مضبوط معیشت یا کڑا احتساب

ملک میں کاروبار کےلیے سازگار ماحول ہی نہیں رہا۔ مہنگائی، بے روزگاری کی ٹرین نان اسٹاپ ہوچکی ہے

آج کے پاکستان کی پہلی ضرورت مضبوط معیشت ہے، کڑا احتساب نہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کے بزنس لیڈرز اور سول حکومت کی معاشی ٹیم کے درمیان اعتماد کی کمی کو دور کرنے کےلیے بدھ کی شام کم و بیش سات گھنٹے طویل جو نشست رکھی، وہ دو طرح سے اہمیت کی حامل ہے۔ ایک تو یہ واضح ہے کہ مضبوط معیشت ملکی قومی سلامتی کا ایک لازمی و اہم جز ہے، جس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ قومی سلامتی کے ضامن ادارے کمزور بلکہ انتہائی تیزی سے زوال پذیر معیشت پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں اور ایسا بھی نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت، جسے اپوزیشن سلیکٹڈ کا نام دیتی ہے، کے دور میں یہ کوئی انوکھا کام ہوا ہے۔ ماضی میں، خاص طور پر جب خود اپوزیشن ن لیگ کی حکومت تھی، تو موجودہ آرمی چیف نے ہی اس وقت بھی ایسی ہی نشست کا کراچی میں اہتمام کیا تھا۔ اس لیے اب اگر ہم اس سرگرمی کو سول ملٹری بالادستی کے تناظر میں زیر بحث لاتے ہوئے عمران حکومت پر طنز کے نشتر چلانا شروع کردیں تو اس کا جواز نہیں بنتا۔

سوشل میڈیا کے مجاہدوں نے معیشت کو سہارا دینے کے اس اقدام پر سسپنس پھیلانا شروع کیا اور حکومت پر عدم اعتماد کے منفی اثرات کو اجاگر کرنے کی روایتی مہم شروع کی تو مجھے اس ملاقات کی تفصیل کےلیے جاری کی گئی آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کو دوبارہ پڑھنا پڑا۔ جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کہہ رہے ہیں "سرکاری اور نجی شعبے میں بہتر ہم آہنگی کا معیشت پر مثبت اثر پڑ رہا ہے"۔ پریس ریلیز واضح تھی، جس میں عسکری قیادت کی سوچ اور کاوش سے صاف پتہ چل رہا ہے اس بامقصد نشست کا مقصد کسی کو نیچا دکھانا یا اپنا شملہ اونچا کرنا نہیں، بلکہ ملک کے کاروباری طبقے کی بے چینی اور تحفظات کا حل تلاش کرنا ہے۔

اب اس طویل نشست کے ذریعے اخذ کردہ نتائج، روڈمیپ پر حکومت کی معاشی ٹیم کیسے عملدرآمد کرتی ہے اور کتنے عرصے میں ملک میں کاروبار دوست ماحول پیدا ہوتا ہے؟ ان سوالات کا جواب تب تک نہیں دیا جاسکتا جب تک حکومت اس نشست میں طے کردہ راستے کے عملی اقدامات اٹھا نہیں لیتی۔

اب آتے ہیں دوسری بات کی جانب، اور وہ یہ کہ ملک کے کاروباری حالات میں ایسی صورتحال نے جنم کیوں لیا؟ اب اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں رہا کہ حکومت کی معاشی سمت میں کوئی گڑبڑ تو ضرور ہے۔ کام کیوں رکا ہوا ہے؟ فیصلے لیے جاتے ہیں تو عمل کیوں نہیں ہوتا؟ خوف کی فضا کیوں ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس ضمن میں معاملات بہتر کرنے میں رکاوٹ کون ہے؟ تو اس کا جواب اپوزیشن سے لینے کے بجائے اگر خود حکومت کی صفوں سے بھی لیں تو بات اسی طرف جاتی دکھتی ہے، جس کی بدولت اپوزیشن کی قیادت جیلوں میں ہے۔ یعنی احتساب کی یلغار۔


اب اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کرنا چاہیے کہ جو چور ہیں، ڈاکو ہیں، لٹیرے ہیں یا عرف عام میں کرپٹ ہیں، جنہوں نے ملک کو بیدردی سے لوٹا، اپنی تجوریاں بھریں، ان کا محاسبہ بھی ہونا چاہیے اور لوٹی دولت واپس ملکی خزانے کو بھی ملنی چاہیے۔ مگر رکیے! دیکھتے ہیں کہ گزشتہ سوا، ڈیڑھ سال میں ہوا کیا؟ بس جسمانی ریمانڈ، پھر جوڈیشل ریمانڈ، چلیے سزا بھی ہوگئی۔ مگر بھائی وہ پیسہ کہاں گیا؟ پھر جب وزیر داخلہ ٹی وی پر آکر کہہ دیتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہوا کہ فلاں فلاں بات ہے۔ یعنی کرپشن تو سائیڈ پر رہ گئی، بیانیہ تو کمزور ہو گیا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ وہی نکلا جس کی وجہ سے بدھ کی شام کی نشست رکھنی پڑی۔ یعنی ملک میں سازگار ماحول ہی نہیں رہا کاروبار کےلیے۔ مہنگائی، بے روزگاری کی ٹرین نان اسٹاپ ہوچکی۔

چلیے اب حل بھی سوچ لیتے ہیں۔ حل بہت آسان ہے۔ آپ کو دوسروں کو سمجھانے کے بجائے اب اپنے آپ کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ کوئی شک نہیں آپ مقبول ترین تھے۔ آپ آج بھی مقبول ہیں۔ آپ کا ہاتھ مضبوط کرنے والوں کے عزم میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ آپ پر اعتماد آج بھی قائم و دائم ہے۔ بس خدارا اپنی ٹیم اور ترجیحات پر ایک نظر دوبارہ ڈال لیجئے۔ خاص کر ملک کے سب سے بڑے صوبے پر۔ چینی سفیر کی نوجوان وزیر کی لگائی جانے والی شکایت کی جو کہانی ڈرائنگ رومز میں زیر گردش ہے، اس پر توجہ دے لیجئے۔

آج کے پاکستان کی پہلی ضرورت مضبوط معیشت ہے، کڑا احتساب نہیں۔ اوپر سے مولانا کا اعلان کردہ ستائیس اکتوبر کا مارچ بھی آرہا ہے۔ خیال رہے کہ موجودہ حالات میں حکومت مخالف احتجاجی تحریک کی گنجائش نہیں ہے۔ اسے تدبیر سے روکنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ سیاسی ڈائیلاگ اس کا راستہ ہے۔ ایسا نہ کیا گیا تو گئے گزرے حالات میں بھی ملک میں کاروبار کرنے والے رہے سہے مگر سہمے بزنس لیڈرز مزید سہم جائیں گے۔ اس لیے راستہ بدل لیجئے۔ مزاحمت سے مفاہمت کی طرف آجائیے۔

یقین مانیے! آپ نے یہ والا مثبت یوٹرن لے لیا تو پاکستان کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story