پاکستان کی 15فیصد آبادی معذوری کا شکار

معذروں افراد ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں،ان کی تعلیم وتربیت کرکے انھیں کارآمد اور مفید شہری بنانا حکومت کا فرض ہے۔

معذروں افراد ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں،ان کی تعلیم وتربیت کرکے انھیں کارآمد اور مفید شہری بنانا حکومت کا فرض ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان کی تقریباً 15 فیصد آبادی جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار ہے اور اس قدر بڑے افرادی گروپ کے حوالے سے انھیں نارمل لوگوں میں شامل کرنے کی اول تو سنجیدگی سے کوشش ہی نہیں کی گئی یا کہ انھیں زندگی کے کسی باقاعدہ شعبے میں شامل کرنے سے جان بوجھ کر اجتناب کیا گیا۔ یعنی سیاست اور قانون سازی میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

پاکستان کے آئین میں 18 ویں ترمیم سے قبل ایک ہی قانون تھا جو ان لوگوں کے لیے بھی مستعمل تھا۔ انھیں معذور افراد کے سانچے میں رکھا جاتا تھا۔ (بالخصوص ملازمت وغیرہ کے حوالے سے یا ان کی بحالی کے اقدامات کے حوالے سے) انھیں 1981 میں منظور کیے جانے والے آرڈیننس کے تحت انھیں روزگار کی یقین دہانی کرائی جاتی تھی۔ جہاں تک قوانین کا نچلی سطح تک نافذ ہونے کا تعلق ہے تو اس کے لیے بلوچستان اور سندھ نے اپنے قوانین وضع کر لیے لیکن حیرت کی بات ہے کہ پنجاب اور سندھ نے اس اصول پر عمل درآمد نہیں کیا۔

گزشتہ برس اسلام آباد کی وفاقی سرزمین (آئی سی ٹی) نے انھیں 2019میں منظور کیے جانے والے معذوروں کے ایکٹ کے تحت شامل کر لیا جسے حقوق انسانی کی وزارت نے بھی تسلیم کر لیا لیکن اس نکتے کو ابھی تک قومی اسمبلی میں پیش کر کے باقاعدہ منظوری نہیں لی جا سکی۔ ان متذکرہ افراد کے لیے آواز اٹھانے والے اور ان کی حمایت کرنے والے گروپ جیسے کہ پوٹھوہار مینٹل ہیلتھ ایسوسی ایشن نے قانون میں بعض خامیوں کا ذکر کیا ہے اور ان کی نشاندہی کی ہے۔ پہلی بات یہ کہ ان کی معذوری کے بارے میں جو تعریف کی گئی ہے وہ آؤٹ ڈیٹڈ ہے یعنی اس تعریف کو واضح اور غیر متنازعہ ہونا چاہیے کیونکہ ہماری تعریف یو این کنونشن آف رائٹس کے مطابق نہیں ہے اور ہم اقوام متحدہ کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔


دوسری بات یہ کہ معذوری کا شکار افراد کو سماجی طور پر بھی مشکلات درپیش ہوتی ہیں اور جہاں تک خواتین کا تعلق ہے تو ان کو اس حوالے سے زیادہ پریشانی درپیش ہوتی ہے اور قانون میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ بھی مبہم ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ زبان کو زیادہ بہتر، واضح اور ٹھوس بنایا جائے۔ تیسری بات یہ کہ ان لوگوں کے لیے جو تنخواہ یا اجرت وغیرہ مقرر کی گئی ہے وہ بھی واضح نہیں ہے۔

اگلی بات یہ کہ دیگر گروپوں کے برعکس معذوری کی ذیل میں آنے والے گروپ کی قومی اسمبلی کی نشستوں میں کوئی نمایندگی نہیں دی گئی جو ان کا بنیادی حق ہے اور ویسے بھی یہ بات اقوام متحدہ کے چارٹر کے بھی خلاف ہے۔ اطلاعات ہیں کہ جو مسودہ قانون ان کے بارے میں تیار کیا گیا ہے اس میں ان لوگوں کی سیاسی نمایندگی کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ تمام ایسے پہلو ہیں جن کے بارے میں اولین فرصت میں درستگی کرنے کی ضرورت ہے۔

ان لوگوں کا خصوصی افراد کے طور پر قومی شناختی کارڈ میں بھی ذکر کرلیا گیاہے لیکن نادرا کے دفاتر میں ان کا کام آسان کرنے کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ انھیں زیادہ طویل انتظار کے کٹھن سفر پر روانہ کر دیا جاتا ہے۔ معذروں افراد ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں،ان کی تعلیم وتربیت کرکے انھیں کارآمد اور مفید شہری بنانا حکومت کا فرض ہے۔حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔
Load Next Story