قذافی اسٹیڈیم کرکٹ کے تاریخی واقعات کا گواہ
قذافی اسٹیڈیم دنیا کا پانچواں برا اسٹیڈیم ہے
قذافی اسٹیڈیم کرکٹ کے متعدد عالمی ریکارڈز، کھلاڑیوں کی کھلم کھلا بغاوتوں، لڑائیوں، پی سی بی حکام کی من مانیوں اور مالی بے ضابطگیوں کا چشم دید گواہ بھی ہے۔
2002 میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی، مہمان ٹیم کراچی کے جس ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی، اس کے قریب بم دھماکہ ہوا، پھر وہی ہوا جوکمزور ملکوں کے کمزور بورڈز کے ساتھ ہوتا ہے، نیوزی لینڈ نے اس واقعہ کو رائی کا پہاڑ بنا لیا اوردورہ ادھورا چھوڑ کر واپس چلی گئی۔یہ وہ دور تھا جب نائن الیون کے واقعے کو ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، پوری دنیا دہشت، وحشت اور خوف کے سائے میں مبتلا تھی، گزرتے وقت کے ساتھ طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک میں تو زندگی اپنی اصلی حالت میں پلٹ آئی لیکن غربت، مہنگائی ، بے روزگاری و دیگر مسائل کے مارے ملکوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان انٹرنیشنل کھیلوں کی دوری کی صورت میں برداشت کرنا پڑا، تمام تر کوششوں کے باوجود ہمارے ملکی گراؤنڈز انٹرنیشنل کرکٹ سے ویران ہی رہے، پی سی بی کی انتھک کوششوں سے 2008 میں بنگلا دیش جبکہ اگلے برس سری لنکن ٹیم پاکستان کے دورے پر آ ہی گئی لیکن لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد پاکستان غیر ملکی ٹیموں کے لئے ایک بار پھر نو گو ایریا بن گیا۔
صوبائی دارالحکومت کی معروف شاہراہ فیروزپور روڈ پر کلمہ چوک سے سفر کرتے ہوئے نہر کی طرف آئیں تو دائیں جانب آپ کو اونچی اور درمیانی عمارتوں پر محیط بڑا سا علاقہ نظر آئے گا جسے نشتر اسپورٹس کمپلیکس کہتے ہیں۔ اسی ایریا میں دنیا کا پانچواں بڑا کرکٹ اسٹیڈیم قذافی سٹیڈیم موجود ہے جسے شرفاء کے کھیل کے علاوہ متعدد دوسری کھیلوں کے انعقاد کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہی اسٹیڈیم کرکٹ کے متعدد عالمی ریکارڈز، کھلاڑیوں کی کھلم کھلا بغاوتوں، لڑائیوں، پی سی بی حکام کی من مانیوں اور مالی بے ضابطگیوں کا چشم دید گواہ بھی ہے۔
اسی سٹیڈیم کو 1987ء اور 1996ء کے ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ بعد میں لاہور ٹیسٹ کے دوران سری لنکن کرکٹ ٹیم پر شدت پسندوں کی طرف سے حملے میں کپتان جے وردھنے سمیت8 کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کا غم بھی سہنا پڑا۔ چیئرمین پی سی بی کی پرکشش کرسی کیلئے عہدیداروں میں جاری کشمکش اور سٹیڈیم کے وی آئی پی انکلوژر میں مالی بے ضابطگیوں کے راز بھی اس کے سینے میں دفن ہیں۔ قذافی سٹیڈیم جھارا اور انوکی کے مقابلہ کا بھی چشم دید گواہ ہے کیونکہ یہی تاریخی دنگل بعد میں اپنے وقت میں طاقت کے پہاڑ زبیر عرف جھارا کی زندگی کی اختتامی کہانی بھی بن گیا۔
سٹیڈیم کی کہانی 1951-52 سے شروع ہوتی ہے جب اس وقت کے مغربی پاکستان کے گورنر اور کرکٹ بورڈ کے سربراہ سردار عبدالرب نشتر نے اس سٹیڈیم کی بنیاد رکھی، مینار پاکستان کی تعمیر کے خالق نصیرالدین مروت نے سٹیڈیم کے منصوبے کو ڈیزائن کیا جبکہ اس کی تعمیر میاں عبدالخالق 1959ء میں مکمل کی، ابتدامیں اس سٹیڈیم کے کئی نام رکھے گئے، اولمپک سٹیڈیم، لاہور سٹیڈیم کے بعد نام کی تبدیلیوں کا سلسلہ قذافی سٹیڈیم تک آکر اختتام کو پہنچا۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسے قذافی سٹیڈیم کا نام دیا۔اگلے برس اسلامی سربراہی کانفرنس کا میزبان لاہور بنا تو دنیا بھر سے آنے والے مہمانوں کا تاریخی استقبال کیا گیا، اس کانفرنس کے بعد سٹیڈیم میں جلسے کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں کرنل قذافی مہمان خصوصی تھے، ذوالفقار بھٹو اور کرنل قذافی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سٹیڈیم عوام سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔اس اہم اور خاص موقع پر خصوصی طور پر چاندی کا ماڈل اور نیا نقشہ بنوایا گیا تھا، جس پر عمل ہوتا تو موجودہ سٹیڈیم سے کہیں زیادہ گنجائش ہوتی، کیویٹر حاجی بشیر نے یہ نقشہ اور ماڈل گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر کو پیش کیا، انہوں نے اس وقت کے سپورٹس بورڈ پنجاب کے سربراہ فضل محمود کے حوالے کیا جہاں سے یہ ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچا جنہوں نے یہ ماڈل کرنل قذافی کو پیش کیا۔قذافی سٹیڈیم کا نام رکھنے کے بعد ناموں کی بار بار تبدیلی کا سلسلہ رک گیا لیکن اسے خوب سے خوب تر بنانے کا سلسلہ جاری رہا، ورلڈ کپ 1987ء اور عالمی کپ1996ء میں اس سٹیڈیم نے میزبانی کی نئی مثالیں قائم کیں۔ 1987ء کے ورلڈ کپ کو کامیاب بنانے میں بورڈ کے سربراہ جنرل صفدر بٹ اور سیکرٹری اعجاز بٹ کا بڑا ہاتھ تھا۔ 1996ء کے عالمی کپ سے ایک سال پہلے ایک نئے سٹیڈیم کا منصوبہ بنایا گیا ، ان دنوں نواز شریف کی حکومت تھی، جسٹس نسیم حسن شاہ کے ساتھ شاہدرفیع سیکرٹری تھے۔
اس مجوزہ سٹیڈیم میں تماشائیوں کے لیے بہت زیادہ گنجائش رکھی گئی اور ساتھ کلب ہاؤس بھی بنانے کا فیصلہ ہوا لیکن حکومت بدلنے کے ساتھ یہ منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ اسی جگہ اب پنجاب سٹیڈیم تعمیر کیا گیا، پروجیکٹ شروع نہ ہو سکنے کی وجہ سے 1996 ء ورلڈ کپ کے لیے پرانے قذافی سٹیڈیم ہی کی نیر علی دادا کی نگرانی میں تزئین و آرائش کی گئی، اس کے گرد 71 دکانیں بنائی گئیں جو لیز پر دے دی گئیں، سٹیڈیم کے اندر انکلوژرز میں کرسیاں لگا دی گئیں جس کی وجہ سے اس میں تماشائیوں کی تعداد مزید کم ہو کر 25 ہزار تک رہ گئی، فلڈ لائٹس لگائی گئیں اور ان کی روشنیوں میں سری لنکا اور آسٹریلیا کے درمیان مارچ 1996ء میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ فائنل نے خوب سماں باندھ دیا
ورلڈ کپ2003 میں شرکت کرنے والی پاکستان کرکٹ ٹیم کو موسیقی کی رنگارنگ تقریب سجا کر الوداع کیا گیا، بعد ازاں اسی سٹیڈیم نے وہ ناخوشگوار منظر بھی دیکھا جب تماشائیوں نے گورنر پنجاب اور چیئرمین پی سی بی جنرل(ر) توقیر ضیاء کی موجودگی میں اسٹیڈیم کے جنگلے اکھاڑ ڈالے۔ قذافی سٹیڈیم اب تک 32 سے زائد بورڈ سربراہ دیکھ چکا ہے جبکہ پاکستان اور غیر ملکی کرکٹرز کی کئی لازوال کارکردگی کے ساتھ کھلی بغاوتوں کا چشم دید گواہ بھی ہے۔ دنیا کے 3 بولرز کو اسی سٹیڈیم میں3 بار ہیٹ ٹرکس کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سب سے پہلے نیوزی لینڈ کے پیٹرپیتھرک نے 9 اکتوبر 1976ء کو پاکستان کے خلاف3 گیندوں پر 3 وکٹیں حاصل کیں۔ 6مارچ 1999ء کو وسیم اکرم نے سری لنکا کے خلاف یہ کارنامہ سرانجام دیا، محمد سمیع نے بھی آئی لینڈرز کے خلاف ہیٹ ٹرک کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ جاوید میانداد نے1976ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف آصف اقبال کے ساتھ مل کر پانچویں وکٹ کی شراکت میں 281 رنز بنانے کا منفرد ریکارڈ بنایا، بعد ازاں گرین شرٹس نے 2002ء میں اسی گراؤنڈ میں کیویز کے خلاف ہی324 رنز اور ایک اننگز سے تاریخی کامیابی حاصل کی۔
سانحہ لبرٹی کی وجہ سے قذافی سٹیڈیم سمیت ملک بھر کے گراؤنڈز سونے پڑ گئے تھے تاہم سری لنکن کرکٹ ٹیم کی لاہور آمد سے عالمی مقابلوں کی یہ رونقیں دوبارہ بحال ہو گئی ہیں،22 مئی 2015ء کو 6 سال کے طویل عرصہ کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کا سلسلہ جو شروع ہوا تھا، وہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ شائقین میں ٹکٹوں کے حصول کی دوڑ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انہیں کرکٹ کے کھیل سے کتنا پیار ہے،5 اکتوبر سے قذافی سٹیڈیم کی مصنوعی روشنیوں میں شروع ہونے والی ٹوئنٹی20 سیریز کا کامیاب انعقادکسی ایک کی نہیں بلکہ پوری قوم کی کامیابی ہوگی۔
2002 میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی، مہمان ٹیم کراچی کے جس ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی، اس کے قریب بم دھماکہ ہوا، پھر وہی ہوا جوکمزور ملکوں کے کمزور بورڈز کے ساتھ ہوتا ہے، نیوزی لینڈ نے اس واقعہ کو رائی کا پہاڑ بنا لیا اوردورہ ادھورا چھوڑ کر واپس چلی گئی۔یہ وہ دور تھا جب نائن الیون کے واقعے کو ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، پوری دنیا دہشت، وحشت اور خوف کے سائے میں مبتلا تھی، گزرتے وقت کے ساتھ طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک میں تو زندگی اپنی اصلی حالت میں پلٹ آئی لیکن غربت، مہنگائی ، بے روزگاری و دیگر مسائل کے مارے ملکوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان انٹرنیشنل کھیلوں کی دوری کی صورت میں برداشت کرنا پڑا، تمام تر کوششوں کے باوجود ہمارے ملکی گراؤنڈز انٹرنیشنل کرکٹ سے ویران ہی رہے، پی سی بی کی انتھک کوششوں سے 2008 میں بنگلا دیش جبکہ اگلے برس سری لنکن ٹیم پاکستان کے دورے پر آ ہی گئی لیکن لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد پاکستان غیر ملکی ٹیموں کے لئے ایک بار پھر نو گو ایریا بن گیا۔
صوبائی دارالحکومت کی معروف شاہراہ فیروزپور روڈ پر کلمہ چوک سے سفر کرتے ہوئے نہر کی طرف آئیں تو دائیں جانب آپ کو اونچی اور درمیانی عمارتوں پر محیط بڑا سا علاقہ نظر آئے گا جسے نشتر اسپورٹس کمپلیکس کہتے ہیں۔ اسی ایریا میں دنیا کا پانچواں بڑا کرکٹ اسٹیڈیم قذافی سٹیڈیم موجود ہے جسے شرفاء کے کھیل کے علاوہ متعدد دوسری کھیلوں کے انعقاد کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہی اسٹیڈیم کرکٹ کے متعدد عالمی ریکارڈز، کھلاڑیوں کی کھلم کھلا بغاوتوں، لڑائیوں، پی سی بی حکام کی من مانیوں اور مالی بے ضابطگیوں کا چشم دید گواہ بھی ہے۔
اسی سٹیڈیم کو 1987ء اور 1996ء کے ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ بعد میں لاہور ٹیسٹ کے دوران سری لنکن کرکٹ ٹیم پر شدت پسندوں کی طرف سے حملے میں کپتان جے وردھنے سمیت8 کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کا غم بھی سہنا پڑا۔ چیئرمین پی سی بی کی پرکشش کرسی کیلئے عہدیداروں میں جاری کشمکش اور سٹیڈیم کے وی آئی پی انکلوژر میں مالی بے ضابطگیوں کے راز بھی اس کے سینے میں دفن ہیں۔ قذافی سٹیڈیم جھارا اور انوکی کے مقابلہ کا بھی چشم دید گواہ ہے کیونکہ یہی تاریخی دنگل بعد میں اپنے وقت میں طاقت کے پہاڑ زبیر عرف جھارا کی زندگی کی اختتامی کہانی بھی بن گیا۔
سٹیڈیم کی کہانی 1951-52 سے شروع ہوتی ہے جب اس وقت کے مغربی پاکستان کے گورنر اور کرکٹ بورڈ کے سربراہ سردار عبدالرب نشتر نے اس سٹیڈیم کی بنیاد رکھی، مینار پاکستان کی تعمیر کے خالق نصیرالدین مروت نے سٹیڈیم کے منصوبے کو ڈیزائن کیا جبکہ اس کی تعمیر میاں عبدالخالق 1959ء میں مکمل کی، ابتدامیں اس سٹیڈیم کے کئی نام رکھے گئے، اولمپک سٹیڈیم، لاہور سٹیڈیم کے بعد نام کی تبدیلیوں کا سلسلہ قذافی سٹیڈیم تک آکر اختتام کو پہنچا۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسے قذافی سٹیڈیم کا نام دیا۔اگلے برس اسلامی سربراہی کانفرنس کا میزبان لاہور بنا تو دنیا بھر سے آنے والے مہمانوں کا تاریخی استقبال کیا گیا، اس کانفرنس کے بعد سٹیڈیم میں جلسے کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں کرنل قذافی مہمان خصوصی تھے، ذوالفقار بھٹو اور کرنل قذافی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سٹیڈیم عوام سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔اس اہم اور خاص موقع پر خصوصی طور پر چاندی کا ماڈل اور نیا نقشہ بنوایا گیا تھا، جس پر عمل ہوتا تو موجودہ سٹیڈیم سے کہیں زیادہ گنجائش ہوتی، کیویٹر حاجی بشیر نے یہ نقشہ اور ماڈل گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر کو پیش کیا، انہوں نے اس وقت کے سپورٹس بورڈ پنجاب کے سربراہ فضل محمود کے حوالے کیا جہاں سے یہ ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچا جنہوں نے یہ ماڈل کرنل قذافی کو پیش کیا۔قذافی سٹیڈیم کا نام رکھنے کے بعد ناموں کی بار بار تبدیلی کا سلسلہ رک گیا لیکن اسے خوب سے خوب تر بنانے کا سلسلہ جاری رہا، ورلڈ کپ 1987ء اور عالمی کپ1996ء میں اس سٹیڈیم نے میزبانی کی نئی مثالیں قائم کیں۔ 1987ء کے ورلڈ کپ کو کامیاب بنانے میں بورڈ کے سربراہ جنرل صفدر بٹ اور سیکرٹری اعجاز بٹ کا بڑا ہاتھ تھا۔ 1996ء کے عالمی کپ سے ایک سال پہلے ایک نئے سٹیڈیم کا منصوبہ بنایا گیا ، ان دنوں نواز شریف کی حکومت تھی، جسٹس نسیم حسن شاہ کے ساتھ شاہدرفیع سیکرٹری تھے۔
اس مجوزہ سٹیڈیم میں تماشائیوں کے لیے بہت زیادہ گنجائش رکھی گئی اور ساتھ کلب ہاؤس بھی بنانے کا فیصلہ ہوا لیکن حکومت بدلنے کے ساتھ یہ منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ اسی جگہ اب پنجاب سٹیڈیم تعمیر کیا گیا، پروجیکٹ شروع نہ ہو سکنے کی وجہ سے 1996 ء ورلڈ کپ کے لیے پرانے قذافی سٹیڈیم ہی کی نیر علی دادا کی نگرانی میں تزئین و آرائش کی گئی، اس کے گرد 71 دکانیں بنائی گئیں جو لیز پر دے دی گئیں، سٹیڈیم کے اندر انکلوژرز میں کرسیاں لگا دی گئیں جس کی وجہ سے اس میں تماشائیوں کی تعداد مزید کم ہو کر 25 ہزار تک رہ گئی، فلڈ لائٹس لگائی گئیں اور ان کی روشنیوں میں سری لنکا اور آسٹریلیا کے درمیان مارچ 1996ء میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ فائنل نے خوب سماں باندھ دیا
ورلڈ کپ2003 میں شرکت کرنے والی پاکستان کرکٹ ٹیم کو موسیقی کی رنگارنگ تقریب سجا کر الوداع کیا گیا، بعد ازاں اسی سٹیڈیم نے وہ ناخوشگوار منظر بھی دیکھا جب تماشائیوں نے گورنر پنجاب اور چیئرمین پی سی بی جنرل(ر) توقیر ضیاء کی موجودگی میں اسٹیڈیم کے جنگلے اکھاڑ ڈالے۔ قذافی سٹیڈیم اب تک 32 سے زائد بورڈ سربراہ دیکھ چکا ہے جبکہ پاکستان اور غیر ملکی کرکٹرز کی کئی لازوال کارکردگی کے ساتھ کھلی بغاوتوں کا چشم دید گواہ بھی ہے۔ دنیا کے 3 بولرز کو اسی سٹیڈیم میں3 بار ہیٹ ٹرکس کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سب سے پہلے نیوزی لینڈ کے پیٹرپیتھرک نے 9 اکتوبر 1976ء کو پاکستان کے خلاف3 گیندوں پر 3 وکٹیں حاصل کیں۔ 6مارچ 1999ء کو وسیم اکرم نے سری لنکا کے خلاف یہ کارنامہ سرانجام دیا، محمد سمیع نے بھی آئی لینڈرز کے خلاف ہیٹ ٹرک کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ جاوید میانداد نے1976ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف آصف اقبال کے ساتھ مل کر پانچویں وکٹ کی شراکت میں 281 رنز بنانے کا منفرد ریکارڈ بنایا، بعد ازاں گرین شرٹس نے 2002ء میں اسی گراؤنڈ میں کیویز کے خلاف ہی324 رنز اور ایک اننگز سے تاریخی کامیابی حاصل کی۔
سانحہ لبرٹی کی وجہ سے قذافی سٹیڈیم سمیت ملک بھر کے گراؤنڈز سونے پڑ گئے تھے تاہم سری لنکن کرکٹ ٹیم کی لاہور آمد سے عالمی مقابلوں کی یہ رونقیں دوبارہ بحال ہو گئی ہیں،22 مئی 2015ء کو 6 سال کے طویل عرصہ کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کا سلسلہ جو شروع ہوا تھا، وہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ شائقین میں ٹکٹوں کے حصول کی دوڑ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انہیں کرکٹ کے کھیل سے کتنا پیار ہے،5 اکتوبر سے قذافی سٹیڈیم کی مصنوعی روشنیوں میں شروع ہونے والی ٹوئنٹی20 سیریز کا کامیاب انعقادکسی ایک کی نہیں بلکہ پوری قوم کی کامیابی ہوگی۔