زلزلے کے اسباب قرآن و حدیث کی روشنی میں

اﷲ تعالیٰ کے حکم سے تمام انسانوں کے اچھے بُرے تمام اعمال کو زمین بیان کردے گی


اﷲ تعالیٰ کے حکم سے تمام انسانوں کے اچھے بُرے تمام اعمال کو زمین بیان کردے گی۔ فوٹو: فائل

زلزلے کے جو دنیاوی اسباب ذکر کیے جاتے ہیں، اُن کا ہم انکار نہیں کرتے کیوں کہ دنیا کو اﷲ تعالیٰ نے دارالاسباب بنایا ہے۔ لیکن ہمارا یہ ایمان و عقیدہ ہے کہ جس طرح پوری کائنات خود بہ خود قائم نہیں ہوگئی، اسی طرح زلزلے خود بہ خود نہیں آتے، اصل میں اس کے پیچھے اﷲ کا حکم ہوتا ہے۔

اﷲ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے: '' لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اُس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا، تاکہ انہوں نے جو کام کیے ہیں اﷲ اُن میں سے کچھ کا مزہ انہیں چکھائے، شاید وہ باز آجائیں۔'' (سورۃ الروم ) یعنی دنیا میں جو عام مصیبتیں لوگوں پر آئیں، مثال کے طور پر قحط، وبائیں، زلزلے اور ظالموں کا تسلط، اُن کا اصل سبب یہ تھا کہ لوگوں نے اﷲ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور اس طرح یہ مصیبتیں اپنے ہاتھوں مول لیں۔ اور اُن کا ایک مقصد یہ تھا کہ اِن مصائب سے دوچار ہوکر لوگوں کے دل کچھ نرم پڑیں اور وہ اپنے بُرے اعمال سے باز آجائیں۔

نبی اکرمؐ اور صحابۂ کرامؓ سے زلزلے آنے کے جو اسباب منقول ہیں اُن میں سے چند حسب ذیل ہیں: لوگوں میں زنا، سُود اور شراب کا عام ہونا۔ لوگوں کا گانے بجانے کو اپنا مشغلہ بنانا۔ اچھائیوں کا حکم اور برائیوں سے لوگوں کو روکنے کا عمل بند کردینا۔ لوگوں کا ان بُرے اعمال کو صرف کرنا ہی نہیں بل کہ انہیں جائز اور وقت کی ضرورت سمجھنے لگنا۔ زلزلے آنے پر ہمیں اﷲ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنے گناہوں سے معافی مانگنا چاہیے۔

کثرت سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور بڑے گناہ خاص کر مذکورہ بالا گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کسی جگہ زلزلہ آنے یہ سمجھ کر کہ یہ اﷲ کا عذاب ہے، زلزلے کے متاثرین کی مدد کرنا نہ چھوڑیں بل کہ ان کی مدد کرنا ہماری دینی و انسانی و اخلاقی ذمّے داری ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ایک ایسے زلزلے کا ذکر فرمایا ہے کہ جس کے بعد دنیا ہی ختم ہوجائے گی۔ سورۃ الزلزال کا مفہوم : ''جب زمین اپنے بھونچال سے جھنجوڑ دی جائے گی۔ اور زمین اپنے بوجھ باہر نکال دے گی۔ اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوگیا ہے؟ اُس دن زمین اپنی ساری خبریں بتادے گی۔

کیوں کہ تمہارے پروردگار نے اُسے یہی حکم دیا ہوگا۔ اُس روز لوگ مختلف ٹولیوں میں واپس ہوں گے، تاکہ اُن کے اعمال اُنہیں دِکھا دیے جائیں۔ جس نے ذرّہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی، وہ اُسے دیکھے گا، اور جس نے ذرّہ برابر کوئی برائی کی ہوگی، وہ اُسے دیکھے گا۔''

اب آئیے! اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو کہا ہے اُس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

الفاظ کی تحقیق: ''اِذَا'' کے معنی ہیں ''جب''، لیکن جب اس طرح اِذَا سے کسی چیز کا بیان کیا جاتا ہے تو کسی واقعہ کی یاد دہانی کرانا مقصود ہوتا ہے، یعنی اُس وقت کو یاد رکھو۔ اُس دن سے ہوشیار رہو، جب کہ ایسا ایسا ہوگا۔ زُلْزِلَتْ: زلزال سے ہے یعنی ہلادیا جانا۔ اَلاَرْضُ کے معنی زمین کے ہیں۔ یعنی اُس وقت کو یاد کرو جب زمین ہلادی جائے گی۔

زِلْزَالَہَا سے معلوم ہوا کہ یہ عام زلزلہ نہیں بل کہ اپنی نوعیت کا منفرد زلزلہ ہوگا۔ جس کے بعد دنیا کا پورا نظام ہی درہم برہم ہوجائے گا۔ اور اس کے بعد سارے لوگ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں امّت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ دو مرتبہ صور پھونکا جائے گا۔ پہلی مرتبہ صور پھونکنے کے بعد ساری دنیا ختم ہوجائے گی اور دوسری مرتبہ صور پھونکنے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام مُردے زندہ ہوکر زمین سے اٹھیں گے۔ دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورۃ میں دوسری مرتبہ صور پھونکنے کے وقت آنے والا دردناک زلزلہ مراد ہے۔

اَثْقَال، ثِقْل کی جمع ہے، جس کے معنی بار اور بوجھ کے ہیں۔ اس سے مراد وہ مُردے ہیں جو زمین میں دفن ہیں۔ جن مُردوں کو دفن کرنے کے بہ جائے جلا دیا جاتا ہے وہ بھی گویا زمین میں ہی دفن کیے جاتے ہیں کیوں کہ اُن کی جلی ہوئی راکھ اور ہڈیاں وغیرہ سب زمین کا ہی حصہ بن جاتی ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو سونامی کا لقمہ بن جاتے ہیں کیوں کہ دراصل سمندر بھی زمین کا ہی ایک حصہ ہے۔ ثقل سے وہ خزانے بھی مراد ہیں جو زمین میں موجود ہیں۔ یعنی دوسری مرتبہ صور پُھونکے کے بعد زمین تمام انسانوں اور خزانوں کو باہر نکال دے گی۔

اس دردناک صورت حال پر انسان پر جو اثر پڑے گا، اس کو اﷲ تعالیٰ بیان فرماتا ہے، مفہوم: انسان بدحواس ہوکر پکار اٹھے گا کہ ارے! اس زمین کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ تو ٹکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اُس دن زمین اپنی ساری خبریں بتادے گی، کیوں کہ تمہارے پروردگار نے اُسے یہی حکم دیا ہوگا۔ یعنی اﷲ تعالیٰ جو زمین و آسمان کا خالق ہے۔

اس کے حکم سے تما م انسانوں کے اچھے بُرے تمام اعمال کو زمین بیان کردے گی۔ جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: '' جس دن زمین اپنی ساری خبریں بتادے گی۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ زمین کی خبریں کیا ہوں گی؟ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: اﷲ اور اس کا رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: زمین کی خبر یہ ہوگی کہ وہ ہر مرد اور عورت پر گواہی دے گی کہ اس نے زمین پر کیا کیا عمل کیا ہے؟ اور وہ بتائے گی کہ فلاں شخص نے فلاں وقت میں فلاں فلاں کام کیا ہے۔'' (ترمذی)

زمین اﷲ کے حکم سے انسان کی پوری زندگی کے ہر ایک لمحے کا ریکارڈ دفعتاً نکال دے گی۔ اور انسان اس کو دیکھ کر ہکّا بکّا رہ جائے گا اور کہے گا کہ آج اس زمین کو کیا ہوگیا ہے۔

اس سورۃ کی چھٹی آیت کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر ایک اکیلا اپنی انفرادی حیثیت میں ہوگا۔ اس کی تائید بھی قرآن کریم سے ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: '' ان میں سے ہر ایک قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کے دربار میں اکیلا حاضر ہوگا۔'' (سورۃ مریم) دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جو ہزار برس کے دوران جگہ جگہ مرے تھے، زمین کے گوشے گوشے سے گروہ در گروہ چلے آرہے ہوں گے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''جس روز صور پھونک دیا جائے گا تو تم فوج در فوج آجاؤ گے۔'' (سورۃ النباء)

اس سورۃ کی ساتویں اور آٹھویں آیات اوپر بیان کردہ آیت کی تفصیل بیان کررہی ہیں کہ جس نے ذرّہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ بھی اس کے سامنے آئے گی اور جس نے ذرّہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کے سامنے آئے گی۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ہر مومن و کافر کی چھوٹی بڑی نیکی یا بدی اس کے سامنے آئے گی تو ضرور لیکن اس قاعدہ کے مطابق آئے گی جو اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر ذکر فرمائی ہے، یعنی ایک مومن یہ دیکھے کا کہ اس سے نیکیوں کے ساتھ فلاں فلاں غلطیاں بھی صادر ہوئی ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ نے اس کی فلاں فلاں نیکیوں کو ان کا کفارہ بنا دیا ہے۔

اسی طرح ایک کافر یہ دیکھے گا کہ اس نے برائیوں کے ساتھ کچھ نیک کام بھی کیے ہیں لیکن اس کے وہ نیک کام اس کے فلاں بُرے اعمال و عقائد کے سبب سے ختم کردیے گئے یا ان کا دنیا میں ہی کوئی بدلہ دے دیا گیا تھا۔ کیوں کہ آخرت میں کام یابی کے لیے سب سے بنیادی شرط اﷲ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا ہے۔ دنیاوی زندگی کے اچھے و بُرے اعمال ظاہر ہونے کے بعد ہر شخص اپنا ٹھکانا سمجھ جائے گا۔ اسی کو اﷲ تعالیٰ سورۃ القارعات میں بیان فرماتا ہے، مفہوم: جس شخص کے پلڑے وزنی ہوں گے (یعنی جس نے دنیا میں اچھے اعمال کیے ہوں گے) تو وہ من پسند زندگی میں ہوگا (یعنی جنّت میں ہوگا) اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے (یعنی جس نے دنیا میں اپنی خواہش کی اتباع کی ہوگی) تو اس کا ٹھکانا ایک گہرا گڑھا ہوگا۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ گہرا گڑھا کیا چیز ہے؟ وہ ایک دہکتی ہوئی آگ ہے۔ (جس میں اﷲ کے نافرمانوں اور گناہ گاروں کو ڈالا جائے گا)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں