دشمنی کی حد سے زیادہ قیمت
پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کیوں ضروری ہے اور دونوں ملکوں کے عوام کی خوش حالی کے لیے اس کی کیا اہمیت ہے...
پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کیوں ضروری ہے اور دونوں ملکوں کے عوام کی خوش حالی کے لیے اس کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ کچھ اعدادوشمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہر پاکستانی ان سے آگاہ ہو۔ جنگ یا جنگی صورت حال میں رہنے کی قیمت دونوں ملکوں کے عوام بھوک، غربت، بیروز گاری اور بیماری کی شکل میں ادا کر رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی امن دشمن قوتوں نے عوام کو نفرت اور دشمنی کا نشہ پلا کر جنگ باز بنا دیا ہے۔ پاک بھارت دشمنی کی دونوں ملکوں کے عوام کو کیا قیمت ادا کرنی پڑی ہے، اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے 65 سال میں پاک بھارت دشمنی کی قیمت بھارت کو 500 ارب ڈالر میں پڑی جب کہ پاکستان کو اس کی قیمت 55 ارب ڈالر میں ادا کرنی پڑی۔پاکستان اور بھارت کے درمیان امن معاہدے کی صورت میں پاکستان کو ہر سال ساڑھے چار ارب ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے جس سے سالانہ بیس ہزار سے زائد اسکول اور چار ہزار سے زائد نئے اسپتال بن سکیں گے۔
بعض اعدادوشمار کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان بیس سالہ امن معاہدہ ہو جائے تو دونوں ملکوں کے دفاعی اخراجات کم ہونے کی صورت میں پاکستان کو چار ارب ڈالر اور بھارت کو 9 ارب ڈالر کی بچت ہو گی جو دونوں ملک اپنے عوام کی غربت، بھوک، بیروز گاری، بیماری دور کرنے میں صرف کر سکیں گے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام کا پیٹ کاٹ کر اور ان کے منہ سے نوالہ چھین کر دونوں ملکوں کی حکومتیں ٹینک توپ اسلحہ میزائل طیارے اور ایٹم بم بنا رہی ہیں۔ اگر کھربوں روپے سالانہ اس اسلحے کی خریداری پر خرچ ہوتے ہیں تو صرف ان کی دیکھ بھال اور پرزوں کی خریداری پر بھی اربوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ اس پر طُرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ تمام اسلحہ ایک مدت پوری کرنے کے بعد یا اسلحہ کی نئی جدید ٹیکنالوجی آنے کے بعد بیکار ہو جاتا ہے یعنی اسکریپ کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اسی صورت میں اس ناکارہ اسلحے کو شہر کے اہم چوکوں میں نصب کر دیا جاتا ہے تا کہ بُھوکے عوام کی جنگ جُوئی میں مزید اضافہ ہو۔
غریب ملک جتنا زیادہ اسلحہ کی خریداری پر پیسے خرچ کرتے ہیں اتنا ہی ان کی غربت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غریب ملکوں کی سول حکومتیں وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں اور اس کے مقابلے میں مختلف قسم کے مافیاز دہشت گرد گروہ وجود میں آ جاتے ہیں۔ حکومتوں کے کمزور ہونے کی وجہ سے ان مافیاز اور دہشت گرد گروہوں کو ملک دشمن قوتوں کی سرپرستی حاصل ہو جاتی ہے۔ ملک دشمن ان دہشت گرد گروہوں کو استعمال کر کے غریب ملکوں کی حکومتوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ معاشی اور خارجی میدان میں ایسی پالیسیاں بنائیں جو ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کریں یہاں تک کہ ان مافیاز اور دہشت گرد گروہوں کے ذریعے کسی ملک کو توڑنے اور خطے کے ناک نقشے کو تبدیل کرنے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ بے خبر غریب عوام اس تمام صورت حال میں خاموش تماشائی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے معاشی مسائل کے ہاتھوں اتنے کمزور ہوتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے مادر وطن کی مدد بھی نہیں کر سکتے۔
