الوداع …جنرل گیاپ

فاتح جرنیل خاموشی سے رخصت ہوا، دو عالمی طاقتوں کو شکست دینے والا سپہ سالار، مادر وطن کا عاشق زار، ویت نام ...

budha.goraya@yahoo.com

فاتح جرنیل خاموشی سے رخصت ہوا، دو عالمی طاقتوں کو شکست دینے والا سپہ سالار، مادر وطن کا عاشق زار، ویت نام کی جنگ آزادی کا ہیرو جنرل گیاپ 103 سال کی عمر میں 4 اکتوبر کو انتقال کر گئے۔ یوں 25 اگست 1911 کو دھان کے کھیتوں سے شروع ہونے والی ایک صدی پر پھیلی ہوئی عظیم کہانی کا آخری باب مکمل ہو گیا۔80 سالہ جدوجہد کا ایسا پُر وقار اختتام ہوا کہ دوستوں کے تو کیا کہنے، ماضی کے دشمن بھی گوریلا جنگ کے اس منفرد حکمت کار اور منصوبہ ساز جرنیل کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہوئے۔

اُستاد، مورخ اور سب سے بڑھ کر اخبار نویس جنرل گیاپ، جس نے ساری زندگی مادر وطن ویت نام کے لیے وقف کیے رکھی۔ 1926 میں انقلابی طلبہ تحریک سے منسلک ہوئے۔ آنجہانی صدر سوچی مِنہ کی زیر قیادت ویت نام کی آزادی کی دو جنگیں لڑیں، پہلے فرانسیسی فوج کو شکست دی اور پھر امریکیوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑتے ہوئے انھیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ ایشیا کا یہ عظیم جرنیل کسی فوجی ادارے کا تربیت یافتہ نہیں تھا، یہ جذبہ جنون اور میدان جنگ کا عملی تجربہ تھا جس نے جنرل گیاپ کو راست فکر جنگی ماہر بنا دیا جس نے وردی اتارنے کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ قوم کے لیے خدمات کا معاوضہ طلب کیا نہ ملازمت میں توسیع مانگی۔ آخری برسوں میں تعلیم اور سائنس کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا۔ جنرل گیاپ کا تعلق کاشت کار گھرانے سے تھا۔

سامراج کے خلاف ایک نہیں دونوں جنگیں جیتیں، پہلے فرانسیسیوں کی مضبوط قلعہ بندیوں کو ریت کے گھروندوں کی طرح مسمار کر کے رکھ دیا اور پھر امریکیوں کے خلاف ایسی دفاعی گوریلا جنگ لڑی کہ جنگوں کی تاریخ میں نئے باب رقم کر دیے اور ایسے روشن نقوش چھوڑے کہ صدیوں اور قرنوں تک آزادی کے متوالے ان سے رہنمائی لیتے رہیں گے۔ نصف صدی پر محیط جدوجہد 30 اپریل 1975 میں اس وقت ختم ہوئی جب جنوبی ویت نام میں امریکی پٹھو حکومت کا خاتمہ ہوا سائیگون سرنگوں ہوا اور جنرل گیاپ نے ویت نام کے اتحاد کا خواب اپنی آنکھوں کے سامنے شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھا۔ریٹائرمنٹ سے پہلے یا بعد میں ویت نامی قوم کے اس ہیرو نے اپنی خدمات کے سلسلے میں اپنے قصیدوں پر مبنی کتابیں نہیں لکھوائیں لیکن عظمت اُس پر اس طرح ٹوٹ ٹوٹ کر برسی کہ وہ اپنی زندگی میں ہی دیو مالائی شخصیت کا روپ دھار چکا تھا۔ جس کے فلسفہ ِجنگ کو دُنیا کی تمام اعلیٰ ترین فوجی درسگاہوں میں پڑھایا جاتا ہے ۔ دوستوں سے بڑھ کر دشمنوں نے اس کی شان میں قصیدے لکھے۔ امریکی جرنیل اس کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوتے رہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل گیاپ کی بے چین روح نے انھیں آرام سے نہیں بیٹھنے دیا۔ انھوں نے بندوق چھوڑنے کے بعد قلم کو اپنا ہتھیار بنا لیا۔ یونیورسٹیوں اور فوجی درس گاہوں میں لیکچر دینے شروع کر دیے۔ میدان جنگ کے بعد قوم کی تعمیر نو کی جدوجہد میں بھی وہ نوجوان نسل کے شانہ بشانہ بروئے کار رہے۔ وہ ایسے خوش نصیب تھے کہ ویت نام کی خوشحال، انسانی برابری اور علم و عرفان کو اپنی آنکھوں کے سامنے مجسم ہوتے دیکھا۔ وہ ویت نامیوں کی نئی نسل کے لیے زندہ و تابندہ تاریخ کا ایسا باب بن گیا جس نے اپنے آپ کو پس منظر میں جانے اور فراموش ہونے سے بچانے کے لیے درس و تدریس کو دوبارہ اپنا لیا۔


