بارہویں کھلاڑی کی دہشت

کریز پر موجود کھلاڑی بارہویں کھلاڑی کی ڈیڈلائن سے پہلے ہی گھبراتے نظر آرہے ہیں، جس کو ابھی بہت دن باقی ہیں


احسن اقبال خان October 06, 2019
کیا مولانا 28 اکتوبر تک اپنے مارچ کی تیاری کربھی پائیں گے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بارہواں کھلاڑی ٹیم سے باہر لیکن ٹیم کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے۔ اسے اتنا پتہ ہوتا ہے کہ اس کو ٹیم سے کیوں باہر کیا جارہا ہے۔ لیکن جب تک وہ ٹیم سے باہر ہوتا ہے، اگرچہ وہ اپنے کام میں بڑی مہارت رکھتا ہو، لیکن حریف سائیڈ اس سے مکمل مطمئن ہوتی ہے۔ چونکہ عمران خان کی سیاست میں انٹری کے بعد سیاست میں کرکٹ کی اصطلاحات کا بڑا چرچا ہوا ہے، اسی لحاظ سے اگر بات سیاست کی ہوجائے تو صورت حال کچھ مختلف نظر آتی ہے۔ کریز پر موجود کھلاڑی بارہویں کھلاڑی کی ڈیڈلائن سے پہلے ہی گھبراتے نظر آتے ہیں، جس کو ابھی بہت دن باقی ہیں۔

کہنے والوں نے کہا تھا کہ کنٹینر بھی دیں گے۔ لیکن نظر تو یہ آرہا ہے راستہ ملنا بھی مشکل ہے۔ کیونکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پہلے ہی راستہ دینے سے انکار کرچکے ہیں۔ اور ساتھ ہی صوبہ بھر میں ایک ماہ تک جلسے جلوسوں پر بھی پابندی لگانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ جبکہ باقی صوبائی حکومتوں کا راستہ دینے نہ دینے کا کوئی بیان نہیں آیا، البتہ جیل کی دھمکیاں ضرور مل رہی ہیں۔ اسی لیے بارہویں کھلاڑی نے میدان میں اترنے کی بھرپور تیاری کرلی ہے، اور اپنا ڈریسنگ روم بھی تیار کرالیا ہے، جو چار بلٹ پروف کنٹینر پر مشتمل ہوگا۔ بیڈ رومز، واش رومز کا بھی مکمل انتظام ہے۔ اور تو اور ہر کنٹینر کے بارے میں سنا ہے دس سے بارہ بندے بھی آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔

اس ساری صورتحال سے یہ معلوم ہوا کہ مولانا بڑے ضدی ہیں، جس بات پر ڈٹ جائیں پھر کسی کی نہیں سنتے۔ عمران خان نے ان کو اپنی تقریر سے بھی متاثر کرنے کی کوشش کی۔ پوری قوم اس تقریر سے متاثر ہوئی اور یقیناً ایک بہترین تقریر تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا نشہ کب تک باقی رہتا ہے، جو مولانا کے مارچ کےلیے خصوصیت کا حامل ہے۔ لیکن مولانا چونکہ خود ایک بہترین مقرر ہیں، شاید اس لیے ان کے نزدیک یہ تقریر کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

مولانا کے بارے میں کہا گیا کہ وہ مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے دامن میں جو فی الحال پناہ لیے ہوئے ہیں، وہ بھی کچھ ایسا ہی ذہن رکھتے ہیں۔ اور کہنے والوں کی مراد اس سے یہ ہے کہ ایک تو ان کی مجالس میں مذہبی لباس زیب تن کرنے والے اکثر لوگ ہوتے ہیں، دوسرا یہ کہ مولانا خود جیسے بھی ہوں لیکن ان کا لباس صلحا والا ہوتا ہے۔ مولانا اپنے جلسے وغیرہ میں ختم نبوت کی بات بھی کردیتے ہیں اور اس کے تحفظ کے خلاف کسی بھی قدم کی مذمت بھی کرتے ہیں۔

مولانا نے اس بارے میں بھی بڑے واضح الفاظ میں اس کا جواب دیا کہ جو چیز ہمارے ایمان کی بنیاد ہے، اور ہمارے آئین کا ایک عظیم حصہ ہے، کیا اس بارے میں ہمیں سمجھوتہ کرلینا چاہیے۔ اس کا کھلا سا مطلب تو یہ ہوا کہ ختم نبوت کی بات نہ کرو، جو تمہارے ایمان کی بنیاد ہے اور اس کے علاوہ کسی بھی ایشو پر بات کرلو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر مذہب کی بات کر بھی لی تو اس میں کون سی برائی کی بات ہے۔ آخر ہمارے مذہب میں ایسا کیا ہے کہ جسے کوئی مسئلہ نہ ہو اس کا سب سے بڑا مسئلہ اور رکاوٹ مذہب بن جاتا ہے؟ ایسا کیا معاملہ ہے کہ مذہبی سیاست کی رٹ لگا کر سیاست کو مذہبی و غیر مذہبی میں تقسیم کردیا جاتا ہے؟ حالانکہ سیاست صرف ایک ہی ہے اسلامی مذہبی سیاست۔ جو یہ سیاست نہیں کرسکتا تنقید اس پر ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے، جس میں صرف اسلامی سیاست ہونی چاہیے۔ ہاں مولانا پر اس بات پر تنقید ہونی چاہیے کہ جو باتیں کوئی دوسرا کم ہی کرتا ہے مولانا وہ باتیں اتنی کثرت سے کیوں کرتے ہیں، اور نہ جانے ان کو کون بتاتا ہے۔

مولانا کی باتوں کو دیکھا جائے تو ان باتوں میں ختم نبوت اور قادیانی گروہ کے پھلنے پھولنے کے علاوہ سرفہرست بات بقول ان کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی ہے۔ مسئلہ کشمیر ہے، پر ان کا ایک مخصوص بیانیہ ہے، اور ملک کی معیشت کی حالت ہے، جس پر وہ اپنا موقف بڑے کھلے انداز میں پیش کررہے ہیں۔

حیرانگی اس بات پر ہے کہ اگر مولانا غلط کہہ رہے ہیں تو کوئی حکومتی کارندہ ان کو چیلنج کیوں نہیں کرتا کہ حضرت جو باتیں آپ بار بار اپنے دھرنوں میں دہرا رہے ہیں، ایسا آپ کس بنیاد پر کررہے ہیں؟

ان پر یہ بھی تنقید کی جاتی رہی ہے کہ گزشتہ کئی برس سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ انہوں نے کشمیر کے لیے کیا کیا؟ چلو مان لیا کہ کچھ نہیں کیا، لیکن کم از کم اپنے ہاتھ سے جانے تو نہیں دیا۔ اگر کوئی ترقی نہیں کی گئی تو کسی تنزلی کا بھی شکار نہیں ہوئے۔ لیکن آج وہ بھی حکومت سے یہی سوال کر رہے ہیں کہ آپ نے کشمیر کےلیے کیا کیا۔

اسی لیے انہوں نے 28 اکتوبر کے دن کا چناؤ کیا ہے۔ اب انتظار یہ ہے کہ کیا مولانا 28 اکتوبر تک اپنے مارچ کی تیاری کربھی پائیں گے یا نہیں؟ اور اگر کامیاب ہوگئے تو 28 کے بعد کیا ہوگا؟ یقینی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن سننے میں اتنا ضرور آیا ہے کہ ڈی چوک میں درس نظامی کی اہم کتابوں کی تعلیم و تعلم کا بھی ارادہ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں