سندھ دو لاکھ افراد سگ گزیدگی کا شکار
پاگل کتے کے کاٹنے کے متاثرین زیادہ تر بچے، عورتیں اور بوڑھے اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ کتے کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
کئی دنوں سے اخبارات میں پاگل کتوں کے کاٹنے کے واقعات شایع ہوتے رہے، موجودہ حکومت اور ضلعی حکومتیں، ضلعی انتظامیہ اور صحت کے ادارے بیانات دیتے رہے ہیں مگر اس بارے میں کوئی ایسی پیشرفت نہیں ہوئی کہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔
کئی سال پہلے سال میں ایک سے دو مرتبہ میونسپل کمیٹی یا کارپوریشن آوارہ اور پاگل کتوں کو مارنے کی مہم چلاتی تھیں جس کے لیے ہر سال بجٹ میں ایک رقم مختص کی جاتی تھی اور اس مہم کو چلانے کے لیے ایک خاص اسکواڈ بھی تشکیل دیا جاتا تھا۔ مہم کو کامیاب بنانے کے لیے ڈی سی اجلاس بلواتے تھے۔ اس مہم سے پہلے ریڈیو اور اخبارات میں لوگوں کو کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے پالتوکتوں کو گھر سے باہر نہ نکالیں۔
مہم کے دوران رات کو دیر سے میونسپل کا عملہ جسے کتا مار اسکواڈ کہا جاتا ہے، شہر کے روڈوں پر گلیوں میں ہڈی والے گوشت میں زہر ملا کر کتوں کو دیا جاتا تھا جسے کھانے کے بعد اس کے بدن میں آگ سی جلنے لگتی ہے اور وہ پانی کے تالاب تلاش کر کے اس میں بیٹھنا چاہتا ہے کیونکہ پانی میں بیٹھنے سے زہرکا اثر ختم ہوجاتا ہے۔
جس کے بعد کتا اور جاندار بن جاتا ہے۔ اس عمل کو روکنے کے لیے چھپا کھڑا ہوا اسکواڈ ان کتوں کا پیچھا کرتا ہے اور انھیں لوہے کی بنی ہوئی قینچی سے سر سے پکڑ لیتے ہیں اور جب تک مر نہ جائے نہیں چھوڑتے۔ صبح سویرے پھر ایک گاڑی لے آتے تھے جس میں مرے ہوئے کتوں کو ڈال کر شہر سے باہر ایک ویرانے میں کسی کھڈے میں ڈال دیتے تھے۔
اس طرح سے کھلے کھڈے میں مرے ہوئے کتوں کو نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ ان گڑھوں کو مٹی ڈال کر ڈھانپ دیا جائے کیونکہ ان مرے ہوئے کتوں سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو فضا میں پھیل جاتی ہیں اور ہوا اور مکھیوں کے ذریعے شہر تک پہنچ جاتی ہیں۔ بہرحال اب کئی برسوں سے کتا مار مہم بند ہونے کی وجہ سے ان کی پاپولیشن میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے شہر کے ہر روڈ اور گلیوں میں وہ انسان کے آنے جانے کی راہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور کسی کو گزرنے نہیں دیتے۔ خاص طور پر چھوٹے بچے اور عورتیں اور کمزور افراد ان کے کاٹنے کا شکار جلد ہوجاتے ہیں۔
ہر کتا Rabies نہیں ہوتا مگر ویسے بھی کتوں، گدھوں، گھوڑوں، بلیوں، اونٹوں اور دوسرے پالتو جانوروں میں بھی یہ جراثیم گھس جاتا ہے کیونکہ پاگل کتا گزرتے ہوئے ان جانوروں کو جب چاٹتا ہے تو یہ ریبیز کا جراثیم ان میں شفٹ ہوجاتا ہے اور یہ پالتو جانور جب کسی کو کاٹ لیں گے تو اس کے ذریعے یہ جراثیم انسانوں میں شفٹ ہوجاتا ہے۔ چلو گاؤں میں تو لوگ کتے اس لیے رکھتے ہیں کہ اگر کوئی چور اپنی واردات کرنے کے لیے آتا ہے تو وہ بھونک کر گاؤں والوں کو جگا دیتا ہے مگر شہر میں اس طرح سے کتوں کا آزاد بڑی تعداد میں گھومتے رہنا سمجھ میں نہیں آتا۔ آوارہ کتے تو پوش ایریاز میں بھی پھرتے رہتے ہیں۔
جب کتوں کی Mating کا موسم آتا ہے تو وہ اس میں زیادہ پاگل ہوجاتے ہیں، وہ اتنا لڑتے ہیں کہ ایک دوسرے کو شدید زخمی کردیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے زخموں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں جس میں Rabies کا جراثیم بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے کتے چھپ کر بیٹھتے ہیں اور بھونکتے کم ہیں اور اچانک حملہ کرتے ہیں یا بہت سارے بڑی شدت کے ساتھ حملہ کرتے ہیں اور اپنے مضبوط دانت انسان اور جانوروں کے گوشت میں پیوست کرکے ریبیز کا جراثیم Transmit کرتے ہیں جو بلڈ کے ذریعے سفر کرتا کچھ ہی عرصے میں دماغ تک پہنچ جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان بھی پاگل ہو جاتا ہے جس کی علامتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں جس میں اسے پانی سے ڈر لگتا ہے، اس کی آواز بدل جاتی ہے اور کوئی بھی چیز نگل نہیں سکتا جسے ایک علامت کہتے جس سے اسے پانی سے ڈر لگتا ہے۔
پاگل کتے کے کاٹنے کے متاثرین زیادہ تر بچے، عورتیں اور بوڑھے اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ کتے کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کتا جتنا جسم کے نیچے کا حصہ کاٹے گا اتنا جراثیم کو برین تک پہنچنے میں وقت لگے گا اور اگر اس نے جسم کے اوپر والے حصوں میں کاٹا ہے تو جراثیم کو خون کے ذریعے دماغ تک سفر کرنے میں جلدی ہوگی۔ جیساکہ بچوں کا قد چھوٹا ہوتا ہے۔
اس لیے کتا ان کے اوپر والے حصے میں کاٹتا ہے۔ اگر کتا کاٹتا ہے تو آدمی کو چاہیے کہ اس زخم کو صابن سے پورے 15 منٹ صاف کرکے ایک دم ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہیے۔ مجھے یاد ہے کہ پرانے وقتوں میں اگر پاگل کتا کاٹ لے یا پھر کوئی سانپ ڈس لے تو لوگ کاٹنے والی جگہ سے زور دے کر خون باہر بہا دیتے تھے اور پھر زخم پر کوٹی ہوئی لال مرچیں یا پھر تمباکو ڈال دیتے تھے اور زخم والے حصے کو اوپر کی طرف دماغ کی طرف جانے والے حصے کو کپڑے سے باندھ لیتے تھے۔
پہلے زمانے میں اگر پاگل کتا کاٹ لے تو 14 انجکشن کا کورس کرواتے تھے اور سوئی پیٹ میں لگائی جاتی تھی اور یہ انجکشن زیادہ تر سرکاری اسپتالوں میں ملتا تھا۔ چلتے چلتے اب صرف چار انجکشن لگتے ہیں جو صرف اسلام آباد سے ملتے ہیں۔ سارے صحت کے ادارے وہاں سے منگواتے ہیں لیکن پاگل کتوں کے کاٹنے کے Cases بڑھ جانے سے اس کی Shortage ہو گئی ہے کیونکہ یہ Vaccines کا بھارت سے بھی منگوائی جاتی تھیں مگر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے اب وہاں سے بھی آنا بند ہوگئی ہیں جب کہ کسی اور ملک شاید چائنا سے بھی لائی گئیں مگر WHO کے معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے وہاں سے بھی نہیں آ رہی ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک سندھی اخبار میں یہ پڑھ کر حیران ہو گیا کہ سرکاری رپورٹ کے مطابق جنوری 2019ء سے جولائی 2019ء تک دو لاکھ اور کچھ ہزار افراد پاگل کتوں کے کاٹنے کا شکار ہوئے ہیں۔ میری سمجھ میں ہمیشہ یہ بات نہیں آتی کہ ہم مسئلہ پہلے حل کرنے کے بجائے اس پر اس وقت توجہ دیتے ہیں جب انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔
ہماری حکومتیں اور ادارے کس کام میں مصروف ہیں۔ یہ مسئلہ اس وقت زیادہ زور پکڑ گیا جب شکارپور سے تعلق رکھنے والا بچہ Anti Rabies ویکسین نہ ملنے کی وجہ سے لاڑکانہ میں تڑپ تڑپ کر دم توڑ گیا۔ تقریباً ایک مہینہ پہلے میرا لاڑکانہ کمشنر آفس جانا ہوا تھا جس کے اندرونی گیٹ پر ایک بڑی لوگوں کی قطار دیکھنے میں آئی جو پاگل کتے کے کاٹنے والے متاثرین یا ان کے ساتھ آنے والے افراد تھے۔
اگر یہ ویکسین کورس پرائیویٹ طور پر لیا جائے تو وہ 8 ہزار کا ملتا ہے جو عام غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ جو بچہ میر حسن صرف ویکسین نہ ملنے کی وجہ سے مر گیا تھا اسے تین ماہ پہلے کتے نے کاٹا تھا۔ اس بات کا نوٹس وزیر اعلیٰ سندھ نے بعد میں لیا، اگر وہ پہلے ہی سے ان مسائل کی طرف توجہ دیں تو مسائل بڑھنے کی گنجائش نہیں ہوگی۔
وہ صوبے کے بڑے باس ہیں انھیں ہر چیز پر نظر رکھنی چاہیے جس کے لیے اس کے پاس وزرا اور بیورو کریٹس کی ایک بڑی فوج ہے جو صرف نوکری کے لوازمات حاصل کر رہے ہیں انھیں پتہ ہے کہ وہ سفارش سے آئے ہیں انھیں کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا اور اس کی وجہ سے ہم دن بہ دن تباہی اور ناکامی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
میں بھی ساری عمر یہ سنتا اور پڑھتا آیا ہوں کہ وزیر اعلیٰ نے نوٹس لے لیا ہے، کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور ایمرجنسی کاؤنٹر کھول دیا ہے مگر اس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔
خدارا ، اس سلسلے میں مسلسل پاگل کتوں کو مارنے والی مہم چلائی جائے اور وقت پر ویکسین کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے اور حکومت اپنے اداروں کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھے کیونکہ اگر انھوں نے کسی بھی کام میں سستی کی تو اس سے ہونے والے نقصان کا ذمے دار حکومت کا سربراہ ہے اور اسے اللہ کی عدالت میں جواب دینا ہو گا۔
کئی سال پہلے سال میں ایک سے دو مرتبہ میونسپل کمیٹی یا کارپوریشن آوارہ اور پاگل کتوں کو مارنے کی مہم چلاتی تھیں جس کے لیے ہر سال بجٹ میں ایک رقم مختص کی جاتی تھی اور اس مہم کو چلانے کے لیے ایک خاص اسکواڈ بھی تشکیل دیا جاتا تھا۔ مہم کو کامیاب بنانے کے لیے ڈی سی اجلاس بلواتے تھے۔ اس مہم سے پہلے ریڈیو اور اخبارات میں لوگوں کو کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے پالتوکتوں کو گھر سے باہر نہ نکالیں۔
مہم کے دوران رات کو دیر سے میونسپل کا عملہ جسے کتا مار اسکواڈ کہا جاتا ہے، شہر کے روڈوں پر گلیوں میں ہڈی والے گوشت میں زہر ملا کر کتوں کو دیا جاتا تھا جسے کھانے کے بعد اس کے بدن میں آگ سی جلنے لگتی ہے اور وہ پانی کے تالاب تلاش کر کے اس میں بیٹھنا چاہتا ہے کیونکہ پانی میں بیٹھنے سے زہرکا اثر ختم ہوجاتا ہے۔
جس کے بعد کتا اور جاندار بن جاتا ہے۔ اس عمل کو روکنے کے لیے چھپا کھڑا ہوا اسکواڈ ان کتوں کا پیچھا کرتا ہے اور انھیں لوہے کی بنی ہوئی قینچی سے سر سے پکڑ لیتے ہیں اور جب تک مر نہ جائے نہیں چھوڑتے۔ صبح سویرے پھر ایک گاڑی لے آتے تھے جس میں مرے ہوئے کتوں کو ڈال کر شہر سے باہر ایک ویرانے میں کسی کھڈے میں ڈال دیتے تھے۔
اس طرح سے کھلے کھڈے میں مرے ہوئے کتوں کو نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ ان گڑھوں کو مٹی ڈال کر ڈھانپ دیا جائے کیونکہ ان مرے ہوئے کتوں سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو فضا میں پھیل جاتی ہیں اور ہوا اور مکھیوں کے ذریعے شہر تک پہنچ جاتی ہیں۔ بہرحال اب کئی برسوں سے کتا مار مہم بند ہونے کی وجہ سے ان کی پاپولیشن میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے شہر کے ہر روڈ اور گلیوں میں وہ انسان کے آنے جانے کی راہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور کسی کو گزرنے نہیں دیتے۔ خاص طور پر چھوٹے بچے اور عورتیں اور کمزور افراد ان کے کاٹنے کا شکار جلد ہوجاتے ہیں۔
ہر کتا Rabies نہیں ہوتا مگر ویسے بھی کتوں، گدھوں، گھوڑوں، بلیوں، اونٹوں اور دوسرے پالتو جانوروں میں بھی یہ جراثیم گھس جاتا ہے کیونکہ پاگل کتا گزرتے ہوئے ان جانوروں کو جب چاٹتا ہے تو یہ ریبیز کا جراثیم ان میں شفٹ ہوجاتا ہے اور یہ پالتو جانور جب کسی کو کاٹ لیں گے تو اس کے ذریعے یہ جراثیم انسانوں میں شفٹ ہوجاتا ہے۔ چلو گاؤں میں تو لوگ کتے اس لیے رکھتے ہیں کہ اگر کوئی چور اپنی واردات کرنے کے لیے آتا ہے تو وہ بھونک کر گاؤں والوں کو جگا دیتا ہے مگر شہر میں اس طرح سے کتوں کا آزاد بڑی تعداد میں گھومتے رہنا سمجھ میں نہیں آتا۔ آوارہ کتے تو پوش ایریاز میں بھی پھرتے رہتے ہیں۔
جب کتوں کی Mating کا موسم آتا ہے تو وہ اس میں زیادہ پاگل ہوجاتے ہیں، وہ اتنا لڑتے ہیں کہ ایک دوسرے کو شدید زخمی کردیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے زخموں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں جس میں Rabies کا جراثیم بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے کتے چھپ کر بیٹھتے ہیں اور بھونکتے کم ہیں اور اچانک حملہ کرتے ہیں یا بہت سارے بڑی شدت کے ساتھ حملہ کرتے ہیں اور اپنے مضبوط دانت انسان اور جانوروں کے گوشت میں پیوست کرکے ریبیز کا جراثیم Transmit کرتے ہیں جو بلڈ کے ذریعے سفر کرتا کچھ ہی عرصے میں دماغ تک پہنچ جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان بھی پاگل ہو جاتا ہے جس کی علامتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں جس میں اسے پانی سے ڈر لگتا ہے، اس کی آواز بدل جاتی ہے اور کوئی بھی چیز نگل نہیں سکتا جسے ایک علامت کہتے جس سے اسے پانی سے ڈر لگتا ہے۔
پاگل کتے کے کاٹنے کے متاثرین زیادہ تر بچے، عورتیں اور بوڑھے اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ کتے کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کتا جتنا جسم کے نیچے کا حصہ کاٹے گا اتنا جراثیم کو برین تک پہنچنے میں وقت لگے گا اور اگر اس نے جسم کے اوپر والے حصوں میں کاٹا ہے تو جراثیم کو خون کے ذریعے دماغ تک سفر کرنے میں جلدی ہوگی۔ جیساکہ بچوں کا قد چھوٹا ہوتا ہے۔
اس لیے کتا ان کے اوپر والے حصے میں کاٹتا ہے۔ اگر کتا کاٹتا ہے تو آدمی کو چاہیے کہ اس زخم کو صابن سے پورے 15 منٹ صاف کرکے ایک دم ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہیے۔ مجھے یاد ہے کہ پرانے وقتوں میں اگر پاگل کتا کاٹ لے یا پھر کوئی سانپ ڈس لے تو لوگ کاٹنے والی جگہ سے زور دے کر خون باہر بہا دیتے تھے اور پھر زخم پر کوٹی ہوئی لال مرچیں یا پھر تمباکو ڈال دیتے تھے اور زخم والے حصے کو اوپر کی طرف دماغ کی طرف جانے والے حصے کو کپڑے سے باندھ لیتے تھے۔
پہلے زمانے میں اگر پاگل کتا کاٹ لے تو 14 انجکشن کا کورس کرواتے تھے اور سوئی پیٹ میں لگائی جاتی تھی اور یہ انجکشن زیادہ تر سرکاری اسپتالوں میں ملتا تھا۔ چلتے چلتے اب صرف چار انجکشن لگتے ہیں جو صرف اسلام آباد سے ملتے ہیں۔ سارے صحت کے ادارے وہاں سے منگواتے ہیں لیکن پاگل کتوں کے کاٹنے کے Cases بڑھ جانے سے اس کی Shortage ہو گئی ہے کیونکہ یہ Vaccines کا بھارت سے بھی منگوائی جاتی تھیں مگر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے اب وہاں سے بھی آنا بند ہوگئی ہیں جب کہ کسی اور ملک شاید چائنا سے بھی لائی گئیں مگر WHO کے معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے وہاں سے بھی نہیں آ رہی ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک سندھی اخبار میں یہ پڑھ کر حیران ہو گیا کہ سرکاری رپورٹ کے مطابق جنوری 2019ء سے جولائی 2019ء تک دو لاکھ اور کچھ ہزار افراد پاگل کتوں کے کاٹنے کا شکار ہوئے ہیں۔ میری سمجھ میں ہمیشہ یہ بات نہیں آتی کہ ہم مسئلہ پہلے حل کرنے کے بجائے اس پر اس وقت توجہ دیتے ہیں جب انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔
ہماری حکومتیں اور ادارے کس کام میں مصروف ہیں۔ یہ مسئلہ اس وقت زیادہ زور پکڑ گیا جب شکارپور سے تعلق رکھنے والا بچہ Anti Rabies ویکسین نہ ملنے کی وجہ سے لاڑکانہ میں تڑپ تڑپ کر دم توڑ گیا۔ تقریباً ایک مہینہ پہلے میرا لاڑکانہ کمشنر آفس جانا ہوا تھا جس کے اندرونی گیٹ پر ایک بڑی لوگوں کی قطار دیکھنے میں آئی جو پاگل کتے کے کاٹنے والے متاثرین یا ان کے ساتھ آنے والے افراد تھے۔
اگر یہ ویکسین کورس پرائیویٹ طور پر لیا جائے تو وہ 8 ہزار کا ملتا ہے جو عام غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ جو بچہ میر حسن صرف ویکسین نہ ملنے کی وجہ سے مر گیا تھا اسے تین ماہ پہلے کتے نے کاٹا تھا۔ اس بات کا نوٹس وزیر اعلیٰ سندھ نے بعد میں لیا، اگر وہ پہلے ہی سے ان مسائل کی طرف توجہ دیں تو مسائل بڑھنے کی گنجائش نہیں ہوگی۔
وہ صوبے کے بڑے باس ہیں انھیں ہر چیز پر نظر رکھنی چاہیے جس کے لیے اس کے پاس وزرا اور بیورو کریٹس کی ایک بڑی فوج ہے جو صرف نوکری کے لوازمات حاصل کر رہے ہیں انھیں پتہ ہے کہ وہ سفارش سے آئے ہیں انھیں کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا اور اس کی وجہ سے ہم دن بہ دن تباہی اور ناکامی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
میں بھی ساری عمر یہ سنتا اور پڑھتا آیا ہوں کہ وزیر اعلیٰ نے نوٹس لے لیا ہے، کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور ایمرجنسی کاؤنٹر کھول دیا ہے مگر اس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا۔
خدارا ، اس سلسلے میں مسلسل پاگل کتوں کو مارنے والی مہم چلائی جائے اور وقت پر ویکسین کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے اور حکومت اپنے اداروں کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھے کیونکہ اگر انھوں نے کسی بھی کام میں سستی کی تو اس سے ہونے والے نقصان کا ذمے دار حکومت کا سربراہ ہے اور اسے اللہ کی عدالت میں جواب دینا ہو گا۔