقہے سمیٹنے کا مرکز بن جاتی ہیں۔

اب بچپن کی وہ یادیں جن پر محفل زعفران بن جاتی ہے ، یا جنھیں غیر سنجیدہ عمل کے تحت نظر اندازکیے جانے پر اکتفا کیا جاتا ہے، یا وہ حرکتیں جن کو بچکانہ عمل جان کر توجہ نہیں دی جاتی ،کبھی کبھی جب وہی بچکانہ عمل سنجیدہ اور عمر رسیدہ افراد میں نظر آتا ہے تو بے ساختہ منہ سے'' بچپنا ہے'' کہہ کر اس سے بیزاری برتی جاتی ہے جب کہ دوسری جانب اس بچپنے کے عمل کوسماج کی غیر سنجیدہ فکر کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ ہم ابھی صرف ستر برس کے سماج کے رہواسی کہلاتے ہیں مگر ہماری سنجیدگی پر شاہ دولا کے کنٹوپ پہنا کر ہمیں سوچنے سمجھنے اور غور وفکر کرنے سے محروم کردیا گیا ہے۔

معاشرہ ہے کہ اپنی کل سیدھی کیے بغیر چل سو چل کی دھن میں بے تکان چلے جا رہا ہے جب کہ ارد گرد سے خود کو بے خبر رکھے ہوئے ہے،جسے دیکھو اپنی بانسری کے سروں میں مدہوش ہے،جب کہ دوسرے کی لے اور سر کو بے جا کی راگنی قرار دیے جا رہا ہے، جب کہ ہمارے سماج میں توپ سرکار نے ''تبدیلی'' کے نئے سر کی عجیب وغریب سارنگی ایجاد کی ہے جو اپنے دھپ دھپ کرتی ڈھولکی سر کے علاوہ مجال جو کسی مدھ بھرے سرکو سننا گوارا کر لے۔

اگر ''تبدیلی سر'' کو کبھی لے تال کے مدھر بھرے سر سنانے کی کوشش آپ غلطی سے کر بھی لیں تو ''تبدیلی سر'' کے سارنگی بردار آپ کے تمام تنبورے اور ڈھولک سمیت بانسری کو توڑکر دوبارہ سے '' تبدیلی سر'' پہ سر دھننے کے علاوہ کسی بھی وقت'' تبدیلی '' کی موسیقی کے نام پر مدھر سر لے اور انترا والے کو بھی دھننے سے گریز نہیں کریں گے۔ اب آپ دیکھ لیں کہ ہم ایک ایسے سماج میں اپنی زندگیاں تج کر رہے ہیں جہاں ہر غیر سنجیدہ عمل پر '' تبدیلی'' کا غلاف ڈال دیا جاتا ہے اور مجال کہ آپ اس غلاف کو اتار سکیں۔

'' توپ تبدیلی '' کے اس گھٹن زدہ ماحول میں بھی ہمیں بچپن کی لائیبریریوں سے کرائے پر لی گئی ابن صفی کی '' عمران سیریز'' نہیں بھولتی اور نہ ہی عمرو عیار کی وہ زنبیل جس کی اتھاہ کم ازکم ہم تو اپنے بچپن میں نہ تلاش کر سکے تھے ، ہمارے دور میں جاسوسی کہانیوں کو بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا تھا اور لائیبریری پر ہر ایک کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ پہلے پہنچ کر ابن صفی کی نئی کہانی لے اڑے، تاکہ محلے کے دیگر نوجوانوں پر رعب ڈال سکے۔

ابن صفی کی ''عمران سیریز'' کی یہ کہانیاں دلچسپ اور رنگ برنگی سرورق سے مزین ہوا کرتی تھیں کہ جن کے سرورق پر نیچے '' ابن صفی، بی اے''جلی حروف سے لکھا ہوتا تھا کیونکہ اسی دوران ایک اورکہانی کار ''مظہر کلیم ایم اے'' کے نام سے آچکے تھے جن کا مقابلہ ابن صفی کی ''عمران سیریز'' سے ہوا کرتا تھا،گویا کہانیاں پڑھنے والے نوجوانوں میں واضح طور سے دو گروپ بن چکے تھے جو کہ اپنے اپنے پسندیدہ لکھاری کی کہانیوں کی ہیجان خیزی کو بڑے طمطراق سے دوسرے کو سنایا کرتے اور اس طرح کتاب پڑھنے کی جانب غیر شعوری طور پر نئی نسل راغب ہوا کرتی تھی۔

آج کے ہم سمیت بہت سے صحافی اور لکھاری اخبارات میں '' ٹارزن '' اور مینڈیکس کی روزانہ قسط کا انتظارکیا کرتے تھے،جس سے اخبار بینی اور پڑھنے کے رجحان کو توانا کرنے میں اہل صحافت پیش پیش رہا کرتی تھی ، اب نہ وہ دانا ، تازہ ذہن اور سماج کو آگے لے جانے کی سوچ کے صحافی اور لکھاری اور نہ ذہنوں کو بنانے والی وہ کہانیاں جو شعورکو صیقل کیا کرتی تھیں۔

