میدانِ سندھ اسمبلی
میرے لیے اردو بولنے والے بھی اتنے ہی سندھی ہیں جتنے کہ سندھی بولنے والے ہو سکتے ہیں۔
کارڈ کی کئی اقسام ہیں ۔ کالا باغ ڈیم بھی ایک سیاسی کارڈ ہے جس سے پنجاب میں ہمدردیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح سندھ کے بھی سیاسی کارڈ ہیں، آپ کی کارکردگی کتنی ہی بری کیوں نہ ہو مگر اس کے کھیلنے سے آپ کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور آج پچاس سال سے پیپلز پارٹی سندھ میں کچھ اس طرح سے قائم ہے کہ اسے کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔ (ماسوائے اسٹیبلشمنٹ کے) اور ایک ہوتا ہے مذہبی کارڈ جو حکومت گرانے کے لیے یا پھر حکومت بچانے کے لیے کھیلا جاتا ہے ۔
کراچی میں متحدہ جائے تو جائے کہاں۔ میں چھوڑوں ہوں کمبل کو مگر کمبل مجھے نہ چھوڑے ہے۔ برصغیر کی بہت بڑی تہذیب ، اور یہ ان کے وارث ہیں جن کے اوپر متحدہ کا سکہ چلتا ہے۔ اردو زبان ان لوگوں کی مادری زبان ہے لیکن پورے پاکستان میں رابطے کا باعث ہے ، یہ وہ زبان ہے جس کا جنم دلی میں ہوا ۔ تہذیب در تہذیب کی عکاس ہے۔ مسلمانوں کے عروج کے دامن سے نکلی تھی یہ زبان۔ لکھنو کی سر زمین، دلی ، آگرا یوں کہیے مسلمانان ہند کی روح رہی یہ زبان۔ اس پوری تہذیب کو قرۃ العین حیدر نے اپنی آنکھوں سے اجڑتے دیکھا۔ اس کے باب وہ سب رقم کرتی ہیں ۔
اچھے لگے تھے اکبر زیدی جب وہ اس پشیمانی کا اظہار کر بیٹھے کہ کراچی کے اسکولوں میں بچوں کو سندھ کی تاریخ نہیں پڑھائی جاتی اور اپنے ایاز امیر جب یہ جرات کر بیٹھے کہ یہ کیسی غاصبوں کی تاریخ ہے جو سرکاری سطح پر پڑھائی جاتی ہے۔ وہ غاصب جو سینٹرل ایشیا سے حملہ آور ہوئے ، ان کو ہم نے ہیرو کر کے پیش کیا۔ ہم نے مشرقی پاکستان کو کہا کہ آپ کی قومی زبان اردو ہے۔ وہ پہلی اینٹ تھی اس بنیاد جس کی دیوار چوبیس سال بعد ڈھے گئی ۔ وہ پہلا خراب بیج تھا جو ہم نے بویا تھا اور اس کی فصل ہمیں چوبیس سال بعد کاٹنا پڑی۔
سیاست پیغمبری صفت بھی ہو سکتی ہے تو کسی کے ہاتھ میں غاصبی حقیقت بھی، یوں تو سندھ میں لسانی تضادات کی اپنی ایک تاریخ ہے مگر جنرل ضیاء الحق کو ان میں بہت سے فوائد بھی نظر آئے۔ اور پھر جنرل مشرف ۔ 12 مئی 2007ء کو جب یہاں نہتے لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں تو آپ شام کو اسلام آباد میں کرائے پر لائے ہوئے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہے تھے کہ انھوں نے کراچی میں بھی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اور یہاں بھی!