اگرچہ ویت نام کے اتحاد اور انضمام کے بعد اس کے خیالات میں زبردست تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔ اس نے اقتصادی اور آئینی اصلاحات کے ذریعے جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے علم بلند کیا اور اپنے دشمن امریکا سے قریبی تعلقات کی وکالت کرتے ہوئے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے بارے میں اپنے خدشات کا شد و مد سے اظہار کیا۔ جنرل گیاپ کو صنعتی ترقی کی وجہ سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی مسائل اور آلودگی کی فکر آخری سانس تک دامن گیر رہی۔

فوجی علوم کے ماہرین متفق ہیں کہ جنرل گیاپ کا نام جدید تاریخ کے عظیم جرنیلوں کی فہرست میں لکھا جائے گا۔ اُستاد اور اخبار نویس جنرل گیاپ کے بد ترین دشمنوں نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ کے اس منفرد جرنیل نے میدان جنگ میں عملی تربیت لی اور اپنی غلطیوں سے سیکھا اور پھر کبھی انھیں نہیں دُہرایا۔ فرانس سے آزادی کی جنگ میں 3 لاکھ ویت نامی گوریلے اور 94 ہزار فرنسیسی فوجی مارے گئے تھے جب کہ تین کروڑ 20 لاکھ کی آبادی میں سے 25 لاکھ ویت نامی جنگ کی بھینٹ چڑھے۔ جنگ کے نقصانات پر تبصرہ کرتے ہوئے جنرل گیاپ نے کہا تھا، ہر لمحے اس دنیا میں سیکڑوں، ہزاروں افراد مارے جاتے ہیں۔ آزادی کی منزل پانے کے لیے ہمارے لیے سیکڑوں ہزاروں نہیں لاکھوں قربانیاں دینا بھی مہنگا سودا نہیں ہو گا۔

1973 میں فوجی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر دفاع کی حیثیت سے جنوبی ویت نام کے دارالحکومت سائیگون پر چڑھائی کرنے والے دستوں کو کمانڈ کیا۔ 30 اپریل 1975 کو سائیگون کی فتح کے بعد جنوبی ویت نام کی کٹھ پتلی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ 1979میں کمبوڈیا کے کھیمروج حکومت کا خاتمہ جنرل گیاپ کی آخری فوجی مہم جوئی تھی۔1980 میں وہ وزیر دفاع کی حیثیت سے مستعفی ہو گئے جس کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو سائنس اور تعلیم کے فروغ کے لیے وقف کر دیا۔ 1991 میں کاروبار حکومت سے مکمل طور پر الگ ہو کر مطالعے اور موسیقی کو حزر جان بنا لیا۔ مطالعے نے اس کے نظریات کو بدل دیا، اب وہ منڈی کی آزاد معیشت کے ذریعے سوشلزم کی ترویج کے علمبردار بن گئے تھے۔ چیئرمین مائو کے جنگی فلسفے کا پیروکار، وقت آخر علاقے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف تحفظات کا اظہار کر رہا تھا اور اپنے بدترین دشمن امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر اقتصادی تعلقات قائم کرنے کا سب سے بڑا وکیل تھا۔

دھان کے کھیتوں سے شروع ہونے والی کہانی کا آخری باب بھی انھی سرسبز و شاداب کھیتوں کے کنارے لکھا جائے گا۔ جنرل گیاپ کو 13 اکتوبر2013 کو قومی اعزاز کے ساتھ آبائی گائوں میں سپرد خاک کیا جائے گا۔واہ جنرل گیاپ! الوداع، الوداع کہ میدانِ جنگ تمہاری درس گاہ رہا اور غلطیاں اُستاد تھیں۔
Load Next Story