مٹی کے تیل کی بوتل
کہتے ہیں کہ جب محمد بن قاسم سندھ آئے تھے، تب مٹی کا تیل ایک دَمڑی کا ایک گیلن ملتا تھا (گیلن ساڑھے 4 لیٹر...
KARACHI:
کہتے ہیں کہ جب محمد بن قاسم سندھ آئے تھے، تب مٹی کا تیل ایک دَمڑی کا ایک گیلن ملتا تھا (گیلن ساڑھے 4 لیٹر کا ہوتا تھا)، پھر زمانے کی گردشوں نے اس کا قد بڑھا کر 114 روپے فی لیٹر تک کردیا۔ آپ تعجب کریں گے کہ یہ دمڑی کیا ہوتی ہے ؟ دمڑی وہ ہوتی، جس کے بارے میں کہاوت مشہور ہے کہ، چمڑی جائے پردمڑی نہ جائے۔ میرے پاس یہ حساب تو نہیں ہے کہ ایک روپے میں کتنی دمڑیاں ہوتی تھیں، البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ ایک روپے میں 64 پیسے ہوتے تھے اور ہر پیسے میں بے شمار دمڑیاں ہوتی تھیں۔ آٹا مفت ملتا تھا، جو ترقی کرتے کرتے اب 50 روپے فی کلو ہوگیا ہے اور دال ایک پائی فی سیر ملتی تھی (جو اب کلو ہوگیا ہے)۔ ایک روپے میں 96 پائیاں ہوتی تھیں، یعنی اب دال 9600 پائیوں سے بھی زیادہ قیمت پر ملتی ہے۔ مٹی کے تیل کی بوتل بھی ایک پائی کی ملتی تھی، جو اب بڑھ کر پٹرول کے برابر ہوگئی ہے، یعنی 10،944 پائیوں کے برابر۔
جہاں تک میری یادداشت میرا ساتھ دے رہی ہے، 1950 میں پٹرول فی گیلن ڈھائی روپے کا، آٹا ایک روپے کا 8 سیر، دال ایک روپے سیر اور مٹی کے تیل کی بوتل ایک آنے میں ملتی تھی (ایک روپے میں 16 آنے ہوتے تھے)۔ 1957 میں سرکاری قاصد کی تنخواہ 50 روپے اورکلرک کی 70 روپے تھی، جن پیسوں سے وہ دو، تین بچوں والا خاندان پالتے تھے۔ 1974 میں دال کا ایک پاؤ اور مٹی کے تیل کی بوتل 4 آنے میں ملتے تھے۔ 1954 میں ڈالر 3 روپے کا، 1970 میں 5 روپے، 1972 میں 10 روپے، 1988 میں 20 روپے، 1997 میں 40 روپے، 2001 میں 60 روپے 2008 میں 80 روپے اور 2012 میں سینچری مکمل کرکے 11 مئی 2013 میں جمہوریت کی بنیاد پکی ہونے پر 110 تک پہنچ گیا۔ دشمنوں نے یہ تک اڑا دی ہے کہ آئی ایم ایف کی فرمائش یہ ہے کہ ڈالر کو اور اوپر اڑایا جائے اور انھوں نے اس مقصد کے لیے ایک جہاز بھی بھجوادیا ہے۔
اس پوری تمہید کا محور مٹی کے تیل کی بوتل ہے۔ صدیاں پہلے محمود و ایاز کے محلوں اور جھونپڑوں میں روشنی چراغوں سے ہوتی تھی، جو تیل سے جلائے جاتے تھے۔ پھر جب چراغوں میں روشنی نہ رہی تو انھوں نے مٹی کے تیل سے لالٹین جلانا شروع کیے۔ گھر میں کھانا پکانے کے لیے لکڑیاں اور کوئلہ استعمال ہوتا تھا۔ اس کے بعد مٹی کے تیل کے چولہے ایجاد ہوئے۔ اب تک تو دونوں کی راہیں ساتھ ساتھ تھیں، لیکن جب بجلی آئی تو ان کی راہیں جدا ہوگئیں۔ رہی سہی کسر سوئی گیس نے پوری کردی، جس سے کھانا پکایا جانا شروع ہوا، لیکن جھونپڑوں میں آج تک مٹی کے تیل کی لالٹینوں سے روشنی ہوتی ہے ۔ یاد رہے کہ ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین تھا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج جھونپڑے والے مٹی کے تیل کی بوتل خرید سکتے ہیں؟ ایک لالٹین جلانے کے لیے کم از کم روزانہ آدھی بوتل تو چاہیے، جس کی قیمت 50 روپے سے بھی زیادہ ہے۔ کیا 200 یا 300 روپے روزانہ کمانے والا آدمی روزانہ ان میں سے مٹی کے تیل کے لیے 50 روپے سے زیادہ نکال سکتا ہے؟ اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر اشیائے خوردنی کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا کرسکتا ہے؟
