سیاست کا شاہکار انقلاب نبویؐ

بعثت نبویؐ سے قبل کے عرب معاشرے میں ہر قسم کی برائی بدرجہ اتم موجود تھی۔ اس معاشرے کے ماحول میں یگانگت مفقود...

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

بعثت نبویؐ سے قبل کے عرب معاشرے میں ہر قسم کی برائی بدرجہ اتم موجود تھی۔ اس معاشرے کے ماحول میں یگانگت مفقود، وحدت ملی پارہ پارہ، عقیدہ توحید کے بجائے خانہ کعبہ میں بتوں کی بھرمار، عوام شراب، جوا، زنا،کثرت ازدواج اور سودی کاروبار کے رسیا، قبائلی، خاندانی اور خونی عصبیت نے اس میں اضافہ کردیا، صنف نازک کی کوئی حیثیت نہ تھی، لڑکی پیدا ہوتے ہی دفن کردی جاتی، غرض کون سا عیب تھا جو عربوں میں نہ پایا جاتا تھا... یہی وجوہات تھیں کہ جب خلوت پسندی، تنہائی اور غور و فکر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا شیوہ و معمول بن گیا تھا اور زیادہ تر وقت طریقہ ابراہیمی ؑ پر غور و خوض میں غار حرا ہی میں گزرا کرتا تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم شروع ہی سے اصلاح معاشرہ کا درد اپنے من میں رکھتے تھے لیکن یہ اصلاح معاشرہ کوئی آسان کام نہ تھا بلکہ اصلاح کی راہ حق میں مشکلات کا ناقابل تسخیر پہاڑ حائل تھا۔

تاریکی میں ایک کرن نظر آئی اور اﷲ رب العزت نے ایک عظیم انقلاب محسن انسانیتؐ کے ہاتھوں برپا فرمایا جو کہ نہ صرف عرب معاشرے کے لیے بلکہ تا قیامت کل انسانیت کے لیے دائمی طور پر مشعل راہ اور راہ ہدایت و صراط مستقیم قرار پایا۔ اﷲ عزوجل نے بحیثیت آخری نبی و رسول آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا انتخاب فرمایا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک عالمگیر و ہمہ گیر مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

اﷲ رب العالمین نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہدایت و رہنمائی کے لیے جو دین بھیجا، وہ نہ صرف ہماری انفرادی زندگی کا طرز عمل واضح کرتا ہے بلکہ اجتماعی سطح پر بھی ہماری زندگیوں کا لائحہ عمل متعین کرتا ہے۔ جس طرح وہ عبادت کے طریقے و ذریعے بتاتا ہے، اس طرح وہ سیاست کے آئین بھی سکھاتا ہے اور جتنا تعلق اس کا مسجد سے ہے، اتنا ہی تعلق اس کا حکومت و حکمرانی سے بھی ہے۔ اس دین کو ہمارے نبی کریمؐ نے لوگوں کو بتایا اور سکھایا بھی اور ایک وسیع ملک کے اندر اس کو نافذ و جاری کرکے بھی دکھا دیا۔ اس وجہ سے حضور اکرمؐ کی زندگی جس طرح بحیثیت ایک معلم اخلاق کے ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے اسی طرح بحیثیت ایک ماہر سیاست اور ایک مدبر کامل کے بھی اسوہ اور مثال ہے۔

گویا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کمال بشریت اور عبودیت میں اپنی مثال اور انسان کامل ہیں۔ آپ ؐ ایسی برگزیدہ ہستی کا کمال صفات کی ہمہ گیر اور عمل کی جامعیت ہی ہے جسے خدا ہمیشہ کے لیے تمام عالم کے واسطے اسوہ حسنہ بنانا چاہتا تھا۔ یہ اﷲ عزوجل کی مشیت تھی کہ اس رب نے آپؐ کو زندگی کے ہر مرحلے سے گزارا اور ہر شعبہ حیات اور تمام مراحل میں آپؐ کے فکر و عمل کا انداز تمام شعبہ ہائے حیات سے متعلقہ افراد کے لیے شمع ہدایت بن گیا۔ بے کسی اور یتیمی سے لے کر سلطانی تک انسانی زندگی کے تمام مراحل طے کر ڈالے۔ آپؐ ایک مزدور کی زندگی بھی بسر کرچکے تھے، اس لیے مزدور کے حقوق و فرائض سے بخوبی واقف و آگاہ تھے۔ مزدوروں کو دنیا حقیر سمجھتی تھی لیکن سب سے پہلے نبی کریمؐ نے ہی اعلان کیا کہ مزدوری سے روزی کمانے والا خدا کا حبیب ہے۔ خدا کا حبیب ہونے سے اونچا درجہ اور کیا ہوسکتا ہے


۔ ہر قسم کے مصائب اور مخالفت کے مقابلے میں اٹل صبر و استقلال، ناکامیوں میں کبھی مایوس نہ ہونا اور کامیابی میں نخوت و غرور کو نفس کے قریب بھٹکنے نہ دیا، دیانت داری اور حکمت عملی سے ایک کامیاب تاجر کے لیے مثال بننا، ایک بیوہ سے شادی کرکے آخر دم تک محبت و وفا کی مثال پیش کرنا، کامیاب فاتح بن کر اذیت کیش سنگ دل مجرموں کو لا تثریب علیکم الیوم کہہ کر معاف کردینا، صلح و امن کو اپنی مساعی کی داد دیتے ہوئے بھی انسانیت کے اقدار کو نظر انداز نہ کرنا، ایک مقنن کی حیثیت سے ایسے عادلانہ قوانین پیش کرنا جن کی مثال اس سے قبل موجود نہ تھی۔ زندگی کا کون سا شعبہ ہے جس کی نسبت بنیادی ہدایت اس اسوہ حسنہ میں نہ مل سکے۔ یار و اغیار کے ساتھ خوبی کا برتائو، اختلاف مسلک کے باوجود دوسری ملتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید، تمام افراد و اقوام کے لیے مذہب و ضمیر کی آزادی ''لا اکراہ فی الدین'' کا اعلان تمام، سوائے ان امور کے جن میں خود فطرت نے تفاوت پیدا کردیا ہے۔

مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض میں عام مساوات حصول علم کی فضیلت اور اس کی ترغیب، افروزنی علم کی مسلسل کوشش اور دعا ''ارتقائے حیات'' کا یہ تصور کہ جس شخص کے دو دن ایک جیسے رہے اور اس نے کسی اچھے پہلو میں ترقی نہ کی تو وہ گھاٹے میں رہا ''من الستواپو ماہ فہو مغبون'' روحانیت، حکمت اور اخلاق کی اچھی باتیں ان سے پہلے بھی انبیاء، اولیاء، صلحاء، حکماء کہتے چلے آئے تھے لیکن ایمان و حکمت عمل کی یہ جامعیت کہیں نہیں ملتی ہے۔ بے شک نبوت ایسے ہی انسان کامل پر ختم ہوسکتی تھی جس کی زندگی کسی پہلو میں تشنہ نظر نہ آئے۔ جو مزدور و کسان کے لیے بھی نمونہ ہو اور حاکم و حکیم کے لیے بھی، جو پیکار حیات اور افراد، افکار و جذبات میں صلح جوئی اور وحدت آفرین کے ڈھب صرف نظری طور پر نہ بتائے بلکہ نصب العین کو عملی جامہ پہناکر افراد و اقوام کے لیے بلند ترین نمونہ پیش کرے۔ اس جامعیت کا انسان تاریخ عالم نے بعثت محمدیؐ سے پہلے پیش کیا اور نہ آیندہ اس کا امکان ہے۔ محض افکار عالیہ کے مقابلے میں زندہ عملی مثال کہیں زیادہ موثر ہوتی ہے۔ انسانوں کے اخلاق اچھے نمونوں سے متاثر ہوکر عمدہ سانچوں میں ڈھلتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اچھے نمونے محمد رسول اﷲؐ ہی کی زندگی میں مل سکتے ہیں۔ ایسے ہی انسان کو انسان کامل کہہ سکتے ہیں جس کا کمال ہر شعبہ زندگی میں نظر افروز اور ہمت افزا ہو اور جس کی جامعیت سے انسانیت کا کوئی شعبہ خارج نہ ہو۔

آپؐ جب دنیا سے تشریف لے گئے تو اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپؐ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ہر بات اپنی اپنی جگہ پر پتھر کی لکیر کی طرح ثابت و قائم تھی۔ دنیا کے مدبروں اور سیاست دانوں میں سے کسی ایک مدبر اور سیاست دان کا نشان آپ نہیں دے سکتے، جو اپنے دو چار اصولوں کو بھی دنیا میں برپا کرنے میں اتنا مضبوط ثابت ہوسکا ہو کہ اس کی نسبت ایک پورا نظام زندگی وضع کردیا، جو اپنی خصوصیات کے لحاظ سے زمانہ کے مزاج اور رجحان سے اتنا بے جوڑ تھا کہ وقت کے مدبر اور ماہرین سیاست اس انوکھے نظام کے پیش کرنے کے سبب سے حضورؐ کو دیوانہ کہتے تھے لیکن حضور اکرمؐ نے اس نظام زندگی کو عملاً دنیا میں برپا کرکے ثابت کردیا کہ جو لوگ حضور اکرمؐ کو دیوانہ سمھجتے تھے وہ خود در حقیقت مجنون اور دیوانے تھے۔

اندازہ کیجیے کہ صرف اکیس بائیس برس کے لگ بھگ مختصر ترین عرصے میں رسول اﷲ ؐ نے ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہتی انقلاب کی ابتدا تا انتہا بنفس نفیس تکمیل فرمادی جس کی دنیا میں کوئی نظیر پہلے موجود تھی نہ تا قیامت ملے گی۔ دنیا کے دوسرے دو انقلابات مشہور ہیں، یعنی انقلاب فرانس اور انقلاب روس، ایک تو یہ انقلابات جزوی تھے اور دوئم یہ کہ ان انقلابات کی فکر دینے والے کوئی اور تھے اور انقلابات برپا کرنے والے کوئی اور! پھر انقلابی فکر دینے اور انقلاب برپا ہونے کے درمیان ایک طویل زمانی فاصلہ بھی تھا جب کہ رسول اکرمؐ نے اپنی زندگی ہی میں جس عظیم فکر کو پیش کیا اس عظیم فکر کے بیش بہا ثمرات کو ایک انقلاب کامل کی صورت میں برپا ہوتے ہوئے بھی خود ان کی زندگی میں، اپنی نگاہوں سے دیکھا، اسلامی انقلاب کے تمام جملہ مراحل آپؐ کی حیات مبارکہ ہی میں منزل مراد کو پہنچے، لہٰذا انقلاب نبویؐ رہتی دنیا و تا قیامت تک تمام انسانیت اور بعد میں رونما ہونے والے تمام انقلابات کے لیے بہترین نمونہ، کامل راہ نما اور شمع ہدایت و مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
Load Next Story