مذہبی جنونیت، دہشت گردی، کرپشن ایک ناکام ریاست کے اجزائے ترکیبی ہیں جس سے اس وقت پاکستان گزر رہا ہے۔ لاطینی امریکا ہو یا تیسری دنیا کے ہم جیسے ممالک کے حالات، آپ کو یکسانیت ملے گی۔ پاکستان میں بجلی اور تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ اس کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔ قیمتیں کیوں بڑھائی گئیں کہ خزانہ خالی ہے۔ خزانہ اس لیے خالی ہے کہ امیر لوگ اپنے حصے کا ٹیکس دینے سے انکاری ہیں۔ لے دے کے غریب عوام ہی ہیں جن سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، دوسری طرف اشیائے ضروریہ پر اتنے زیادہ ٹکس لگا دیے جاتے ہیں کہ بنیادی ضرورتیں تو ایک طرف عوام کو کھانے کے ہی لالے پڑ جاتے ہیں۔ ٹیکس لگانے کی سب سے بڑی وجہ ہر قسم کی کرپشن ،کرپٹ ادارے اور سب سے بڑھ کر دفاعی اخراجات ہیں۔ دفاعی اخراجات پورے کرنے کے لیے غریب، ان پڑھ اور بے خبر عوام کے ذہنوں میں جنگجُو نظریات کی آبیاری کی جاتی ہے۔ اس وقت پاک بھارت محاذ آرائی کی قیمت دونوں ملکوں کو پچھلے 65 برسوں میں بھارت کو 500 ارب ڈالر اور پاکستان کو 55 ارب ڈالر میں پڑی ہے۔
دنیا کے انتہائی غریب افراد کی 50 فیصد تعداد یعنی 60 کروڑ افراد پاکستان اور بھارت میں بستی ہے اور ان انتہائی غریب افراد کی تعداد بھارت میں 50 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جو خط غربت پر ہیں جس کا مطلب ہے خط فاقہ یعنی روزانہ بمشکل انھیں ایک وقت کی روٹی ملتی ہے اگر نہیں تو پھر فاقہ۔ بھارت مہلک جنگی ہتھیاروں کی خریداری اور دیکھ بھال پر سالانہ 42 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے جب کہ پاکستان کے جنگی اخراجات 6.5 ارب ڈالر ہیں۔کروڑوں پاکستانی خطِ فاقہ پر ہیں۔ سیاچن کے محاذ پر پاکستان اور بھارت مجموعی طور پر دس ارب ڈالر پھونک چکے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کہ بھارت کے 20 فیصد دفاعی بجٹ سے وہاں 45 ہزار نئے اسکول یا 8 ہزار نئے اسپتال بنائے جا سکتے ہیں۔
کارگل تنازعے کے دوران فضائی مہم پر 41 کروڑ ڈالر خرچ کرنے پڑے تھے جب کہ اس دوران 2 ارب ڈالر مزید لاگت آئی تھی۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد بھارت کو سرحدوں پر فوج تعینات کرنے پر 65 ارب بھارتی روپے خرچ کرنے پڑے، پاکستان کو جواباً 51 ارب روپے خرچ کرنے پڑے۔ یہ جنگ جنگجو ماحول کا خرچہ ہے جو پچھلے 65 سال میں دونوں ملکوںکے غریب عوام کو ادا کرنا پڑا۔ 20 سال کے امن معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کو 89 ارب ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے جس سے ملک میں 4 لاکھ نئے پرائمری اسکول یا 80 ہزار نئے اسپتال قائم ہو سکتے ہیں لیکن یہ سب کچھ اس وقت ہو سکتا ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم ہو جائے۔ اب دونوں ملکوں کے عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں یا جنگ۔
بعض اعدادوشمار کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان بیس سالہ امن معاہدہ ہو جائے تو دونوں ملکوں کے دفاعی اخراجات کم ہونے کی صورت میں پاکستان کو چار ارب ڈالر اور بھارت کو 9 ارب ڈالر کی بچت ہو گی جو دونوں ملک اپنے عوام کی غربت، بھوک، بیروز گاری، بیماری دور کرنے میں صرف کر سکیں گے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام کا پیٹ کاٹ کر اور ان کے منہ سے نوالہ چھین کر دونوں ملکوں کی حکومتیں ٹینک توپ اسلحہ میزائل طیارے اور ایٹم بم بنا رہی ہیں۔ اگر کھربوں روپے سالانہ اس اسلحے کی خریداری پر خرچ ہوتے ہیں تو صرف ان کی دیکھ بھال اور پرزوں کی خریداری پر بھی اربوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ اس پر طُرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ تمام اسلحہ ایک مدت پوری کرنے کے بعد یا اسلحہ کی نئی جدید ٹیکنالوجی آنے کے بعد بیکار ہو جاتا ہے یعنی اسکریپ کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اسی صورت میں اس ناکارہ اسلحے کو شہر کے اہم چوکوں میں نصب کر دیا جاتا ہے تا کہ بُھوکے عوام کی جنگ جُوئی میں مزید اضافہ ہو۔