کچھ دن پہلے ایک رسالے میں ایک کہانی پڑھی۔ ایک مزدور ایک تعمیراتی پراجیکٹ پر کام کرتا تھا۔ ایک دن شام کو، جب سب مزدور کام ختم کرکے جا چکے تھے، تو ٹھیکیدار کو یاد آیا کہ وہ دوسرے دن کے لیے سیمنٹ کے بلاک اوپر کی منزل پر بھجوانا بھول گیا۔ اتنے میں دیکھا کہ ایک بوڑھا مزدور باہر نکل رہا تھا۔ اس نے اسے بلا کر کہا کہ اگر وہ بلاک اوپر لے جائے گا تو وہ اسے دگنی اجرت دے گا۔ وہ مزدور اس بات پہ راضی ہو گیا، لیکن دو باریوں کے بعد ہی تھک کر زمین پر بیٹھ گیا اور بڑی بڑی سانسیں لینے لگا۔ اس پر ٹھیکیدار نے ایک موٹی سی گالی مزدور کو دی اور کہا کہ اگر یہ کام نہیں کرسکتا تھا تو حامی کیوں بھری تھی؟ مزدور اٹھا اور پھر کام میں جت گیا اور تھوڑی دیر میں وہ کام ختم کیا۔ ٹھیکیدار نے پیسے دیتے ہوئے اس سے پوچھا کہ جب تمہاری طاقت نہیں تھی تو یہ کام کیوں لے لیا۔ مزدور نے جواب دیا بے شک میں نے زیادہ پیسوں کے لیے کام کرنے کی حامی بھری تھی، لیکن جس وقت میں دو باریوں کے بعد زمین پر بیٹھ گیا تھا اور آپ نے مجھے گالی سے نوازا تھا تو سوچا کہ آپ سے کہوں کہ میں یہ کام مزید نہیں کرسکتا، لیکن اچانک مجھے ایک بات یاد آگئی جس کی وجہ سے میں نے پھر سے کام شروع کردیا۔ وہ بات یہ تھی کہ میری بیٹی نے چلتے وقت مجھ سے کہا تھا، بابا روز روز روکھے چاول کھا کھا کر تنگ آگئی ہوں، آج میرے لیے آم لے آنا۔ جو مزدوری آپ روزانہ دیتے ہیں اس سے تو آٹا، دال ہی مشکل سے لا سکتا ہوں، لیکن جب آپ نے دگنی مزدوری کی آفر کی تو امید بندھی کہ اس سے بیٹی کے لیے آم لے جا سکوں گا، اس لیے آپ کی موٹی گالی بھی ہضم کر گیا۔
اب پریشانی اس بات کی ہے کہ یہ غریب لوگ مٹی کا تیل کیسے خرید سکیں گے، تاکہ ان کے گھروں میں ہلکی سی روشنی ہو، جس پر ان کے بچے اسکول کا ہوم ورک بھی کر سکیں (اگر وہ واقعی اسکول جا رہے ہوں) مٹی کے تیل کی بوتل تو 100 روپے سے بھی زیادہ کی آتی ہے۔ کیا 200، 300 روپے روز کمانے والا آدمی 50 روپے روز کا مٹی کا تیل خرید سکتا ہے؟ کیا مٹی کے تیل پرخاص سبسڈی نہیں دی جاسکتی؟ مٹی کے تیل کی قیمت پٹرول کے برابر رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ لوگ اس کو ڈیزل میں ملاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک ہماری اسلامی جمہوریہ پاکستان، جس کی خاطر ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں، کے نیک لوگ ملاوٹ کرنا بند نہیں کریں گے، تب تک غریبوں کے گھروں میں اجالا نہیں ہو سکتا۔ اور یہ ملاوٹ کا کاروبار نہ تو اﷲ تعالیٰ کے خوف سے بند ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہماری حکومت بند کراسکتی ہے۔ حکومت کو اور کام کیا کم ہیں کہ غریبوں کے لیے یہ گورکھ دھندا اپنے سر لیں؟ غریب لوگ تب تک انتظار کریں، جب تک ہمارے ملک میں خوفِ خدا بازار سے دستیاب ہونا شروع ہو۔
کہتے ہیں کہ جب محمد بن قاسم سندھ آئے تھے، تب مٹی کا تیل ایک دَمڑی کا ایک گیلن ملتا تھا (گیلن ساڑھے 4 لیٹر کا ہوتا تھا)، پھر زمانے کی گردشوں نے اس کا قد بڑھا کر 114 روپے فی لیٹر تک کردیا۔ آپ تعجب کریں گے کہ یہ دمڑی کیا ہوتی ہے ؟ دمڑی وہ ہوتی، جس کے بارے میں کہاوت مشہور ہے کہ، چمڑی جائے پردمڑی نہ جائے۔ میرے پاس یہ حساب تو نہیں ہے کہ ایک روپے میں کتنی دمڑیاں ہوتی تھیں، البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ ایک روپے میں 64 پیسے ہوتے تھے اور ہر پیسے میں بے شمار دمڑیاں ہوتی تھیں۔ آٹا مفت ملتا تھا، جو ترقی کرتے کرتے اب 50 روپے فی کلو ہوگیا ہے اور دال ایک پائی فی سیر ملتی تھی (جو اب کلو ہوگیا ہے)۔ ایک روپے میں 96 پائیاں ہوتی تھیں، یعنی اب دال 9600 پائیوں سے بھی زیادہ قیمت پر ملتی ہے۔ مٹی کے تیل کی بوتل بھی ایک پائی کی ملتی تھی، جو اب بڑھ کر پٹرول کے برابر ہوگئی ہے، یعنی 10،944 پائیوں کے برابر۔
جہاں تک میری یادداشت میرا ساتھ دے رہی ہے، 1950 میں پٹرول فی گیلن ڈھائی روپے کا، آٹا ایک روپے کا 8 سیر، دال ایک روپے سیر اور مٹی کے تیل کی بوتل ایک آنے میں ملتی تھی (ایک روپے میں 16 آنے ہوتے تھے)۔ 1957 میں سرکاری قاصد کی تنخواہ 50 روپے اورکلرک کی 70 روپے تھی، جن پیسوں سے وہ دو، تین بچوں والا خاندان پالتے تھے۔ 1974 میں دال کا ایک پاؤ اور مٹی کے تیل کی بوتل 4 آنے میں ملتے تھے۔ 1954 میں ڈالر 3 روپے کا، 1970 میں 5 روپے، 1972 میں 10 روپے، 1988 میں 20 روپے، 1997 میں 40 روپے، 2001 میں 60 روپے 2008 میں 80 روپے اور 2012 میں سینچری مکمل کرکے 11 مئی 2013 میں جمہوریت کی بنیاد پکی ہونے پر 110 تک پہنچ گیا۔ دشمنوں نے یہ تک اڑا دی ہے کہ آئی ایم ایف کی فرمائش یہ ہے کہ ڈالر کو اور اوپر اڑایا جائے اور انھوں نے اس مقصد کے لیے ایک جہاز بھی بھجوادیا ہے۔
اس پوری تمہید کا محور مٹی کے تیل کی بوتل ہے۔ صدیاں پہلے محمود و ایاز کے محلوں اور جھونپڑوں میں روشنی چراغوں سے ہوتی تھی، جو تیل سے جلائے جاتے تھے۔ پھر جب چراغوں میں روشنی نہ رہی تو انھوں نے مٹی کے تیل سے لالٹین جلانا شروع کیے۔ گھر میں کھانا پکانے کے لیے لکڑیاں اور کوئلہ استعمال ہوتا تھا۔ اس کے بعد مٹی کے تیل کے چولہے ایجاد ہوئے۔ اب تک تو دونوں کی راہیں ساتھ ساتھ تھیں، لیکن جب بجلی آئی تو ان کی راہیں جدا ہوگئیں۔ رہی سہی کسر سوئی گیس نے پوری کردی، جس سے کھانا پکایا جانا شروع ہوا، لیکن جھونپڑوں میں آج تک مٹی کے تیل کی لالٹینوں سے روشنی ہوتی ہے ۔ یاد رہے کہ ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین تھا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج جھونپڑے والے مٹی کے تیل کی بوتل خرید سکتے ہیں؟ ایک لالٹین جلانے کے لیے کم از کم روزانہ آدھی بوتل تو چاہیے، جس کی قیمت 50 روپے سے بھی زیادہ ہے۔ کیا 200 یا 300 روپے روزانہ کمانے والا آدمی روزانہ ان میں سے مٹی کے تیل کے لیے 50 روپے سے زیادہ نکال سکتا ہے؟ اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر اشیائے خوردنی کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا کرسکتا ہے؟
کچھ دن پہلے ایک رسالے میں ایک کہانی پڑھی۔ ایک مزدور ایک تعمیراتی پراجیکٹ پر کام کرتا تھا۔ ایک دن شام کو، جب سب مزدور کام ختم کرکے جا چکے تھے، تو ٹھیکیدار کو یاد آیا کہ وہ دوسرے دن کے لیے سیمنٹ کے بلاک اوپر کی منزل پر بھجوانا بھول گیا۔ اتنے میں دیکھا کہ ایک بوڑھا مزدور باہر نکل رہا تھا۔ اس نے اسے بلا کر کہا کہ اگر وہ بلاک اوپر لے جائے گا تو وہ اسے دگنی اجرت دے گا۔ وہ مزدور اس بات پہ راضی ہو گیا، لیکن دو باریوں کے بعد ہی تھک کر زمین پر بیٹھ گیا اور بڑی بڑی سانسیں لینے لگا۔ اس پر ٹھیکیدار نے ایک موٹی سی گالی مزدور کو دی اور کہا کہ اگر یہ کام نہیں کرسکتا تھا تو حامی کیوں بھری تھی؟ مزدور اٹھا اور پھر کام میں جت گیا اور تھوڑی دیر میں وہ کام ختم کیا۔ ٹھیکیدار نے پیسے دیتے ہوئے اس سے پوچھا کہ جب تمہاری طاقت نہیں تھی تو یہ کام کیوں لے لیا۔ مزدور نے جواب دیا بے شک میں نے زیادہ پیسوں کے لیے کام کرنے کی حامی بھری تھی، لیکن جس وقت میں دو باریوں کے بعد زمین پر بیٹھ گیا تھا اور آپ نے مجھے گالی سے نوازا تھا تو سوچا کہ آپ سے کہوں کہ میں یہ کام مزید نہیں کرسکتا، لیکن اچانک مجھے ایک بات یاد آگئی جس کی وجہ سے میں نے پھر سے کام شروع کردیا۔ وہ بات یہ تھی کہ میری بیٹی نے چلتے وقت مجھ سے کہا تھا، بابا روز روز روکھے چاول کھا کھا کر تنگ آگئی ہوں، آج میرے لیے آم لے آنا۔ جو مزدوری آپ روزانہ دیتے ہیں اس سے تو آٹا، دال ہی مشکل سے لا سکتا ہوں، لیکن جب آپ نے دگنی مزدوری کی آفر کی تو امید بندھی کہ اس سے بیٹی کے لیے آم لے جا سکوں گا، اس لیے آپ کی موٹی گالی بھی ہضم کر گیا۔
اب پریشانی اس بات کی ہے کہ یہ غریب لوگ مٹی کا تیل کیسے خرید سکیں گے، تاکہ ان کے گھروں میں ہلکی سی روشنی ہو، جس پر ان کے بچے اسکول کا ہوم ورک بھی کر سکیں (اگر وہ واقعی اسکول جا رہے ہوں) مٹی کے تیل کی بوتل تو 100 روپے سے بھی زیادہ کی آتی ہے۔ کیا 200، 300 روپے روز کمانے والا آدمی 50 روپے روز کا مٹی کا تیل خرید سکتا ہے؟ کیا مٹی کے تیل پرخاص سبسڈی نہیں دی جاسکتی؟ مٹی کے تیل کی قیمت پٹرول کے برابر رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ لوگ اس کو ڈیزل میں ملاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک ہماری اسلامی جمہوریہ پاکستان، جس کی خاطر ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں، کے نیک لوگ ملاوٹ کرنا بند نہیں کریں گے، تب تک غریبوں کے گھروں میں اجالا نہیں ہو سکتا۔ اور یہ ملاوٹ کا کاروبار نہ تو اﷲ تعالیٰ کے خوف سے بند ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہماری حکومت بند کراسکتی ہے۔ حکومت کو اور کام کیا کم ہیں کہ غریبوں کے لیے یہ گورکھ دھندا اپنے سر لیں؟ غریب لوگ تب تک انتظار کریں، جب تک ہمارے ملک میں خوفِ خدا بازار سے دستیاب ہونا شروع ہو۔