ابھی ہم وزیر قانون کے آرٹیکل 149 کی غلط تشریح سے نکلے ہی تھے کہ سندھ اسمبلی میں سندھ کی تقسیم کے لیے بل پیش ہوا جو مسترد ہوا۔ اس دن بھی پیپلز پارٹی نے سندھ کارڈ خوب کھیلا اور اس بار بھی چھکا لگایا مگر یہ چھکا لگانے والے کے لیے بھی بھلا تھا اور جس نے لگوایا اس کے لیے بھی بھلا ۔ یہ دونوں اپنے اپنے حلقے کے لوگوں سے مخاطب تھے ۔ اور دونوں کی کارکردگیاں ردی کی ٹوکری میں۔ جو کراچی کی میونسپلٹی کا متحدہ نے بیڑا غرق کیا وہ ان کے ووٹر بھول گئے اور جو پیپلز پارٹی نے دیہی سندھ کی تباہی مچائی ہے یا سندھ کے بڑے شہروں میں، وہ بھی سندھی بھول گئے ۔ پی ٹی آئی لاکھ کوشش کرے کہ سندھ میں وہ متحدہ کی نعم البدل بنے گی یہ ان کی بہت بڑی بھول ہو گی ۔
میرے لیے اردو بولنے والے بھی اتنے ہی سندھی ہیں جتنے کہ سندھی بولنے والے ہو سکتے ہیں ۔ کتنی زبانیں ہیں جو کراچی میں بولی جاتی ہیں ، مختلف مذاہب کے لوگ ہیں، مختلف مکاتب سوچ و فکر ہیں ۔ ثقافتیں ہیں ۔ شاید ہی پاکستان کے کسی اور شہر میں ہی ثقافتیں اور مذاہب ایک جگہ یکجا ہوںگے۔ اور پھر یوں خود بہ خود ایک سوچ ابھرتی ہے کہ ہمیں ایک ساتھ رہنا ہے ۔ یہ شہر جب آباد تھا ، بھرپور تھا ، ترقی اور تعمیر میں سب سے آگے تھا ۔ اس نے لاکھوں لوگوں کو جذب کیا اور اب جب یہ شہر بدنصیب ٹھہرا ہے کہ اس کا کوئی وارث نہیں۔ اور پھر اس کی طرف لوگوں نے آنا کم کر دیا ، سرمایہ کاری رک گئی ، ورنہ آج اس شہر کی انڈر گرائونڈ ٹرین لندن کی طرح ہوتی۔ بسوں کے ٹریکس ہوتے یہ شہر وسیع بھی ہو رہا تھا اور ترقی یافتہ بھی۔ اس کا ایئرپورٹ دبئی کے ایئرپورٹ سے بھی بڑا ہوتا۔
اس شہر کی بد نصیبی کہ اس شہر کو ، قتل و غارت اور، لسانیت کے جال میں پھنسا دیا گیا۔ پہلے پٹھانوں ، پھر سندھیوں ، پھر پنجابیوں سے لڑایا گیا ۔ روزانہ قتل، لاشوں کے ڈھیر ، بوری بند لاشیں ، شاید ہی کسی اور شہر میں ایسا ہوا ہو گا۔ جیتا کون ؟ اور ہارا کون؟ صرف پاکستان۔
بات کرتے کرتے ایسا بھی ہوتا ہے قصہ میرے والد کا کھل جاتا ہے ۔ جب ممتاز بھٹو نے سندھ اسمبلی میں سندھی زبان کا بل پیش کیا اور اس وقت ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے نئے صدر منتخب ہوئے تھے آئین بھی نہیں بنا تھا ۔ شملا جانے سے پہلے وہ کچھ سیاستدانوں سے ملے تھے ، ان میں میاں طفیل بھی تھے اس ملاقات میں میرے والد قاضی فیض محمد بھی موجود تھے۔ نکلتے وقت بھٹو صاحب کو میرے والد نے یہ کہا کہ ممتاز بھٹو کو یہ سندھی زبان والا بل لانے کی ضرورت نہیں تھی۔
یہ بات بھٹو کو سمجھ آئی کہ ممتاز بھٹو اپنی مقبولیت کے لیے سندھ کارڈ کھیل رہے ہیں اور پھر جب لسانی فسادات عروج پر پہنچے تو ریڈیو پاکستان پر خبروں میں میرے والد نے یہ سنا کہ انھیں، جی ایم سید ، شیخ ایاز ، سندھیوں کی طرف سے اور دوسری طرف رئیس امروہوی، پروفیسر غفور اور بہت سے لوگوں کو ذوالفقار علی بھٹو نے گول میز کانفرنس کے لیے راولپنڈی مدعو کیا ہے۔ جب اجلاس شروع ہوا تو سندھیوں کی طرف سے کوئی بھی نہیں پہنچا تھا ، سوائے میرے والد کے اور دوسری طرف بہت لوگ تھے ۔