کنٹوپ افراد کے ذریعے عجب بے ڈھنگی بلکہ لنگڑاتی ہوئی چال کا معاشرہ تشکیل دیا جا رہا ہے جس میں چرب زبان اینکر اور اپنے مضمون میں مہارت سے نابلد صحافی تخلیق کیے جا رہے ہیں جن سے'' تبدیلی '' کے سرکی قومی سلامتی کے ساز راگ کومعاشرے کی ضرورت یا طور طریقہ بنانے کی تیاری زور و شور سے کروائی جا رہی ہے، بیرونی دوروں پر '' تبدیلی پسند '' صحافیوں کی فوج ظفر موج عوام کے ٹیکس کے پیسے خرچ کرکے لے جائی جا رہی ہے ، جن کا کام '' ٹرمپ پسند'' اور ''تبدیلی پسند '' بے سروپا سوال کرنا یا بیرونی حکام سے مل کر سیلفیاں بنانا ہی کر دیا گیا ہے۔

اسی دوران وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں کشمیر اور اسلام فوبیا تقریر کو تاریخی بنانے کی '' راگنی'' کے سر بکھیر کر ملک میں عوام کو بھوک و پیاس میں ڈالنے والے آئی ایم ایف کی عوام دشمن معاشی منصوبوں سے توجہ ہٹانے کی ''کنٹوپ پالیسی'' کو نافذ کرنے کی روش اپنانے کی طرف لے جایا جا رہا ہے ، تاکہ عوام گیس ، بجلی اور پیٹرول کے ہوشربا اضافے کو بھول کر عالمی سامراج کے ملک دیوالیہ کرنے کے منصوبوں سے الگ تھلگ رہے اور ملک خطے سمیت عالمی سرمایہ داری کا غلام بنا دیا جائے۔

دوسری جانب ہمارے وزیراعظم کی اقوام متحدہ کی قومی سلامتی والی تقریر کو '' تاریخی'' قرار دلوانے کی کوشش میں یہ بھی بھولا جا رہا ہے کہ اس سے قبل مغرب میں اسلام کو شدت پسند مذہب کی شکل میں دیکھنے کی کوششوں کو سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو عالمی فورم پر 2006 میں پہلے ہی اٹھا چکی ہیں اور اس سلسلے میں بے نظیر بھٹو کی تاریخی کتاب Reconciliation:Islam,Democracy,and the westمیں مدلل دلیلوں سے اسلام کا بھرپور دفاع کیا گیا ہے۔

دوم کہ اردن کے شاہ حسین دوم کی 2015کے دوران یورپی پارلیمنٹ میں مذہب اسلام کے بارے میں غلط خیالات کو انتہائی مدلل طریقے سے رد کیا جا چکا ہے،مگر پاکستان کے نوجوانوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم ہی واحد فرد ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ یا دنیا کے سامنے اسلام فوبیا میں مبتلا مسائل کو اجاگر کیا ہے،جو تاریخی اعتبار سے ایک ایسی غلط بیانی ہے جسے ہمارے اینکر اور تجزیہ کار ایک اعلیٰ کام قرار دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں ،جو نہ صحافتی اصول ہے اور نہ ہی اس کا تعلق تاریخی حقائق سے ہے۔

دانش اور علم و حکمت کے اہم خلیفہ حضرت علیؓ کا یہ قول نقل کرتا چلوں کہ ''ہر چرب زبان کے پیچھے جھوٹ چھپا ہوتا ہے'' اب چرب زبان یا اپنی بات کو بلند آہنگ سے دوسروں کے سامنے رکھنے کو آپ جو چاہیں اس پر مغز دلیل کے تناظر میں دیکھ لیں تو معلوم ہوجائے گا کہ ''قول و فعل'' میںتضاد کے افراد جب خود کو دنیا کا جدید ترین U Turnوزیراعظم کہنے پر فخر کریں تو ملک میں قول و فعل کی کشتی کس طرح نیا پار کرے گی ،سوائے اس کے کہ ''کنٹوپ تبدیلی''کے بے سروپا سر سے معاشرے کو مزید آلودہ اور مبہم کیا جائے اور اپنی پسند یا مفاد کے نتائج نکالے جائیں جب کہ دوسری جانب معاشرے میں ایسی روایتوں کو جنم دیا جائے جو جھوٹ کو سچ ماننے پر قادر بنا دی جائیں جیسا کہ ستر برس سے ہم نہ چاہتے ہوئے بھی کنٹوپ پہنے شاہ دولا کے چوہے کے کردار بنائے جا رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں