سری لنکا کے خلاف سیریز کی میزبانی
انٹرنیشنل ٹیموں کی پاکستان آمدکی راہیں ہموار ہو گئیں
رن فرنینڈو سری لنکا کے ٹیلی کمیونکیشنز، بیرون ملک ملازمت اور کھیلوں کے وزیر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کرکٹ اب پوری دنیا کا کھیل بن چکا ہے، یہ صرف مسابقت کا معاملہ نہیں بلکہ اس کا مقصد پڑوسی ملکوں کے درمیان یکجہتی کا اظہار بھی ہے،پاکستان کے خلاف آئی لینڈرز کی سیریز علاقائی تعاون کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے، زندگی کو چلتے رہنا چاہیے اورکھیلوں کو رکنا نہیں چاہیے۔
سری لنکن وزیر کی اس بات میں خاصی صداقت ہے ، اس لئے تو جب بھی کرکٹ کا عالمی میلہ سجتا ہے تو کروڑوں شائقین اس کھیل کے بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی بات نہیں، 2009ء میں لاہور میں بعض شدت پسندوں کی طرف سے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا تو زخمی مہمان ٹیم کے پلیئرز کو قذافی سٹیڈیم سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایئرپورٹ پہنچایا گیا تو خیال کیا جا رہا تھا کہ آئی لینڈرز کبھی بھی دوبارہ پاکستان میں نہیں آئیں گے تاہم دس سال کے عرصہ کے بعد سری لنکن ٹیم لاہور میں دوبارہ موجود ہے، مہمان کھلاڑی خوش بھی ہیں اور ایک روزہ کے بعد ٹوئنٹی 20سیریز کے مقابلوں کو بھی خوب انجوائے کر رہے ہیں،پاکستانی شائقین کی خوشی کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، لاہوربھر میں جشن کا سا سماں ہے، صوبائی دارالحکومت کی معروف شاہراہوں کو سجا دیا گیا ہے،سٹیڈیم کے باہر اور سڑکوں پر دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوںکی بڑی بڑی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں، کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لئے پاک فوج اور رینجرز کے مستعد دستے موجود ہیں جبکہ 13ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں، قذافی سٹیڈیم سے فائیو سٹار ہوٹل تک کے روٹ کی اونچی عمارتوں پر سنائپرز تعینات کئے گئے ہیں جبکہ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فضائی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔شہریوں کی سہولت کے لئے ٹریفک پلان بھی ترتیب دیا گیا ہے۔ پاکستانی شائقین کا جوش وجذبہ بھی عروج پر ہے،راقم کی جب کرکٹ کے ان دیوانوں اور مستانوں سے بات چیت ہوئی تو اکثریت کی یہی رائے تھی کہ کرکٹ ان کا شوق ہی نہیں بلکہ جنون ہے،ہم عرصہ دراز سے اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کا انتظار کر رہے تھے، سری لنکا کی ٹیم دس سال کے طویل عرصہ کے بعد پاکستان آئی ہے تو خوشی کے اس موقع پر ہم کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔
اگر پاکستان اور سری لنکا کی ٹیموں کے درمیان موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ آئی لینڈرز میں وہ دم خم نہیں رہا جو اس ٹیم کا خاصا رہا ہے، اور اب تو مقابلے میں وہ اصل ٹیم بھی نہیں ہے۔ یہ سبھی وہ کھلاڑی ہیں جو کچھ میچوں کے لیے آزمائے گئے اور پھر عمدہ کارکردگی نہ دکھا سکنے کے باعث ڈراپ کر دیئے گئے۔ پاکستان اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ٹوئنٹی20میچوں میں گرین شرٹس کا پلڑا خاصا بھاری رہا ہے، دونوں ٹیموں کے درمیان اب تک 18 ٹوئنٹی20میچز کھیلے گئے ہیں،13میں گرین شرٹس نے کامیابی حاصل کی جبکہ 5 میچز میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ 17 نومبر2007 ء کو ورلڈ کپ کے دوران وارنڈررز سٹیڈیم میں کھیلا گیا جس میں پاکستانی ٹیم نے 33رنز سے کامیابی حاصل کی۔ پاکستان اور سری لنکا کی ٹیموں نے اب تک قذافی سٹیڈیم لاہور میں صرف ایک ٹوئنٹی20میچ کھیلا ہے، 29 اکتوبر2017ء میں شیڈول میچ پاکستانی ٹیم نے 36رنز سے اپنے نام کیا۔ ایک روزہ سیریز کے دوران بعض مواقعوں پر مہمان ٹیم نے عمدہ کم بیک کیا جس کے بعد ٹوئنٹی20سیریز کے باقی دو میچز بھی خاصے دلچسپ ثابت ہوں گے۔
سری لنکا کے خلاف ٹوئنٹی 20 سکواڈ میں عمر اکمل اور احمد شہزاد کی ٹیم میں واپسی پر ابھی تک کافی سوالات اٹھ رہے ہیں۔عمراکمل نے آخری مرتبہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستان کی نمائندگی تین سال پہلے ویسٹ انڈیز کیخلاف کی تھی۔ انھیں اس سال آسٹریلیا کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی ون ڈے سیریز کے پانچوں میچوں میں موقع دیا گیا لیکن وہ صرف 150 رنز بنا سکے جس میں سب سے بڑا سکور 48 تھا۔عمر اکمل اس سال پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی طرف سے کھیلے تھے لیکن 10 اننگز میں وہ صرف 2 نصف سنچریاں بنانے میں کامیاب ہوسکے تھے۔عمراکمل نے اس سال پاکستان کپ ایک روزہ ٹورنامنٹ میں ایک سنچری اور 2 نصف سنچریاں بنائیں لیکن چونکہ ان کا سلیکشن ٹی ٹوئنٹی کے لیے ہوا ہے تو گذشتہ سیزن کے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں وہ پانچ میچوں میں محض 109 رنز بنا پائے۔ اسی طرح احمد شہزاد نے آخری بار ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل گذشتہ سال سکاٹ لینڈ کے خلاف ایڈنبرا میں کھیلا تھا جس میں وہ صرف 24 رنز بنانے میں کامیاب ہوسکے تھے۔احمد شہزاد نے رواں سال پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کرتے ہوئے 4 نصف سنچریاں بنائی تھیں تاہم پاکستان کپ ایک روزہ ٹورنامنٹ میں وہ صرف 2 نصف سنچریاں بناسکے تھے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کو چیف کوچ کے ساتھ سلیکشن کمیٹی کے سربراہ کے بھی تمام اختیارات سونپ رکھے ہیں، ماضی کے کپتان کا خیال ہے کہ دونوں کھلاڑی آئندہ برس شیڈول ٹوئنٹی20ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، آئی لینڈرز کے خلاف تینوں میچوں کی سیریز کے بعد بخوبی اندازہ ہو سکے گا کہ کامران اکمل اور احمد شہزاد سمیت بعض دوسرے کھلاڑیوں کی کارکردگی کا معیار کیا ہے،انہیں ورلڈ کپ سمیت مستقبل کے ایونٹس میں گرین شرٹس کا حصہ رہنا بھی چاہیے یا نہیں۔
سری لنکا کرکٹ ٹیم کے ایک روزہ ٹیم کے کپتان تھریمانے پاکستان آنے پر خوش اور سکیورٹی انتظامات سے خاصے مطمئن دکھائی دیتے ہیں، ان کے مطابق یہ میرا پہلا دورہ پاکستان تھا اور یہاں آ کر کھیلنے کا تجربہ بہت اچھا اور یادگار رہا، میں دیگر ٹیموں کو بھی پاکستان آ کر کھیلنے کا مشورہ دوں گا، مہمان ٹوئنٹی20 ٹیم کے کپتان داشن شناکا کی بھی یہی رائے ہے کہ پاکستان میںسکیورٹی کا کوئی ایشیو نہیں ہے، یہ میرا دوسرا پاکستان کا دورہ ہے،میں نے یہاں آ کر ہر بار انجوائے کیا، امید ہے کہ سینئر کھلاڑی ٹیسٹ کھیلنے کیلئے پاکستان آئیں گے،قومی کپتان سرفراز احمد کی رائے میں سری لنکن ٹیم کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں ، امید ہے کہ آئی لینڈرز خوشگوار یادوں کے ساتھ واپس جائیں گے،سیکیورٹی سخت ضرور ہے لیکن یہ سب کی حفاظت کیلئے ہے اس کا مستقبل میں فائدہ ہوگا۔چیئرمین پی سی بی احسان مانی کے مطابق ہم متحدہ عرب امارات جیسے نیوٹرل مقامات پر کھیلنے کے بجائے پاکستان میں مزید انٹرنیشنل ٹیموں کی واپسی کے خواہاں ہیں، خوش آئند امر یہ ہے کہ کرکٹ کا کھیل دہشت گردی کو شکست دینے میں کامیاب رہا، حال ہی میں آسٹریلین کرکٹ کے آفیشلز نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور حکومتی اور پی سی بی آفیشلز سے ملاقات کی تھی، جلد انگلینڈ اور آئرلینڈ کے کرکٹ آفیشلز کی بھی پاکستان آمد متوقع ہے تاکہ وہ ملک میں سیکیورٹی کے معاملات کا جائزہ لے سکیں۔چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ پوری دنیا کو پیغام جا رہا ہے جس کی وجہ سے یہ سیریز انتہائی اہمیت کی حامل ہے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سب چیزیں بہترین ہیں،پاکستان نے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے سلسلے میں دو ٹیسٹ میچز کے لیے بھی سری لنکن ٹیم کی میزبانی کرنی ہیں، پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی مستقل واپسی کے لیے کچھ عرصے تک بہترین سیکیورٹی کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی، بلاشبہ سری لنکن کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان خوش آئند ہے، اس سیریز کے کامیاب انعقاد سے نہ صرف اپنی ملکی سرزمین پر ایکشن میں دکھائی دینے والے کرکٹرز کو صلاحیتوں کے اظہار کا بھر پور موقع ملا ہے بلکہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے نئے دروازے بھی کھلیں گے۔
سری لنکن وزیر کی اس بات میں خاصی صداقت ہے ، اس لئے تو جب بھی کرکٹ کا عالمی میلہ سجتا ہے تو کروڑوں شائقین اس کھیل کے بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی بات نہیں، 2009ء میں لاہور میں بعض شدت پسندوں کی طرف سے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا تو زخمی مہمان ٹیم کے پلیئرز کو قذافی سٹیڈیم سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایئرپورٹ پہنچایا گیا تو خیال کیا جا رہا تھا کہ آئی لینڈرز کبھی بھی دوبارہ پاکستان میں نہیں آئیں گے تاہم دس سال کے عرصہ کے بعد سری لنکن ٹیم لاہور میں دوبارہ موجود ہے، مہمان کھلاڑی خوش بھی ہیں اور ایک روزہ کے بعد ٹوئنٹی 20سیریز کے مقابلوں کو بھی خوب انجوائے کر رہے ہیں،پاکستانی شائقین کی خوشی کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، لاہوربھر میں جشن کا سا سماں ہے، صوبائی دارالحکومت کی معروف شاہراہوں کو سجا دیا گیا ہے،سٹیڈیم کے باہر اور سڑکوں پر دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوںکی بڑی بڑی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں، کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لئے پاک فوج اور رینجرز کے مستعد دستے موجود ہیں جبکہ 13ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں، قذافی سٹیڈیم سے فائیو سٹار ہوٹل تک کے روٹ کی اونچی عمارتوں پر سنائپرز تعینات کئے گئے ہیں جبکہ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فضائی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔شہریوں کی سہولت کے لئے ٹریفک پلان بھی ترتیب دیا گیا ہے۔ پاکستانی شائقین کا جوش وجذبہ بھی عروج پر ہے،راقم کی جب کرکٹ کے ان دیوانوں اور مستانوں سے بات چیت ہوئی تو اکثریت کی یہی رائے تھی کہ کرکٹ ان کا شوق ہی نہیں بلکہ جنون ہے،ہم عرصہ دراز سے اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کا انتظار کر رہے تھے، سری لنکا کی ٹیم دس سال کے طویل عرصہ کے بعد پاکستان آئی ہے تو خوشی کے اس موقع پر ہم کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔
اگر پاکستان اور سری لنکا کی ٹیموں کے درمیان موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ آئی لینڈرز میں وہ دم خم نہیں رہا جو اس ٹیم کا خاصا رہا ہے، اور اب تو مقابلے میں وہ اصل ٹیم بھی نہیں ہے۔ یہ سبھی وہ کھلاڑی ہیں جو کچھ میچوں کے لیے آزمائے گئے اور پھر عمدہ کارکردگی نہ دکھا سکنے کے باعث ڈراپ کر دیئے گئے۔ پاکستان اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ٹوئنٹی20میچوں میں گرین شرٹس کا پلڑا خاصا بھاری رہا ہے، دونوں ٹیموں کے درمیان اب تک 18 ٹوئنٹی20میچز کھیلے گئے ہیں،13میں گرین شرٹس نے کامیابی حاصل کی جبکہ 5 میچز میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ 17 نومبر2007 ء کو ورلڈ کپ کے دوران وارنڈررز سٹیڈیم میں کھیلا گیا جس میں پاکستانی ٹیم نے 33رنز سے کامیابی حاصل کی۔ پاکستان اور سری لنکا کی ٹیموں نے اب تک قذافی سٹیڈیم لاہور میں صرف ایک ٹوئنٹی20میچ کھیلا ہے، 29 اکتوبر2017ء میں شیڈول میچ پاکستانی ٹیم نے 36رنز سے اپنے نام کیا۔ ایک روزہ سیریز کے دوران بعض مواقعوں پر مہمان ٹیم نے عمدہ کم بیک کیا جس کے بعد ٹوئنٹی20سیریز کے باقی دو میچز بھی خاصے دلچسپ ثابت ہوں گے۔
سری لنکا کے خلاف ٹوئنٹی 20 سکواڈ میں عمر اکمل اور احمد شہزاد کی ٹیم میں واپسی پر ابھی تک کافی سوالات اٹھ رہے ہیں۔عمراکمل نے آخری مرتبہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستان کی نمائندگی تین سال پہلے ویسٹ انڈیز کیخلاف کی تھی۔ انھیں اس سال آسٹریلیا کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی ون ڈے سیریز کے پانچوں میچوں میں موقع دیا گیا لیکن وہ صرف 150 رنز بنا سکے جس میں سب سے بڑا سکور 48 تھا۔عمر اکمل اس سال پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی طرف سے کھیلے تھے لیکن 10 اننگز میں وہ صرف 2 نصف سنچریاں بنانے میں کامیاب ہوسکے تھے۔عمراکمل نے اس سال پاکستان کپ ایک روزہ ٹورنامنٹ میں ایک سنچری اور 2 نصف سنچریاں بنائیں لیکن چونکہ ان کا سلیکشن ٹی ٹوئنٹی کے لیے ہوا ہے تو گذشتہ سیزن کے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں وہ پانچ میچوں میں محض 109 رنز بنا پائے۔ اسی طرح احمد شہزاد نے آخری بار ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل گذشتہ سال سکاٹ لینڈ کے خلاف ایڈنبرا میں کھیلا تھا جس میں وہ صرف 24 رنز بنانے میں کامیاب ہوسکے تھے۔