غریب ملک جتنا زیادہ اسلحہ کی خریداری پر پیسے خرچ کرتے ہیں اتنا ہی ان کی غربت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غریب ملکوں کی سول حکومتیں وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں اور اس کے مقابلے میں مختلف قسم کے مافیاز دہشت گرد گروہ وجود میں آ جاتے ہیں۔ حکومتوں کے کمزور ہونے کی وجہ سے ان مافیاز اور دہشت گرد گروہوں کو ملک دشمن قوتوں کی سرپرستی حاصل ہو جاتی ہے۔ ملک دشمن ان دہشت گرد گروہوں کو استعمال کر کے غریب ملکوں کی حکومتوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ معاشی اور خارجی میدان میں ایسی پالیسیاں بنائیں جو ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کریں یہاں تک کہ ان مافیاز اور دہشت گرد گروہوں کے ذریعے کسی ملک کو توڑنے اور خطے کے ناک نقشے کو تبدیل کرنے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ بے خبر غریب عوام اس تمام صورت حال میں خاموش تماشائی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے معاشی مسائل کے ہاتھوں اتنے کمزور ہوتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے مادر وطن کی مدد بھی نہیں کر سکتے۔
مذہبی جنونیت، دہشت گردی، کرپشن ایک ناکام ریاست کے اجزائے ترکیبی ہیں جس سے اس وقت پاکستان گزر رہا ہے۔ لاطینی امریکا ہو یا تیسری دنیا کے ہم جیسے ممالک کے حالات، آپ کو یکسانیت ملے گی۔ پاکستان میں بجلی اور تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ اس کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔ قیمتیں کیوں بڑھائی گئیں کہ خزانہ خالی ہے۔ خزانہ اس لیے خالی ہے کہ امیر لوگ اپنے حصے کا ٹیکس دینے سے انکاری ہیں۔ لے دے کے غریب عوام ہی ہیں جن سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، دوسری طرف اشیائے ضروریہ پر اتنے زیادہ ٹکس لگا دیے جاتے ہیں کہ بنیادی ضرورتیں تو ایک طرف عوام کو کھانے کے ہی لالے پڑ جاتے ہیں۔ ٹیکس لگانے کی سب سے بڑی وجہ ہر قسم کی کرپشن ،کرپٹ ادارے اور سب سے بڑھ کر دفاعی اخراجات ہیں۔ دفاعی اخراجات پورے کرنے کے لیے غریب، ان پڑھ اور بے خبر عوام کے ذہنوں میں جنگجُو نظریات کی آبیاری کی جاتی ہے۔ اس وقت پاک بھارت محاذ آرائی کی قیمت دونوں ملکوں کو پچھلے 65 برسوں میں بھارت کو 500 ارب ڈالر اور پاکستان کو 55 ارب ڈالر میں پڑی ہے۔
دنیا کے انتہائی غریب افراد کی 50 فیصد تعداد یعنی 60 کروڑ افراد پاکستان اور بھارت میں بستی ہے اور ان انتہائی غریب افراد کی تعداد بھارت میں 50 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جو خط غربت پر ہیں جس کا مطلب ہے خط فاقہ یعنی روزانہ بمشکل انھیں ایک وقت کی روٹی ملتی ہے اگر نہیں تو پھر فاقہ۔ بھارت مہلک جنگی ہتھیاروں کی خریداری اور دیکھ بھال پر سالانہ 42 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے جب کہ پاکستان کے جنگی اخراجات 6.5 ارب ڈالر ہیں۔کروڑوں پاکستانی خطِ فاقہ پر ہیں۔ سیاچن کے محاذ پر پاکستان اور بھارت مجموعی طور پر دس ارب ڈالر پھونک چکے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کہ بھارت کے 20 فیصد دفاعی بجٹ سے وہاں 45 ہزار نئے اسکول یا 8 ہزار نئے اسپتال بنائے جا سکتے ہیں۔
کارگل تنازعے کے دوران فضائی مہم پر 41 کروڑ ڈالر خرچ کرنے پڑے تھے جب کہ اس دوران 2 ارب ڈالر مزید لاگت آئی تھی۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد بھارت کو سرحدوں پر فوج تعینات کرنے پر 65 ارب بھارتی روپے خرچ کرنے پڑے، پاکستان کو جواباً 51 ارب روپے خرچ کرنے پڑے۔ یہ جنگ جنگجو ماحول کا خرچہ ہے جو پچھلے 65 سال میں دونوں ملکوںکے غریب عوام کو ادا کرنا پڑا۔ 20 سال کے امن معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کو 89 ارب ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے جس سے ملک میں 4 لاکھ نئے پرائمری اسکول یا 80 ہزار نئے اسپتال قائم ہو سکتے ہیں لیکن یہ سب کچھ اس وقت ہو سکتا ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم ہو جائے۔ اب دونوں ملکوں کے عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں یا جنگ۔