امریکا میں جاری شٹ ڈاؤن …اوباما کی کانگریس کو مشروط پیشکش
امریکی صدر بارک اوباما نے ملک میں جاری شٹ ڈائون ختم کرنے کے لیے کانگریس کو مشروط پیش کش کی ہے۔
امریکی صدر بارک اوباما نے ملک میں جاری شٹ ڈائون ختم کرنے کے لیے کانگریس کو مشروط پیش کش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس ملک میں کاروبار حکومت چلانے اور 17اکتوبر کے بعد حکومت کے قرض لینے کی استعداد کو آگے بڑھانے کے لیے بل پاس کرے تو صحت عامہ کے پروگرام پر اخراجات میں کمی پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔انھوں نے کانگریس پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس ڈرامے کو فوری ختم کیا جائے۔ امریکا میں جاری شٹ ڈائون کے باعث ہزاروں کی تعداد میں سرکاری ملازمین کے بیروزگار ہو جانے اور بے شمار اداروں کے بند ہو جانے سے جہاں امریکا کے اندر ایک بحران پیدا ہو گیا ہے وہاں اس موجودہ وقت کی اکلوتی سپر پاور کے دیوالیہ ہو جانے کے خدشے سے پوری دنیا میں ایک اعصابی تنائو کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے تاہم امریکی صدر بارک اوباما نے ہفتے کو یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکا داخلی طور پر نہایت مشکل اقتصادی صورتحال کے باوجود ''ڈیفالٹ'' نہیں ہو گا اور اپنی بین الاقوامی ذمے داریاں پوری کرے گا ۔
واضح رہے امریکا محکمہ خزانہ نے اس ہفتے کے آغاز میں خبر دار کیا تھا کہ اگر کانگریس نے امریکی قرضہ جات کی حد میں اضافہ کرنے کی اجازت نہ دی تو امریکا 17 اکتوبر تک نادہندگی کا شکار ہو جائے گا اور ''ڈیفالٹ'' کر جائے گا۔ امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے ساتھ اپنے ہنگامی انٹرویو میں صدر اوباما نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ایوان نمایندگان اور سینیٹ اس مسودہ قانون کی منظوری دیدیں گی جس سے امریکا اپنی بین الاقوامی مالیاتی ذمے داریاں پوری کرنے کے قابل ہو سکے گا۔ واضح رہے کہ امریکا نہ صرف اپنے مد مقابل آنے والے چین کے اربوںڈالر قرضے سے زیر بار ہے بلکہ امریکا اپنے مغربی اتحادیوں کے بھی بھاری قرضوں کے دباؤ میں ہے ' اگر شام پرجارحیت ہو جاتی تو پھر وہاں سے بھاری مال غنیمت ہاتھ لگ سکتا تھا جس کے ذریعے یہ قرضہ ادا کیا جاسکتا تھا مگر امریکا کے اس سنہری موقع کو روس کے صدر پیوٹن نے اپنی جارحانہ حکمت عملی سے ناکام بنا دیا۔
گزشتہ ہفتے امریکا کے بہت سے سرکاری ادارے بند کر دیے گئے تھے کیونکہ امریکا کے پاس ان اداروں کو چلانے اور ان کے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے پیسے نہیں رہے تھے نیز امریکا نے ہیلتھ کیئر کی سروسز بھی بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم امریکا وزیر خارجہ جان کیری نے اعلان کیا ہے کہ امریکا اپنی بیرون ملک ذمے داریوں کو بہر صورت پورا کرے گا۔ ادھر امریکی پالیسی سازوں نے تسلیم کیا ہے کہ امریکا کی داخلی صورتحال سے اس کی بین الاقوامی ساکھ بہت متاثر ہوئی ہے ۔ ری پبلکن پارٹی اس موقعے کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ نکولس برنر نے بھی اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کو ہر حال میں اپنا عالمی امیج قائم رکھنا ہو گا اور اس حوالے سے حکومت دم لینے کے لیے کوئی ہفتہ وار تعطیل نہیں کر سکتی 'یہ دن رات ہمہ وقت چلنے والا کام ہے۔ دوسری طرف امریکا کے درجنوں ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ امریکا کو 17 اکتوبر کی ڈیڈ لائن مقرر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس قدر پیچیدہ مسئلے کا اتنی جلدی حل ہونا یقینی نہیں ہے۔ نیز اس ڈیڈ لائن کے بین الاقوامی مارکیٹ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف صدر اوباما کا کہنا ہے کہ امریکا کو موجودہ مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے انھیں اپوزیشن ری پبلکن پارٹی کی حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے لہٰذا انھیں یقین ہے کہ امریکا اس بحران سے نکل آئے گا۔
واضح رہے امریکا محکمہ خزانہ نے اس ہفتے کے آغاز میں خبر دار کیا تھا کہ اگر کانگریس نے امریکی قرضہ جات کی حد میں اضافہ کرنے کی اجازت نہ دی تو امریکا 17 اکتوبر تک نادہندگی کا شکار ہو جائے گا اور ''ڈیفالٹ'' کر جائے گا۔ امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے ساتھ اپنے ہنگامی انٹرویو میں صدر اوباما نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ایوان نمایندگان اور سینیٹ اس مسودہ قانون کی منظوری دیدیں گی جس سے امریکا اپنی بین الاقوامی مالیاتی ذمے داریاں پوری کرنے کے قابل ہو سکے گا۔ واضح رہے کہ امریکا نہ صرف اپنے مد مقابل آنے والے چین کے اربوںڈالر قرضے سے زیر بار ہے بلکہ امریکا اپنے مغربی اتحادیوں کے بھی بھاری قرضوں کے دباؤ میں ہے ' اگر شام پرجارحیت ہو جاتی تو پھر وہاں سے بھاری مال غنیمت ہاتھ لگ سکتا تھا جس کے ذریعے یہ قرضہ ادا کیا جاسکتا تھا مگر امریکا کے اس سنہری موقع کو روس کے صدر پیوٹن نے اپنی جارحانہ حکمت عملی سے ناکام بنا دیا۔
گزشتہ ہفتے امریکا کے بہت سے سرکاری ادارے بند کر دیے گئے تھے کیونکہ امریکا کے پاس ان اداروں کو چلانے اور ان کے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے پیسے نہیں رہے تھے نیز امریکا نے ہیلتھ کیئر کی سروسز بھی بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم امریکا وزیر خارجہ جان کیری نے اعلان کیا ہے کہ امریکا اپنی بیرون ملک ذمے داریوں کو بہر صورت پورا کرے گا۔ ادھر امریکی پالیسی سازوں نے تسلیم کیا ہے کہ امریکا کی داخلی صورتحال سے اس کی بین الاقوامی ساکھ بہت متاثر ہوئی ہے ۔ ری پبلکن پارٹی اس موقعے کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ نکولس برنر نے بھی اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کو ہر حال میں اپنا عالمی امیج قائم رکھنا ہو گا اور اس حوالے سے حکومت دم لینے کے لیے کوئی ہفتہ وار تعطیل نہیں کر سکتی 'یہ دن رات ہمہ وقت چلنے والا کام ہے۔ دوسری طرف امریکا کے درجنوں ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ امریکا کو 17 اکتوبر کی ڈیڈ لائن مقرر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس قدر پیچیدہ مسئلے کا اتنی جلدی حل ہونا یقینی نہیں ہے۔ نیز اس ڈیڈ لائن کے بین الاقوامی مارکیٹ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف صدر اوباما کا کہنا ہے کہ امریکا کو موجودہ مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے انھیں اپوزیشن ری پبلکن پارٹی کی حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے لہٰذا انھیں یقین ہے کہ امریکا اس بحران سے نکل آئے گا۔