احمد شہزاد نے رواں سال پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کرتے ہوئے 4 نصف سنچریاں بنائی تھیں تاہم پاکستان کپ ایک روزہ ٹورنامنٹ میں وہ صرف 2 نصف سنچریاں بناسکے تھے۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کو چیف کوچ کے ساتھ سلیکشن کمیٹی کے سربراہ کے بھی تمام اختیارات سونپ رکھے ہیں، ماضی کے کپتان کا خیال ہے کہ دونوں کھلاڑی آئندہ برس شیڈول ٹوئنٹی20ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، آئی لینڈرز کے خلاف تینوں میچوں کی سیریز کے بعد بخوبی اندازہ ہو سکے گا کہ کامران اکمل اور احمد شہزاد سمیت بعض دوسرے کھلاڑیوں کی کارکردگی کا معیار کیا ہے،انہیں ورلڈ کپ سمیت مستقبل کے ایونٹس میں گرین شرٹس کا حصہ رہنا بھی چاہیے یا نہیں۔
سری لنکا کرکٹ ٹیم کے ایک روزہ ٹیم کے کپتان تھریمانے پاکستان آنے پر خوش اور سکیورٹی انتظامات سے خاصے مطمئن دکھائی دیتے ہیں، ان کے مطابق یہ میرا پہلا دورہ پاکستان تھا اور یہاں آ کر کھیلنے کا تجربہ بہت اچھا اور یادگار رہا، میں دیگر ٹیموں کو بھی پاکستان آ کر کھیلنے کا مشورہ دوں گا، مہمان ٹوئنٹی20 ٹیم کے کپتان داشن شناکا کی بھی یہی رائے ہے کہ پاکستان میںسکیورٹی کا کوئی ایشیو نہیں ہے، یہ میرا دوسرا پاکستان کا دورہ ہے،میں نے یہاں آ کر ہر بار انجوائے کیا، امید ہے کہ سینئر کھلاڑی ٹیسٹ کھیلنے کیلئے پاکستان آئیں گے،قومی کپتان سرفراز احمد کی رائے میں سری لنکن ٹیم کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں ، امید ہے کہ آئی لینڈرز خوشگوار یادوں کے ساتھ واپس جائیں گے،سیکیورٹی سخت ضرور ہے لیکن یہ سب کی حفاظت کیلئے ہے اس کا مستقبل میں فائدہ ہوگا۔چیئرمین پی سی بی احسان مانی کے مطابق ہم متحدہ عرب امارات جیسے نیوٹرل مقامات پر کھیلنے کے بجائے پاکستان میں مزید انٹرنیشنل ٹیموں کی واپسی کے خواہاں ہیں، خوش آئند امر یہ ہے کہ کرکٹ کا کھیل دہشت گردی کو شکست دینے میں کامیاب رہا، حال ہی میں آسٹریلین کرکٹ کے آفیشلز نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور حکومتی اور پی سی بی آفیشلز سے ملاقات کی تھی، جلد انگلینڈ اور آئرلینڈ کے کرکٹ آفیشلز کی بھی پاکستان آمد متوقع ہے تاکہ وہ ملک میں سیکیورٹی کے معاملات کا جائزہ لے سکیں۔چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ پوری دنیا کو پیغام جا رہا ہے جس کی وجہ سے یہ سیریز انتہائی اہمیت کی حامل ہے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سب چیزیں بہترین ہیں،پاکستان نے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے سلسلے میں دو ٹیسٹ میچز کے لیے بھی سری لنکن ٹیم کی میزبانی کرنی ہیں، پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی مستقل واپسی کے لیے کچھ عرصے تک بہترین سیکیورٹی کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی، بلاشبہ سری لنکن کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان خوش آئند ہے، اس سیریز کے کامیاب انعقاد سے نہ صرف اپنی ملکی سرزمین پر ایکشن میں دکھائی دینے والے کرکٹرز کو صلاحیتوں کے اظہار کا بھر پور موقع ملا ہے بلکہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے نئے دروازے بھی کھلیں گے۔