آواران مشکے میں ہر طرف تباہی دیکھی مرنے والوں کیلیے کفن کم پڑگئے ایکسپریس نیوز کی کوریج

ڈائریکٹر نیوز نے زلزلہ آتے ہی ٹیمیں بھیجنے کی ہدایت کر دی، اسپتال میں ڈاکٹرتھے نہ کوئی سہولت

ڈائریکٹر نیوز نے زلزلہ آتے ہی ٹیمیں بھیجنے کی ہدایت کر دی، ایدھی کی ایمبولینسوں کیساتھ آواران پہنچے،اسپتال میں ڈاکٹرتھے نہ کوئی سہولت. فوٹو: فائل

بلوچستان کے ضلع آواران میں 24ستمبر بروز منگل کی شام ساڑھے 4بجے آنیوالے 7.7 درجے کی شدت کے زلزلے نے آواران اور مشکے کے درجنوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹا دیے۔

آواران میں علیٰحدگی پسندوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً راکٹ فائر ہوتے رہتے ہیں اور مشکے علیٰحدگی پسندوں کا ہیڈکوارٹرز سمجھاجاتا ہے۔ ان علاقوں میں ہولناک زلزلے سے تباہی کی کوریج کے لیے ایکسپریس نیوزکے ڈائریکٹرنیوز فہدحسین نے فوری طورپر ٹیمیں بھیجنے کی ہدایت کی۔ آواران کی صورتحال کا کچھ تو اندازہ تھا پھر کراچی سے روانگی کے موقع پر میڈیا کے دوستوں سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ آواران کے حالات ٹھیک نہیں، وہاں نہ جایا جائے تو بہتر ہے۔ ہم نے ہرصورت زلزلے سے متاثرہ علاقوںمیں جاکر وہاں کے مسائل حکومت اورعوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کرلیا۔ کراچی سے رپورٹر ندیم احمد، کیمرا مین وسیم مغل، طالب ملک، ڈی ایس این جی ٹیکنیشن علی اوروقاص ڈرائیورزعبدالستار اورمحمدافضل کے ہمراہ 8بجے رات روانہ ہوئے۔ رات ساڑھے 12بجے بیلہ پہنچے تووہاں ایدھی کی 4ایمبولینسیں موجود تھیں۔

پولیس نے مشورہ دیاکہ رات میں آواران کے لیے سفرکرنا خطرناک ہے، کچھ دیرپہلے لیویزکے ہمراہ جانے والی ڈاکٹروںکی ایک ٹیم پرراکٹ فائر ہوا ہے۔ پہلے صبح 5بجے آواران کے لیے روانہ ہونے کا فیصلہ کیا گیا تاہم اس دوران ایدھی کی 12مزید ایمبولینسیں بھی بیلہ پہنچ گئیں۔ زلزلے کی بروقت کوریج کے لیے فیصلہ کیاکہ ان ایمبولینسوں کے ساتھ فوری طورپر روانہ ہواجائے۔ رات سوا 2بجے آواران کے لیے روانہ ہوئے۔ راکٹ حملے کی اطلاع کے بعداس سفر کا ہر راہی خطرات محسوس تو کررہا تھا لیکن کوئی زخمیوں کو طبی سہولیات کی فراہمی اور امدادی کاموںکے جذبے سے سرشارتھا تو کوئی ان بدنصیبوں کے مسائل بھرپورانداز میںاٹھانے کا عزم کیے ہوئے تھا۔ صبح 7بجے ڈسٹرکٹ ہیڈکوراٹرز اسپتال آواران پہنچ گئے جہاں چند گھنٹوں کے دوران 110 سے زائدزخمیوں کولایا گیاتھا جوزلزلے کے دوران ملبے تلے دب کرزخمی ہوئے۔ طبی سہولیات نہ ہونے کے برابرتھیں۔ ڈاکٹرزتھے نہ طبی عملہ، پینے کے پانی کاکوئی انتظام تھااورنہ ہی ادویہ۔ سرجری کی سہولیات بھی نہیں تھیں۔ متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کواسپتال پہنچاتے، سہولیات نہ ہونے کے باعث انھیں خضدار اور اوتھل کے اسپتالوں کو لے جاتے۔

آواران اسپتال میںایمبولینس بھی موجود نہ تھی۔ لیویزکے زیراستعمال میروانی قلات قلعہ ملبے کاڈھیر بنا ہوا تھا۔ لیویزاہلکار اپنی مددآپ کے تحت ملبے سے اسلحہ نکالنے میں مصروف تھے۔ لباج کے علاقے میں مساجد بھی شہید ہوئیں۔ تپتی دھوپ میںخواتین، بچے اوربوڑھے منہدم مکانات کے باہربیٹھے نظرآئے۔ متاثرین کوپینے کے پانی، ادویہ، راشن اورخوراک کی ضرورت تھی۔ زلزلے سے پہلے بھی ان علاقوںمیں سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں تاہم ان کے سروں پر چھت اورکنووں کے ذریعے پانی میسرتھا۔ شام تک فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکار زلزلے سے متاثرہ علاقوںمیں پہنچ چکے تھے اورامدادی کارروائیوں کا آغازکردیاگیا تھا۔ بدھ کی صبح ہم مالار پہنچے۔ گیش گور، تیرتیج اوراطراف کے علاقوںمیں بھی زلزلے سے ہونے والی تباہی نمایاںتھی۔ ایف آئی ایف کے رضاکاران علاقوںمیں بھی متحرک نظرآئے۔ اطلاعات ملیں کہ مشکے میں زلزلے نے بڑے پیمانے پرتباہی مچائی ہے۔ دوپہرمشکے کے لیے روانہ ہوئے۔ پہلاعلاقہ پیرہندر کاتھا جہاںتباہی کے آثارنمایاں تھے۔ 2گھنٹے کے سفرکے بعدہمارا پہلاپڑاؤ منگولی تھا۔




زلزلے کے تیسرے روزبھی اس علاقے میںکوئی امدادی ٹیم نہیںپہنچی تھی۔ ایکسپریس نیوزبھی میڈیاکی پہلی ٹیم تھی جواس علاقے میںپہنچنے میںکامیاب ہوئی۔ مشکے کی ہولناک تباہی کے آثار منگولی میںہی نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ ڈیڑھ سوسے زائدگھر مکمل طورپر تباہ تھے۔ مکینوںکا کہناتھا کہ انھیںکوئی امدادنہیں مل رہی۔ پینے کا پانی، راشن اور ادویہ انھیںدستیاب نہیں۔ تپتی دھوپ میں کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں، ان متاثرین کی کوریج کے بعد ہماری اگلی منزل میسکی کا علاقہ تھا۔ وہاں بھی کہانی مختلف نہیں تھی۔ غربت، پسماندگی اورسہولیات سے محروم اس علاقے کے مکینوںسے ہولناک زلزلے نے چھت بھی چھین لی تھی۔ ہمارا سفر جاری تھا۔ خالدآباد پہنچے تو وہاںکے مناظربھی کچھ کم ہولناک نہیں تھے۔ مکین اپنی مددآپ کے تحت ملبہ ہٹانے میںمصروف تھے۔ حکومتی مشینری اورعملہ زلزلے سے متاثرہ کسی بھی علاقے میںکام کرتا نظر نہیں آیا۔ مکینوںکا کہناتھا کہ ہولناک زلزلے سے راشن بھی دب گیاہے جس کے باعث کھانے پینے کے حوالے سے متاثرین کومشکلات ہیں۔ علاقے میںدکانیں بھی ملبے کاڈھیر بن گئی۔ اس ملبے کوہٹا کر بچوں کے لیے بسکٹ نکالے گئے۔

مشکے کے علاقے حافظ آبادمیں ایکسپریس نیوزکی ٹیم اس مقام پربھی پہنچی جہاں مدرسے کی چھت گرنے سے 22طالبات جاںبحق اور متعددزخمی ہوئی تھیں جنھیں اجتماعی قبر میں دفن کیاگیا۔ گجر ٹائون میں زلزلے نے خوفناک تباہی مچائی ہے۔ 210 سے زائد اموات ہوئیں۔ مرنے والوں کے لیے کفن اورقبریںکم پڑگئے۔ زلزلے میں جاں بحق ہونے والے 4,4 5,5 افراد کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔ کفن نہ ہونے کے باعث جن کپڑوں میں وہ خالق حقیقی سے جاملے اسی میں انھیںدفن کردیا گیا۔ مشکے کی یونین کونسل پروار میں 70ہلاکتیں ہوئیں۔ 24ستمبر کو آنے والے زلزلے میں یونین کونسل نوک جو میں ہلاکتیں نہیں ہوئی تھیں تاہم 2روز بعدآنے والے زلزلے سے نوک جو میں 25افراد جاں بحق اور 57سے زائد زخمی ہوئے۔ مشکے میں ہم نے دیکھا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے تحت لگائے گئے میڈیکل کیمپ میں بڑی تعداد میں زخمی آرہے ہیں۔ زلزلے کے 3روز بعد یہ وہ واحد جگہ تھی جہاں ٹینٹ لگے ہوئے تھے۔ زخمیوں کوکچھ بہتر انداز میں طبی سہولیات کی فراہمی اور متاثرین کے لیے کھانا پکا کر تقسیم ہوتے دیکھا۔ چند مسلح افراد بھی کیمپ کے اطراف موجود تھے۔ بی این ایم کے رہنما ڈاکٹر عبدالمنان کا کہنا تھا کہ متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کاموں میں مصروف ہیں، حکومت کوئی مدد نہیں کر رہی۔

ایکسپریس نیوز کے اس سوال پرکہ ایف سی یاسیکیورٹی ادارے اس علاقے میں امداد کے لیے آئے تو کیا وہ امداد قبول کریںگے، عبدالمنان کاکہنا تھاکہ سیکیورٹی ادارے مشکے آئے تو مزاحمت کریں گے۔ عبدالمنان نے الزام لگایا کہ سیکیورٹی اداروں کے کچھ اورمقاصد ہیںامدادنہیں۔ حکومت کو امداد دینے کا شوق ہے تو ایدھی یا کسی اور فلاحی تنظیم کے حوالے کر دے۔ مختلف علاقوں کی کوریج کے دوران اندازہ ہوا کہ ہولناک زلزلے سے مشکے میں زیادہ تباہی ہوئی ہے لیکن وزیراعلیٰ ہوں، ڈپٹی کمشنر یا دیگر حکام سب آواران میں ہی موجود رہے۔ البتہ ڈپٹی کمشنرآواران نصیرمیروانی کو ہم نے ہر جگہ متحرک دیکھا۔ وہ آواران میں بھی موجود رہے اور زلزلے کے تیسرے روز مشکے میں بھی ہم نے انھیں متاثرہ علاقوں کا سروے کرتے دیکھا۔ ایکسپریس نیوز نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں مسلسل کوریج کی۔

ایک ٹیم کی واپسی کے بعد دوسری ٹیم بھیجی گئی جو رپورٹر وکیل راؤ، کیمرامین جنید، ٹیکنیشن شوکت، وقاص اور ڈرائیور شہباز پر مشتمل تھی، زلزلے کی کوریج کے دوران ایکسپریس نیوز کی ٹیم کو اس بات کا اعزاز حاصل رہا کہ دور دراز، دشوار گزار علاقوں میں سب سے پہلے پہنچی۔ اس کا اعتراف علاقے کے مکینوں، وزیراعلیٰ بلوچستان اور بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں نے بھی کیا۔ زلزلے کی کوریج کے دوران اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ بلوچستان کے دور دراز علاقے غربت، پسماندگی اور محرومیوں کا شکار ہیں اور زلزلے کے بعد ان علاقوں کے عوام کے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں، متاثرہ علاقوں میں سیکیورٹی کی صورتحال ہو یا راستے دشوار گزر، ان علاقوں میں امدادی کارروائیاں بہت سست روی سے شروع ہوئیں اور یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان بدنصیبوں کی مکمل بحالی میں طویل وقت درکار ہوگا۔

Recommended Stories

Load Next Story