پاکستان میں حصول انصاف   پہلا حصہ

پاکستان کے آئین کی شق نمبر10 کے مطابق حصولِ انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔


مونا خان October 06, 2019

یہ وہی عنوان ہے جب کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے آخری سال میں ہمارے استاد محترم اور نامور ہدایت کار قاسم جلالی صاحب نے ہمیں پروجیکٹ دیا کہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ڈاکومنٹری بنانی ہے۔ تو ہم نے بھی پاکستان میں حصول انصاف کے ترازوکو ناپنے کے لیے ریسرچ کا آغاز کیا۔

کورٹ میں شوٹ پر پریشان چہروں کے علاوہ ، وہاں الفاظ کی ضرورت نہ پڑی کیونکہ ہر ایک درد ناک کہانی ان کی آنکھوں میں واضح تھی اور وہاں حال ایسا جیسا کہ کوئی مچھلی بازار۔ درد بھرے مناظر شوٹ کیے اور خود کو داد دی کہ کیا عنوان لیا ہے جس میں اسلام کے نام پر لی گئی، اس زمین کا کیا حال ہے اور وہی گورے اپنے ملک میں ہمارے خلفائے راشدین کی طرز زندگی اور قوانین پر عمل پیرا ہیں مگر ہم یہاں انصاف کی بات کریں تو فیض احمد فیض کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے

منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

آج بھی امجد فرید صابری، شاہ زیب ، مرید عباس اور نجانے کتنی بے گناہ جانیں اپنی قبروں میں حشر کے دن کی منتظر ہوں گی جو اللہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کریں گی۔ جہاں آج بھی ان سب کے اہل و عیال دنیا کی عدالتوں میں حصول انصاف کے لیے در بدر ہو رہے ہیں۔ زارا عباس، مرید عباس کی اہلیہ میری قریبی دوست اور بہن ہے مگر آج تک زارا کا سامنا احساس ندامت کے سبب نہ کرسکی، جس میں زارا کی آنکھیں مجھ سے یہ سوال کرتی ہیں کہ مونا جو تم بات کرتی ہو صحافت کی ، حق کی آواز کی ، آج وہ کہاں ہے؟

ملک میں پے درپے ہونے والے قانون شکن واقعات اور لرزہ خیز جرائم اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں یہاں انصاف کی بنیادیں کھوکھلی ہیں اور مجرم دندناتا پھرتا ہے۔ اس تحریر کو لکھتے ہوئے مجھے اپنی زندگی کا وہ تکلیف دہ وقت یاد آگیا جب ہمارے قریبی عزیز نے میری فیملی کی زندگی اجیرن کردی ۔ تو میں پولیس اسٹیشن کے کئی چکر FIR کے لیے کاٹتی رہی سب نے سمجھایا کہ کون کھائے گا، عدالتوں کے دھکے، کون بھگتے گا پیشیاں، کون دے گا وکیلوں کی فیس؟ اور جب سارے طویل مراحل طے کر لو گی تو کیا انصاف ملے گا؟

پر میں اپنے ضمیر کو مار نہ سکی اور وہی مجھے ایڈوکیٹ لیاقت علی خان ایک فرشتے کی طرح مدد کو آئے اور انھوں نے میرا ساتھ دیتے ہوئے میرے ایک نہیں بلکہ دو دو مقدمات کو دیکھا۔ انھوں نے ایک پیسے کا تقاضا نہ کیا مگر میں نے جب ایک چیک دینا چاہا تو انھوں نے چیک کو دیکھے بغیر واپس کردیا اور بس اتنا کہا کہ آپ میری بہن ہیں میں یہ لکھتے ہوئے دلی طور پر ان کی مشکور ہوں جنھوں نے اپنے عمل سے مجھے پرائمری جماعت کی اردو کے ایک مضمون کا شعر یاد دلا دیا جوکہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

پہلی دفعہ خود مدعی بن کر کورٹ جانا اس سوچ کے ساتھ اب یہاں آنا جانا معمول ہوگا جہاں پہلے ہی غریب اپنے مقدمات کے لیے بوری بستر ڈالے ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ اب یہی ان کا دوسرا آشیانہ ہیں۔ ہر پیشی پر نجانے کیوں امریکن Frank Caprio Cheif Municiple Judge یاد آجاتے ہیں جن کی مثالیں Social Media پر بھری پڑی ہیں۔

پاکستان کے آئین کی شق نمبر10 کے مطابق حصولِ انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے، لیکن اسے آپ ہماری قومی بدقسمتی سے عبارت کریں یا کچھ نام دے لیں سچ تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں انصاف کا حصول ایک طبقاتی مسئلہ بن چکا ہے، طاقتور قانون اپنے تابع رکھنے کا ہنر جانتا ہے اورجوکمزور ہے اس کے لیے انصاف کا حصول تقریبا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ غریب طبقہ پہلے مرحلے میں طاقتور کے ظلم وستم کا نشانہ بنتا اور پھر انصاف کے حصول کے لیے اپنے ہی ریاستی اور حکومتی اداروں کے سفاک اور بے رحمانہ رویوں کا شکار ہوکر در بدرکی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ انصاف کے حصول کے لیے حقیقت پر مبنی ایف آئی آر درج کرانا مشکل ترین کام ہے جب کہ جھوٹی ایف آئی آر درج کرانا انتہائی سہل ہے۔

سابق جنرل مشرف کے دور میں پولیس کے نظام میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں، اب تفتیش کا ایک الگ شعبہ ہوتا ہے، استغاثہ ایک الگ شعبہ ہوتا ہے۔ اب جو پراسیکیوشن آفیسر ہے اس کے پاس چابی ہے، وہ تفتیش میں کوئی کمی بیشی کرے گا تو اس کے نتیجے میں چالان کم زور ہوگا۔ استغاثہ کے پاس بھی کوئی چوائس نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں ہم حالیہ شاہ رخ جتوئی کیس کو مثال کے طور پر لیتے ہیں۔

اس میں استغاثہ کہے کہ مقتول کے وارث نے معاف کر دیا ہے اور ہمیں اس پرکوئی اعتراض نہیں تو عدالت کے پاس کوئی اختیار نہیں، مقتول کا وارث اپنا حق تومعاف کرسکتا ہے لیکن اس بندے نے ایک مخصوص فرد کے ہی حق کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ اس نے پورے معاشرے کو ہلایا ہے۔ اس میں پھر اسٹیٹ کا حق بھی شامل ہے۔ اب سپریم کورٹ کے جج کے پاس اختیار موجود ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی یہی کہا ہے کہ اس میں انسداد دہشت گردی کی جو دفعات تھیں ان کو ختم کرکے آپ نے غلط کیا ہے انھیں دوبارہ شامل کریں۔

ہمارے عدالتی نظام میں ایک لفظ بہت استعمال ہوتا ہے جسے دیوانی مقدمات کہا جاتا ہے درحقیقت یہ مقدمات لوگوں کو حقیقی معنوں میں دیوانہ بنا دیتے ہیں ۔ضابطہ دیوانی 1908 میں بنایا گیا تھا آج 2019 ہے، اسے 111 برس ہو چلے۔ ہم چند ایک اصلاحات کے علاوہ کچھ بھی نہ کرسکے۔ یہ ایک ایسا گھن چکر ہے جس میں حصول انصاف انتہائی مشکل اور ناممکن ہے ، مثلا کاز آف ایکشن اس میں اتنے لوگوں کو حاصل ہوتا ہے کہ جو مقدمہ اصلاً دو فریقوں کے درمیان ہوتا ہے، اس میں آٹھ، دس مزید شامل ہوجاتے ہیں، اور پھر ان فریقوں کی وجہ سے معاملہ مزید لٹک سکتا ہے۔ اس میں مقدمے کے التواء اور تاخیرکے اس قدرسہل راستے موجود ہیں کہ ایک عام آدمی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا اور عدالتوں کے چکر میں ذلیل وخوار ہوجاتا ہے۔اس طرح کے بہت سارے مسائل عدالتی نظام میں ہیں۔

مقدمات میں تاخیرکا ایک بہت بڑا سبب خود وکلاء صاحبان بھی ہیں، وہ کیسے میں آپ کو سمجھاتی ہوں۔ جتنا مقدمہ طوالت اختیارکرے گا اتنا ہی وکیل کو مالی طور پر فائدہ پہنچے گا، جس عام بول چال کی زبان میں مقدمہ لٹکانا بھی کہتے ہیں۔ اکثر اوقات ایسے دیکھنے اور سننے میں آتا ہے کہ کسی سنیئر وکیل کا لوئرکورٹ میں بھی مقدمہ چل رہا ہوتا ہے اور اس کا اسسٹنٹ وکیل کورٹ میں آجاتا ہے کہ وکیل صاحب کسی اور مقدمے میں ہائی کورٹ میں ہیں، اگر وکیل معروف اور با اثر ہو تو جج بے چارگی کی تصویر بن جاتا ہے، اگر وہ کچھ کرنے کی کوشش کرے تو بار کی احتجاجی سیاست اسی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ یہ سب کچھ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخارچوہدری کے لیے چلائی جانی والی وکلاء تحریک کے نتیجے میں رونما ہوا ہے۔ جس میں وکلا ایک سیاسی اور احتجاجی قوت بن کر ابھرے ہیں۔

(جاری ہے۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