پاکستان فارمرز بیورو کا زراعت کے شعبے میں ایمر جنسی لگانے کا مطالبہ
پاکستان کی معشیت کو بہتر کرنے کے لئے زراعت کو سہولیات فراہم کرنا ہوں گی، اشرف مہتاب
پاکستان فارمرز بیورو نے سرکاری اداروں کی ناقص منصوبہ بندی موسمیاتی تغیر جعلی اور ناقص بیج کے باعث ملک میں زراعت کے شعبے میں ایمر جنسی لگانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
لاہور چیمبر آف کامرس میں ایگریکلچر جنرلسٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کپاس، چاول اور دیگر اجناس کی پیداوار بڑھانے کے حوالے دے سیمنار کا انعقاد کیا گیا، سیمنار میں لاہور ایوان صنعت و تجارت کے سینئر نائب صدر علی حسام، نائب صدر میاں زاہد جاوید زرعی ماہر ڈاکڑ ظفر حیات، میاں شوکت، عامر حیات، ایگریکلچر جنرلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر زاہد بیگ، لاہور اکنامک جنرلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر اشرف مہتاب سمیت دیگر نے شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دو ایمرجنسی ہونی چاہیے، ایک زرعی اور دوسری ایکسپورٹ ایمرجنسی لگانی ہو گی، زراعت کے شعبے میں عالمی سطح پر ہونے والی جدت کو اپنانا ہوگا، موجودہ حالات میں بیچ پر ریسرچ ہونا بہت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت زراعت کے شعبے میں کام کر رہی ہے تاہم ابھی بھی بہت کام ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے، پاکستان کی معشیت کو بہتر کرنے کے لئے زراعت کو سہولیات فراہم کرنا ہونگی، زرعی شعبے میں ویلیو ایڈیشن لانے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کروڑوں کسانوں کے لیے ایک نیا پلیٹ فارم پاکستان فارمر بیورو کے نام سے بنانے جا رہے ہیں تاکہ زرعی شعبے کو درپیش مسائل کو حل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ کپاس میں کاشتکار کو مسلسل نقصان ہو رہا ہے جہانگیر ترین جیسے بڑے زمیندار نے اس سال ایک ایکٹر بھی کپاس نہیں لگائی، اگر یہی حالات رہے تو کپاس کا کاشتکار ختم ہو جائے گا اس سال کپاس کی بارہ لاکھ بیل حاصل ہونے کا اندازہ لگایا گیا تھا لیکن اس وقت کپاس پر مختلف کیڑوں کے حملے کے باعث پیداوار کم ہوگی، ہم نے حکومت سے درخواست کی کہ جو بیج اور سپرے کیڑوں کو نہیں برداشت کر سکتے وہ بند کر دیں لیکن ایسا نہ ہو سکا جو سپرے اور بیج استعمال کر رہے ہیں، وہ دنیا نے کئی سال پہلے استعمال کرنا چھوڑ دیا تھا پاکستان میں اجناس کا جو بیج فروخت ہو رہا ہے وہ پیداوار میں بہتری نہیں لا سکتا، بھارت اور دیگر ممالک سے غیر معیاری بیج لایا جاتا ہے جسے جعل سازی کے ذریعے اپنی برانڈ بنا کر فروخت کیا جا رہا ہے اور اس طرح کسانوں کو لوٹا جا رہا ہے اور فصل سے بھی وہ نتائج حاصل نہیں ہوتے کہ جن کی ضرورت ہے حکومت ایسے افراد کے خلاف کاروائی کرےتاکہ غیر معیاری اور ناقص بیج کا استعمال بند ہو سکے۔
لاہور چیمبر آف کامرس میں ایگریکلچر جنرلسٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کپاس، چاول اور دیگر اجناس کی پیداوار بڑھانے کے حوالے دے سیمنار کا انعقاد کیا گیا، سیمنار میں لاہور ایوان صنعت و تجارت کے سینئر نائب صدر علی حسام، نائب صدر میاں زاہد جاوید زرعی ماہر ڈاکڑ ظفر حیات، میاں شوکت، عامر حیات، ایگریکلچر جنرلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر زاہد بیگ، لاہور اکنامک جنرلسٹ ایسوسی ایشن کے صدر اشرف مہتاب سمیت دیگر نے شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دو ایمرجنسی ہونی چاہیے، ایک زرعی اور دوسری ایکسپورٹ ایمرجنسی لگانی ہو گی، زراعت کے شعبے میں عالمی سطح پر ہونے والی جدت کو اپنانا ہوگا، موجودہ حالات میں بیچ پر ریسرچ ہونا بہت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت زراعت کے شعبے میں کام کر رہی ہے تاہم ابھی بھی بہت کام ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے، پاکستان کی معشیت کو بہتر کرنے کے لئے زراعت کو سہولیات فراہم کرنا ہونگی، زرعی شعبے میں ویلیو ایڈیشن لانے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کروڑوں کسانوں کے لیے ایک نیا پلیٹ فارم پاکستان فارمر بیورو کے نام سے بنانے جا رہے ہیں تاکہ زرعی شعبے کو درپیش مسائل کو حل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ کپاس میں کاشتکار کو مسلسل نقصان ہو رہا ہے جہانگیر ترین جیسے بڑے زمیندار نے اس سال ایک ایکٹر بھی کپاس نہیں لگائی، اگر یہی حالات رہے تو کپاس کا کاشتکار ختم ہو جائے گا اس سال کپاس کی بارہ لاکھ بیل حاصل ہونے کا اندازہ لگایا گیا تھا لیکن اس وقت کپاس پر مختلف کیڑوں کے حملے کے باعث پیداوار کم ہوگی، ہم نے حکومت سے درخواست کی کہ جو بیج اور سپرے کیڑوں کو نہیں برداشت کر سکتے وہ بند کر دیں لیکن ایسا نہ ہو سکا جو سپرے اور بیج استعمال کر رہے ہیں، وہ دنیا نے کئی سال پہلے استعمال کرنا چھوڑ دیا تھا پاکستان میں اجناس کا جو بیج فروخت ہو رہا ہے وہ پیداوار میں بہتری نہیں لا سکتا، بھارت اور دیگر ممالک سے غیر معیاری بیج لایا جاتا ہے جسے جعل سازی کے ذریعے اپنی برانڈ بنا کر فروخت کیا جا رہا ہے اور اس طرح کسانوں کو لوٹا جا رہا ہے اور فصل سے بھی وہ نتائج حاصل نہیں ہوتے کہ جن کی ضرورت ہے حکومت ایسے افراد کے خلاف کاروائی کرےتاکہ غیر معیاری اور ناقص بیج کا استعمال بند ہو سکے۔