سانحہ چونیاں ملزم مضبوط اعصاب کا مالک مشکل سے اعتراف جرم کیا
پولیٹکل سپورٹ ہونے کی وجہ سے کیس کوآسانی سے حل کرلیاگیا، آر پی او سہیل تاجک
قصور کی تحصیل چونیاں میں 4 بچوں سے زیادتی کے بعد قتل کے معاملہ کو پولیس نے 2 ہفتوں میں ٹریس کرلیا اس کیلیے پولیس نے کیا طریقہ کار اپنایا جس سے ملزم تک جانے اوراس کوگرفتار کرنے میں مدد ملی۔
پولیس کے مطابق ملزم سہیل شہزاد اس قدر بااعتماد تھا کہ اس نے شبہ میں پکڑے جانے کے بعد بھی اپنے بارے میں لگائے جانیوالے الزامات پر کسی قسم کی پریشانی کااظہار نہیں کیا،اس نے جون سے لے کر ستمبر 2019 کے درمیان چونیاں میں چار بچوں محمد عمران، فیضان، علی حسنین اور سلمان اکرم کو اغوا کیا اور زیادتی کے بعد قتل کر دیا۔
ملزم کاطریقہ واردات ایسا تھاکہ وہ بچوں کواپنے رکشہ میں سیر کروانے کالالچ دیتا یا پھر ان کوکہتاہے کہ اس نے لکڑیاں لینے کیلئے جانا ہے اور ایک ٹیلہ پر بچوں کولے جاکرزیادتی کانشانہ بنا ڈالتا، جب بچہ رونے لگتا تو اس کی گردن دبا کروہیں قتل کرکے گڑھے میں پھینک دیتا اور پھر معمول کے مطابق کام شروع کردیتا۔
آر پی او شیخوپورہ سہیل حبیب تاجک نے بتایاکہ ملزم کے بارے میں سائنسی انداز میں تحقیقات کی گئیں۔ اس کیلئے ہیومن انٹیلی جنس اور ڈی این اے کاسراہا گیا ،پولیس نے اس کیس کواپنے کیلئے چیلنج کے طورپر لیا کیونکہ یہ اندھا قتل تھا۔
پولیس نے سب سے پہلے وقوعہ کے پانچ کلو میٹر کے علاقہ کومارک کیا اور پھر وہاں پر تفتیش شروع کی ، مردم شماری کی فہرستیں بھی لیں اور علاقہ کے چودہ سے چالیس سال تک کے آدمیوں کاڈیٹا حاصل کرلیا، ایسے افراد کی فہرست بھی علحیدہ کی کہ کون سے مجرم ہیں جن کا جنسی زیادتی کاریکارڈ ہے۔
شناخی کارڈ کے مطابق ملزم کانام سہیل شہزاد کی جگہ سہیل شہزادہ ہے اوریہ تندور پر کام کرنے جاتاتھا اس کے استاد نے سب سے پہلے اس کے ساتھ زیادتی کی جس کے بعد اس نے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنا شروع کردی ، اس کا استاد بھی زیرحراست ہے جس سے تفتیش کی جارہی ،ملزم سہیل شہزاد سال 2011میں بھی ایک بچے سے زیادتی کرتے ہوئے پکڑا گیا جس پر اس کوپانچ سال کی سزا ہوئی لیکن ڈیڑھ سال بعد رہا ہوگیا ، بعد میں اس نے رکشہ چلانا شروع کردیا۔
پولیس کوجائے وقوعہ پر چنگ چی رکشہ کے ٹائروں کے نشان ملے اوراس کے بعد جوتیاں کے نشان ملے جن کی وجہ سے اس مجرم تک جانے میں بہت مدد ملی ، آر پی او سہیل تاجک کے مطابق اس بریک تھرو کیلئے حاکم نامی سپاہی نے بہت اہم کام کیا اوراس نے اس کا سراغ لگا لیا ، پولیٹکل سپورٹ ہونے کی وجہ سے کیس کوآسانی سے حل کرلیاگیا ، ملزم مضبوط اعصاب کا مالک ہے کہ بڑا جرم کرنے کے باوجود اس سے اعتراف کرانے میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑا ۔
پولیس کے مطابق ملزم سہیل شہزاد اس قدر بااعتماد تھا کہ اس نے شبہ میں پکڑے جانے کے بعد بھی اپنے بارے میں لگائے جانیوالے الزامات پر کسی قسم کی پریشانی کااظہار نہیں کیا،اس نے جون سے لے کر ستمبر 2019 کے درمیان چونیاں میں چار بچوں محمد عمران، فیضان، علی حسنین اور سلمان اکرم کو اغوا کیا اور زیادتی کے بعد قتل کر دیا۔
ملزم کاطریقہ واردات ایسا تھاکہ وہ بچوں کواپنے رکشہ میں سیر کروانے کالالچ دیتا یا پھر ان کوکہتاہے کہ اس نے لکڑیاں لینے کیلئے جانا ہے اور ایک ٹیلہ پر بچوں کولے جاکرزیادتی کانشانہ بنا ڈالتا، جب بچہ رونے لگتا تو اس کی گردن دبا کروہیں قتل کرکے گڑھے میں پھینک دیتا اور پھر معمول کے مطابق کام شروع کردیتا۔
آر پی او شیخوپورہ سہیل حبیب تاجک نے بتایاکہ ملزم کے بارے میں سائنسی انداز میں تحقیقات کی گئیں۔ اس کیلئے ہیومن انٹیلی جنس اور ڈی این اے کاسراہا گیا ،پولیس نے اس کیس کواپنے کیلئے چیلنج کے طورپر لیا کیونکہ یہ اندھا قتل تھا۔
پولیس نے سب سے پہلے وقوعہ کے پانچ کلو میٹر کے علاقہ کومارک کیا اور پھر وہاں پر تفتیش شروع کی ، مردم شماری کی فہرستیں بھی لیں اور علاقہ کے چودہ سے چالیس سال تک کے آدمیوں کاڈیٹا حاصل کرلیا، ایسے افراد کی فہرست بھی علحیدہ کی کہ کون سے مجرم ہیں جن کا جنسی زیادتی کاریکارڈ ہے۔
شناخی کارڈ کے مطابق ملزم کانام سہیل شہزاد کی جگہ سہیل شہزادہ ہے اوریہ تندور پر کام کرنے جاتاتھا اس کے استاد نے سب سے پہلے اس کے ساتھ زیادتی کی جس کے بعد اس نے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنا شروع کردی ، اس کا استاد بھی زیرحراست ہے جس سے تفتیش کی جارہی ،ملزم سہیل شہزاد سال 2011میں بھی ایک بچے سے زیادتی کرتے ہوئے پکڑا گیا جس پر اس کوپانچ سال کی سزا ہوئی لیکن ڈیڑھ سال بعد رہا ہوگیا ، بعد میں اس نے رکشہ چلانا شروع کردیا۔
پولیس کوجائے وقوعہ پر چنگ چی رکشہ کے ٹائروں کے نشان ملے اوراس کے بعد جوتیاں کے نشان ملے جن کی وجہ سے اس مجرم تک جانے میں بہت مدد ملی ، آر پی او سہیل تاجک کے مطابق اس بریک تھرو کیلئے حاکم نامی سپاہی نے بہت اہم کام کیا اوراس نے اس کا سراغ لگا لیا ، پولیٹکل سپورٹ ہونے کی وجہ سے کیس کوآسانی سے حل کرلیاگیا ، ملزم مضبوط اعصاب کا مالک ہے کہ بڑا جرم کرنے کے باوجود اس سے اعتراف کرانے میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑا ۔