میرے والد نے درخواست کی کہ سب سے پہلے انھیں بولنے کا موقع دیا جائے جو بات بھٹو صاحب نے مانی اور وہ گھنٹہ بھر بولے ۔ اس کے بعد یہ نہیں کہ ان کے درمیان کوئی گرما گرمی ہوئی، بلکہ سب نے میرے والد کو گلے سے لگایا اور ابا کی تقریر کا کچھ حوالہ بھی انھوں نے اسمبلی میں پیش کیا۔ میرے والد کی تقریر ایک صوفی منش کی تقریر تھی ۔ ان کی وہ تقریر سندھی ادب میں شاہکار تصور کی جاتی ہے۔ جس نے سندھی زبان کا تحفظ بھی کیا تو ان نئے آنے والوں کو تاریخ کے اوراق بھی دکھائے کہ سندھی زبان، اردو زبان سے بھی قدیم ہے ۔ اور یہ وہ درس تھا محبت کا جو ان کو اپنے اجداد سے ملا ۔ ہجرت کرنے والوں کا جو استقبال سندھیوں نے کیا اتنا پاکستان میں کسی نے بھی نہیں کیا۔
آج وقت گزرنے کے ساتھ جو میں دیکھتا ہوں کہ ان کے دس بچوں میں، میں سب سے چھوٹا ہوں، میری بیوی اردو بولنے والی سندھی ہے اور میں سندھی بولنے والا سندھی۔ ابا کے دس بچوں میں ایک میں ہوں جو ایکنئے سندھ کا امین ہے ۔ اور میرے بچے اس نئے سندھ کے سفیر ۔ ایک ایسا سندھ جس پر پاکستان کو فخر ہونا چاہیے۔
آئیے کہ ہم اس تہذیب کے وارث بنیں، موہن جو دڑو کے وارث ، وادی مہران کے وارث ، اس تاریخ کے وارث جس میں ''ہوشو'' نے چارلس نپیئر کی فوج سے لڑ کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا ۔ میر شیر محمد ٹالپر جس کو برنس روڈ پر بندوقوں اور توپوں کے سائے میں موت کی سزا دی گئی تھی۔ یہ دونوں سندھی نہیں تھے مگر اس وطن کے ہو گئے تھے ۔
اور آج تک جو نظام وڈیروں کی شکل میں چارلس نیپئر اس سندھ کو دے کر گیا تھا وہ اب بھی قائم ہے ،لاگو ہے، اور اگر سندھ یونہی اسی طرح چلتا رہا تو نہ کراچی کی میونسپل کے حالات بدلیں گے نہ باقی ماندہ سندھ کو وڈیروں سے نجات ملے گا اور نہ ہی پاکستان اس بھنور سے نکلے پائے گا۔
ماٹی کہے کمہار سے تو کیا گوندھے موئے
ایک دن ایسا آئے گا میں گوندوں گی توئے
(کبیر)
کراچی میں متحدہ جائے تو جائے کہاں۔ میں چھوڑوں ہوں کمبل کو مگر کمبل مجھے نہ چھوڑے ہے۔ برصغیر کی بہت بڑی تہذیب ، اور یہ ان کے وارث ہیں جن کے اوپر متحدہ کا سکہ چلتا ہے۔ اردو زبان ان لوگوں کی مادری زبان ہے لیکن پورے پاکستان میں رابطے کا باعث ہے ، یہ وہ زبان ہے جس کا جنم دلی میں ہوا ۔ تہذیب در تہذیب کی عکاس ہے۔ مسلمانوں کے عروج کے دامن سے نکلی تھی یہ زبان۔ لکھنو کی سر زمین، دلی ، آگرا یوں کہیے مسلمانان ہند کی روح رہی یہ زبان۔ اس پوری تہذیب کو قرۃ العین حیدر نے اپنی آنکھوں سے اجڑتے دیکھا۔ اس کے باب وہ سب رقم کرتی ہیں ۔
اچھے لگے تھے اکبر زیدی جب وہ اس پشیمانی کا اظہار کر بیٹھے کہ کراچی کے اسکولوں میں بچوں کو سندھ کی تاریخ نہیں پڑھائی جاتی اور اپنے ایاز امیر جب یہ جرات کر بیٹھے کہ یہ کیسی غاصبوں کی تاریخ ہے جو سرکاری سطح پر پڑھائی جاتی ہے۔ وہ غاصب جو سینٹرل ایشیا سے حملہ آور ہوئے ، ان کو ہم نے ہیرو کر کے پیش کیا۔ ہم نے مشرقی پاکستان کو کہا کہ آپ کی قومی زبان اردو ہے۔ وہ پہلی اینٹ تھی اس بنیاد جس کی دیوار چوبیس سال بعد ڈھے گئی ۔ وہ پہلا خراب بیج تھا جو ہم نے بویا تھا اور اس کی فصل ہمیں چوبیس سال بعد کاٹنا پڑی۔
سیاست پیغمبری صفت بھی ہو سکتی ہے تو کسی کے ہاتھ میں غاصبی حقیقت بھی، یوں تو سندھ میں لسانی تضادات کی اپنی ایک تاریخ ہے مگر جنرل ضیاء الحق کو ان میں بہت سے فوائد بھی نظر آئے۔ اور پھر جنرل مشرف ۔ 12 مئی 2007ء کو جب یہاں نہتے لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں تو آپ شام کو اسلام آباد میں کرائے پر لائے ہوئے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہے تھے کہ انھوں نے کراچی میں بھی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اور یہاں بھی!
ابھی ہم وزیر قانون کے آرٹیکل 149 کی غلط تشریح سے نکلے ہی تھے کہ سندھ اسمبلی میں سندھ کی تقسیم کے لیے بل پیش ہوا جو مسترد ہوا۔ اس دن بھی پیپلز پارٹی نے سندھ کارڈ خوب کھیلا اور اس بار بھی چھکا لگایا مگر یہ چھکا لگانے والے کے لیے بھی بھلا تھا اور جس نے لگوایا اس کے لیے بھی بھلا ۔ یہ دونوں اپنے اپنے حلقے کے لوگوں سے مخاطب تھے ۔ اور دونوں کی کارکردگیاں ردی کی ٹوکری میں۔ جو کراچی کی میونسپلٹی کا متحدہ نے بیڑا غرق کیا وہ ان کے ووٹر بھول گئے اور جو پیپلز پارٹی نے دیہی سندھ کی تباہی مچائی ہے یا سندھ کے بڑے شہروں میں، وہ بھی سندھی بھول گئے ۔ پی ٹی آئی لاکھ کوشش کرے کہ سندھ میں وہ متحدہ کی نعم البدل بنے گی یہ ان کی بہت بڑی بھول ہو گی ۔
میرے لیے اردو بولنے والے بھی اتنے ہی سندھی ہیں جتنے کہ سندھی بولنے والے ہو سکتے ہیں ۔ کتنی زبانیں ہیں جو کراچی میں بولی جاتی ہیں ، مختلف مذاہب کے لوگ ہیں، مختلف مکاتب سوچ و فکر ہیں ۔ ثقافتیں ہیں ۔ شاید ہی پاکستان کے کسی اور شہر میں ہی ثقافتیں اور مذاہب ایک جگہ یکجا ہوںگے۔ اور پھر یوں خود بہ خود ایک سوچ ابھرتی ہے کہ ہمیں ایک ساتھ رہنا ہے ۔ یہ شہر جب آباد تھا ، بھرپور تھا ، ترقی اور تعمیر میں سب سے آگے تھا ۔ اس نے لاکھوں لوگوں کو جذب کیا اور اب جب یہ شہر بدنصیب ٹھہرا ہے کہ اس کا کوئی وارث نہیں۔ اور پھر اس کی طرف لوگوں نے آنا کم کر دیا ، سرمایہ کاری رک گئی ، ورنہ آج اس شہر کی انڈر گرائونڈ ٹرین لندن کی طرح ہوتی۔ بسوں کے ٹریکس ہوتے یہ شہر وسیع بھی ہو رہا تھا اور ترقی یافتہ بھی۔ اس کا ایئرپورٹ دبئی کے ایئرپورٹ سے بھی بڑا ہوتا۔
اس شہر کی بد نصیبی کہ اس شہر کو ، قتل و غارت اور، لسانیت کے جال میں پھنسا دیا گیا۔ پہلے پٹھانوں ، پھر سندھیوں ، پھر پنجابیوں سے لڑایا گیا ۔ روزانہ قتل، لاشوں کے ڈھیر ، بوری بند لاشیں ، شاید ہی کسی اور شہر میں ایسا ہوا ہو گا۔ جیتا کون ؟ اور ہارا کون؟ صرف پاکستان۔
بات کرتے کرتے ایسا بھی ہوتا ہے قصہ میرے والد کا کھل جاتا ہے ۔ جب ممتاز بھٹو نے سندھ اسمبلی میں سندھی زبان کا بل پیش کیا اور اس وقت ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے نئے صدر منتخب ہوئے تھے آئین بھی نہیں بنا تھا ۔ شملا جانے سے پہلے وہ کچھ سیاستدانوں سے ملے تھے ، ان میں میاں طفیل بھی تھے اس ملاقات میں میرے والد قاضی فیض محمد بھی موجود تھے۔ نکلتے وقت بھٹو صاحب کو میرے والد نے یہ کہا کہ ممتاز بھٹو کو یہ سندھی زبان والا بل لانے کی ضرورت نہیں تھی۔
یہ بات بھٹو کو سمجھ آئی کہ ممتاز بھٹو اپنی مقبولیت کے لیے سندھ کارڈ کھیل رہے ہیں اور پھر جب لسانی فسادات عروج پر پہنچے تو ریڈیو پاکستان پر خبروں میں میرے والد نے یہ سنا کہ انھیں، جی ایم سید ، شیخ ایاز ، سندھیوں کی طرف سے اور دوسری طرف رئیس امروہوی، پروفیسر غفور اور بہت سے لوگوں کو ذوالفقار علی بھٹو نے گول میز کانفرنس کے لیے راولپنڈی مدعو کیا ہے۔ جب اجلاس شروع ہوا تو سندھیوں کی طرف سے کوئی بھی نہیں پہنچا تھا ، سوائے میرے والد کے اور دوسری طرف بہت لوگ تھے ۔
میرے والد نے درخواست کی کہ سب سے پہلے انھیں بولنے کا موقع دیا جائے جو بات بھٹو صاحب نے مانی اور وہ گھنٹہ بھر بولے ۔ اس کے بعد یہ نہیں کہ ان کے درمیان کوئی گرما گرمی ہوئی، بلکہ سب نے میرے والد کو گلے سے لگایا اور ابا کی تقریر کا کچھ حوالہ بھی انھوں نے اسمبلی میں پیش کیا۔ میرے والد کی تقریر ایک صوفی منش کی تقریر تھی ۔ ان کی وہ تقریر سندھی ادب میں شاہکار تصور کی جاتی ہے۔ جس نے سندھی زبان کا تحفظ بھی کیا تو ان نئے آنے والوں کو تاریخ کے اوراق بھی دکھائے کہ سندھی زبان، اردو زبان سے بھی قدیم ہے ۔ اور یہ وہ درس تھا محبت کا جو ان کو اپنے اجداد سے ملا ۔ ہجرت کرنے والوں کا جو استقبال سندھیوں نے کیا اتنا پاکستان میں کسی نے بھی نہیں کیا۔
آج وقت گزرنے کے ساتھ جو میں دیکھتا ہوں کہ ان کے دس بچوں میں، میں سب سے چھوٹا ہوں، میری بیوی اردو بولنے والی سندھی ہے اور میں سندھی بولنے والا سندھی۔ ابا کے دس بچوں میں ایک میں ہوں جو ایکنئے سندھ کا امین ہے ۔ اور میرے بچے اس نئے سندھ کے سفیر ۔ ایک ایسا سندھ جس پر پاکستان کو فخر ہونا چاہیے۔
آئیے کہ ہم اس تہذیب کے وارث بنیں، موہن جو دڑو کے وارث ، وادی مہران کے وارث ، اس تاریخ کے وارث جس میں ''ہوشو'' نے چارلس نپیئر کی فوج سے لڑ کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا ۔ میر شیر محمد ٹالپر جس کو برنس روڈ پر بندوقوں اور توپوں کے سائے میں موت کی سزا دی گئی تھی۔ یہ دونوں سندھی نہیں تھے مگر اس وطن کے ہو گئے تھے ۔
اور آج تک جو نظام وڈیروں کی شکل میں چارلس نیپئر اس سندھ کو دے کر گیا تھا وہ اب بھی قائم ہے ،لاگو ہے، اور اگر سندھ یونہی اسی طرح چلتا رہا تو نہ کراچی کی میونسپل کے حالات بدلیں گے نہ باقی ماندہ سندھ کو وڈیروں سے نجات ملے گا اور نہ ہی پاکستان اس بھنور سے نکلے پائے گا۔
ماٹی کہے کمہار سے تو کیا گوندھے موئے
ایک دن ایسا آئے گا میں گوندوں گی توئے
(کبیر)